کہتی ہے تجھ کو خلق خدا

میاں برادران کی سیاسی بصیرت اور طرز حکومت کے ضمن میں میرے اپنے بہت سے تحفظات ہیں


Amjad Islam Amjad June 29, 2014
[email protected]

علامہ طاہر القادری کیا تھے؟ کیا ہیں؟ اور کیا چاہتے ہیں؟ یہ تینوں سوال خاصے تفصیل طلب ہیں اور چونکہ وطن عزیز میں ان کے مریدوں اور ادارہ منہاج القرآن سے وابستہ اساتذہ اور طلبہ کی ایک خاصی بڑی تعداد فی الوقت ان سوالات پر غور تو کجا بات تک کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور اس تفصیل میں ان کی دل آزاری کا بھی غالب امکان ہے۔

لہٰذا یہ ''نتارا'' کسی اور وقت پر ملتوی کرنا ہی مناسب ہے۔ میں نے اُن کی آمد کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا جسے گزشتہ اتوار کو شائع ہونا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ کسی دفتری اہل کار کی غفلت کی وجہ سے اِدھر اُدھر ہو گیا اور تاحال دستیاب نہیں ہو سکا۔ یوں بھی اب بات ان کی ''آمد'' کے اندیشوں سے بہت آگے نکل چکی ہے اور اس دوران میں حکومت پنجاب کے بعض غلط فیصلوں اور بروقت حالات کو قابو نہ کر سکنے کی وجہ سے (اب تاویلیں جو بھی ہوں یہ بات اپنی جگہ پر رہے گی کہ اتنی انسانی جانوں کا اتلاف اور میڈیا پر دکھائی جانے والی پولیس کی بربریت بے حد افسوس ناک تھی) قادری صاحب کو کھیلنے کے لیے ایک ایسا میدان مل گیا جہاں وہ اپنے کمال خطابت کا بھر پور مظاہرہ کر سکتے تھے اور اس میں شک نہیں کہ اس فن میں ان جیسی مہارت کم کم لوگوں کو ہی نصیب ہے۔

مسلم لیگ ن کی حکومت کی تمام تر خرابیاں اپنی جگہ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی شخص (جو اب کسی اور ملک کا شہری بن چکا ہے) اس حکومت کو ختم کرنے کے لیے کیوں اور کیسے ایک ایسے انقلاب کی باتیں کرتا ہے جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے۔ قادری صاحب کی علم دین پر دسترس اور کمال خطابت سے مجھ سمیت شائد کسی کو بھی انکار نہ ہو لیکن وہ ایک باقاعدہ سیاسی لیڈر بہرحال نہیں ہیں۔

میاں برادران کی سیاسی بصیرت اور طرز حکومت کے ضمن میں میرے اپنے بہت سے تحفظات ہیں اور مجھے پاکستان کا ایک پورا شہری ہونے کے حوالے سے ان کے اظہار اور ان پر تنقید کا بھی پورا پورا حق ہے لیکن اگر میں ملک کے آئین کے خلاف کسی اور طریقے سے ان کی حکومت کا تختہ الٹانے کی بات کروں تو یہ غلط ہو گا۔

اس کا واحد حل عوام کی سطح پر ایک ایسے سیاسی نظام کی تشکیل ہے جو اپنے اندر سے باعمل، پر جوش اور کمٹڈ سیاسی ورکرز پیدا کرے اور پھر ان کے اندر سے وہ لیڈر شپ ظہور کرے جو اسمبلیوں میں پہنچ کر قوت نافذہ کی حامل ہو اور ملک کو اس رستے پر چلائے جو صرف مڈل اور اپر کلاس اور کچھ مخصوص مفادات کے نمائندہ لوگوں کی جگہ ایک ایسی سیاسی قیادت کو جنم دے جس میں پاکستان کے تمام شہری، رنگ، نسل، قوم، مذہب اور سیاسی وابستگیوں کے فرق کے باوجود یکساں اہمیت اور عزت کے حامل ہوں اور اس عمل میں تمام دینی جماعتیں، مسالک اور مکاتب فکر بھی شامل ہوں تا کہ ہم ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے اور مسلک کے فرق کی بنا پر قتل و غارت کرنے کے بجائے اسلام کے اس تصور کو رائج کر سکیں جو سب کے لیے امن اور سلامتی کا پیام بر ہے۔

مجھے اس سے بحث نہیں کہ قادری صاحب کو اس مقام تک پہنچانے میں بڑے میاں صاحب یعنی میاں شریف صاحب کی عقیدت یا سرپرستی کا کتنا ہاتھ ہے، یہ بھی بڑا مسئلہ نہیں کہ جس خاندان میں ان کو فرشتوں کی سی خصوصیات نظر آتی تھیں اور جس کے نوجوان خود ان کے بقول ان کے جوتے پہناتے اور ان کو کندھوں پر اٹھا کر غار حرا کی زیارت کے لیے لے جاتے رہے تھے اب وہ یک بیک مردود خلائق کیوں اور کیسے بن گئے ہیں؟ مجھے ان عجیب و غریب روایات سے بھی غرض نہیں جو میڈیا پر ان کے حوالے سے آڈیو اور ویڈیو شہادتوں کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں کہ یہ سب ان کے ذاتی معاملات میں، میری پریشانی کا باعث تو ان کا وہ ''انقلابی'' پروگرام ہے۔

