غربا و فقرا کیوں یاد آئیں
آلو سے عوام کا بہت گہرا اور دائمی رشتہ ہے، رعایا غریب ہو یا امیر وہ آلوؤں سے اپنا ناتا نہیں توڑ سکتی ہے
آلو سے عوام کا بہت گہرا اور دائمی رشتہ ہے، رعایا غریب ہو یا امیر وہ آلوؤں سے اپنا ناتا نہیں توڑ سکتی ہے، اس کی وجہ تمام سبزیوں میں آلو کی قدرو قیمت اپنی جگہ مسلم ہے۔ 5 اسٹارز ہوٹلز ہوں یا غریب محلوں کے جھونپڑی نما ہوٹل ہوں آلوؤں کا استعمال لازم و ملزوم ہے، یہ کھانوں کی شان بڑھاتا ہے اور لذت دہن کو دوبالا کرتا ہے۔
آلو چھوٹے، بڑے سب ہی شوق سے کھاتے ہیں، آلو کے مختلف پکوان بڑی آسانی کے ساتھ بنائے جاتے ہیں اور ساتھ میں فرنچ فرائی کی تو بات ہی کیا ہے، اسٹالوں پر بچوں کا رش لگا رہتا ہے اس طرح بے روزگار کو روزگار میسر آجاتا ہے اور بھوکے شکم کو غذا، وہ بھی من پسند ، ان حالات میں جب کہ ہر شخص آلو کو کھانا پسند کرتا ہے، اور محدود آمدنی میں آلو بہت بڑا سہارا بن جاتے ہیں،حکومت نے بڑی آسانی اور بے باکی کے ساتھ غائب کردیا ہے۔ اس طرح یہ ہوا کہ غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا گیا ہے اور دستر خوانوں سے مزے دار آلوؤں کی ڈشوں کو دور کردیا گیا ہے۔
یہ کیسا انصاف کہ اپنے لوگوں کو فاقے پر مجبور کردیا جائے اور بیرونی ممالک کو اپنے ملک کے وہ پھل اور سبزیاں جن پر ملک کے لوگوں کا حق ہے ان سے انھیں محروم کیا گیا ۔ لوگ انھیں خریدتے ہیں اور پکاتے ہیں چونکہ ان چیزوں کی قیمتیں ان کی پہنچ سے دور نہیں ہوتیں، سب سے زیادہ مقدار میں آلو پیدا ہوتا ہے، اسی لیے یہ مناسب داموں بکتا رہا ہے، کبھی 20-10 روپے کلو تو کبھی اس سے بھی کم قیمت فروخت ہوتا رہا ہے، لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت نے جہاں ٹیکس بڑھا دیے ہیں، وہاں مہنگائی میں بھی دل کھول کر اضافہ کیا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ گھر گھر بھوک تقسیم کردی گئی ہے اور لوگوں کو افلاس کے ہاتھوں مرنے پر مجبور کردیا ہے۔
ذرا حکومت وقت اپنے کھانوں اور رہن سہن پر غور کرے تو اپنی عوام کی دکھی زندگیوں کا اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ اہل اقتدار نے اپنے عیش و طرب کی خاطر کس سفاکی کے ساتھ شب خون بھی مارا ہے اور اپنی رعایا پر دن دہاڑے حملہ آور بھی ہوئے ہیں۔ ہر چیز کی قلت ہے عوام مشکلات میں مبتلا ہے وہ تو زندگی اللہ کی دی ہوئی ہے تو جیے جا رہے ہیں ورنہ تو اسے بھی بیرون ملک فروخت کردیا جاتا اس ملک میں بجلی نہ ہونے کے برابر، پٹرول اور گیس بھی مہنگا، کھانے پینے کی اشیا بھی گرانی کی نذر ہوچکی ہیں، علاج معالجہ، تعلیم کا حصول بھی بے حد مشکل، غریب عوام پیٹ کی پکار سنے کہ بچوں کی تعلیم پر توجہ دے، بغیر پیسے کے کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے ،دنیا بھر کے مسلمان اپنے تفکرات کو بھول کر اسے خوش آمدید کہیں گے مبارکباد کی صدائیں گونجیں گی، رمضان سے عقیدت و محبت کی بنا پر ہر سو نور اور پاکیزگی کا ڈیرہ ہوگا اور اللہ کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں گی، یہ سب کچھ اپنی جگہ درست اور صحیح لیکن صائم کو سحر و افطار کی بھی فکر لاحق ہوگی، افطار میں ''آلو'' کے پکوانوں کی یاد شدت سے آئے گی، افطار کا خاص مزہ آلوؤں میں ہی ہے،آلو کے پکوڑے، آلو کے کباب، آلو کی ترکاری اور آلو کی کچوریاں اور چپس وغیرہ کے بغیر افطاری بے مزہ ہوجاتی ہے۔ کیا حکومت کو اس بات کی فکر ہے؟ نہیں بالکل فکر نہیں ہے، حکومت کے پاس تو سب کچھ ہے، گویا زندگی جنت ہے، جنت میں بسنے والے دوزخ کے مکینوں کو بھول چکے ہیں۔
بے شک غریب ولاچار کی زندگی جہنم سے کم نہیں لیکن صاحب اقتدار کو سبزیاں، اناج، انواع و اقسام کے کھانے میسر ہیں ان حالات میں انھیں غربا و فقرا کیوں یاد آئیں گے؟ جب کہ ماہ رمضان میں تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہر ملازم کو خواہ وہ سرکاری ملازمت میں یا غیر سرکاری اسے روز کا افطار و سحر کا خرچہ یا اشیا فراہم کرنے پر مجبور کیا جاتا، بے چارے کم تنخواہ والے ملازمین سحر و افطار بھی ٹھیک طرح سے نہیں کر پاتے ہیں کہ اتنا رزق میسر ہی نہیں، لیکن اپنے رب کی عبادت سے غافل نہیں ہوتے ہیں کہ وہ زندگی کی حقیقت اور احکام خداوندی سے واقف ہیں۔
کئی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں کہ رمضان میں اشیائے خورونوش رعایتی نرخ پر فروخت کی جائیں گی ساتھ میں یوٹیلیٹی اسٹورز پر بھی 1500 اشیا سستی ہونے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن حکومت کی طرف سے کیے گئے اعلانات بھی اکثر اوقات اعلان ہی تک محدود رہ جاتے ہیں، ویسے بھی یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر تمام چیزیں دستیاب نہیں ہوتی ہیں۔ دور دراز سے آئے لوگ لمبی لمبی لائنیں بھگتاتے ہیں، نمبر آنے پر پتا چلتا ہے کہ چینی ہے تو آٹا نہیں اور اگر آٹا مل گیا تو تیل نہیں، چند چیزوں کا حصول بھی محنت کشوں کے لیے جان جوکھوں کا کام ہے، اس قسم کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے متوسط طبقے کے لوگ یوٹیلیٹی اسٹور کا رخ ہرگز نہیں کرتے ہیں۔
جس طرح آلو اور رمضان کا چولی دامن کا ساتھ ہے بالکل اسی طرح کھجور اور رمضان بھی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، بغیر کھجور کھائے روزہ کھولنے کا تصور بھی محرومی و پریشانی میں اضافے کا باعث ہوتا ہے، آلوؤں کی قدر و قیمت جاننے والے کھجور کی افادیت اور اہمیت سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں، گاہکوں کی اسی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے کھجور بھی منہ بولے دام خوب خوب بکتی ہے بلکہ اس موقعے سے دکاندار پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کھجوروں کو بھی میدان میں لے آتے ہیں جو گلی سڑی اور چھوٹے سائز میں ہوتی ہیں اس بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حریص دکاندار پورا سال خراب کھجوریں جمع کرتے ہیں اور ماہ صیام میںفروخت کر لیتے ہیں، مفلس لوگ ان کھجوروں کو بھی خرید لیتے ہیں، اس طرح آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام والی بات ہوجاتی ہے۔
