عزم استحکام اور اس کے محرکات
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے میں مصروف ہیں
گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کی لعنت پاکستان میں بے پناہ جانی اور مالی نقصانات کا سبب بنی اور ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات مرتّب کیے۔ کے پی اور بلوچستان دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کی وجہ سے دیرپا امن قائم نہیں ہو سکا۔ یہاں تک کہ 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد سیکیورٹی پنڈتوں کے استحکام کے بلند و بانگ دعووں کے بجائے اندرونی سلامتی کی صورتحال مزید بگڑ گئی۔
یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ سرحد پار سے ہر مسئلے کا حل باڑ لگانے سے ہے لیکن اس مقصد کے لیے خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد بھی یہ ممکن نہ ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد، ہم اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مطلوبہ ہم آہنگی حاصل کرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے قومی اتفاق رائے کا فقدان ہے۔ اختلاف رائے اور بیانیے کا تضاد اتنا وسیع اور پیچیدہ ہے کہ معاشرے کے کئی حلقے تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ دہشت گردی کے پیچھے بنیادی مسئلے کی نشاندہی کرنے کے لیے ایک معروضی تجزیہ ضروری ہے۔
آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحہ کے بعدقوم کا اجتماعی ردعمل، انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ایک اہم سنگ میل تھا، اگرچہ اس کے بعد کے سالوں میں اس پر عمل درآمد ممکن نا ہوسکا۔ پاکستان کو دو اقسام کی دہشت گردی کا سامنا ہے، ایک جہادی تنظیموں کی طرف سے جب کہ دوسری بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہوتی ہیں اور دونوں کے مقاصد میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ دونوں کی حکمت عملی میں فرق ہے لیکن مقاصد میں یگانگت کا عْنصر پایا جاتا ہے۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے میں مصروف ہیں اور اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے بے دریغ قربانیاں دی گئیں۔ اگر صرف گزشتہ چھ ماہ کا اِحاطہ کیا جائے تو سیکیورٹی فورسز کی طرف سے 22714 انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز (126 آپریشنزروزانہ) کے باوجود دہشت گردی کی کل 1063 کارروائیاں دیکھنے میں آئیں۔
ان کارروائیوں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے 111 اہلکار شہید جب کہ 354 دہشت گرد بھی مارے گئے۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کے عکاس ہیں کہ بڑے پیمانے پر آپریشنز کے باوجود ملک کو دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا ہے جس میں کوئی کمی نظر نہیں آتی ہے۔ انسداد دہشت گردی کی ان کاوشوں میں پائے جانے والے جمود کے پیچھے مختلف عوامل کار فرما ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی غیر مربوط حکمت عملی میں غیر موثر قانون سازی اور وفاقی اور صوبائی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان اہمیت کے حامل ہیں۔ صرف ملٹری آپریشنز پر انحصار سے عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ ان اندرونی خطرات سے نمٹنا تمام ریاستی اداروں کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ یہ کہنا مناسب ہو گا اس کثیر الجہتی دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے اس جنگ کی ذمے داری صرف سیکیورٹی فورسز پر ڈالی گئی ہے جسمیں مجموعی قومی کوششوں کا فقدان واضح ہے۔
دہشت گردی کے پیچھے چھپے محرکات کا اِحاطہ کیے بغیر اس کے خاتمے کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں بے سود ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کونسے عوامل ہیں جس کی وجہ سے اس لعنت کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہو رہا ہے۔ ہماری دو دہائیوں پر محیط جنگ اس بات کی متقاضی ہے کہ دہشت گردی کے پھلنے پھولنے میں کارفرما اس مافیا کو بے نقاب کیا جائے جس کی چھتری تلے دہشت گردی کا عفریت بار بار سر اٹھاتا ہے۔
ایک جامعہ اور مربوط اسمگلنگ نیٹ ورک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے اور اس ہتھیار کے مؤثر استعمال کے لیے یہ نیٹ ورک ملک کے دیگر اداروں بلکہ پوری ریاست پاکستان کو کمزور دیکھنے کا خواہاں ہے جس کے لیے اْسے غیر مْؤثّر عدالتی نظام، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردی کی سرکوبی میں الجھائے رکھنا اور مخصوص سیاسی عناصر کی جانب سے کنفیوژن اور شکوک و شبہات کو پروان چڑھانا ہے۔
اسمگلنگ کی روک تھام کے ضمن میں اکثر سیکیورٹی ادارے زیر تنقید رہے ہیں جس کے لیے کچھ اعداد و شمار سے آگاہی ضروری ہے۔ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے افغانستان اور ایران کے ساتھ 3348 کلومیٹر طویل سرحد کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اتنی وسیع سرحد کی نگرانی اس وقت مزید دشوار ہو جاتی ہے جب یہ سرحد انتہائی کٹھن اور دشوار گزار پہاڑی اور صحرائی بناوٹ کا مجموعہ ہو۔ دنیا میں تمام بین الاقوامی سرحدوں کا نظام دو ممالک کے باہمی تعاون سے ممکن ہوتا ہے جب کہ اس مخصوص سرحد کی دیکھ بھال میں دوسرے فریق یعنی افغانستان کا تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان حالات کا براہ راست فائدہ اسمگلنگ مافیا کو ہوتا ہے۔ اسمگلنگ کے وسیع کاروبار کے ملکی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کا اِحاطہ کیا جائے توصرف 60 لاکھ ایرانی تیل کی روزانہ اسمگلنگ کے ذریعے یہ مافیا یومیہ 700 ملین روپے کما رہا ہے۔ ٹیکسوں کی عدم ادائیگی سے قومی خزانے کو سالانہ 300 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ قومی معیشت پر اثر انداز ہونے والے دہشت گردی اور غیر قانونی مافیا کے اس گٹھ جوڑ کا تدارک وقت کی اہم ضرورت کے طور پہ سامنے آیا ہے۔ پچھلے دس مہینوں میں 1041.4 میٹرک ٹن منشیات کا پکڑے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ غیر قانونی اسپیکٹرم ریاست پاکستان کو چیلنج کر رہا ہے۔
ریاست کو درپیش انھی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے "عزم استحکام" کی حکمت عملی بنائی گئی ہے تاکہ ریاست کی عملداری کو پوری قوت کے ساتھ اور بغیر کسی استثناء کے ایک مضبوط معیشت کے حصول کے لیے ممکن بنایا جا سکے۔ جرائم اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو منطقی انجام تک پہنچانے اور دیرپا استحکام کے حصول کے لیے کثیر الجہتی کوششوں کو دوبارہ متحرک کرنے کی جْستجو عزم استحکام کا وژن ہے۔ قومی اتفاق رائے پر مبنی یہ حکمت عملی عسکریت پسندی اور پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف کثیر الجہتی نظام کو متحرک کرنے میں مْمِد ثابت ہوگا۔ یہ پائیدار استحکام اور سلامتی کے قومی عزم کی علامت ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اولین ضرورت دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کی نوعیت کے حوالے سے اس ذہنی یکسوئی کا حصول ہے جس کے تحت ہمیں ادراک ہونا ضروری ہے کہ یہ ہماری جنگ ہے اور اسکا مقصد ہماری بقاء اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقاء ہے۔ اسے تمام سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر سمجھنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کا متزلزل اور ہمہ وقت تبدیل ہوتا طرز عمل اس حکمت عملی کی ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس جنگ کو سفارتی، انسداد دہشت گردی، قانونی، سماجی، اقتصادی اور انفارمیشن آپریشنز کے شعبوں میں ایک مربوط ریاستی نظام کی ضرورت ہے جس کے بغیر کامیابی کا حصول ادھورا رہیگا۔