آئی ایم ایف ، سخت فیصلے اور عوام

ایڈیٹوریل  بدھ 10 جولائی 2024
(فوٹو: فائل)

(فوٹو: فائل)

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری تھی، تلخ اور کڑوے فیصلے نہ کیے تو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ ملک کی بہتری کے لیے سخت فیصلے کر رہے ہیں۔ کوئٹہ میں کسان پیکیج کے دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاق بلوچستان سے مل کر صوبے کے تمام 28 ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرے گا، ہم قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں، سولر منصوبے کے لیے ہم صوبوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور کسانوں کو بینکوں سے قرضے بھی دلوائیں گے۔

بلاشبہ سولر ٹیوب ویلز زراعت کے شعبے کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔یہ امر خوش آیند ہے کہ وفاق اور صوبہ بلوچستان کی حکومتیںترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کویقینی بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کا ارادہ اور عزم ظاہر کررہی ہیں۔

یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بلوچستان کے عوام کی فلاح و بہبود حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ سولر پینلز لگانے سے صوبے کو اربوں روپے کی بچت ہو گی۔بلوچستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ زیر زمین چار فیصد پانی کے ذخائر کو نچوڑا جا رہا ہے لیکن صوبے میں بارشوں کے چھیانوے فیصد پانی کو محفوظ بنانے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔ بارشوں کے پانی کو جمع کرنابھی اس علاقے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔

یہ بات سچ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے لیکن پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ناگزیر تھا،آئی ایم ایف نے 10جولائی سے قبل بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے کا تقاضہ کیا تھا جس کو پورے کرتے ہوئے بجلی کے نرخ بڑھا دیے گئے ہیں۔عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ یکم جولائی سے پیشگی اقدامات کے تحت نرخوں میں اضافے پر عملدرآمد کیا جائے۔ نئے مالی سال میں گیس کے ریٹ بڑھا کر سبسڈی کنٹرول کی جائے اور نئے قرض پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پر عملدرآمد کیا جائے۔

آئی ایم ایف کے وفد کاجولائی کے دوسرے ہفتے میں پاکستان آنے کا امکان ہے، آئی ایم ایف نے بجٹ کو سراہا ہے اور مشکل معاشی فیصلے معیشت کے لیے ضروری قرار دیے ہیں۔قومی بجٹ آئی ایم ایف کی مشاورت سے بنایا گیا۔ آئی ایم ایف نے قرض دینے کے لیے جو شرائط رکھیں انھیں تسلیم کرنا پڑا،عوام نے بھی اسے کڑوا گھونٹ سمجھ لیا۔مگر ابھی بجٹ کو منظور ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ بجلی کے ریٹ بڑھا دیے گئے او گیس کے نرخوں میں مزید اضافے کی نوید سنائی جارہی ہے۔

شدید گرمی میں بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ادھر صارفین کی شکایت ہے کہ بجلی کے بل استعمال سے کہیں زیادہ آ جاتے ہیں۔گیس کی بات کی جائے تو اس کی قیمتوں میں ڈیڑھ دو سال کے دوران کئی فیصد نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔

پانی کے نرخ بھی تین گنا بڑھائے جا چکے ہیں۔پاکستان کو اپنے وسائل پر انحصار کر کے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنا چاہیے، پاکستان کی معیشت اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے، فارن ایکسچینج کا شدید مسئلہ درپیش ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی مسئلہ بنا ہوا ہے، ایک درآمدی ملک ہونے کے سبب بھی افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔

آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باعث بھی مہنگائی تیزی سے اوپر جارہی ہے، بجلی اور پٹرول کے بلند نرخوں نے پاکستانیوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، جس مزید اضافہ کے خدشات موجود ہیں، پاکستان ان مشکلات سے کیسے نکل سکتا ہے، حکومت کو کیا بنیادی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے ۔دوسری طرف رائے ہے کہ آئی ایم ایف ہی ہماری مشکلات کی وجہ ہے،اس کی شرائط سے ہم خود انحصاری کی طرف نہیں جاپارہے،ہمارا قرض کم کے بجائے بڑھ رہا۔قرضوں کے گرداب میں پھنس کر رہ گئے ہیں، ہمیں اب کڑی شرائط کے ساتھ جو قرض ملتا ہے وہ رقم بھی ہم پچھلے قرض کی ادائیگی کے لیے لے رہے ہیں۔یہ حالات کیوں خراب ہوتے ہیں۔

اس کے ذمے داری حکمراں شرافیہ پر ہے، حکمران اشرافیہ سے مراد وہ لوگ جو حکومتی فیصلہ سازی کا کردار ہیں۔ان میں بیوروکریسی، کاروباری،جاگیر داراوردیگر سرکاری مشینری ، آسان الفاظ میں طاقتور بااختیار افراد۔یہ طبقے پورا ٹیکس نہیں دیتے اور نہ پورا ٹیکس جمع کرتے ہیں۔ ٹیکس نظام میں کئی خرابیاں ہیں،جوٹیکس کولیکشن میں بہتری لانے کے لیے مدد گار نہیں ہیں۔ پاکستان معیشت میں خرابی کی بڑی بنیادی وجہ ہماری آمدنی میں کمی (lack of revenue)ہے۔

اسے ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کہہ سکتے ہیں۔ ابھی شاید9.2،سے9.5 فیصد ہے ایک زمانے میں14 یا 15 فیصد کہتے ہیں لیکن وہ بھی بہت کم تھا۔حالانکہ ہر پاکستانی ٹیکس دیتا ہے،ایس ایم ایس سے لے کر پانی کی بوتل تک پر۔ روزمرہ معمول کی کئی چیزوں پر ہم سب ٹیکس دے رہے ہیں۔لیکن جو انکم ٹیکس ہے وہ چوبیس کروڑ میں سے صرف ایک سے دوفیصد لوگ دیتے ہیں۔دو فیصد پاکستانی ہی یہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس میں بھی زیادہ تر وہ جن سے جبراً ٹیکس وصولی ہوتی ہے۔جیسے تنخواہ دار طبقہ،ان کی ٹیکس کٹوتی تنخواہ ملنے سے پہلے ہوجاتی ہے، ہم میں کوئی رضاکارانہ ٹیکس دینے کی ذمے داری ادا نہیں کررہا۔

عالمی بینک کے مطابق اندازاً ہم سے صرف 20فیصد ریونیو جمع ہوتا ہے اوراخراجات کئی گنازیادہ ہیں۔ جب ملک کے پاس آمدنی نہیں ہوگی تو ریاست کام کیسے کرے گی۔ بنیادی ضرورت کے ترقیاتی کام کیسے ہوں گے تعلیمی ادارے، اسپتال،پانی،بجلی،سڑکیں جن کی ہمیں ضرورت رہتی ہے۔ ان بنیادی منصوبوں کی تکمیل قرضوں کے سوا دوسرا راستہ نہیں بچتا۔ قرض لینا کوئی بری بات نہیں ہے، سب لیتے ہیں پھر واپس بھی کیا جاتا ہے، لیکن اگر ہم قرض لے کر اسے اس مد میں یا ٹھیک جگہ خرچ نہیں کریں گے۔تو منصوبہ بھی کھٹائی میں اور قرض میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پھراعتماد کے مسائل جنم لیتے ہیں، ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے۔

سعودی عرب سمیت تمام دوست ممالک سے اچھی اطلاعات کے باوجود پاکستان کو مزیدرقم کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی عالمی اور مقامی فنانشل ذمے داریاں پوری کرسکے۔حکومت کو سخت مالیاتی ڈسپلن قائم کرنا ہوگا، اپنے غیر ضروری اخراجات میں کمی کرنا ہوگی۔ ارکان اسمبلی کو اس سلسلے میں اپنی تنخواہیں اور مراعات کو کم ازکم ایک دو برس کے لیے ختم کردینا چاہیے۔آئی ایم ایف سے معاملات طے ہو گئے تو پھر بھی مہنگائی کا طوفان اٹھے گا۔ حکومت کو اس کی پیش بندی کرنی چاہیے۔ملک کے جاگیرداروں، گدی نشینوں، قبائلی سرداروں سے ان کے لائف اسٹائل کے حوالے سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ملک میں جو بڑے بڑے فلاحی ادارے چل رہے ہیں، ان کے حسابات کا آڈٹ کرایا جائے۔ عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایسا کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان کے مالی مسائل کی ایک بڑی وجہ وہ بڑے بڑے سرکاری ادارے ہیں جن کی پیداوار کے مقابلے میں ان کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز، پاکستان ریلویز اور پاکستان انٹرنیشل ائیر لائنز کا نام تو اکثر سامنے آتا ہے کہ ان کی وجہ سے پاکستان کو کتنے سو ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس طرح کے سرکاری ادارے اور بھی ہیں جن کا نام میڈیا کی زینت نہیں بنتا۔ آئی ایم ایف کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ حکومتیں ان سرکاری اداروں کے نقصان کو کم کرے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ کے نتیجے میں ان میں سے بعض اداروں کی کارکردگی کچھ بہتر ہوئی ہے لیکن بہت سا کام ابھی باقی ہے۔

تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان میں انتظامی اخراجات بہت زیادہ ہیں جنھیں آئی ایم ایف کم کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ اسے کفایت شعاری بھی کہا جا سکتا ہے۔ غیر ترقیاتی یا انتظامی اخراجات میں کمی سے نہ صرف قومی خزانے کی بچت ہوتی ہے بلکہ عوام میں بھی ایک طرح سے بچت کا پیغام جاتا ہے۔ پاکستان درآمدات پر انحصار کرنے والا ملک ہے۔ اس لیے مہنگائی اور ڈالر ریٹ کا بہت گہرا تعلق ہے۔ ڈالر ریٹ فوری طور پر بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ ڈالر ریٹ مزید نہیں بڑھنا چاہیے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی ماہ سے ڈالر ریٹ میں زیادہ اتار چڑھاؤ نہیں آیا۔ اگر ڈالر ریٹ مستحکم رہا تو آئی ایم ایف کے نئے معاہدے سے مہنگائی میں شاید اتنا اضافہ نہیں ہو گا جتنا ماضی میں دیکھنے کو ملا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