عہد جرنیلی میں ملازمت
گزشتہ دنوں ایک فوٹو البم کے اوراق پلٹتے ہوئے ساہیوال ریلوے اسٹیشن پر کھڑی بارات ٹرین دیکھی۔
گزشتہ دنوں ایک فوٹو البم کے اوراق پلٹتے ہوئے ساہیوال ریلوے اسٹیشن پر کھڑی بارات ٹرین دیکھی۔ یہ ٹرین جو راولپنڈی سے چلی ملتان جاتے ہوئے ساہیوال رکی تھی، جنرل ضیاء الحق کے بیٹے کی بارات کی ٹرین تھی اور پلیٹ فارم پر صدر ضیاء الحق میرے پانچ سال کے بیٹے طارق سے گلدستہ وصول کر رہے تھے۔ پروگرام کے مطابق اگر یہ ٹرین ساہیوال ریلوے اسٹیشن پر رکتی بھی تو ماسوائے کرنل درانی کے کسی کو اسٹیشن پر نہیں آنا تھا۔ خوشی کا موقع تھا ہم نے گلدستوں والے دو بچے پلیٹ فارم سے دور کونے میں کھڑے کیے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کارروائی کے استاد ٹھہرے خلاف پروگرام ٹرین میں سے نکل کر بچوں سے گلدستے لینے آن پہنچے اور کیمرہ مین بھی بلا لیا البتہ جنرل ضیاء الحق سے یہ ملاقات بذریعہ ان کے ملٹری سیکریٹری ہمیں خاصی مہنگی پڑی۔
اسے اتفاق ہی کہئے میری 34 سال کی سول سروس کی ابتداء ایک جرنیل محمد ایوب خاں کے دور صدارت سے ہوئی اور ریٹائرمنٹ کا دن آیا تو بھی ایک فوجی آمر پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ ان کے درمیانی عرصہ میں بھی ایک فوجی صدر یحییٰ کا دور آیا سوچنے کی بات ہے34 سالہ ملازمت میں سے باقی کتنا عرصہ بچا ہو گا۔
پہلے فوجی حکمران ایوب خان سے میری کبھی ملاقات نہ ہوئی لیکن اختر ایوب سے راولپنڈی کینٹ کی سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر گھنٹوں پیدل ملاقات رہتی وہ ایک شریف النفس پڑھا لکھا شخص تھا اور اس کے ساتھ دوستی میں کوئی غرض شامل نہ تھی ماسوائے علمی ادبی گفتگو کے۔
میری اصلی دوستی شوکت ایوب سے کئی سال تک رہی بے غرض اور پر خلوص۔ کبھی شام اور کبھی رات کو ایک پرائیویٹ کلب میں ملاقات رہتی۔ کبھی خیال ہی نہ آیا کہ اس سے کوئی کام لیا جائے دراصل ان دنوں ایسا ماحول ہی نہ تھا کہ صدر کے بیٹے کو مالی غرض کے لیے استعمال کیا جائے۔ شوکت ایوب میری شادی میں بھرپور طریقے سے شامل تھا۔ ہماری کوئی فوٹو اکٹھے نہیں ہے۔ جب ایوب خان کا انتقال ہوا تو میں پہلی بار ان کے گاؤں ریحانہ گیا۔ آجکل کے حکمرانوں اور ان کے لڑکوں سے لوگوں کی دوستیوں اور دیگر معاملات کا معلوم ہوتا ہے تو حیرت ہوتی ہے۔ وہ بھی خوب وقت تھا جب صدر کے دو بیٹوں سے دوستی جس کا حاصل پر خلوص گپ شپ چائے کی پیالی اور بیٹھک تھا۔ اب شوکت ایوب اور اختر اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کی یاد آتی ہے تو یوں جیسے دوستوں کی یاد ہو نہ کہ صدر کے بیٹوں کی۔
