سوالات تو اٹھیں گے اور جوابدہ ہونا ہوگا
ہم داخلی محاذ ہو یا خارجی محاذ دونوں سطحوں پر سوالات سننے کے لیے تیار نہیں
پاکستان کے سیاسی ، جمہوری ، آئینی، قانونی ، انتظامی یا مجموعی طور پر ریاستی وحکومتی نظام پر مختلف نوعیت کی بنیاد پر سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ عالمی ادارے ، تھنک ٹینک، مالیاتی اور سماجی ادارے پاکستان کے حوالے سے رپورٹس جاری کرتے رہتے ہیں۔
ہمارے مختلف شعبوں کی عالمی درجہ بندی کرکے اعداد وشمارپیش کیے جاتے ہیں، یہ دراصل ہمارے نظام پر سوالات ہوتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے سوالات، تبصروں اور اعداد وشمار کو اپنے ملک کے خلاف ایک سازش کے طور پر دیکھتے ہیں جب کہ بعض لوگ اسے درست مانتے ہیں۔ آج کی گلوبل دنیا میں معلومات یا حالات کو چھپانا آسان نہیں رہا ۔ پاکستان کا نظام کیسے چل رہا ہے، گلوبل ولیج کے سب مکینوں کو پتہ ہے ۔
ہم داخلی محاذ ہو یا خارجی محاذ دونوں سطحوں پر سوالات سننے کے لیے تیار نہیں ۔جو بھی داخلی یا خارجی محاذ سے سوال کرتا ہے تو ہمیں اس میں سے ملک دشمنی یا ریاستی دشمنی کی بو کیوں آتی ہے ۔جب ہم داخلی محاذپر اٹھنے والے سوالات کا کسی کو بھی نہ جواب دے رہے ہیں اور نہ خود کو جوابدہ سمجھتے ہیں تو پھر داخلی محاذ کے ساتھ دنیا تو ہم پر سوالات اٹھائے گی ۔بیانیہ کی اس جنگ میں جب ہم خود اپنی تصویر کو دھندلی بنا کرپیش کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہماری تصویر دنیا میں کیونکر دھندلی نہیں ہوگی ۔
جمہوریت کے تصورات میں انسانی حقوق، سول سوسائٹی ، آزاد عدلیہ یا آزاد میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی سمیت آئین و قانون کی حکمرانی اور کمزور طبقات کے بنیادی حقوق کی ضمانت اور منصفانہ و شفافیت پر مبنی نظام حکومت اور انتخابات کی ساکھ ہوتی ہے ۔ہمیں واقعی بڑی گہرائی اور دیانت داری کے ساتھ ان بنیادی اصولوں کو بنیاد بناکر اپنی تجزیہ کرنا چاہیے کہ ہمارا ریاستی وحکومتی نظام ان اصولوں کی بنیاد پر کہاں کھڑا ہے۔جب ہم خود مسائل کا حل چاہتے ہیں نہ کوئی روڈ میپ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ دیگر ممالک کو دعوت دینا ہے کہ وہ ہم پر تنقید بھی کریں اور ہم پر سوالات کو بھی اٹھائیں کیونکہ ہم سدھرنے کے لیے تیار نہیں ۔
اصل میں ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ مل کر یا ان کے خیالات اورترقی کے ماڈل کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر ہم روائتی طور طریقوں، فرسودہ خیالات ، پرانی ڈگر یا مختلف معاملات میںموجود پس ماندگی سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ ترقی ہم نے یورپ کی بنیاد پرکرنی ہے اور رہنا سیاسی ، سماجی اور مذہبی پس ماندگی کی بنیاد پر ہے ۔ دنیا کی ترقی سے جڑے جو جدید حکمرانی کے تصورات ہیں ان کو ہم قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اسے اپنے خلاف ایک سازش سمجھتے ہیں ۔دنیا کے ساتھ کھڑے ہونے اور اپنے نظام میں ان کو بنیاد بنا کر تبدیلی پیدا کرنا ہمارا ایجنڈا نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ عالمی دنیا کے جدید نظاموں اور ہمارے روائتی نظاموں میں ایک بڑا ٹکراؤ بھی ہے اور ایک بڑی خلیج بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
پرامن ملک کے نعرے لگا کر انتہا پسندی ، پرتشدد رجحانات یا عملی طور پر دہشت گردی کو بنیاد بنا کر آگے کیسے بڑھاجاسکتا ہے ۔اداروں کی خود مختاری کے مقابلے میں افراد کی ذاتی خواہشات کو بنیاد بنا کر نظام کو چلانے کے عمل نے بھی ادارہ سازی کے عمل میں ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور شخصیات کے ذاتی مفادات تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ نئی نسل جو سوالات اٹھارہی ہے یا جو سخت ردعمل ریاستی و حکومتی نظام پر دے رہی ہے ہم اس کا جواب دینے کو تیار نہیں بلکہ ان کو دشمن کے ایجنڈے کے ساتھ جوڑ کردیکھا جارہا ہے ۔
یہ مسئلہ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا میںجتنے بھی غیر جمہوری یا آمرانہ مزاج کے ممالک ہیں وہ باہر سے اٹھنے والے سیاسی اور جمہوری سطح کے حقوق پرسوالات کو ایسے ہی تنقید یا سازش کے طور پر دیکھتے ہیں جیسے یہاں دیکھا جارہا ہے حالانکہ آج دنیا کا کونسا ملک ہے جو بڑے اور طاقت ور ممالک کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ سکتا ہے ۔اصولی طور پر ہم اپنا یہ پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ہم سے مجموعی طور پر غلطیاں ہورہی ہیں اور یہ غلطیاں لاشعوری نہیں بلکہ شعوری بنیادوں پر ہورہی ہیں کیونکہ ہم ریاستی نظام میں موجود لوگوں کا مقدمہ لڑنے کے بجائے اس ملک کے طاقت ور طبقات کا مقدمہ لڑرہے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں حکومتی نظام کا عام لوگوں سے رشتہ کمزور بھی ہوا اور خلیج بھی مسلسل بڑھ رہی ہے ۔عام لوگوں کی آوازوں کو یہاں کا حکومتی نظام سننے کے لیے تیار ہی نہیں اور ان کا ہر سطح پر سیاسی و معاشی استحصال کیا جارہا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ نئی نسل سمیت پرانی نسل میںبھی ریاستی نظام پر نہ صرف سوالات اٹھ رہے ہیں بلکہ ان میں غصہ اور ردعمل بھی سخت ہے ۔آج کی دنیا میں ہم ہرمحاذ پر نگرانی کے عمل سے گزر رہے ہیں اور جو خاص طور پر ہمیں پیسے دیتا ہے وہ ہماری نہ صرف بڑی نگرانی کرتا ہے بلکہ ہمیں دنیا میں جوابدہ بنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا ایجنڈا ڈکٹیٹ بھی کرتا ہے۔
اس لیے یہاں نہ تو کوئی انتخابات کی عملی ساکھ کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کی صورتحال سے خوش نظر آتا ہے ۔آزادی اظہار پر جو پابندیاں لگ رہی ہیں یا جو کچھ عدلیہ میں ایک بڑے دباؤ کی سیاست کا غلبہ ہے اسے صرف ہم ہی نہیں بلکہ عالمی دنیا بھی کھلی آنکھ سے دیکھ رہی ہے ۔
ہم دنیا سے نظریں چراسکتے ہیں مگر دنیا کا فریم ہمیں مسلسل دیکھ بھی رہا ہے اور ہماری کڑی نگرانی بھی کرتا ہے۔اس لیے باہر کی طاقتوں کو محض گالی د ے کر ہم خود کو نہیں بچاسکیں گے ۔ہمیں خودکو لوگوںکے سامنے بھی اور حکومتی نظام میںجوابدہ بنانا ہوگا اور ہم ان کو جوابدہ بناسکیں گے تو جوابدہی کا عمل اوپر سے نیچے تک آئے گا اور سب کو فکر ہوگی کہ ہمیں احتسابی عمل سے گزرنا پڑے گا۔جس ٹھاٹ باٹ سے ہم حکمرانی کررہے ہیں اور جس انداز سے ریاستی وسائل کو برباد کیا جارہا ہے یہ مزید سوالات پیدا کرے گا اورمزید نظام کو چیلنج بھی کرے گا۔
ہمارے مختلف شعبوں کی عالمی درجہ بندی کرکے اعداد وشمارپیش کیے جاتے ہیں، یہ دراصل ہمارے نظام پر سوالات ہوتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے سوالات، تبصروں اور اعداد وشمار کو اپنے ملک کے خلاف ایک سازش کے طور پر دیکھتے ہیں جب کہ بعض لوگ اسے درست مانتے ہیں۔ آج کی گلوبل دنیا میں معلومات یا حالات کو چھپانا آسان نہیں رہا ۔ پاکستان کا نظام کیسے چل رہا ہے، گلوبل ولیج کے سب مکینوں کو پتہ ہے ۔
ہم داخلی محاذ ہو یا خارجی محاذ دونوں سطحوں پر سوالات سننے کے لیے تیار نہیں ۔جو بھی داخلی یا خارجی محاذ سے سوال کرتا ہے تو ہمیں اس میں سے ملک دشمنی یا ریاستی دشمنی کی بو کیوں آتی ہے ۔جب ہم داخلی محاذپر اٹھنے والے سوالات کا کسی کو بھی نہ جواب دے رہے ہیں اور نہ خود کو جوابدہ سمجھتے ہیں تو پھر داخلی محاذ کے ساتھ دنیا تو ہم پر سوالات اٹھائے گی ۔بیانیہ کی اس جنگ میں جب ہم خود اپنی تصویر کو دھندلی بنا کرپیش کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہماری تصویر دنیا میں کیونکر دھندلی نہیں ہوگی ۔
جمہوریت کے تصورات میں انسانی حقوق، سول سوسائٹی ، آزاد عدلیہ یا آزاد میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی سمیت آئین و قانون کی حکمرانی اور کمزور طبقات کے بنیادی حقوق کی ضمانت اور منصفانہ و شفافیت پر مبنی نظام حکومت اور انتخابات کی ساکھ ہوتی ہے ۔ہمیں واقعی بڑی گہرائی اور دیانت داری کے ساتھ ان بنیادی اصولوں کو بنیاد بناکر اپنی تجزیہ کرنا چاہیے کہ ہمارا ریاستی وحکومتی نظام ان اصولوں کی بنیاد پر کہاں کھڑا ہے۔جب ہم خود مسائل کا حل چاہتے ہیں نہ کوئی روڈ میپ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ دیگر ممالک کو دعوت دینا ہے کہ وہ ہم پر تنقید بھی کریں اور ہم پر سوالات کو بھی اٹھائیں کیونکہ ہم سدھرنے کے لیے تیار نہیں ۔
اصل میں ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ مل کر یا ان کے خیالات اورترقی کے ماڈل کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر ہم روائتی طور طریقوں، فرسودہ خیالات ، پرانی ڈگر یا مختلف معاملات میںموجود پس ماندگی سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ ترقی ہم نے یورپ کی بنیاد پرکرنی ہے اور رہنا سیاسی ، سماجی اور مذہبی پس ماندگی کی بنیاد پر ہے ۔ دنیا کی ترقی سے جڑے جو جدید حکمرانی کے تصورات ہیں ان کو ہم قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اسے اپنے خلاف ایک سازش سمجھتے ہیں ۔دنیا کے ساتھ کھڑے ہونے اور اپنے نظام میں ان کو بنیاد بنا کر تبدیلی پیدا کرنا ہمارا ایجنڈا نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ عالمی دنیا کے جدید نظاموں اور ہمارے روائتی نظاموں میں ایک بڑا ٹکراؤ بھی ہے اور ایک بڑی خلیج بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
پرامن ملک کے نعرے لگا کر انتہا پسندی ، پرتشدد رجحانات یا عملی طور پر دہشت گردی کو بنیاد بنا کر آگے کیسے بڑھاجاسکتا ہے ۔اداروں کی خود مختاری کے مقابلے میں افراد کی ذاتی خواہشات کو بنیاد بنا کر نظام کو چلانے کے عمل نے بھی ادارہ سازی کے عمل میں ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور شخصیات کے ذاتی مفادات تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ نئی نسل جو سوالات اٹھارہی ہے یا جو سخت ردعمل ریاستی و حکومتی نظام پر دے رہی ہے ہم اس کا جواب دینے کو تیار نہیں بلکہ ان کو دشمن کے ایجنڈے کے ساتھ جوڑ کردیکھا جارہا ہے ۔
یہ مسئلہ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا میںجتنے بھی غیر جمہوری یا آمرانہ مزاج کے ممالک ہیں وہ باہر سے اٹھنے والے سیاسی اور جمہوری سطح کے حقوق پرسوالات کو ایسے ہی تنقید یا سازش کے طور پر دیکھتے ہیں جیسے یہاں دیکھا جارہا ہے حالانکہ آج دنیا کا کونسا ملک ہے جو بڑے اور طاقت ور ممالک کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ سکتا ہے ۔اصولی طور پر ہم اپنا یہ پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ہم سے مجموعی طور پر غلطیاں ہورہی ہیں اور یہ غلطیاں لاشعوری نہیں بلکہ شعوری بنیادوں پر ہورہی ہیں کیونکہ ہم ریاستی نظام میں موجود لوگوں کا مقدمہ لڑنے کے بجائے اس ملک کے طاقت ور طبقات کا مقدمہ لڑرہے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں حکومتی نظام کا عام لوگوں سے رشتہ کمزور بھی ہوا اور خلیج بھی مسلسل بڑھ رہی ہے ۔عام لوگوں کی آوازوں کو یہاں کا حکومتی نظام سننے کے لیے تیار ہی نہیں اور ان کا ہر سطح پر سیاسی و معاشی استحصال کیا جارہا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ نئی نسل سمیت پرانی نسل میںبھی ریاستی نظام پر نہ صرف سوالات اٹھ رہے ہیں بلکہ ان میں غصہ اور ردعمل بھی سخت ہے ۔آج کی دنیا میں ہم ہرمحاذ پر نگرانی کے عمل سے گزر رہے ہیں اور جو خاص طور پر ہمیں پیسے دیتا ہے وہ ہماری نہ صرف بڑی نگرانی کرتا ہے بلکہ ہمیں دنیا میں جوابدہ بنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا ایجنڈا ڈکٹیٹ بھی کرتا ہے۔
اس لیے یہاں نہ تو کوئی انتخابات کی عملی ساکھ کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کی صورتحال سے خوش نظر آتا ہے ۔آزادی اظہار پر جو پابندیاں لگ رہی ہیں یا جو کچھ عدلیہ میں ایک بڑے دباؤ کی سیاست کا غلبہ ہے اسے صرف ہم ہی نہیں بلکہ عالمی دنیا بھی کھلی آنکھ سے دیکھ رہی ہے ۔
ہم دنیا سے نظریں چراسکتے ہیں مگر دنیا کا فریم ہمیں مسلسل دیکھ بھی رہا ہے اور ہماری کڑی نگرانی بھی کرتا ہے۔اس لیے باہر کی طاقتوں کو محض گالی د ے کر ہم خود کو نہیں بچاسکیں گے ۔ہمیں خودکو لوگوںکے سامنے بھی اور حکومتی نظام میںجوابدہ بنانا ہوگا اور ہم ان کو جوابدہ بناسکیں گے تو جوابدہی کا عمل اوپر سے نیچے تک آئے گا اور سب کو فکر ہوگی کہ ہمیں احتسابی عمل سے گزرنا پڑے گا۔جس ٹھاٹ باٹ سے ہم حکمرانی کررہے ہیں اور جس انداز سے ریاستی وسائل کو برباد کیا جارہا ہے یہ مزید سوالات پیدا کرے گا اورمزید نظام کو چیلنج بھی کرے گا۔