آزادئ صحافت کی نئی تاریخ
جولین اسانج کو ذرایع ابلاغ میں اس وقت اہمیت حاصل ہوئی جب جولین اسانج پر ہیکنگ کا الزام لگایا گیا
Julian Assang نے آزادی صحافت کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ برطانیہ میں قیدوبند کی صعوبتیں گزارنے اور ایکوڈور کے سفارت خانہ کے ایک کمرے میں کئی سال گزارنے کے بعد امریکا کے حکام جولین اسانج سے معاہدے پر مجبور ہوئے۔ امریکا کی خفیہ دستاویزات افشا کرنے کے قانون کے تحت عائد کیے گئے الزامات سے بری ہونے کے بعد آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
میڈیا کی تاریخ میں وکی لیکس کوافشا(امریکا کی وزارت خارجہ کی خفیہ دستاویزات) کرکے ایک نئی رپورٹنگ کی طرز ڈالنے والے اس شخص کی زندگی کی داستان بھی عجیب ہے۔ جولین اسانج 3 جولائی 1971 کو کوئنز لینڈ کے شہر Townsville میں پیدا ہوئے تھے۔ اسانج اور ان کی حقیقی بہن کراسٹائن جون شیپٹون کا تعلق آسٹریلیا کے شہر سڈنی سے تھا، جولین اسانج کی والدہ کا تعلق بھی آسٹریلیا سے تھا۔ جولین اسانج کے والد Visual Artist اور جنگ مخالف تحریک کے کارکن تھے مگر جولین اسانج کے والدین میں جولین کی پیدائش سے پہلے علیحدگی ہوگئی تھی۔ جولین اسانج کا بچپن انتہائی مشکل حالات میں گزرا تھا۔
جولین اسانج نے آسٹریلیا کی میلبورن یونیورسٹی کے فزکس کے شعبہ میں داخلہ لیا تھا مگر جولین اسانج اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکے ۔ سینٹرل کوئنز لینڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر وہ یہاں بھی اپنا کورس مکمل نہ کرپائے۔ جولین اسانج جب Belmarsh Prisonمیں تھے تو انھوں نے ایک وکیل Stella سے شادی کی تھی۔ اسٹیلا کا تعلق اسپین سے ہے۔ اسٹیلا کا شمار انسانی حقوق کی بین الاقوامی تحریک کے معروف وکلاء میں ہوتا ہے۔ جولین اسانج اگرچہ اپنی تعلیم مکمل نہ کرپائے مگر انھوں نے کمپیوٹر کے شعبہ میں ہیکنگ Hacking میں مہارت حاصل کرلی تھی اور Mendax کے قلمی نام سے شہرت حاصل کی تھی۔
جولین اسانج کو ذرایع ابلاغ میں اس وقت اہمیت حاصل ہوئی جب جولین اسانج پر ہیکنگ کا الزام لگایا گیا جو سائبر کرائم کے تحت جرم تھا۔ اس مقدمے میں اسانج پر معمولی جرمانہ ہوا تھا۔ اسانج نے 2006 میں وکی لیکس Wikileaks قائم کیا۔ اسانج کو ہیکنگ کے فن کے ذریعے امریکا کی وزارت خارجہ کے انتہائی حساس کمپیوٹروں تک رسائی حاصل ہوگئی، یوں 2010 میں وکی لیکس کی جاری کردہ دستاویزات نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق وکی لیکس نے تقریباً 10 ملین دستاویزات جاری کی تھیں۔ ان رپورٹوں میں امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو دنیا بھر میں امریکی سفارت کاروں کے بھیجے جانے والے خفیہ کیبلز بھی شامل تھے۔
افغانستان، پاکستان، بھارت، عراق اور دیگر ممالک میں تعینات امریکی سفارت کاروں نے ان ممالک کے حالات کے بارے میں اپنے تبصروں کے ساتھ یہ کیبلز امریکی وزارت خارجہ کو بھیجے تھے۔ جرمنی اور فرانس سے بھیجے گئے کیبلز سے امریکا کے ان ممالک سے سفارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ ان کیبلز میں عراق میں امریکا اور اتحادیوں کی فوجوں کی گولہ باری سے شہری آبادی کو ہونے والے نقصانات کی تفصیلات درج کی گئی تھیں۔ ان کیبلز کے مطالعے سے امریکی فوجیوں کی افغانستان اور عراق میں ہونے والی بمباری کے شہری آبادی پر ہونے والے نقصانات کا پتہ چلتا ہے۔
