حکومت کو دوام ملے مگر کیسے
کارزار سیاست میں حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے تیر نیم کش کو جمہوریت کا حصہ تصور کیا جاتا ہے
کارزار سیاست میں حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے تیر نیم کش کو جمہوریت کا حصہ تصور کیا جاتا ہے، حکومت کی مخالف سیاسی جماعتیں جہاں موقع ملے حکومت کی ''دم'' پر پیر رکھنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں، کبھی عوامی مفادات تو کبھی حکومت کی جانب سے صادرکیے گئے فیصلوں، اقدمات اور پالیسیوں کو بنیاد اور جواز بنا کر حکومت کی مخالفت میں زبانوں کے چٹخارے کا سامان کرتی رہتی ہیں، تندوتیز قسم کے بیانات کو سیاست میں زندہ رہنے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور بس۔
کسی بھی جمہوری حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی اس وقت بجنا بلکہ تواتر سے بجنا شروع ہوجاتی ہے جب اس کے سیاسی مخالفین اور سیاسی جماعتیں حکومت وقت کے خلاف سڑکیں آباد کرنے، جلاؤگھیراؤ کی راہ اپنانے اور لہو بہانے کے راستے پر چل پڑتی ہیں۔ شاید بہت سوں کا خیال ہو کہ حکومت کے خلاف تحریک میں ''ممی ڈیڈی'' قسم کے سیاست دان کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن درون خانہ اس معاملے میں حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کسی بھی حکومت کے اقتدار کی بنیادیں اس وقت ہلنی شروع ہو جاتی ہیں جب حکومت وقت کے خلاف متوسط طبقہ جسے عام آدمی بھی کہا جاتا ہے وہ حکومت مخالف تحریک کو اپنے کندھے پیش کر دے۔
کسی ایک سیاسی جماعت کے چاہنے یا اس کے چند ہزار کارکنوں کی ''ہلا شیری'' سے کبھی حکومتیں ''گھر'' کو نہیں جاتیں، کسی بھی حکومت کے اقتدار کے دن اس وقت ''گنے'' جاتے ہیں جب عام آدمی حکومت وقت کی پالیسیوںسے اکتا کر حکومت مخالف تحریک میںاپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے، اور؟ عام آدمی کس وقت حکومت مخالف قوتوں کی لگائی گئی آگ کا ایندھن بنتا ہے؟ جب عام انتخابات میں برسر اقتدار آنے والی جماعت عوام سے کیے گئے اپنے وعدے پورے نہ کرے یا عوام سے کیے گئے وعدوں سے پہلو تہی کرے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں بھی حکمران جماعت کو کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ ن لیگ نے عام انتخابات میں قوم سے مکمل طور پر نہ سہی لیکن لوڈشیڈنگ میں معقول حد تک کمی لانے کا وعدہ کیا تھا، عام آدمی کی معاشی حالات کو سنبھالا دینے کا وعدہ حکمران جماعت کے منشورکا اہم نکتہ تھا، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ان کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے معقول اضافہ حکمرانوں کی زبان سے پھسلنے والا ایک اور اہم انتخابی وعدہ تھا، مہنگائی کے جن کو قانون کے ''بوتل'' میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی نوید دی گئی تھی، ہر طرف قانون کی بالادستی اور میرٹ پر عمل درآمد کوحکمران جماعت نے انتخابات کے دوران اپنی اولین ترجیح قرار دی تھی۔
ایک سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے حکمران جماعت عوام سے کیے گئے کتنے وعدوں کو عمل کے فن سے آراستہ کرچکی ہے؟ اگر حکمران جماعت اپنے اقتدارکا دوام چاہتی ہے، اگر حکمران جماعت ''انقلاب'' اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بچھائے گئے جال میں پھنسنے سے بچنا چاہتی ہے، پھر حکمرانوں کو الیکشن میں عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہو گا، جب عام آدمی کی ضروریا ت حکومتیں پوری کرتی ہیں، جب عام آدمی پر روزی روٹی کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جب عام آدمی کی بنیادی ضروریات حکومتیں اس کے گھر کی دہلیز پر پوری کر دیا کرتی ہیں۔
پھر حکومت کے مخالفین کے انقلاب کے نعروں کی حثییت قوم کے نزدیک محض لہو گرم کرنے کا ایک بہانہ ہوا کرتی ہے، سیاسی مخالفین کی دھواں دھار پریس کانفرنسوں کو عام آدمی ''بچہ جمورا'' کی شعبدہ بازی سے زیادہ اہمیت نہیں دیا کرتا۔ مگر؟ موجودہ حکومت کے بالشت بھر قدوقامت کے مخالفین اس لیے ''سیاسی ہاتھی'' بنتے نظر آرہے ہیں کہ حکمران جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد عام آدمی کے مسائل پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔
اگر موجودہ حکومت ذاتی تشہیری قسم کے منصوبوں کو شروع کر کے اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ عوام کا ''راوی'' ان کے لیے چین ہی چین لکھتا ہے، حکومت اور حکومتی دماغوں کی اس سوچ کو غلط فہمی کے سوا بھلا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ حکمران اگر چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت دوام کی شاہراہ پر بغیر کسی رکاوٹ کے فراٹے بھرتی رہے پھر انہیں اپنی پالیسیوں اور وسائل کا رخ حقیقی معنوں میں عوام کی جانب موڑنا ہو گا۔ سیاست کے اتار چڑھاؤ کو دیکھنے کے بعد یہ اصول اب ہمیں ازبر ہونا چاہیے کہ حکومت کے دوام کا راز غیروں کا ہاتھ پکڑنے میں نہیںہوتا بلکہ اپنے عوام کا ہاتھ پکڑنے میں پوشیدہ ہے۔
کسی بھی جمہوری حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی اس وقت بجنا بلکہ تواتر سے بجنا شروع ہوجاتی ہے جب اس کے سیاسی مخالفین اور سیاسی جماعتیں حکومت وقت کے خلاف سڑکیں آباد کرنے، جلاؤگھیراؤ کی راہ اپنانے اور لہو بہانے کے راستے پر چل پڑتی ہیں۔ شاید بہت سوں کا خیال ہو کہ حکومت کے خلاف تحریک میں ''ممی ڈیڈی'' قسم کے سیاست دان کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن درون خانہ اس معاملے میں حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کسی بھی حکومت کے اقتدار کی بنیادیں اس وقت ہلنی شروع ہو جاتی ہیں جب حکومت وقت کے خلاف متوسط طبقہ جسے عام آدمی بھی کہا جاتا ہے وہ حکومت مخالف تحریک کو اپنے کندھے پیش کر دے۔
کسی ایک سیاسی جماعت کے چاہنے یا اس کے چند ہزار کارکنوں کی ''ہلا شیری'' سے کبھی حکومتیں ''گھر'' کو نہیں جاتیں، کسی بھی حکومت کے اقتدار کے دن اس وقت ''گنے'' جاتے ہیں جب عام آدمی حکومت وقت کی پالیسیوںسے اکتا کر حکومت مخالف تحریک میںاپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے، اور؟ عام آدمی کس وقت حکومت مخالف قوتوں کی لگائی گئی آگ کا ایندھن بنتا ہے؟ جب عام انتخابات میں برسر اقتدار آنے والی جماعت عوام سے کیے گئے اپنے وعدے پورے نہ کرے یا عوام سے کیے گئے وعدوں سے پہلو تہی کرے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں بھی حکمران جماعت کو کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ ن لیگ نے عام انتخابات میں قوم سے مکمل طور پر نہ سہی لیکن لوڈشیڈنگ میں معقول حد تک کمی لانے کا وعدہ کیا تھا، عام آدمی کی معاشی حالات کو سنبھالا دینے کا وعدہ حکمران جماعت کے منشورکا اہم نکتہ تھا، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ان کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے معقول اضافہ حکمرانوں کی زبان سے پھسلنے والا ایک اور اہم انتخابی وعدہ تھا، مہنگائی کے جن کو قانون کے ''بوتل'' میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی نوید دی گئی تھی، ہر طرف قانون کی بالادستی اور میرٹ پر عمل درآمد کوحکمران جماعت نے انتخابات کے دوران اپنی اولین ترجیح قرار دی تھی۔
ایک سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے حکمران جماعت عوام سے کیے گئے کتنے وعدوں کو عمل کے فن سے آراستہ کرچکی ہے؟ اگر حکمران جماعت اپنے اقتدارکا دوام چاہتی ہے، اگر حکمران جماعت ''انقلاب'' اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بچھائے گئے جال میں پھنسنے سے بچنا چاہتی ہے، پھر حکمرانوں کو الیکشن میں عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہو گا، جب عام آدمی کی ضروریا ت حکومتیں پوری کرتی ہیں، جب عام آدمی پر روزی روٹی کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جب عام آدمی کی بنیادی ضروریات حکومتیں اس کے گھر کی دہلیز پر پوری کر دیا کرتی ہیں۔
پھر حکومت کے مخالفین کے انقلاب کے نعروں کی حثییت قوم کے نزدیک محض لہو گرم کرنے کا ایک بہانہ ہوا کرتی ہے، سیاسی مخالفین کی دھواں دھار پریس کانفرنسوں کو عام آدمی ''بچہ جمورا'' کی شعبدہ بازی سے زیادہ اہمیت نہیں دیا کرتا۔ مگر؟ موجودہ حکومت کے بالشت بھر قدوقامت کے مخالفین اس لیے ''سیاسی ہاتھی'' بنتے نظر آرہے ہیں کہ حکمران جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد عام آدمی کے مسائل پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔
اگر موجودہ حکومت ذاتی تشہیری قسم کے منصوبوں کو شروع کر کے اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ عوام کا ''راوی'' ان کے لیے چین ہی چین لکھتا ہے، حکومت اور حکومتی دماغوں کی اس سوچ کو غلط فہمی کے سوا بھلا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ حکمران اگر چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت دوام کی شاہراہ پر بغیر کسی رکاوٹ کے فراٹے بھرتی رہے پھر انہیں اپنی پالیسیوں اور وسائل کا رخ حقیقی معنوں میں عوام کی جانب موڑنا ہو گا۔ سیاست کے اتار چڑھاؤ کو دیکھنے کے بعد یہ اصول اب ہمیں ازبر ہونا چاہیے کہ حکومت کے دوام کا راز غیروں کا ہاتھ پکڑنے میں نہیںہوتا بلکہ اپنے عوام کا ہاتھ پکڑنے میں پوشیدہ ہے۔