ہائے گرمی اور ملکی سیاست
1۔سڑکوں پر بے تحاشہ گاڑیوں کاآجانا جونہ صرف ٹریفک نظام میں خلل کا موجب بنتاہے
الحمدللہ! ہم نے عیسوی سال 2014 کا نیا سورج جنوری کے خوشگوارموسم ''بہار'' میں طلوع ہوتے ہوئے دیکھا اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ یہ نیا سال خوشیوں اور برکتوں جیسی رحمتیں لائے ۔ اس موسم میں خوب لطف اندوز ہونے کا شرف بھی ہم کو ملا جن حضرات کے پاس مالی وسائل تھے وہ ملک کے دوسرے علاقوں کے موسم سے لطف اندوز ہوکر واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئے اور جن کے پاس مالی وسائل بہتات میں تھے وہ بیرون ملک کی طرف سدھارگئے۔ بلاشبہ مالی وسائل آپ کی طرز زندگی میں تبدیلی لانے میں اہم کردار اداکرتے ہیں ۔
اس ملک کا غریب انسان جس کو پیٹ بھرکر تین وقت کی روٹی ہی مل جائے وہ صبر شکرکرکے سو جاتا ہے اور اگلے دن کے لیے حصول رزق کی تلاش میں نکل جاتا ہے اور جس کے پاس مالی وسائل کی شدید قلت ہو ظاہرہے اس کی زندگی اندھیر ہے مشہورکہاوت ہے کہ ''جتنا گڑ ڈالو گے اتنی ہی مٹھاس آئے گی ۔'' موسمیات کا کھیل منجانب اللہ کی ذات ہے اس میں کسی قسم کا انسانی عمل دخل نہیں ۔ فضاء میں گرم تپتی ہوئی لوح اورہوا کی بندش نے عام آدمی کی زندگی مشکل کردی ہے ۔ ادھر لوڈشیڈنگ کا طویل سلسلہ جو تھم کرہی نہیں دے رہا ۔ بجلی کی بندش پانی کی فراہمی میں رکاوٹ کا سب سے بڑا سبب ہے اور پانی کے بغیر انسان کی زندگی بے معنی ہے ۔ بجلی اگر ہے تو وولٹیج کی قلت جس سے گھروں میں استعمال ہونے والے بجلی کے آلات کے خراب ہونے کاخدشہ لاحق رہتا ہے ۔ گزشتہ کئی عرصے سے گرمی کی حدت میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس میں مزید تیزی آنے کے امکانات بھی ہیں ۔ مفکرین کے خیال میں اس کی چارنمایاں وجوہات ہوسکتی ہے ۔
1۔سڑکوں پر بے تحاشہ گاڑیوں کاآجانا جونہ صرف ٹریفک نظام میں خلل کا موجب بنتاہے بلکہ ان گاڑیوں سے خارج ہونے والازہریلا دھواں ہی انسانی صحت کے لیے مضر ہوتاہے اور فضا میں گرمی کا سبب بھی ۔
2۔گرمی کے موسم میں چونکہ ائیرکنڈیشن کے استعمال میں زیادتی کی وجہ سے خارج ہونے والی گرم ہوا بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے ۔
3 -بلوچستان کے پہاڑی علاقے چاغی میں ہونے والے ایٹمی تجربے میں استعمال ہونے والی یورینیم دھات کے ذخیر ے کے تابکاری اثرات خطہ کوگرم رکھنے میں بھی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔
4۔ملک میں بجلی کے شارٹ فال کی وجہ سے مصنوعی بجلی پیداکرنے والے بھاری وولٹیج کے جنریٹر سے نکلنے والادھواں بھی گرمی کی زیادتی کا سبب ہوسکتے ہیں ''بہرحال ہم کوئی سائنسدان نہیں ہم تو صرف مشاہدات اور تجزیات کا ہی سہارا لے سکتے ہیں ۔ درخت کے پتوں کی جنبش گرمی کی شدت کی گواہی دے رہے ہیں۔''
ان تمام وجوہات کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہاں گرمی انسان کے لیے باعث تکلیف ہے وہاں زرعی اجناس کی پیداوار میں باعث رحمت بھی ہے ۔پھلوں کا بادشاہ ''آم'' گرمی کا پھل ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ سخت گرمی معیاری آم کی پیداوار کے لیے مفید ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا آم کا کوالٹی ایکسپورٹر ہے اور حال ہی میں سندھ کے شہر میرپورخاص میں عالمی طرزکا مینگو فیسٹیول منعقد ہوا تھا ۔ قدرتی ذائقہ اور مٹھاس میں اس کاکوئی ثانی نہیں ۔ اتفاق سے رمضان کا مقدس مہینہ اسی گرمی میں آ رہا ہے ۔روزہ میں پیاس کا لگنا فطری بات ہے وہ بھی شدید گرمی میں لیکن اللہ تعالیٰ کی پاک ذات اپنی نسل انسانی کے لیے قطعا ظالم نہیں ہے وہ روزہ کی حالت میں انسان میں صبر وقناعت پیدا کر دیتا ہے ۔
