سندھ میں طلبہ شدید گرمی میں امتحانات اور شدید سردی میں اسکول جانے پر مجبور

تعلیمی کلینڈر موسمی تغیرات کے برعکس لیکن محکمہ دقیانوسی کلینڈر کو تبدیل کرنے کو تیار نہیں

(فوٹو : فائل)

ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی بہت تیزی سے ظاہر ہوتے ہوئے موسمی تغیرات نے صوبے کے تعلیمی کلینڈر کو out dated اور موسمی حالات کے برعکس کر دیا ہے۔

متعلقہ حکام کی عدم توجہی کے سبب اب سندھ کے تعلیمی کلینڈر کو دقیانوسی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ تعلیمی کلینڈر میں سیشن اور امتحانات کے انعقاد کے اوقات موسم سے عدم مطابقت کے باعث سندھ کے لاکھوں طلبہ کے لیے وبال جان بن چکے ہیں۔

موسم سرما میں اس سے سب سے زیادہ چھوٹی یا جونیئر کلاسز کے لاکھوں بچے جبکہ موسم گرما میں اس سے میٹرک اور انٹر کی سطح پر ہر سال تقریباً 20لاکھ طلبہ براہ راست متاثر ہو رہے ہیں تاہم سندھ حکومت کا محکمہ اسکول و کالج ایجوکیشن اور محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کسی صورت بھی اس جانب توجہ دینے یا تعلیمی کلینڈر کو موسمی حالات سے مطابقت دینے کو تیار نہیں ہے اور نتیجے کے طور پر کسی سال تعطیلات کو طول دیا جاتا ہے جبکہ رواں سال کی طرح اکثر میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات شدید گرمی کی لہر ''ہیٹ ویو'' کے سبب ملتوی کر دیے جاتے ہیں۔

یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں ہے جب وفاقی وزارت تعلیم سندھ کو اس سلسلے میں ایک خط کے ذریعے آگاہ بھی کرچکی ہے جبکہ اتفاقاً وفاقی وزارت تعلیم کا قلمدان بھی اس وقت سندھ کی ہی ایک جماعت ایم کیو ایم کے سربراہ پاس ہے۔

سندھ میں تعلیمی کلینڈر بدلتے ہوئے موسمی حالات اور اس میں شدت آنے کے باوجود تبدیل نہ کیے جانے کے سبب اس بار حکومت کو صوبے میں جاری میٹرک اور انٹر کے سالانہ امتحانات ملتوی کرنے پڑے اور کراچی میں تو پہلے سے جاری میٹرک کے سالانہ امتحانات کا سلسلہ 22مئی کو روک ہی دیا گیا جس کے سبب کراچی ہی میں انٹر کے 28مئی سے شروع ہونے والے سالانہ امتحانات کا شیڈول بھی متاثر ہوگیا اور یہ امتحانات بھی کچھ روز کے لیے التواء میں چلے گئے۔

انٹر سائنس پری میڈیکل اور پری انجینیئرنگ کے امتحانات کے التواء کے سبب دوسرے مرحلے میں جون کے آخری ہفتے سے شروع ہونے والے انٹر آرٹس اور کامرس کے امتحانات میں بھی اب کچھ روز کی تاخیر ہوگی۔ سندھ کے دیگر اضلاع میں یہ امتحانات کچھ روز قبل ہی ملتوی کیے گئے تھے یہ سب کچھ موسم کی شدت کے سبب کیا گیا۔

واضح رہے کہ صرف انٹر بورڈ کراچی کے تحت سالانہ امتحانات میں 2لاکھ 90ہزار جبکہ میٹرک کے امتحانات میں ساڑھے 3لاکھ طلبہ شریک ہو رہے ہیں لہٰذا صرف کراچی میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں شریک طلبہ کی تعداد تقریباً ساڑھے 6لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ پورے صوبے میں یہ تعداد 20لاکھ کے قریب ہے جو بدترین گرمی میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات دے رہے ہیں۔

تاہم سوال یہ ہے کہ کیا سندھ حکومت یا اس کا متعلقہ محکمہ اور وزارت پہلے سے اس موسمی شدت سے واقف نہیں تھے جبکہ محکمہ موسمیات کے تعاون سے آئندہ کئی ماہ تک کی موسم کی پیشگوئی حاصل کرکے اس تناظر میں فیصلہ کیا جا سکتا تھا تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور جب شدید گرمی میں امتحانات شروع ہوئے تو سندھ کے کئی شہروں سے دوران امتحانات بدترین گرمی، حبس اور اس میں امتحانی مراکز میں لوڈ شیدنگ کے سبب کئی طلباء و طالبات کی طبیعت بگڑنے اور بے ہوش ہونے کے واقعات رونما ہوئے۔