ماہ رمضان کا پورا ماہ جہاں رحمت، مغفرت اور جہنم کی آگ سے آزادی کے لیے مخصوص ہے وہاں تاجر ہر طرح سے منافع کماتا ہے، ماہ رمضان کے آخری عشرے میں وہ اپنا خراب سے خراب مال بھی آسانی سے فروخت کردیتا ہے۔ محنت کشوں کے پاس اضافی رقم نہیں ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے خرید لیں، انھیں مجبوراً اس وقت عید کی خریداری کرنی پڑتی ہے جب عید نزدیک ہوتی ہے اور تھوڑے بہت پیسوں کا انتظام ہوجاتا ہے۔ تب وہ اپنے گھر والوں کو خریداری کراتا ہے۔ ناقص مال سے بنی ہوئی چیزیں عید سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور یوں بھی ہوتا ہے کہ معصوم بچوں کے کپڑوں کی سلائی عید والے دن ہی 4-2 گھنٹے پہننے کے بعد نکل جاتی ہیں۔ اس کی وجہ تجارت کرنے والے بڑی عجلت میں ہوتے ہیں اور اس ایک ماہ میں پورے سال کی کمائی کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا ہر کام کو بڑی تیزی سے پایۂ تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں اہل ایمان اور اہل ثروت کی کمی نہیں ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی اشیا کی دکانیں کھلوا دیں جہاں معمولی رقم کے عوض اشیا کو فروغ کیا جائے، لیکن شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد یہ چیزیں فروخت کی جائیں کہ ہمارے ملک میں جعلی کام دھڑلے سے کیے جاتے ہیں جہاں لالچی اور جعلسازوں کو بھنک پڑتی ہے وہ ایسی جگہوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور خیرات و زکوٰۃ کی چیزوں کو بازار میں مہنگا بیچنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ رمضان اور عید تو ایک سال کے لیے رخصت ہوجائیں گے لیکن آلوؤں کی ضرورت ہماری زندگیوں میں ہمیشہ رہے گی۔
آلوؤں سے محرومی اور دکھ بڑھتا ہی جا رہا ہے اگر اس جدائی کو ختم کرکے آلو 100 یا 60 روپے کلو خرید بھی لیے جائیں تو یہ اندر سے خراب نکلتے ہیں، سیاہ رنگت کے، تو شاید یہ بھی دل جلے ہیں۔ انھیں بھی اپنے ملک سے محبت ہے وہ بھی اپنوں کے پیٹ میں جانے کے خواہشمند ہیں، حکومت کا فرض ہے کہ اب اس زیادتی کو ختم کرے ۔
آلو چھوٹے، بڑے سب ہی شوق سے کھاتے ہیں، آلو کے مختلف پکوان بڑی آسانی کے ساتھ بنائے جاتے ہیں اور ساتھ میں فرنچ فرائی کی تو بات ہی کیا ہے، اسٹالوں پر بچوں کا رش لگا رہتا ہے اس طرح بے روزگار کو روزگار میسر آجاتا ہے اور بھوکے شکم کو غذا، وہ بھی من پسند ، ان حالات میں جب کہ ہر شخص آلو کو کھانا پسند کرتا ہے، اور محدود آمدنی میں آلو بہت بڑا سہارا بن جاتے ہیں،حکومت نے بڑی آسانی اور بے باکی کے ساتھ غائب کردیا ہے۔ اس طرح یہ ہوا کہ غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا گیا ہے اور دستر خوانوں سے مزے دار آلوؤں کی ڈشوں کو دور کردیا گیا ہے۔
یہ کیسا انصاف کہ اپنے لوگوں کو فاقے پر مجبور کردیا جائے اور بیرونی ممالک کو اپنے ملک کے وہ پھل اور سبزیاں جن پر ملک کے لوگوں کا حق ہے ان سے انھیں محروم کیا گیا ۔ لوگ انھیں خریدتے ہیں اور پکاتے ہیں چونکہ ان چیزوں کی قیمتیں ان کی پہنچ سے دور نہیں ہوتیں، سب سے زیادہ مقدار میں آلو پیدا ہوتا ہے، اسی لیے یہ مناسب داموں بکتا رہا ہے، کبھی 20-10 روپے کلو تو کبھی اس سے بھی کم قیمت فروخت ہوتا رہا ہے، لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت نے جہاں ٹیکس بڑھا دیے ہیں، وہاں مہنگائی میں بھی دل کھول کر اضافہ کیا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ گھر گھر بھوک تقسیم کردی گئی ہے اور لوگوں کو افلاس کے ہاتھوں مرنے پر مجبور کردیا ہے۔
ذرا حکومت وقت اپنے کھانوں اور رہن سہن پر غور کرے تو اپنی عوام کی دکھی زندگیوں کا اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ اہل اقتدار نے اپنے عیش و طرب کی خاطر کس سفاکی کے ساتھ شب خون بھی مارا ہے اور اپنی رعایا پر دن دہاڑے حملہ آور بھی ہوئے ہیں۔ ہر چیز کی قلت ہے عوام مشکلات میں مبتلا ہے وہ تو زندگی اللہ کی دی ہوئی ہے تو جیے جا رہے ہیں ورنہ تو اسے بھی بیرون ملک فروخت کردیا جاتا اس ملک میں بجلی نہ ہونے کے برابر، پٹرول اور گیس بھی مہنگا، کھانے پینے کی اشیا بھی گرانی کی نذر ہوچکی ہیں، علاج معالجہ، تعلیم کا حصول بھی بے حد مشکل، غریب عوام پیٹ کی پکار سنے کہ بچوں کی تعلیم پر توجہ دے، بغیر پیسے کے کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے ،دنیا بھر کے مسلمان اپنے تفکرات کو بھول کر اسے خوش آمدید کہیں گے مبارکباد کی صدائیں گونجیں گی، رمضان سے عقیدت و محبت کی بنا پر ہر سو نور اور پاکیزگی کا ڈیرہ ہوگا اور اللہ کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں گی، یہ سب کچھ اپنی جگہ درست اور صحیح لیکن صائم کو سحر و افطار کی بھی فکر لاحق ہوگی، افطار میں ''آلو'' کے پکوانوں کی یاد شدت سے آئے گی، افطار کا خاص مزہ آلوؤں میں ہی ہے،آلو کے پکوڑے، آلو کے کباب، آلو کی ترکاری اور آلو کی کچوریاں اور چپس وغیرہ کے بغیر افطاری بے مزہ ہوجاتی ہے۔ کیا حکومت کو اس بات کی فکر ہے؟ نہیں بالکل فکر نہیں ہے، حکومت کے پاس تو سب کچھ ہے، گویا زندگی جنت ہے، جنت میں بسنے والے دوزخ کے مکینوں کو بھول چکے ہیں۔
بے شک غریب ولاچار کی زندگی جہنم سے کم نہیں لیکن صاحب اقتدار کو سبزیاں، اناج، انواع و اقسام کے کھانے میسر ہیں ان حالات میں انھیں غربا و فقرا کیوں یاد آئیں گے؟ جب کہ ماہ رمضان میں تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہر ملازم کو خواہ وہ سرکاری ملازمت میں یا غیر سرکاری اسے روز کا افطار و سحر کا خرچہ یا اشیا فراہم کرنے پر مجبور کیا جاتا، بے چارے کم تنخواہ والے ملازمین سحر و افطار بھی ٹھیک طرح سے نہیں کر پاتے ہیں کہ اتنا رزق میسر ہی نہیں، لیکن اپنے رب کی عبادت سے غافل نہیں ہوتے ہیں کہ وہ زندگی کی حقیقت اور احکام خداوندی سے واقف ہیں۔
کئی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں کہ رمضان میں اشیائے خورونوش رعایتی نرخ پر فروخت کی جائیں گی ساتھ میں یوٹیلیٹی اسٹورز پر بھی 1500 اشیا سستی ہونے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن حکومت کی طرف سے کیے گئے اعلانات بھی اکثر اوقات اعلان ہی تک محدود رہ جاتے ہیں، ویسے بھی یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر تمام چیزیں دستیاب نہیں ہوتی ہیں۔ دور دراز سے آئے لوگ لمبی لمبی لائنیں بھگتاتے ہیں، نمبر آنے پر پتا چلتا ہے کہ چینی ہے تو آٹا نہیں اور اگر آٹا مل گیا تو تیل نہیں، چند چیزوں کا حصول بھی محنت کشوں کے لیے جان جوکھوں کا کام ہے، اس قسم کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے متوسط طبقے کے لوگ یوٹیلیٹی اسٹور کا رخ ہرگز نہیں کرتے ہیں۔