مسٹر اسانج نے کئی دفعہ کہا تھا کہ انھوں نے افغانستان اور عراق میں امریکی فوجیوں کی مقامی شہریوں کے خلاف بیہمانہ کارروائیوں کا پردہ چاک کیا تھا۔ امریکا کی حکومت نے وکی لیکس میں ظاہر ہونے والی دستاویزات کو عام ہونے سے روکنے کے لیے ایک خفیہ آپریشن شروع کیا تھا۔ اس آپریشن کے تحت اسانج کو امریکا بلا کر سزا دینے کے لیے کارروائی شروع کی گئی۔ سب سے پہلے اسانج کے خلاف آسٹریا میں جنسی ہراسگی کا مقدمہ قائم ہوا تھا۔ امریکی وزارت خارجہ کی کوشش سے اسانج کو امریکا پہنچانے اور وہاں پر مقدمہ چلانے کی کوشش جس کے خلاف جولین اسانج کو طویل مزاحمت کرنی پڑی۔
اس مہم کے دوران صحافتی تنظیموں کے علاوہ انسانی حقوق کی تمام تنظیموں نے جولین اسانج کے خلاف ناروا سلوک پر سخت احتجاج کیا ۔ اسانج کا بار بار کہنا تھا کہ امریکا اس کے خلاف مختلف ممالک میں جعلی مقدمات قائم کر کے وکی لیکس کے افشا ہونے پر سزا دینا چاہتا ہے۔ امریکا کی حکومت نے اسانج کے خلاف امریکا میں خفیہ راز افشاکرنے، جاسوسی کرنے اور امریکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات میں مقدمات قائم کیے ۔ امریکا کے حکام نے مسلسل کوشش کی کہ برطانیہ اسانج کو ملک بدر کردے اور امریکی حکام اسانج کو اغواء کر کے امریکا لے جائیں۔ اسانج نے مئی 2012 میں Ecuadore کے سفارت خانہ میں سیاسی پناہ حاصل کی۔ وہ 2019میں ایکوڈور کے سفارت خانہ میں داخل ہوئے اور کئی سال تک ایک چھوٹے سے کمرہ میں مقید رہے۔
ان کے کمرے کے دروازہ پر ایک برطانوی سپاہی کو مسلسل ڈیوٹی دینا پڑی۔ ایک معاہدہ کے تحت برطانوی حکومت نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ اسانج کو امریکا کے حوالہ نہیں کیا جائے گا۔ وہ ایکوڈور کے سفارت خانہ سے باہر آئے اور برطانیہ کی BelMarsh جیل بھیج دیے گئے جہاں وہ ایک ہزار 90 دنوں تک ایک چھوٹے سے سیل میں مقید رکھے گئے۔ ایک وقت تھا کہ برطانیہ کی حکومت اسانج کو امریکا کے سپرد کرنے پر تیار ہوگئی تھی مگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسانج کی امریکا کو متوقع حوالگی کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔
ذرایع ابلاغ نے اس مہم کو نمایاں کوریج دی جس کی بناء پر امریکا اسانج سے ایک معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا۔ یوں 7سال تک ایکوڈور سفارت خانہ میں ایک کمرہ میں زندگی گزارنے اور لندن کی جیل میں 5 سال تک قید رہنے کے بعد انھیں رہائی ملی اور اس کو اپنے خاندان کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے آسٹریلیا جانے کا موقع مل گیا۔ مگر امریکی حکومت سے معاہدہ کے تحت اسانج کو شایع نہ ہونے والی وکی لیکس کو ضایع کرنے یا واپس کرنے کی شق پر عمل کرنا ہوگا اور ایک حلف نامہ بھی داخل کرنا ہوگا۔ جولین اسانج کی رہائی کی مہم میں ان کی اہلیہ نے بھرپور حصہ لیا۔ جولین اسانج آج دنیا بھر میں آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کا سب سے بڑ ااستعارہ بن کرابھرا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جولین اسانج سچائی، انصاف اور احتساب کا سب سے بڑا سمبل بن گیا ہے۔ اسانج نے برطانیہ اور امریکا کی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے کر عوام کو خفیہ دستاویزات سے آگاہ کرنے کی ایسی مثال قائم کی ہے جو نئے آنے والے صحافیوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اسانج نے وکی لیکس کے ذریعے، حکومت اور کارپوریٹ اداروں کی ایک درجہ بندی سے ہزاروں اندرونی یا خفیہ دستاویزات جاری کیں۔ اس سے پیار کریں یا اس سے نفرت کریں یا محض پرواہ نہ کریں، جولین اسانج کی آزادی کی لڑائی ہم سب کی لڑائی ہے۔ ابلاغِ عامہ کے ماہر ڈاکٹر عرفان عزیز نے اسانج کی کامیابی کا یوں تجزیہ کیا ہے۔جمہوری نظام میں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں اور حکومتوں کو خفیہ فیصلے کرنے اور ریاست کے مسائل اور وسائل کو خفیہ مقاصد کے لیے خفیہ طریقے سے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
امریکا کی تاریخ میںپینٹاگون پیپرز 1971، واٹر گیٹ اسکینڈل 1974 اور ایران کو ہتھیاروں کی خفیہ فروخت 1987 ایسے واقعات ہیں جو امریکی حکومتوں نے عوام سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی، لیکن آزاد میڈیا کی موجودگی میں حقائق عوام تک پہنچے تو حکومتوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ جولین آسانج نے 2006 میں وکی لیکس نامی ویب سائٹ قائم کی اور دنیا بھر کے صحافیوں کو دعوت دی کہ وہ اس ویب سائٹ پر حکومتوں کے خفیہ معاملات سے متعلق معلومات شیئر کریں۔
اسانج بنیادی طور پر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ماہر تھے۔ وکی لیکس پر حکومتوں کے جنگی جرائم، مالی کرپشن اور دیگر راز افشا ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تو جولین اسانج کے لیے زندگی مشکل ہوتی چلی گئی۔ اس کے اندر اہم معلومات دستیاب ہونے کی وجہ سے جہاں ایک طرف whistle blowers کی اہمیت اجاگر ہوئی تو ان افراد کے تحفظ کے لیے مختلف ملکوں میں قانون سازی بھی ہوئی۔ دوسری جانب ڈیٹا جرنلزم کی بنیاد بھی پڑی۔ بڑی تعداد میں صحافیوں نے ڈیٹا کو سمجھنے اور اس میں سے خبریں نکالنے کا ہنر سیکھنا شروع کیا۔ جمہوری نظام میں عوام کے جاننے کے حق اور معلومات تک رسائی کے حقوق کو تسلیم کرنے سے جمہوری نظام میں شفافیت قائم کرنے میں مدد ملی۔
میڈیا کی تاریخ میں وکی لیکس کوافشا(امریکا کی وزارت خارجہ کی خفیہ دستاویزات) کرکے ایک نئی رپورٹنگ کی طرز ڈالنے والے اس شخص کی زندگی کی داستان بھی عجیب ہے۔ جولین اسانج 3 جولائی 1971 کو کوئنز لینڈ کے شہر Townsville میں پیدا ہوئے تھے۔ اسانج اور ان کی حقیقی بہن کراسٹائن جون شیپٹون کا تعلق آسٹریلیا کے شہر سڈنی سے تھا، جولین اسانج کی والدہ کا تعلق بھی آسٹریلیا سے تھا۔ جولین اسانج کے والد Visual Artist اور جنگ مخالف تحریک کے کارکن تھے مگر جولین اسانج کے والدین میں جولین کی پیدائش سے پہلے علیحدگی ہوگئی تھی۔ جولین اسانج کا بچپن انتہائی مشکل حالات میں گزرا تھا۔
جولین اسانج نے آسٹریلیا کی میلبورن یونیورسٹی کے فزکس کے شعبہ میں داخلہ لیا تھا مگر جولین اسانج اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکے ۔ سینٹرل کوئنز لینڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر وہ یہاں بھی اپنا کورس مکمل نہ کرپائے۔ جولین اسانج جب Belmarsh Prisonمیں تھے تو انھوں نے ایک وکیل Stella سے شادی کی تھی۔ اسٹیلا کا تعلق اسپین سے ہے۔ اسٹیلا کا شمار انسانی حقوق کی بین الاقوامی تحریک کے معروف وکلاء میں ہوتا ہے۔ جولین اسانج اگرچہ اپنی تعلیم مکمل نہ کرپائے مگر انھوں نے کمپیوٹر کے شعبہ میں ہیکنگ Hacking میں مہارت حاصل کرلی تھی اور Mendax کے قلمی نام سے شہرت حاصل کی تھی۔