واضح رہے کہ وفاقی وزارت تعلیم نے رواں سال 6مارچ 2024 کو ایک خط کے ذریعے حکومت سندھ کے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ سندھ وفاق کی ہی ایک اکائی ہے، تمام صوبوں کے چیئرمینز یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ امتحانات جلد لیں گے لہٰذا سندھ بھی اس فیصلہ پر عمل درآمد کرے۔ یہ فیصلہ آئی بی سی سی میں ہوا تھا اور 12دسمبر 2023 کو منعقدہ بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس میں بھی اس فیصلے کی توثیق کی گئی تھی۔

ادھر آئی بی سی سی کے سیکریٹری ڈاکٹرغلام علی ملاح سے جب "ایکسپریس" نے اس سلسلے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ''یہ آئی بی سی سی کا فیصلہ تھا جس میں دیگر صوبوں کی طرح سندھ کے تعلیمی بورڈز کے چیئرمینز بھی شامل تھے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سندھ میں امتحانات کی تاریخوں کا فیصلہ اسٹیئرنگ کمیٹی کرتی ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ کورس پورا نہیں ہوا لہٰذا بہتر موسم میں امتحانات لینا ممکن نہیں اور امتحانات شدید موسم میں چلے جاتے ہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ ابھی سے ایسا پلان کریں گے مارچ میں امتحان لے آئیں، اپریل کے آخر میں امتحانات ختم ہو جائیں ورنہ وہی ہوگا جو ابھی ہو رہا ہے، اس سے دو بڑے نقصان ہوتے ہیں ایک طلبہ شدید گرمی کی اذیت میں پرچے دیتے ہیں دوسرے کئی ایسی جامعات ہیں جہاں داخلے ہو جاتے ہیں اور طلبہ محروم رہتے ہیں۔

ایک سوال پر ڈاکٹر ملاح کا کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر سندھ حکومت سے سفارش کرتا ہوں کہ امتحانات مارچ میں لے آئیں، آئی بی سی سی فورم کی سفارشات اور وفاقی وزارت تعلیم کے خط کو آنر دیں اس میں سندھ کے بچوں کی بھلائی ہے، سندھ کے بچے میرے بچے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ باقی تینوں صوبوں اور آزاد جموں کشمیر بورڈ نے میٹرک اور انٹر کے سالانہ امتحانات بہتر موسم میں کرانے کی کوشش کی ہے۔''

واضح رہے کہ سندھ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے تعلیمی سیشن یکم اپریل سے ہی شروع ہوتا تھا تاہم کوویڈ 19کے سبب یہ سیشن سن 2020 میں اگست میں چلا گیا اور 2023 تک سیشن یکم اگست سے ہی شروع ہوتا رہا تاہم سیشن اگست سے شروع ہونے کے باعث تمام ہی کلاسز کے سالانہ امتحانات تاخیر کا شکار ہونے لگے جبکہ دوسری جانب جب پرائمری اور ایلیمنٹری کلاسز کے بچے سیشن ختم ہونے کے بعد موسم گرما کی تعطیلات کے لیے گھروں پر ہوتے ہیں تو ان کے پاس موسم گرما کی تعطیلات کا کوئی ہوم ورک ہی نہیں ہوتا کیونکہ سیشن شروع نہ ہونے کے باعث تدریسی سلسلے کا آغاز بھی نہیں ہو پاتا ہے۔

اس بار ابتداء میں محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ سیشن کو واپس اس کے وقت پر لایا جائے اور اس کے لیے 15اپریل کی تاریخ طے بھی کر دی گئی اور باقاعدہ اجلاس کی روداد کی منظوری تک دے دی گئی تاہم اسی دوران اچانک محکمہ تعلیم کے علم میں یہ بات آئی کہ اپریل کے سیشن میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ درسی کتب تو چھاپنے کی پوزیشن میں ہے ہی نہیں کیونکہ کتابوں کی چھپائی کا ٹینڈر کئی بار منسوخ کیا جا چکا ہے اور اپریل میں سیشن شروع ہونے کی صورت میں کتابیں نہیں آسکیں گے لہٰذا سیشن کو ایک بار پھر تبدیل کرکے یکم اگست سے شروع کرنے کا اعلان اور نوٹیفکیشن سامنے آیا جس سے خدشہ ہے کہ آئندہ برس 2025کے سالانہ امتحانات بھی سال رواں کی طرز پر شدید گرمی میں ہی جائیں گے۔

