جنت اور جہنم

ایم جے گوہر  جمعرات 11 جولائی 2024
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

ایک زمانہ تھا کہ جب برطانیہ کی حاکمیت پانچ براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ پھر حالات بدلے دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کا نقشہ بدلتا گیا۔ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم جنھیں برطانیہ پر 70 سال کی طویل ترین عرصے تک حکمرانی کا اعزاز حاصل ہے کے لیے سب سے تکلیف دہ عمل برطانیہ کا رفتہ رفتہ ٹوٹنا، بکھرنا اور ایک چھوٹے سے جزیرے پر سمٹ جانا تھا۔ برطانیہ ایک ایک کر کے اپنی کالونیاں آزاد کرتا گیا۔ ہندوستان نے بھی 1947 میں برطانوی حاکمیت سے آزادی حاصل کی تھی۔

برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے اور جمہوریت کا اصل حسن انتخابات ہوتے ہیں، اگرچہ برطانیہ میں ایک طویل عرصے سے بادشاہت قائم ہے اور ملکہ الزبتھ کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے چارلس کو عوام نے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا ہے تاہم برطانوی جمہوریت کی ایک طویل تاریخ ہے، متعدد تجربات کے بعد برطانوی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملک کی اصل طاقت عوام ہیں۔ اسی لیے وہاں اصل حکمران عوام کا منتخب کردہ نمایندہ وزیر اعظم ہوتا ہے۔

برطانیہ میں طاقت کا اصل ماخذ و منبع عوامی نمایندوں کے ایوان ’’پارلیمنٹ‘‘ ہی کو سمجھا جاتا ہے۔ کمال دیکھیے کہ برطانیہ کا کوئی تحریری آئین نہیں ہے کہ وہاں روایات، قوانین اور تجربات کی بنیاد پر ملک چلایا جاتا ہے، مگر کسی کی مجال نہیں کہ کوئی ان سے انحراف کی جرأت کر سکے۔ عوام الناس سے لے کر سیاسی رہنماؤں اور شاہی عمل تک ہر ایک کو قانون کی پاسداری اور احترام کا سبق یاد رہتا ہے۔ برطانیہ کی حکمرانی کے تین اہم اور خاص عناصر ہیں۔ اول جمہوریت جو پارلیمان کے ذریعے حکمرانی کی اصل مالک ہے۔ دوم بادشاہت جو برطانیہ کی قومی روایات اور یک جہتی کی علامت اور تسلسل ہے اور سوم چرچ ہے جو مذہبی معاملات کی نگہبانی کرتا ہے۔

برطانیہ میں بادشاہت اور جمہوریت کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہاں مذکورہ تینوں ادارے اپنے اپنے دائرہ کار اور فرائض منصبی اور ذمے داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اور کسی بھی صورت میں اپنے دائرہ کار سے تجاوز نہیں کرتے۔ نہ تو وہاں مذہب کارڈ کا استعمال ہوتا ہے، نہ صوبائیت کا پرچار، نہ لسانیت، نہ برادری، نہ ہی جاگیرداری اور نہ ہی تعصب و فرقہ پرستی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

بادشاہت ہونے کے باوجود برطانیہ میں عوام کو غلام نہیں سمجھا جاتا نہ وہاں کوئی ادارہ پارلیمنٹ کا تقدس پامال کرتا ہے اور نہ ہی عدلیہ کا وقار مجروح کرتا ہے۔ بعینہٖ برطانیہ میں ہونے والے انتخابات میں نہ مداخلت کاری کے الزامات لگتے ہیں اور نہ دھاندلی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ نتائج کو خوش دلی سے تمام لوگ قبول کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت و احترام کو سیاسی رہنما ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔

کنزرویٹیو پارٹی کے وزیر اعظم رشی سوناک نے دھاندلی کے الزامات لگائے بغیر خاموشی سے استعفیٰ دے دیا اور لیبر پارٹی کے رہنما کیراسٹارم نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیا ہے۔ شکست خوردہ پارٹی نے کیر اسٹارم پر فارم 47 والے وزیر اعظم کا لیبل چسپاں نہیں کیا بلکہ خوش دلی سے ان کی فتح اور وزارت عظمیٰ کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس کے برعکس برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے ہمارے پیارے وطن پاکستان میں جمہوریت کا عجب تماشا ہے۔ بار بار آمریت کے شب خون نے اس کا چہرہ بدنما کر دیا ہے، آئین کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے۔ سات دہائیاں گزر گئیں نہ ملک میں جمہوریت مستحکم ہو سکی اور نہ ہی منصفانہ، شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا بول بالا ہو سکا۔

بجٹ 24 پر پی پی پی سمیت صنعتکار، تاجر، امپورٹر، ایکسپورٹر، کسان، مزدور اور لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات، گیس، بجلی کی برق رفتاری سے بڑھتی قیمتیں اور بھاری بھرکم اربوں روپے کے ٹیکسوں کے نتیجے میں مہنگائی کے سیلاب نے عام آدمی کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ عوام کا احساس زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں، اشرافیہ کو نوازا جا رہا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی سہولیات اور مراعات میں اضافہ کر رہاہے۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکمرانوں کا یہ دعویٰ کہ اپنے کپڑے بیچ کر غریبوں کا سہارا بنیں گے نقش برآب ثابت ہوا۔ زمینی سچائی یہ ہے کہ یہ ملک اشرافیہ کے لیے جنت اور غریب عوام کے لیے جہنم بن چکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