موسم اپنے مقررہ وقت پرآتے ہیں اور اپنے ہی وقت پر رخصت ہوجاتے ہیں ۔یہ ہے قدرت کاکھیل۔اس کے برعکس ملک کی سیاست کا موسم اور اس میں ہونے والے کھیل تماشے قوم کے مستقبل کی نوید سناتے ہیں ۔طویل عرصے سے ملکی حالات بد سے بدترہوتے چلے جا رہے ہیں یکے بعد دیگرے مختلف حادثات واقعات کا وقوع پذیرہونا ہمارے لیے کسی المیے سے کم نہیں اور اس میں ہمارامیڈیابھی ایک اہم کردار اداکررہاہے۔اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاؤس کے حساس علاقے میں ایک مسلح شخص کا ڈرامہ ، جنرل پرویزمشرف دبئی سے پاکستان کیا تشریف لائے مسلسل میڈیاکے پاس مرکزی موضوع بحث پرویزمشرف ہی رہے۔
حال ہی میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں تحریک منہاج القرآن کے کارکنان پر پولیس کا مسلح حملہ جس سے درجن سے زائد افراد کی ہلاکتیں اور بیشتر تعداد شدید زخمی ہوگئے۔ اس واقعے سے تحریک تو مشہور نہ ہوسکی مگرایک نیاشخصی کردار گلوبٹ شہرت پا گیا اورعوامی میڈیا پر ''گلوبٹ '' کے نام سے تذکرے شروع ہوگئے ۔ ہمیں لاہور ٹی وی سے نشر ہونے والے ٹی وی کے ایک مزاحیہ کردار گلو بادشاہ ہی یاد ہے۔قابل افسوس امریہ ہے کہ لاہور جیسے شہرمیں اس قسم کے اوچھے بدمعاشوں کا پولیس کی سرپرستی میں خوف وہراس پھیلانا اور ڈنڈے سے کھڑی گاڑیوں کے شیشے توڑنا ، قابل حیرت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی سیاسی جماعت بغیر غنڈوں، قاتلوں کے نہیں چل سکتی یہی پاکستان کی سیاست کی ایک بھیانک شکل ہے مگریہ غنڈے درپردہ اپنی جماعت کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں کسی بھی جگہ منظرعام پرآنے سے گریزکرتے ہیں ۔
اس خیال سے کہ ان کی بھی کوئی عزت اور رتبہ ہے ۔میرا تعلق لاہورکے قدیمی علاقے کرشن نگرجو اب بدل کر اسلام پورہ ہوچکا ہے ۔ مجھے یاد ہے ہمارے علاقے کا ایک بدمعاش جس کا نام وارث تھا اس میں ایک بہت بڑی کوالٹی یہ تھی کہ وہ شرفاء کی بے پناہ عزت کرتا تھا ۔ بہت اثرورسوخ کا مالک بھی تھا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ لاہور کے ایک سینما کا مالک بھی بن گیا ۔ میرا مشورہ ہے کہ اگر معیاری بدمعاشی کاکوئی طلبگار ہے تو اس کے کردار کو اپنائیں ۔ افسوس !وہ اب دنیامیں نہیں ہے ۔ امن وسکون کاگہوارہ لاہور تاریخی، علمی، تعلیمی ، اردو ادب کی خدمت ،اردوشعراء کا گڑھ اور سیاحت کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ یہ وہ شہر ہے جس کا پورے برصغیرمیں ڈنکا ہے ۔ کالج اور یونیورسٹیوں کا شہر، سول سروسز اکیڈمیاں اسی شہر لاہورمیں ہیں ۔ اسی شہر سے فارغ التحصیل طلباء کی ایک بڑی تعداد ملک کے اہم اورحساس انتظامی معاملات کی ذمے داریاں اٹھا رہے ہیں ۔ پاک افوا ج میں بھی اہم شعبوں میں خدمات انجام دینے والوں کا بھی تعلق اسی شہر لاہورسے ہے۔
مجھے یادہے کہ 1965کی پاک بھارت خون ریز جنگ میں یہاںکے بہادر اور غیورعوام نے پاک فوج کے شانہ بشانہ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔یہاں کا تعلیمی معیارملک کے دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ موثر ہے۔ گلوبٹ کے کردار نے لاہور کی عظمت اور نام کو بری طرح پامال کیا ہے جس کی ذمے دار وہاں کی صوبائی حکومت اور اس کا پولیس کا محکمہ ہے ۔ اسی لیے مہدی حسن لاہور کے بارے میں گنگناگئے ۔
خطۂ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام
شہریوں کو، غازیوں کو،شہسواروں کو سلام