اس صورتحال پر جب ''ایکسپریس ' نے ممتاز ماہر تعلیم اور ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ حیدرآباد کے سابق چیئرمین ڈاکٹر محمد میمن سے جب سندھ میں تعلیمی کلینڈر اور موسم کی عدم مطابقت کے حوالے سے ان کی رائے جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ''جس زمانے میں وہ حیدرآباد بورڈ کے چیئرمین تھے اور قاضی شاہد پرویز سیکریٹری ایجوکیشن تھے اس وقت اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں میٹرولوجی ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر کو بھی بلایا گیا تھا۔ مذکورہ افسر نے واضح طور پر بتایا تھا کہ سندھ میں سردیوں کا زور دسمبر سے زیادہ جنوری میں ریکارڈ کیا جا رہا ہے اس حوالے سے اعداد و شمار بھی شیئر کیے گئے تاہم کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا، اب اسی طرح کے مسائل میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں سامنے آرہے ہیں، امتحانات ایک سیریس بزنس ہے جسے ہم سمجھنے کو تیار نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ''آئی بی سی سی نے بھی کئی بار کوشش کی کہ ملک کا تعلیمی کلینڈر ایک ہو جائے، میٹرک اور انٹر کے امتحانات مارچ اور اپریل میں لینا بھی ایک آئیڈیل ہے کیونکہ اس وقت موسم بہتر ہوتا ہے پھر بورڈ بھی نتائج مرتب کرنے میں وقت لیتے ہیں اس اثنا میں جامعات اپنے داخلے شروع کر دیتی ہیں، طلبہ پریشان رہتے ہیں ہمیں اب اس معاملے کو آئندہ برسوں کے لیے فکس کرنا ہوگا۔ اس سال بھی سندھ میں کوشش کی گئی کہ سیشن اپریل میں لے آئیں لیکن عین وقت پر معلوم ہوا کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی تیاری نہیں ہے کتابیں نہیں آسکیں گی جس کی وجہ سے فیصلہ واپس ہوگیا۔''

اس سلسلے میں ''ایکسپریس'' نے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کے سیکریٹری عباس بلوچ سے کئی بار رابطے کی کوشش کی اور ان سے واٹس ایپ کے ذریعے یہ سوال تک پوچھا کہ سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات کا شیڈول موسم سے مطابقت نہیں رکھتا جس سے صوبے کے طلبہ متاثر ہوتے ہیں لہٰذا ان کا محکمہ اس معاملے کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور وہ مسلسل رابطے سے گریز ہی کرتے رہے۔

ادھر ایک چیئرمین بورڈ کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ''سندھ میں امتحانات کی تاریخوں کا تعین محکمہ تعلیم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں ہوتا ہے جسے عام طور پر وزیر تعلیم سندھ چیئر کرتے ہیں جبکہ تینوں متعلقہ سیکریٹریز (اسکول، کالج اور یونیورسٹیز اینڈ بورڈز) اس میں موجود ہوتے ہیں۔ چیئرمین بورڈ جس شیڈول کو ڈیزائن کرکے اس اجلاس میں لے جاتے ہیں اکثر اس کے برعکس ہی طے ہوتا ہے کیونکہ اجلاس میں کہا جاتا ہے کہ ابھی تو اسکولوں میں نصاب مکمل ہی نہیں ہے آپ اتنی جلدی امتحانات کیسے لے لیں گے اور ہمارے کچھ بھی کہنے کے باوجود ہمارے آواز کو دبا دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے، بدترین گرمی میں شدید لوڈ شیڈنگ میں ہمارے طلبہ امتحانات دیتے ہیں پھر پرچے منسوخ کرنے پڑتے ہیں۔''

واضح رہے کہ گرمی کی طرح سردی میں بھی حالات کچھ اسی طرح کے ہوتے ہیں موسم سرما کی تعطیلات 22دسمبر سے 31دسمبر تک دی جاتی ہیں لیکن محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار اس بات کے گواہ ہیں کہ سندھ اور بالخصوص کراچی میں سردی کی لہر جنوری میں آتی ہے جب بچے ٹھٹہرتے ہوئے اسکول جاتے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کراچی میں دسمبر کے دوران درجہ حرارت 10ڈگری کے آس پاس رہتا ہے کہ جبکہ جنوری میں یہ درجہ حرارت 6ڈگری تک گرتا ہے تاہم حکومت اس موسمی تبدیلی کے ادراک کو بھی تیار نہیں۔

اس سلسلے میں سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سندھ زاہد عباسی سے بھی رابطہ کیا گیا اور ان کو بھی موسمی تغیرات اور تعلیمی سیشن کے حوالے سے سوالات بھیجے گئے تاہم ان کی جانب سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
Load Next Story