جس طرح آلو اور رمضان کا چولی دامن کا ساتھ ہے بالکل اسی طرح کھجور اور رمضان بھی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، بغیر کھجور کھائے روزہ کھولنے کا تصور بھی محرومی و پریشانی میں اضافے کا باعث ہوتا ہے، آلوؤں کی قدر و قیمت جاننے والے کھجور کی افادیت اور اہمیت سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں، گاہکوں کی اسی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے کھجور بھی منہ بولے دام خوب خوب بکتی ہے بلکہ اس موقعے سے دکاندار پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کھجوروں کو بھی میدان میں لے آتے ہیں جو گلی سڑی اور چھوٹے سائز میں ہوتی ہیں اس بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حریص دکاندار پورا سال خراب کھجوریں جمع کرتے ہیں اور ماہ صیام میںفروخت کر لیتے ہیں، مفلس لوگ ان کھجوروں کو بھی خرید لیتے ہیں، اس طرح آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام والی بات ہوجاتی ہے۔
ماہ رمضان کا پورا ماہ جہاں رحمت، مغفرت اور جہنم کی آگ سے آزادی کے لیے مخصوص ہے وہاں تاجر ہر طرح سے منافع کماتا ہے، ماہ رمضان کے آخری عشرے میں وہ اپنا خراب سے خراب مال بھی آسانی سے فروخت کردیتا ہے۔ محنت کشوں کے پاس اضافی رقم نہیں ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے خرید لیں، انھیں مجبوراً اس وقت عید کی خریداری کرنی پڑتی ہے جب عید نزدیک ہوتی ہے اور تھوڑے بہت پیسوں کا انتظام ہوجاتا ہے۔ تب وہ اپنے گھر والوں کو خریداری کراتا ہے۔ ناقص مال سے بنی ہوئی چیزیں عید سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور یوں بھی ہوتا ہے کہ معصوم بچوں کے کپڑوں کی سلائی عید والے دن ہی 4-2 گھنٹے پہننے کے بعد نکل جاتی ہیں۔ اس کی وجہ تجارت کرنے والے بڑی عجلت میں ہوتے ہیں اور اس ایک ماہ میں پورے سال کی کمائی کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا ہر کام کو بڑی تیزی سے پایۂ تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں اہل ایمان اور اہل ثروت کی کمی نہیں ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی اشیا کی دکانیں کھلوا دیں جہاں معمولی رقم کے عوض اشیا کو فروغ کیا جائے، لیکن شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد یہ چیزیں فروخت کی جائیں کہ ہمارے ملک میں جعلی کام دھڑلے سے کیے جاتے ہیں جہاں لالچی اور جعلسازوں کو بھنک پڑتی ہے وہ ایسی جگہوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور خیرات و زکوٰۃ کی چیزوں کو بازار میں مہنگا بیچنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ رمضان اور عید تو ایک سال کے لیے رخصت ہوجائیں گے لیکن آلوؤں کی ضرورت ہماری زندگیوں میں ہمیشہ رہے گی۔
آلوؤں سے محرومی اور دکھ بڑھتا ہی جا رہا ہے اگر اس جدائی کو ختم کرکے آلو 100 یا 60 روپے کلو خرید بھی لیے جائیں تو یہ اندر سے خراب نکلتے ہیں، سیاہ رنگت کے، تو شاید یہ بھی دل جلے ہیں۔ انھیں بھی اپنے ملک سے محبت ہے وہ بھی اپنوں کے پیٹ میں جانے کے خواہشمند ہیں، حکومت کا فرض ہے کہ اب اس زیادتی کو ختم کرے ۔