جس کی نیت اور نوعیت دونوں ہی سمجھ سے باہر ہیں اور پھر یہ کہ اس کے لیے جس وقت کا وہ تعین کرتے ہیں اس کی Timing کس کے اشارے پر ہوتی ہے کہ پاکستان سے حقیقی محبت رکھنے والے کسی شخص سے یہ توقع کرنا بے حد مشکل ہے کہ وہ ایک ایسے وقت میں کسی عوامی تحریک کا غوغا بلند کرے جب پاکستانی افواج ایک انتہائی خطرناک مہم کا آغاز کرنے جا رہی ہوں۔ قادری صاحب کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں پر حال ہی میں روزنامہ ایکسپریس کے نمائندہ کالم نگاروں عبدالقادر حسن، جاوید چوہدری، طلعت حسین، وسعت اللہ خان اور نصرت جاوید نے اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈالی ہے جب کہ ملک کے دیگر اہم کالم نگاروں نے بھی اپنے اپنے کالم میں ان کی شخصیت اور عزائم پر قلم اٹھایا ہے۔

کم و بیش سب کے سب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ علامہ طاہر القادری ایک خود پرست یعنی اپنی محبت میں مبتلا انسان ہیں اور غور کیا جائے تو ان کا مجوزہ عوامی انقلاب بھی گھوم پھر کر ایک ایسے مرکز کی نشاندہی کرتا ہے جہاں آج کے حاکموں کی طاقت ان کی ذات میں سمٹ آئے گی اس پر مجھے کمیونزم کے فروغ کے دنوں سے متعلق ایک لطیفہ نما واقعہ یاد آ رہا ہے کہتے ہیں کہ کسی چھوٹے سے تیسری دنیا کے ملک میں کمیونسٹ پارٹی نے عوامی حقوق کے نام پر انقلاب برپا کر کے اس وقت کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ''انقلابی فوجوں'' نے شاہی محل سمیت تمام اہم تنصیبات پر قبضہ کر لیا جب انقلابی لیڈر اپنے ساتھیوں سمیت شاہی محل کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ انقلاب کے جوش میں اس کے کچھ ساتھیوں نے محل کو آگ لگا دی ہے اور وہ جل کر راکھ ہو رہا ہے اس پر اس عوامی انقلاب کے داعی لیڈر کے منہ سے جو جملہ نکلا وہ کچھ اس طرح تھا۔

''ارے یہ کیا کیا، کم بختوں نے ''میرے'' محل کو آگ لگا دی۔''

سب اہل فکر و نظر اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ اگر واقعی علامہ طاہر القادری (ان کے سارے القابات درج کرنا مشکل ہے کہ بیشتر دینی علوم اور صوفیانہ مسالک سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کے القابات ان کے اسمائے گرامی سے ایک پورے پیراگراف سے بھی زیادہ طویل ہوتے ہیں اور زیادہ تر صورتوں میں ان کا منبع اور وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ البتہ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں علامہ قادری صاحب کے علم دین اور کمال خطابت کا ایک اپنا مقام ہے)

دین اور پاکستان کے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اس طرح کے ذاتی تشہیر کے ہتھکنڈوں سے باہر نکل کر کچھ ٹھوس اور عملی کام کرنا چاہیے لٹھ بردار فوج اور سنگ بازی کرنے والے ہجوم تو کوئی بھی اکٹھا کر سکتا ہے۔ میڈیا پر ان کے مرید اور پرستار ان سے جس والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے نام پر گولیاں کھانے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں اگر ان کی تربیت وہ ایسے اچھے اور ذمے دار شہریوں کی شکل میں کریں کہ جو اپنی ذات سے اس انصاف، محبت، ایمانداری اور حقوق و فرائض کی پاسداری کا آغاز کریں ۔

جو سب کے لیے مثال بن جائے تو شاید ان کی یہ خدمت ان کے اب تک کے تمام کارناموں پر فضیلت حاصل کر جائے اور وطن عزیز اس نام نہاد ''اشرافیہ'' کے چنگل سے ہمیشہ کے لیے نکل جائے جو نام اور روپ بدل بدل کر قیام پاکستان سے اب تک عوام کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھتے ہوئے اپنی حکومت کے تسلسل کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر انھوں نے اپنی موجودہ روش برقرار رکھی تو انھیں میڈیا کوریج تو ملتی رہے گی مگر وہ خلق خدا کی وہ خدمت مناسب طریقے سے نہیں کر پائیں گے جس کے وہ یقینا اہل ہیں اور ان کا یہ زور خطابت تاریخ کے صفحات میں کولونیل دور کے اس انگریز افسر کی تقریر کی طرح رہ جائے گا جس کے بارے میں مولانا حالیؔ نے کہا تھا:

اے بزم سفیران دول کے سخن آرا
ہر خورد و کلاں تیری فصاحت پہ فِدا ہے
کُھلتا نہیں کچھ اس کے سوا، تیرے بیاں سے
اک مرغ ہے خوش لہجہ کہ کچھ بول رہا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں