توہین عدالت کے قانون کا یکساں نفاذ
پاکستان کی عدلیہ کو آپس میں بیٹھ کر توہین عدالت کے حوالہ سے ایک یکساں پالیسی بنانی ہوگی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فل کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مہم چلانے پر تین صحافیوں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت دنوں سے یہ منفی مہم یا خبر زیر گردش تھی۔ اس کا نوٹس لیتے ہوئے اسلام آبادہائی کورٹ نے ایک فل کورٹ تشکیل دیا ، توہین عدالت کے نوٹس دینے کے بعد سماعت گرمیوں کی چھٹیوں تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ اب آگے کیا ہوگا، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔کیونکہ معاملہ معزز عدالت کے روبرو ہے، وہی اس پر فیصلہ دے سکتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ کے جناب جسٹس اطہر من اللہ کے بارے میں ایک پریس کانفرنس کرنے پر اراکین پارلیمنٹ فیصل وواڈا اور مصطفی کمال کو بھی توہین عدالت کے نوٹس جاری ہوئے تھا۔ دونوں ارکان پارلیمنٹ نے دو سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی اور سپریم کورٹ نے ان کی معافی قبول کر لی تاہم دوران سماعت اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کی توجہ تحریک انصاف کے ترجمان کی چیف جسٹس پاکستان کے خلاف منفی مہم کی جانب دلوائی اور درخواست کی کہ یکساں نظام انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کے خلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی کریں، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے جواب دیا کہ وہ اپنی ذات پر تنقید پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرتے۔ انھیں تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ پاکستان کا جیوڈیشل سسٹم کی بنیاد یکساں نظام انصاف کے سنہری اصول پر قائم ہے۔ امیر کو غریب پر،اہم کو غیر اہم پر، مقبول کو غیر مقبول پر کوئی ترجیح حاصل نہیں ہے۔ یکساں نظام انصاف کے اصول کے تحت ملک کے تمام شہریوں کو یکساں انصاف ملنا چاہیے۔ کسی کو غیر معمولی انصاف نہیں مل سکتا۔ ایک کیس غیر معمولی رفتار سے سنا جائے جب کہ دیگر مقدمات میں سست روی اور تاریخ پر تاریخ دی جائے، تو یہ بھی یکسان انصاف کے خلاف ہے ۔ بھی نظام عدل کے اصول پر پورا نہیں اترتا۔ سب کو ایک جیسا انصاف دینا ہی نظام انصاف کی بنیاد ہے۔ اسی تناظر میں یہ لازم ہے کہ توہین عدالت کے حوالے سے یکساں پالیسی ہو۔ ایک سیاسی جماعت ججز کے خلاف مہم چلائے تو وہ کارروائی سے بچی رہے جب کہ دوسری طرف اگر ایک بیان بھی سامنے آ جائے تو توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو جائے، میں سمجھتا ہوں یہ درست نہیں۔
پاکستان کی عدلیہ کو آپس میں بیٹھ کر توہین عدالت کے حوالہ سے ایک یکساں پالیسی بنانی ہوگی۔اس سے پہلے بانی تحریک انصاف کو بھی توہین عدالت کے مقدمات میں کافی دفعہ معافی مل چکی ہے۔لیکن مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو توہین عدالت میں سزائیں ملی ہیں۔ کسی کو معافی اور کسی کو سزا، اس حوالے سے بھی حدود قیود ہونی چاہیے ، یا تو سب کو معافی مل جانی چاہیے یا سب کو سزا ملنی چاہیے۔ اس حوالے سے یکساں پالیسی ناگزیر ہے۔ کئی سنئیر جج صاحبان متعدد سماعتوں کے دوران یہ ریمارکس بھی دے چکے ہیں کہ وہ توہین عدالت کے قانون کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اب جدید دور میں ایسے قانون کی کوئی گنجائش نہیں، ججز کو تنقید برداشت کرنی چاہیے لیکن پھر کسی موقع پر تنقید کو سنجیدہ بھی لے لیا جاتا ہے۔ اب یہ طے کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ کونسی تنقید قابل قبول ہے اور کونسی تنقید ناقابل قبول ہے۔
مثبت اور منفی تنقید کی بھی کوئی واضح تعریف موجود نہیں ہے۔ آپ کسی بھی تنقید کو مثبت اور کسی کو بھی منفی قرار دے سکتے ہیں۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ ججز کے فیصلوں پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ لیکن ججز کی ذات پر تنقید نہیں کر سکتے۔لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ججز پر ذاتی حوالے سے منفی تنقید کی جا رہی ہے۔ ملک کا سیاسی اور گروہی درجہ حرارت بہت بڑھ گیا گیا۔ ایسا ماحول بن گیا ہے کہ ہم سب اس کا شکار بن گئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ، حکومت ،عدلیہ اور سیاست تنقید و الزامات سے کون محفوظ ہے۔ ایسا ماحول اور فضا نہیں ہونی چاہیے۔ اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔
عدلیہ میں احتساب کا نظام موثر اور متحرک نہیں ہوسکا۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ سپریم جیوڈیشل کونسل کے قواعد و ضوابط بروقت جلد اور نتیجہ خیز کارروائی کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد کافی عرصہ شنوائی نہیں ہوتی۔ اب تو دھڑے بندیوں کی باتیں خواص سے نکل کر عوام تک پہنچ گئی ہیں، کسی محترم جج پر کسی بھی قسم کا الزام کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ جج نے سب کو انصاف دینا ہے۔
اس لیے میری رائے میں سپریم جیوڈیشل کونسل میں اگر کوئی شکایت آئے تو اس کی بروقت سنوائی ہونی چاہیے، تحقیقات ہونی چاہیے، اس کی روشنی میں فیصلہ ہونا چاہیے، اگر ایسا ہو جائے تو سب کے منہ بند ہو جائیں گے۔ تحقیقات میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ شکایت جھوٹی ہے یا سچی اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ اس کو سرد خانے میں ڈالنا کوئی اچھی حکمت عملی نہیں۔ اس سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اگر الزام یا شکایت جھوٹی ثابت ہو تو الزام لگانے اور شکایت دائر کرنے والے کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے، وہ چاہیے کتنا ہی طاقتور ہو۔
کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ کے جناب جسٹس اطہر من اللہ کے بارے میں ایک پریس کانفرنس کرنے پر اراکین پارلیمنٹ فیصل وواڈا اور مصطفی کمال کو بھی توہین عدالت کے نوٹس جاری ہوئے تھا۔ دونوں ارکان پارلیمنٹ نے دو سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی اور سپریم کورٹ نے ان کی معافی قبول کر لی تاہم دوران سماعت اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کی توجہ تحریک انصاف کے ترجمان کی چیف جسٹس پاکستان کے خلاف منفی مہم کی جانب دلوائی اور درخواست کی کہ یکساں نظام انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کے خلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی کریں، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے جواب دیا کہ وہ اپنی ذات پر تنقید پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرتے۔ انھیں تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ پاکستان کا جیوڈیشل سسٹم کی بنیاد یکساں نظام انصاف کے سنہری اصول پر قائم ہے۔ امیر کو غریب پر،اہم کو غیر اہم پر، مقبول کو غیر مقبول پر کوئی ترجیح حاصل نہیں ہے۔ یکساں نظام انصاف کے اصول کے تحت ملک کے تمام شہریوں کو یکساں انصاف ملنا چاہیے۔ کسی کو غیر معمولی انصاف نہیں مل سکتا۔ ایک کیس غیر معمولی رفتار سے سنا جائے جب کہ دیگر مقدمات میں سست روی اور تاریخ پر تاریخ دی جائے، تو یہ بھی یکسان انصاف کے خلاف ہے ۔ بھی نظام عدل کے اصول پر پورا نہیں اترتا۔ سب کو ایک جیسا انصاف دینا ہی نظام انصاف کی بنیاد ہے۔ اسی تناظر میں یہ لازم ہے کہ توہین عدالت کے حوالے سے یکساں پالیسی ہو۔ ایک سیاسی جماعت ججز کے خلاف مہم چلائے تو وہ کارروائی سے بچی رہے جب کہ دوسری طرف اگر ایک بیان بھی سامنے آ جائے تو توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو جائے، میں سمجھتا ہوں یہ درست نہیں۔
پاکستان کی عدلیہ کو آپس میں بیٹھ کر توہین عدالت کے حوالہ سے ایک یکساں پالیسی بنانی ہوگی۔اس سے پہلے بانی تحریک انصاف کو بھی توہین عدالت کے مقدمات میں کافی دفعہ معافی مل چکی ہے۔لیکن مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو توہین عدالت میں سزائیں ملی ہیں۔ کسی کو معافی اور کسی کو سزا، اس حوالے سے بھی حدود قیود ہونی چاہیے ، یا تو سب کو معافی مل جانی چاہیے یا سب کو سزا ملنی چاہیے۔ اس حوالے سے یکساں پالیسی ناگزیر ہے۔ کئی سنئیر جج صاحبان متعدد سماعتوں کے دوران یہ ریمارکس بھی دے چکے ہیں کہ وہ توہین عدالت کے قانون کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اب جدید دور میں ایسے قانون کی کوئی گنجائش نہیں، ججز کو تنقید برداشت کرنی چاہیے لیکن پھر کسی موقع پر تنقید کو سنجیدہ بھی لے لیا جاتا ہے۔ اب یہ طے کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ کونسی تنقید قابل قبول ہے اور کونسی تنقید ناقابل قبول ہے۔
مثبت اور منفی تنقید کی بھی کوئی واضح تعریف موجود نہیں ہے۔ آپ کسی بھی تنقید کو مثبت اور کسی کو بھی منفی قرار دے سکتے ہیں۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ ججز کے فیصلوں پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ لیکن ججز کی ذات پر تنقید نہیں کر سکتے۔لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ججز پر ذاتی حوالے سے منفی تنقید کی جا رہی ہے۔ ملک کا سیاسی اور گروہی درجہ حرارت بہت بڑھ گیا گیا۔ ایسا ماحول بن گیا ہے کہ ہم سب اس کا شکار بن گئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ، حکومت ،عدلیہ اور سیاست تنقید و الزامات سے کون محفوظ ہے۔ ایسا ماحول اور فضا نہیں ہونی چاہیے۔ اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔
عدلیہ میں احتساب کا نظام موثر اور متحرک نہیں ہوسکا۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ سپریم جیوڈیشل کونسل کے قواعد و ضوابط بروقت جلد اور نتیجہ خیز کارروائی کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد کافی عرصہ شنوائی نہیں ہوتی۔ اب تو دھڑے بندیوں کی باتیں خواص سے نکل کر عوام تک پہنچ گئی ہیں، کسی محترم جج پر کسی بھی قسم کا الزام کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ جج نے سب کو انصاف دینا ہے۔
اس لیے میری رائے میں سپریم جیوڈیشل کونسل میں اگر کوئی شکایت آئے تو اس کی بروقت سنوائی ہونی چاہیے، تحقیقات ہونی چاہیے، اس کی روشنی میں فیصلہ ہونا چاہیے، اگر ایسا ہو جائے تو سب کے منہ بند ہو جائیں گے۔ تحقیقات میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ شکایت جھوٹی ہے یا سچی اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ اس کو سرد خانے میں ڈالنا کوئی اچھی حکمت عملی نہیں۔ اس سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اگر الزام یا شکایت جھوٹی ثابت ہو تو الزام لگانے اور شکایت دائر کرنے والے کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے، وہ چاہیے کتنا ہی طاقتور ہو۔