اپنے اردگرد ملازمت کے 34 سال تک دیکھا کہ لوگ بڑی خواہش' محنت' کوشش اور سفارش کے ذریعے حکمرانوں تک رسائی اور ان سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے دل میں نہ معلوم کیوں ایسی خواہش پیدا نہ ہوئی' البتہ بھٹو صاحب کے ADC راٹھور صاحب نے اپنی شادی پر مدعو کیا تو بھٹو صاحب سے نہ صرف ملاقات ہوئی ان کے ساتھ خصوصی تصویر بنوانے کا موقع ملا۔ شریف برادران سے ایک دو بار بلائے جانے پر ملاقات نے کبھی آئندہ ملاقات کی خواہش نے سر نہ اٹھایا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور صدارت میں میری تعیناتی اسٹنٹ کمشنر کھاریاں تھی۔ ان کے اے ڈی سی جن کا گھر خونی چک کھاریاں میں تھا کبھی کبھار اپنے گاؤں آتے تو تشریف لاتے ایک بار میجر قمر زمان ADC نے مجھے بطور خاص جنرل ضیاء الحق سے اور میری بیگم کو محترمہ شفیقہ ضیاء الحق سے ملوانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ہم دونوں صدر ہاؤس پہنچ گئے۔ ہمارا پر تپاک استقبال ہوا۔ جنرل صاحب دوسرے مہمانوں کی طرح ہمیں بھی زبردستی کیک پیسٹری کھلاتے رہے۔ ان کے دل میں کچھ بھی ہو وہ مہمان نوازی کی انتہا رخصت ہونے والے کی کار کا دروازہ کھول کر کرتے تھے ان کی مہمان نوازی سے بہت سوں نے دھوکہ کھایا۔ دو بار وہ کھاریاں تشریف لائے وہاں بھی ان کی مروت' انکساری اور خلوص و محبت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اور تو اور بھٹو صاحب جیسا زیرک انسان بھی ان کی ریاکاری کو نیاز مندی سمجھتا رہا۔ میں نے سرسری ہی سہی ان کی چار بار بڑے قریب سے دیکھا۔
میری سرکاری سروس میں چوتھے جرنیل صدر یحییٰ خاں تھے۔ وہ اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں بھی زیر حراست یعنی ہاؤس اریسٹ رہے جو کھاریاں کی حدود میں تھا۔ یحییٰ خاں کی بعض منظور نظر گجرات سے تعلق رکھتی تھیں ان کی طرف سے کھانے کے دعوت نامے آتے رہے جن میں جنرل صاحب سے ملاقات کروانے کا اشارہ بھی ہوتا اسے میری نالائقی سمجھئے کہ میں نے ہر بار بہانہ کر دیا۔ ان دعوتوں میں رسک بہت تھا۔
ایک بار پھر جنرل مشرف کا ذکر ہو جائے۔ وہ کسی سیاسی گروپ کے سہارے اپنے زیر نگرانی سویلین ٹھپے والی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ ان دنوں اس مقصد کے لیے گجرات کے چوہدری صاحبان ان کی چوائس تھے۔ ان کو دباؤ کے ذریعے اپنے ساتھ ملانا ان کا ٹارگٹ تھا۔ دیگر معاملات و مقدمات کے زیر اثر وہ انھیں اپنا زیر نگیں رکھنا اور ساتھ ملانا چاہتے تھے۔ ایک عدد ریونیو معاملہ جس میں جنرل صاحب ان کو قابو کرنا چاہتے تھے میری ٹیبل پر بھی آیا تھا۔ اس میں مجھے حکم ملا کہ میں دفعہ 164 تعزیرات پاکستان کے تحت مجسٹریٹ کے روبرو بیان قلمبند کراؤں جس میں متعلقہ فیملی کے سابق وزیر کا نام لے کر سارا ملبہ اس پر ڈال کر کیس مضبوط بنا دوں۔
میرے پاس تفتیشی افسر کی طرف سے بظاہر حکم آیا اور الزام علیہ کے بارے میں گویا Dictation آئی کہ میں اس طرح تیکھا اور کھل کر بیان دوں کہ وہ سیاسی گروپ مشرف کے پاؤں پکڑ کر اس کی جھولی میں جا گرے۔ عجب پریشانی ہوئی کہ جرنیل صاحب کا حکم مانوں اور سیاسی فیملی کو پھنسا دوں۔ میں نے اپنا بچاؤ تو کیا ہی لیکن جنرل صاحب کا حکم ماننے کی بجائے اس طرح کا بیان ریکارڈ کرایا کہ آئندہ میری شامت نہ آ جائے۔ بہرحال اس فیملی کے ساتھ مشرف صاحب کی یوں Settlement ہو گئی کہ مشرف اپنے مقصد میں کامیاب اور اقتدار اس گروپ کو مل گیا جس نے حکومت بھی کی اور جنرل مشرف کو بھی راضی خوش رکھا۔ حکومت کرنا بھی اور حکم ماننا بھی صرف پاکستان جیسے ملک میں ممکن ہے۔ اس فیملی نے بھی وعدہ خوب نبھایا۔
اسے اتفاق ہی کہئے میری 34 سال کی سول سروس کی ابتداء ایک جرنیل محمد ایوب خاں کے دور صدارت سے ہوئی اور ریٹائرمنٹ کا دن آیا تو بھی ایک فوجی آمر پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ ان کے درمیانی عرصہ میں بھی ایک فوجی صدر یحییٰ کا دور آیا سوچنے کی بات ہے34 سالہ ملازمت میں سے باقی کتنا عرصہ بچا ہو گا۔
پہلے فوجی حکمران ایوب خان سے میری کبھی ملاقات نہ ہوئی لیکن اختر ایوب سے راولپنڈی کینٹ کی سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر گھنٹوں پیدل ملاقات رہتی وہ ایک شریف النفس پڑھا لکھا شخص تھا اور اس کے ساتھ دوستی میں کوئی غرض شامل نہ تھی ماسوائے علمی ادبی گفتگو کے۔
میری اصلی دوستی شوکت ایوب سے کئی سال تک رہی بے غرض اور پر خلوص۔ کبھی شام اور کبھی رات کو ایک پرائیویٹ کلب میں ملاقات رہتی۔ کبھی خیال ہی نہ آیا کہ اس سے کوئی کام لیا جائے دراصل ان دنوں ایسا ماحول ہی نہ تھا کہ صدر کے بیٹے کو مالی غرض کے لیے استعمال کیا جائے۔ شوکت ایوب میری شادی میں بھرپور طریقے سے شامل تھا۔ ہماری کوئی فوٹو اکٹھے نہیں ہے۔ جب ایوب خان کا انتقال ہوا تو میں پہلی بار ان کے گاؤں ریحانہ گیا۔ آجکل کے حکمرانوں اور ان کے لڑکوں سے لوگوں کی دوستیوں اور دیگر معاملات کا معلوم ہوتا ہے تو حیرت ہوتی ہے۔ وہ بھی خوب وقت تھا جب صدر کے دو بیٹوں سے دوستی جس کا حاصل پر خلوص گپ شپ چائے کی پیالی اور بیٹھک تھا۔ اب شوکت ایوب اور اختر اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کی یاد آتی ہے تو یوں جیسے دوستوں کی یاد ہو نہ کہ صدر کے بیٹوں کی۔
اپنے اردگرد ملازمت کے 34 سال تک دیکھا کہ لوگ بڑی خواہش' محنت' کوشش اور سفارش کے ذریعے حکمرانوں تک رسائی اور ان سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے دل میں نہ معلوم کیوں ایسی خواہش پیدا نہ ہوئی' البتہ بھٹو صاحب کے ADC راٹھور صاحب نے اپنی شادی پر مدعو کیا تو بھٹو صاحب سے نہ صرف ملاقات ہوئی ان کے ساتھ خصوصی تصویر بنوانے کا موقع ملا۔ شریف برادران سے ایک دو بار بلائے جانے پر ملاقات نے کبھی آئندہ ملاقات کی خواہش نے سر نہ اٹھایا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور صدارت میں میری تعیناتی اسٹنٹ کمشنر کھاریاں تھی۔ ان کے اے ڈی سی جن کا گھر خونی چک کھاریاں میں تھا کبھی کبھار اپنے گاؤں آتے تو تشریف لاتے ایک بار میجر قمر زمان ADC نے مجھے بطور خاص جنرل ضیاء الحق سے اور میری بیگم کو محترمہ شفیقہ ضیاء الحق سے ملوانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ہم دونوں صدر ہاؤس پہنچ گئے۔ ہمارا پر تپاک استقبال ہوا۔ جنرل صاحب دوسرے مہمانوں کی طرح ہمیں بھی زبردستی کیک پیسٹری کھلاتے رہے۔ ان کے دل میں کچھ بھی ہو وہ مہمان نوازی کی انتہا رخصت ہونے والے کی کار کا دروازہ کھول کر کرتے تھے ان کی مہمان نوازی سے بہت سوں نے دھوکہ کھایا۔ دو بار وہ کھاریاں تشریف لائے وہاں بھی ان کی مروت' انکساری اور خلوص و محبت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اور تو اور بھٹو صاحب جیسا زیرک انسان بھی ان کی ریاکاری کو نیاز مندی سمجھتا رہا۔ میں نے سرسری ہی سہی ان کی چار بار بڑے قریب سے دیکھا۔
میری سرکاری سروس میں چوتھے جرنیل صدر یحییٰ خاں تھے۔ وہ اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں بھی زیر حراست یعنی ہاؤس اریسٹ رہے جو کھاریاں کی حدود میں تھا۔ یحییٰ خاں کی بعض منظور نظر گجرات سے تعلق رکھتی تھیں ان کی طرف سے کھانے کے دعوت نامے آتے رہے جن میں جنرل صاحب سے ملاقات کروانے کا اشارہ بھی ہوتا اسے میری نالائقی سمجھئے کہ میں نے ہر بار بہانہ کر دیا۔ ان دعوتوں میں رسک بہت تھا۔
ایک بار پھر جنرل مشرف کا ذکر ہو جائے۔ وہ کسی سیاسی گروپ کے سہارے اپنے زیر نگرانی سویلین ٹھپے والی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ ان دنوں اس مقصد کے لیے گجرات کے چوہدری صاحبان ان کی چوائس تھے۔ ان کو دباؤ کے ذریعے اپنے ساتھ ملانا ان کا ٹارگٹ تھا۔ دیگر معاملات و مقدمات کے زیر اثر وہ انھیں اپنا زیر نگیں رکھنا اور ساتھ ملانا چاہتے تھے۔ ایک عدد ریونیو معاملہ جس میں جنرل صاحب ان کو قابو کرنا چاہتے تھے میری ٹیبل پر بھی آیا تھا۔ اس میں مجھے حکم ملا کہ میں دفعہ 164 تعزیرات پاکستان کے تحت مجسٹریٹ کے روبرو بیان قلمبند کراؤں جس میں متعلقہ فیملی کے سابق وزیر کا نام لے کر سارا ملبہ اس پر ڈال کر کیس مضبوط بنا دوں۔
میرے پاس تفتیشی افسر کی طرف سے بظاہر حکم آیا اور الزام علیہ کے بارے میں گویا Dictation آئی کہ میں اس طرح تیکھا اور کھل کر بیان دوں کہ وہ سیاسی گروپ مشرف کے پاؤں پکڑ کر اس کی جھولی میں جا گرے۔ عجب پریشانی ہوئی کہ جرنیل صاحب کا حکم مانوں اور سیاسی فیملی کو پھنسا دوں۔ میں نے اپنا بچاؤ تو کیا ہی لیکن جنرل صاحب کا حکم ماننے کی بجائے اس طرح کا بیان ریکارڈ کرایا کہ آئندہ میری شامت نہ آ جائے۔ بہرحال اس فیملی کے ساتھ مشرف صاحب کی یوں Settlement ہو گئی کہ مشرف اپنے مقصد میں کامیاب اور اقتدار اس گروپ کو مل گیا جس نے حکومت بھی کی اور جنرل مشرف کو بھی راضی خوش رکھا۔ حکومت کرنا بھی اور حکم ماننا بھی صرف پاکستان جیسے ملک میں ممکن ہے۔ اس فیملی نے بھی وعدہ خوب نبھایا۔