’’تعلیم سب کے لئے‘‘ کے نعرہ میں ہندو برادری کہاں ہے

حکومت اور این جی اوز سے مایوس لاکھوں ہندو بچے زیور تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں


حکومت اور این جی اوز سے مایوس لاکھوں ہندو بچے زیور تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

وطن عزیز کا المیہ ہے کہ یہاں سیاسی اور سماجی سطح پر اقلیتوں کے حقوق کی بات تو کی جاتی ہے، مگر اقلیتی برادری کو ان کے حقوق دینے کے لئے مناسب اقدامات نہیں کیے جاتے۔

مختلف اداروں کی جانب سے کیے گئے سروے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں مسیحی برادری کو بالعموم سہولیات اور معاونت حاصل ہے اور عالمی ادارے بھی ان کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ملک میں مسیحی برادری کے لئے الگ اور بڑے بڑے تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں، لیکن ہندو اقلیت کے لیے بالخصوص تعلیم جیسی بنیادی سہولت ہی ناپید ہے۔

پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز میں سے بھی سوائے چند ایک کے کوئی بھی ہندوؤں کیلئے کام نہیں کررہا، جو چند ایک کررہی ہیں وہ محض مقامی تنظیمیں اور ادارے ہیں، جو حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ہندوؤں کی طرف سے ہی قائم کیے گئے ہیں۔ ان حالات میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے اپنے تئیں اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے، جو سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے عدم توجہی کا شکار تھا۔ ادارے نے کم وسائل کے حامل پسماندہ دیہاتوں کے مسلمانوں کے لیے 340 اسکولوں کے ذریعے تعلیم کی راہیں ہموار کرنے کے بعد اب غریب ہندو آبادی کیلئے تعلیمی سلسلہ شروع کیا ہے۔

اس ضمن کے پہلے مرحلے میں جنوبی پنجاب کے ہندو بچوں کیلئے بہاولپور اور رحیم یار خان میں الگ تعلیمی منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے۔ پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر جنوبی پنجاب میں 100 سے زیادہ گھروں والے علاقوں کا انتخاب کرتے ہوئے ہندوؤں کیلئے مجموعی طور پر 3 الگ سکول قائم کیے ہیں۔ ( یاد رہے کہ رحیم یار خان میں مجموعی طور پر 220,518 جبکہ بہاولپور میں 67,818 ہندو آباد ہیں، جن میں سکول جانے والے بچوں کی تعداد کم و بیش مذکورہ تعداد کی نصف ہے )۔ اس پراجیکٹ کا مقصد ادارے کی تعلیمی خدمات کا دائرہ کار اقلیتوں تک وسیع کرنا، ملکی تعمیر وترقی میں ہندو برادری کو موثر کردارادا کرنے کے قابل بنانا، تعلیم وتربیت سے ہندو بچوں کے اخلاق سنوارنا، انہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنانا، مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم کرنا اور ہندوبرادری کو اس امر کا احساس دلانا ہے کہ وہ وطنِ عزیز کا لازمی جزو اور قیمتی اثاثہ ہیں۔

ایک حقیقت یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 75 لاکھ سے زائد ہے تو اس میں اقلیتی بچے شمار نہیں کیے جاتے، حالانکہ اگر انہیں شمار کرلیا جائے تو یہ تعداد بہت دور جاپہنچتی ہے۔

اقلیتیں چونکہ پاکستانی آبادی کا حصہ ہیں، لہذا انہیں برابری کی بنیاد پر اہمیت دینا نہ صرف حکومت، فلاحی اداروں اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے بلکہ پاکستان کی معاشی و تعلیمی ترقی کی ضمانت اور ملک کو استحکام فراہم کرنے کے مترادف بھی ہے۔ اس ذمہ داری کو شدت کے ساتھ محسوس کرنے اور کم از کم ان کی خواندگی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ دیگر کی طرح وہ بھی استحکام پاکستان کی ضمانت بن سکیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیمی محاذ پر کام کرنے والے تمام طبقاتِ فکر ''تعلیم سب کیلئے'' کا نعرہ تو ایک عرصہ سے لگارہے ہیں لیکن عملی محاذ پر تاحال اس حوالے سے واضح پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔



یوں تو ہندو 6.68 بلین کے ساتھ دنیا کی کُل آبادی کا 13 فیصد ہیں، جس میں سالانہ کی بنیاد پر تقریباً 1.52 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں خصوصاً ہندوؤں کی مجموعی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہاں ہندوؤں کی کُل تعداد 73,30,134 ہے، جن میں سے سب سے زیادہ 94 فیصد کے ساتھ 6,842,526 ہندو سندھ میں آباد ہیں۔ 4 فیصد یعنی 3,49,230 ہندوؤں کے ساتھ پنجاب اس حوالے سے دوسرے، بلوچستان 1,17,345 (2 فیصد) کے ساتھ تیسرے اور خیبرپختونخواہ 21,033 اور 1 فیصد ہندوؤں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔

ہندو پاکستان کی آبادی کا 1.7 فیصد ہیں اور اس وقت تک وہ پاکستان کی ترقی کے عمل میں 5.5 فیصد حصہ دار ہیں۔ لیکن اس کے باوجود چاروں صوبوں میں ان کیلئے صحت، تعلیم اور معاش کی صورتحال انتہائی بدتر ہے۔ یہاں ہندوؤں کی اکثریت غربت اور پسماندگی کی بدترین لہر میں جکڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ سندھ میں معاشی طور پر ہندوؤں کے حالات کچھ بہتر ہیں لیکن ملک کے دیگر حصوں میں وہ خطِ غربت کو چھو رہے ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ ہر سال بجٹ میں اقلیتوں کیلئے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر رقم مختص کی جاتی ہے، اگر اس کا کچھ حصہ بھی اقلیتوں پر صرف کیا گیا ہوتا تو آج ان کی حالت زار قطعی مختلف ہوتی۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے مذہبی عدم برداشت اور متشدد نظریات پائے جاتے ہیں۔ ہندو والدین کو شکایات ہیں کہ ان کے بچوں کو عام مسلمانوں کے سکول میں حصولِ تعلیم کے دوران ہتک آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں مسلمان بچے ہندو بچوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، کھیلنے کودنے اور دیگر سرگرمیوں میں انہیں اپنے ساتھ شامل کرنے سے کتراتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کیلئے ایسے سکول تلاش کرتے ہیں جن میں تعلیم و تعلم کے ستون فقط ہندو عقائد کی بنیاد پر ہوں، اور جہاں انہیں زبردستی مسلمانوں کی مذہبی تعلیم دے کر اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش نہ کی جاتی ہو۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام زور و زبردستی کا نام نہیں ہے۔

اسلام کی دعوت کا طریقہ کار نبی کریمؐ نے صدیوں پہلے بتادیا تھا کہ اسے بزور قوت نافذ کرنے کی بجائے پیار، محبت اور انصاف کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں اتارا جائے۔ جو اس دعوتِ حق کو قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے اسے خوش آمدید کہا جائے اور جو آمادہ نہ ہو اس کے ساتھ جبر نہ کیا جائے۔ لیکن ہم اپنے نظریات اور رویوں سے غیرمسلموں کو مایوس کررہے ہیں۔ انہی رویوں میں اپنے آپ کو محصور محسوس کرکے دلبرداشتہ ہندو خاندان سالانہ بنیادوں پر بھارت اور دیگر ممالک کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال 5000 ہندو عدم تحفظ و عدم مساوات کا شکار ہوکر پاکستان سے ہجرت کرتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اقلیتوں کے مسائل و معاملات پر بات چیت کیلئے پارلیمانی سطح پر ایک فعال کمیٹی بنائی جائے جو ان کیلئے قانون سازی کرے اور انہیں حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے عملی اقدامات کریں، تاکہ مستقبل میں پاکستانی اقلیتیں اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے پر مجبور ہوں نہ انہیں ملک چھوڑنے کی ضرورت محسوس ہو۔ اس کے علاوہ معاشرتی سطح پر بھی وطن عزیز میں رہنے والی ہندو برادری حسن سلوک کی طلبگار اور حق بجانب ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں