معیشت کی تجدید کرنا ہوگی
اب بہر طور معیشت کی تجدید کرنا ہوگی۔ اہم توجہ زراعت اور صنعت پر ہونی چاہیے
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے 200 یونٹس تک ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے 50 ارب روپے کے ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کے فیصلے سے اڑھائی کروڑ گھریلو صارفین کو جولائی، اگست اور ستمبر میں چار روپے سے سات روپے فی یونٹ فائدہ ہوگا۔ ہم نے کشکول توڑنا ہے، اربوں، کھربوں کی کرپشن پر قابو پا کر عام آدمی کو ریلیف دیں گے، وقت آگیا اشرافیہ بھی قربانی دے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس وقت عوام بجلی کے بھاری بھرکم بل دینے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم کی جانب سے بلوں میں ریلیف کا حالیہ اقدام کسی مژدہ جانفزا سے کم نہیں ہے۔ ہم وزیراعظم کی عوام سے ہمدردی اور مسائل کے حل کی تڑپ سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے معاشی بحالی کے اقدامات کو بھی ان سطور کے ذریعے سراہتے ہیں لیکن کچھ زمینی حقائق کا بیان کرنا بھی ضروری ہے تاکہ اصلاح احوال کی صورت پیدا ہوسکے۔
درحقیقت عوامی مشکلات میں اضافہ صرف بجلی کے بلوں تک محدود نہیں رہا بلکہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی مستقل اضافہ کرنا شروع کردیا ہے۔ حکومت اگر یہ سمجھ رہی ہے کہ قرض کے ذریعے معیشت کو مستحکم بنایا جاسکتا ہے تو اسے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے ماضی پر نظر ڈال لے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ اب تک لیے گئے قرض کی مدد سے معیشت کو کتنا بہتر بنایا گیا ہے۔
دنیا بھر میں معیشت کے استحکام کے لیے سرمایہ کاری کو بہترین ذریعہ تصور کیا جاتا ہے اور اسی کی مدد سے تمام مضبوط معیشتوں نے استحکام حاصل کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک نہایت ضروری بات یہ بھی ہے کہ جہاں حکومتیں معاشی استحکام کے لیے سنجیدہ ہوتی ہیں وہاں اللوں تللوں سے گریز کیا جاتا ہے اور ساری توجہ ملکی اور عوامی مسائل کے حل پر لگائی جاتی ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے معاشی مسائل میں اس لیے مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے کہ وہاں سرکاری خزانے کا ایک بڑا حصہ اشرافیہ ہڑپ کر جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے سب سے پہلے تو اپنے اخراجات میں کمی لائے اور پھر اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی مراعات و سہولیات ختم کرے۔ اس سے اگلا مرحلہ سرمایہ کاری ہے اور قرض صرف اس صورت میں لیا جانا چاہیے جب معاملات کو چلانے کے لیے ہمارے پاس قرض لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو۔
دوسری جانب مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے اشرافیہ کو تو مراعات سے نواز دیا گیا جب کہ عوام اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کی بھرمار کردی گئی ہے، لیکن حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ ایک عام آدمی درحقیقت سسک سسک کر جی اور مررہا ہے۔ حال یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کیا دیں، وہ دودھ اور دو وقت کا کھانا بھی دینے سے محروم ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اشرافیہ کی مراعات برقرار رکھتے ہوئے عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا کسی صورت مناسب نہیں۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اِس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کرے۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں کمی، اور ایکسپورٹ پر ٹیکسوں کی بھرمار کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اشرافیہ کی مراعات کم اور جاگیرداروں پر ٹیکس عائد کرکے ملک کی معاشی صورتِ حال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
اب بہر طور معیشت کی تجدید کرنا ہوگی۔ اہم توجہ زراعت اور صنعت پر ہونی چاہیے، ایسے شعبے جو نئی اور مستقل ملازمتیں پیدا کر سکیں۔ اسی طرح جدید ٹیکنالوجیز اور کمپیوٹرز، سافٹ ویئر اور انفارمیشن فیلڈز بہتر مواقعے پیش کر سکتی ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو باعزت روزگار حاصل کرنے کے قابل بنانے کے لیے حکومت کو ان شعبوں پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، مگر اس کے لیے سیاسی ہم آہنگی اور استحکام بھی ازحد ضروری ہے۔
اس کے بغیر اس قسم کی معاشی تبدیلی ممکن نہیں۔ پاکستان میں موجودہ محاذ آرائی کی سیاست معاشی بحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی تنازعات کو ختم کرنے اور معاشی مسائل پر اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر انسانی فلاح و بہبود اور روزگار کے مواقعے کے لیے یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اس کی اتحادی جماعتیں معاشی تنظیم نو کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
پاکستان میں حکمران طبقات چاہتے ہیں کہ اپوزیشن معاشی بحالی کے لیے تعاون کرے لیکن وہ اپوزیشن پر ریاستی نظام کے دباؤ سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے۔ سیاسی اور معاشی ڈومینز کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک کہ 2022-2023میں نافذ کی جانے والی تعزیراتی اور ریگولیٹری پالیسیاں اعتدال پسند نہ ہوں، اگر ان کو تبدیل نہ کیا جائے، اگر پاکستانی سیاست ماضی میں محصور رہتی ہے اور حکمران اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کو سیاسی عمل سے نکال باہر کرنے کی پالیسی کو ترک نہیں کرتیں تو سیاسی ہم آہنگی اور استحکام کی امید، جو معاشی بحالی کے لیے لازمی شرط ہے، کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔
پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بشمول ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک، بجلی کی پیداوار، اور ٹیلی کمیونیکیشن۔ اس کے لیے اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ بالآخر اقتصادی سرگرمیوں اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ تعلیم اور تربیت ملک کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان کو اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے، پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے اور کاروباری شخصیت کو فروغ دینے پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کو اپنی برآمدات پر مبنی صنعتوں جیسے کہ ٹیکسٹائل، زراعت اور فارماسیوٹیکلز کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے ٹیکنالوجی، تحقیق اور ترقی اور مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔
کرپشن پاکستان میں معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، جس کی جانب وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اپنے خطاب میں نشاندہی کی ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی کرپشن کے مکمل خاتمے کا عزم کر رکھا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری حکومت کی سب سے بڑی اور اہم ذمے داری کرپشن کا خاتمہ ہے، کیونکہ کرپشن بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔
افسوس اتنے پون صدی گزرنے کے باوجود کرپشن کے خاتمے کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ بہت سے اقدامات اٹھانے کے باوجود یہ مسئلہ ابھی موجود ہے۔ کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو وبائی امراض کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ زندگی کی آسائشات حاصل کرنے کی دوڑ میں تیزی ہے جس میں ہر کوئی دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے اور ظاہر ہے کہ مالی وسائل اگر آڑے آئیں تو پھر ان وسائل میں اضافے کے لیے ناجائز ذرایع کا استعمال کیا جاتا ہے، جس میں مالی کرپشن سرفہرست ہے۔
کرپشن کے خاتمے کے لیے حکومت اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ کیونکہ کرپشن ایک معاشرتی برائی ہے جس کا خاتمہ معاشرے کے ہر فرد کی کوششوں سے ہی ہو سکتا ہے انفرادی طور پر ہر کوئی کرپشن کے خلاف رویہ اپنائے اور یہ تہیہ کرے کہ وہ نہ تو بدعنوانی کے ذریعے اپنا کوئی کام نکالے گا اور نہ ہی خود بدعنوانی کرے گا تو اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہی سامنے آئے گا کہ کرپشن میں کمی ہو گی اور معاشرے میں اس کے خلاف جذبات کو بیدار کر کے اس اہم مرحلے کو سرانجام دیا جاسکتا ہے۔
پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر کے اور سرحد پار تجارت کو فروغ دے کر علاقائی انضمام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک اہم چیلنج ہے۔ حکومت ملکی پیداوار کو فروغ دے کر اور مقامی صنعتوں کو ترقی دے کر درآمدات کو کم کرنے پر توجہ دے۔ اس سے ملک کا درآمدات پر انحصار کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
مجموعی طور پر، پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوگی جو اقتصادی ترقی کو روک رہے ہیں۔ حکومت اس سلسلے میں بلاتفریق کارروائیاں کرے اور طبقات کی حمایت کے بجائے ریاست کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرے۔