ہمارے اندر عدم برداشت کیوں…

قوم کی قیادت کے بجائے ہمارا نوجوان لڑائی جھگڑوں میں پھنس کر رہ گیا


صفورا نثار June 29, 2014
قوم کی قیادت کے بجائے ہمارا نوجوان لڑائی جھگڑوں میں پھنس کر رہ گیا۔ فوٹو : فائل

کچھ لوگ وعدے کی پاسداری کے لیے اور کچھ لوگ فرمانبرداری کے لیے لڑتے ہیں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگوں سے ہمیں انسیت ہوجاتی ہے، چاہئے وہ لوگ سیاسی ہوں یا مذہبی۔ اس اُنسیت میں ہم کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں اور لوگ اسی کا فائدہ اٹھا کر ہمیں دھوکا دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ وعدے کئے جاتے ہیں جنہیں نبھانا آخری سانس تک ضروری ہوتا ہے اور انکی ناخلفی کا گویا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

بڑے لوگ ایسے ہی کچھ لوگوں سے وعدے لیتے ہیں کہ وہ ہر حال میں ان کا کہنا مانیں گے۔ اس طرح کہیں بھی حالات خراب کروانے ہوں یا لڑائی کروانی ہو انہی لوگوں کو آگے کر دیا جاتا ہے۔ یہ بڑے لوگ خود تو آرام و سکون سے رہتے ہیں اور اپنے کارندوں کو شہر بھر میں پھیلا دیتے ہیں، جو ان کے لیے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر لڑتے ہیں۔ کہیں وہ اپنے عہد کی پاسداری کر رہے ہوتے ہیں اور کہیںفرمانبرداری۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ شہر کے حالات جب بھی خراب ہوئے تو وہ کسی بڑے کشادہ علاقے میں کم ہی ہوئے زیادہ تر تنگ اور چھوٹے علاقوں میں حالات خراب ہوئے۔ جب بھی گاڑیاں جلیں وہ غریب لوگوں کی جلیں، جب بھی گھر ٹوٹے تو غریب عوام کے ٹوٹے۔



سڑکوں اور گلی کوچوں میں ہونے والے لڑائی جھگڑوں نے اب ہمارے تعلیمی اداروں کا رخ کرلیا ہے۔ طلبہ کی ہنگامہ آرائی کی خبریں بہت عام ہو گئی ہیں، ہمارا اسٹوڈنٹس طبقہ جو ایک باوقار، عمدہ اور شاندار کام سے منسلک ہے، جب وہ فساد کرے گا تو باقی اور لوگ کیا کریں گے؟ ان سے تو پھر کوئی گلا بنتا ہی نہیں۔ آئے روز مختلف یونیورسٹیز میں دو طلبہ تنظیموں میں ٹھن جاتی ہے۔ پس پردہ حقائق کیا ہوتے ہیں یہ سب جانتے ہیں، لیکن کوئی جلدی آواز بلند نہیں کرتا۔ دونوں تنظیموں کا تعلق کسی نا کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی سے ہی ہوتا ہے، جو دراصل ان کی لڑائی کا سبب بنتا ہے۔

ایک پارٹی کے طلبہ چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کا جھنڈا لگے تو دوسری کہتی ہے کہ ان کی پارٹی کو اولین ترجیح دی جائے۔ جب بات نہیں بنتی تو پھر نوبت ڈنڈوں، پتھراؤ آخر کار گولی و گالی تک جا پہنچتی ہے۔ پولیس اور رینجرز اپنی ڈیوٹی کے فرائض طلبہ کے جھگڑے پر سرانجام دیتی ہے اور یوں کچھ طلبہ زخمی تو کوئی شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔

کچھ تعلیمی اداروں سے تھانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور باقی ان کے والدین کو اطلاع دینے کے لئے گھروں کو چل دیتے ہیں۔ والدین ہڑبڑائے ہوئے جب پہنچتے ہیں تو ہسپتال سمیت پولیس والے بھی برہم نظر آتے ہیں۔ والدین پریشانی کی حالت میں صبح اپنے بچوں کو گھر سے نکلتا دیکھتے ہیں کہ خدا خیر کرے کہیں آج پھر ان کا ''لال'' کوئی نیا گل کھلا کر نا آجائے۔ آئے روز کی خبروں نے والدین کو انہیں خدشات میں گھیر رکھا ہے۔ ایک شہر کے سنگین حالات ہیں کہ جس سے کوئی شخص بھی محفوظ نظر نہیں آتا۔ رہی سہی کسر تعلیمی اداروں میں خانہ جنگی نے پوری کردی ہے۔



ایک لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ نوجوان طبقہ کو خریدنا مشکل کام نہیں ہے۔ غربت، بے روزگاری یاکسی اور مجبوری کے تحت جب نوجوان پہلی مرتبہ کوئی غلط کام کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس کے بعد وہ غلط کام نہیں کرے گا مگر اس کے بعد غلط کام کروانے والے بلیک میل کر کے اس سے مزید غلط کام کرواتے ہیں۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ برائی کی مثال ایسی ہے جیسے آپ پہاڑ سے اتر رہے ہو، ایک قدم اٹھایا تو باقی خود بخود اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ آج ہمارے ملک کے حالات کی خرابی کی بڑی وجہ یہ ہی ہے، نوجوان کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے غلط کام کرتے ہیں اور پھر کرتے ہی جاتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ باقی انسانوں کا قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔

ایک جگہ لکھا ہوا تھا ''گنہگاروں کے شہر میں پرندے بھی گھونسلے نہیں بناتے'' آج ہم اور بہت سارے گناہوں کے ساتھ ساتھ انسانوں اور انسانیت کا قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ناجانے ہمارے نوجوانوں کوکس کی نظر لگ گئی ہے۔ یہی نوجوان ہوتے تھے جو کبھی غوری ہوتے تھے، تو کبھی غزنوی اور کبھی محمد بن قاسم ہوا کرتے تھے۔ قوم کو آج ان کی ضرورت ہے اور ان کو کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ اپنی، والدین اور نہ اس قوم کی، جس کی قیادت انہوں نے کرنی ہے۔

نوجوانوں کو ضرورت آج اس امر کی ہے کہ ہم باہم دست وگریباں ہونے کے بجائے اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔ آج ہم خود کے گریباں پکڑیں گے، خود کو نشانہ تشدد بنائیں گے تو کل ہم دشمن کے مقابلے میں کمزور ہوں گے۔ ہم نہ تو اپنا دفاع کرسکیں گے اور ان اپنے وطن عزیز کا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں