خون کے آنسو روتا قومی اثاثہ
پاکستان اسٹیل ملز پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ تھا۔ یہ ادارہ اب اربوں کے خسارے میں ہے اور اسے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کی کوشش کرتی اس کے منشور میں اسٹیل ملز کی بحالی کا پلان لازمی طور پر شامل ہوتا لیکن یہ پلان بھی ہمیشہ کی طرح سیاسی پلان ہی ثابت ہوا۔
تحریک انصاف نے آتے ہی اس ادارے کے ملازمین کو برطرف کرنا شروع کیا۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی سیاسی بھرتیاں جہاں اس ادارے پو بوجھ بنیں، وہیں ن لیگ بھی کبھی اس ادارے کو چلانے میں سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ تمام تر سیاسی وعدوں کے بعد اب وفاقی حکومت نے اس ادارے کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ملکی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکس دینے والا ادارہ اب ان اداروں کی فہرست میں شامل ہے جنہیں ملکی معیشت پر بوجھ سمجھا جارہا ہے۔ اسٹیل ملز ملازمین کےلیے بنائی گئی اربوں روپے مالیت کی آبادی اسٹیل ٹاؤن اب تباہ ہوچکی ہے۔ جن بنگلوں میں کبھی غیرملکی رہا کرتے تھے وہ اب بھوت بنگلوں کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔ ملازمین کےلیے بنائی گئی پرائیویٹ آبادی گلشن حدید اب کئی کئی دن پانی سے محروم رہتی ہے اور یہاں کے رہائشی ہفتوں بجلی کی بندش کا عذاب جھیلتے ہیں۔ اسٹیل ملز کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کو اب میڈیکل کی سہولت سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس ادارے میں اور اس سے متصل آبادی کی کئی مساجد کے امام اور موذنوں کو بھی ملازمت سے فارخ کردیا گیا ہے۔ آخر یہ سب ہوا کیسے؟
1956 میں روسی حکومت نے پاکستان میں اسٹیل ملز لگانے میں معاونت کی پیشکش کی۔ ایوب خان کی حکومت میں اس پر باقاعدہ بات چیت شروع کی گئی۔ بات چیت شروع ہونے کے بارہ سال بعد اسٹیل ملز کو بطور کمپنی رجسٹر کیا گیا اور 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت میں روسی پیشکش کو آگے بڑھایا اور اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا۔ پہلے مرحلے میں اسٹیل ملز میں 11 لاکھ ٹن کی پیداواری گنجائش کو ممکن بنایا گیا لیکن اس کا ڈھانچہ اس انداز میں ترتیب دیا گیا کہ آگے چل کر پیداوار کو بڑھایا جاسکے۔ ملک میں سیاسی رسہ کشی اور مافیاز کے راج نے اس کی پیداوار کو 11 لاکھ ٹن تک ہی محدود رکھا۔ یوں سمجھیں کہ اس ادارے کو نوچ کر کھانے والے پہلے دن سے ہی سرگرم تھے۔
اسٹیل ملز صرف ایک فولادی ادارہ نہ تھا۔ اس ادارے کے پاس پورٹ قاسم میں جیٹی، اپنے ریلوے انجن، آکسیجن پلانٹ، بجلی کے پلانٹ اور بطور ویسٹیج پیدا ہونے والا رنگ بھی تھا۔ اس ادارے کے کئی آؤٹ سورس ڈپارٹمنٹ بھی تھے جن سے بڑی رقم کمائی جاتی تھی۔ سیکڑوں بسوں اور ہزاروں گاڑیوں پر مشتمل ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ، شادی ہال، کرکٹ اسٹیڈیم، دکانیں اور مارکیٹیں، پارک، اسپتال اور دیگر کئی آؤٹ سورس ڈپارٹمنٹ اسٹیل ملز کی ملکیت تھے لیکن حکمرانوں کی عدم توجہی، سیاسی بھرتیاں، مافیا کے کارندے، مڈل مین کا عمل دخل اور کرپشن کے باعث یہ ادارہ خسارے میں رہا۔
سیاسی جماعتیں طاقت میں آکر اسے اپنی ملکیت سمجھنے لگتیں اور اس کی تباہی میں اپنا کردار ادا کرتی چلی جاتیں۔ اسٹیل ملز میں انتظامیہ سے زیادہ ٹریڈ یونین کے فیصلوں پر عمل ہوتا اور سب نے مل کر اس ادارے کا حال سونے کا انڈہ دینے والی مرغی جیسا کردیا۔ عالمی سطح پر فولاد کی قیمت میں اضافہ ہوا تو اسٹیل ملز خوب منافع میں آگئی۔ اس وقت جنرل (ر) عبدالقیوم اسٹیل ملز کے چیئرمین تھے۔ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم اس سے قبل آرڈیننس فیکٹریوں کے سربراہ رہ چکے تھے لہٰذا ان کے پاس فولادی ادارے کو چلانے کا تجربہ تھا۔ جب وہ اپنے عہدے پر آئے تو اس وقت اسٹیل ملز کا خسارہ 8 کروڑ سے تجاوز کرچکا تھا۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے مڈل مین کے کردار کو کم کیا اور قابل افسران کو اہم منصب دیے۔ انہوں نے ملازمین کا مورال بلند کرنے کےلیے ملازمین کو گلشن حدید میں پلاٹس دیے اور اسٹیل ٹاؤن کی مرمت کا کام بھی کرایا۔ جبکہ ملازمین کو بونس بھی ملنے لگے۔
اس بار اسٹیل ملز نے حکومت کو 6 ارب کا ٹیکس بھی دیا اور خود بھی اربوں کا منافع کمایا۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اسٹیل ملز کو پرائویٹائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت صرف خام مال اور بینک میں موجود اثاثوں کی مالیت 22 ارب سے زیادہ تھی لیکن حکومت نے اسٹیل مل کو اس سے بھی کم رقم میں فروخت کردیا۔ اس نجکاری کے خلاف کورٹ میں کیس ہوا اوراس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے نجکاری کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے بعد جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کیا گیا اور ملک میں وکلا تحریک کا آغاز ہوا۔ 2008 میں دنیا بھر میں کوئلے کی قیمت کریش کرگئی لیکن پاکستان اسٹیل اپنے طویل مدتی معاہدوں کے باعث خام مال درآمد کرتی رہی۔ ان معاہدوں کے باعث اسٹیل ملز کا اکاؤنٹ خالی ہونے لگا۔ ایسے میں ادارے کو سنبھالنے کے بجائے سیاسی بھرتیوں پر زور دیا گیا اور ملازمین کو بھی ضرورت سے زائد مراعات ملنے لگیں۔
2012 میں اسٹیل ملز کو اس وقت کے چیئرمین میجر جنرل ریٹائرڈ جاوید نے ایک بار پھر چلانے کی کوشش کی۔ اس کی پروڈکشن بڑھانے کےلیے اقدامات کیے لیکن اسی دوران اسٹیل ملز کی گیس منقطع کردی گئی اور ان کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔ وہ دن اور آج کا دن اسٹیل ملز ملکی خزانے پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں، لیکن سیاسی جماعتوں کا اس میں مفاد پہلے اور بعد میں بھی صرف سیاسی بھرتیوں تک محدود رہا۔ طاقت اور کرپشن کی بے پناہ داستانوں نے اسٹیل ملز کو ختم کردیا۔ افسوس کہ تباہ حال اسٹیل ملز میں بھی کرپشن نہ رک سکی۔
حکومت کا اس ادارے کو بند کرنے کا فیصلہ کسی حد تک درست ہے۔ وفاق و سندھ مل کر اپنی اسٹیل ملز نئے سرے سے لگائیں گے، اگرچہ یہ فیصلہ کاغذوں میں دلکش نظر آتا ہے لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔ اس ادارے کے آؤٹ سورس ڈپارٹمنٹس سے اب بھی خطیر رقم کمائی جاسکتی ہے جس سے ملازمین کو تنخواہیں بھی دی جاسکتی ہیں اور ملکی خزانے کا بوجھ بھی کم ہوسکتا ہے۔
اسٹیل ملز ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے پاس اب بھی 350 بسیں، گاڑیاں اور ہیوی وہیکل کارآمد حالت میں موجود ہیں۔ اس ڈپارٹمنٹ کو اگر اہل لوگوں کے سپرد کیا جائے اور پرائیویٹ چلایا جائے تو اچھی رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان اسٹیل اسپتال کی بلڈنگ ایک بین الاقوامی سطح کے اسپتال کے طرز پر بنی ہوئی ہے۔ ماضی میں یہاں ہزاروں افراد علاج کےلیے آیا کرتے تھے، اسے پھر فعال کیا جائے اور علاقے میں چلنے والے کئی پرائیویٹ اسپتالوں کی طرح اسے بھی حصول آمدن کے لیے استعمال کیا جائے، نیز میڈیکل و ڈینٹل کالج کے قیام کی کوشش بھی کی جائے۔ اسٹیل ملز ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے پاس بڑی تعداد میں عمارتیں موجود ہیں، یہ عمارتیں مناسب کرایے میں تعلیمی اداروں کو دی جائیں یا ایک بار پھر معیاری اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا آغاز کیا جائے۔ اسٹیل ملز اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے پاس سیکڑوں گھر، دکانیں اور عمارتیں ہیں، انہیں بھی مناسب کرایے پر دیا جاسکتا ہے۔ پارکس، شادی ہال، سوئمنگ پول، ریستوران، گیسٹ ہاؤس، جم، کرکٹ اسٹیڈیم، ہاکی اسٹیڈیم، فٹبال اسٹیڈیم وغیرہ سے ماضی میں بھی رقم کمائی جاتی تھی تو اب کیوں نہیں؟
اسٹیل ملز کی زمین فروخت نہ کی جائے لیکن انڈسٹریل زون بنا کر ٹھیکے پر دی جائے۔ بس خلاصہ یہ کہ نیت صاف تو منزل آسان۔ حکمرانوں اور افسران کو اپنی نیت صاف کرنا ہوگی اور کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا، اس کے بعد اسٹیل ملز مرا ہوا ہاتھی ثابت ہوگا جس کے بعد بحالی یا نئی مل کا قیام بھی آسان ہوگا اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر رہ جانے والا سارا قومی اثاثہ یا چوری ہوجائے گا یا اسکریپ کا مال بن جائے گا۔ اگلے جہاں میں پھر سب کا گریبان چاک ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