جولین اسانج کو ذرایع ابلاغ میں اس وقت اہمیت حاصل ہوئی جب جولین اسانج پر ہیکنگ کا الزام لگایا گیا جو سائبر کرائم کے تحت جرم تھا۔ اس مقدمے میں اسانج پر معمولی جرمانہ ہوا تھا۔ اسانج نے 2006 میں وکی لیکس Wikileaks قائم کیا۔ اسانج کو ہیکنگ کے فن کے ذریعے امریکا کی وزارت خارجہ کے انتہائی حساس کمپیوٹروں تک رسائی حاصل ہوگئی، یوں 2010 میں وکی لیکس کی جاری کردہ دستاویزات نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق وکی لیکس نے تقریباً 10 ملین دستاویزات جاری کی تھیں۔ ان رپورٹوں میں امریکا کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو دنیا بھر میں امریکی سفارت کاروں کے بھیجے جانے والے خفیہ کیبلز بھی شامل تھے۔
افغانستان، پاکستان، بھارت، عراق اور دیگر ممالک میں تعینات امریکی سفارت کاروں نے ان ممالک کے حالات کے بارے میں اپنے تبصروں کے ساتھ یہ کیبلز امریکی وزارت خارجہ کو بھیجے تھے۔ جرمنی اور فرانس سے بھیجے گئے کیبلز سے امریکا کے ان ممالک سے سفارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ ان کیبلز میں عراق میں امریکا اور اتحادیوں کی فوجوں کی گولہ باری سے شہری آبادی کو ہونے والے نقصانات کی تفصیلات درج کی گئی تھیں۔ ان کیبلز کے مطالعے سے امریکی فوجیوں کی افغانستان اور عراق میں ہونے والی بمباری کے شہری آبادی پر ہونے والے نقصانات کا پتہ چلتا ہے۔
مسٹر اسانج نے کئی دفعہ کہا تھا کہ انھوں نے افغانستان اور عراق میں امریکی فوجیوں کی مقامی شہریوں کے خلاف بیہمانہ کارروائیوں کا پردہ چاک کیا تھا۔ امریکا کی حکومت نے وکی لیکس میں ظاہر ہونے والی دستاویزات کو عام ہونے سے روکنے کے لیے ایک خفیہ آپریشن شروع کیا تھا۔ اس آپریشن کے تحت اسانج کو امریکا بلا کر سزا دینے کے لیے کارروائی شروع کی گئی۔ سب سے پہلے اسانج کے خلاف آسٹریا میں جنسی ہراسگی کا مقدمہ قائم ہوا تھا۔ امریکی وزارت خارجہ کی کوشش سے اسانج کو امریکا پہنچانے اور وہاں پر مقدمہ چلانے کی کوشش جس کے خلاف جولین اسانج کو طویل مزاحمت کرنی پڑی۔
اس مہم کے دوران صحافتی تنظیموں کے علاوہ انسانی حقوق کی تمام تنظیموں نے جولین اسانج کے خلاف ناروا سلوک پر سخت احتجاج کیا ۔ اسانج کا بار بار کہنا تھا کہ امریکا اس کے خلاف مختلف ممالک میں جعلی مقدمات قائم کر کے وکی لیکس کے افشا ہونے پر سزا دینا چاہتا ہے۔ امریکا کی حکومت نے اسانج کے خلاف امریکا میں خفیہ راز افشاکرنے، جاسوسی کرنے اور امریکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات میں مقدمات قائم کیے ۔ امریکا کے حکام نے مسلسل کوشش کی کہ برطانیہ اسانج کو ملک بدر کردے اور امریکی حکام اسانج کو اغواء کر کے امریکا لے جائیں۔ اسانج نے مئی 2012 میں Ecuadore کے سفارت خانہ میں سیاسی پناہ حاصل کی۔ وہ 2019میں ایکوڈور کے سفارت خانہ میں داخل ہوئے اور کئی سال تک ایک چھوٹے سے کمرہ میں مقید رہے۔
ان کے کمرے کے دروازہ پر ایک برطانوی سپاہی کو مسلسل ڈیوٹی دینا پڑی۔ ایک معاہدہ کے تحت برطانوی حکومت نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ اسانج کو امریکا کے حوالہ نہیں کیا جائے گا۔ وہ ایکوڈور کے سفارت خانہ سے باہر آئے اور برطانیہ کی BelMarsh جیل بھیج دیے گئے جہاں وہ ایک ہزار 90 دنوں تک ایک چھوٹے سے سیل میں مقید رکھے گئے۔ ایک وقت تھا کہ برطانیہ کی حکومت اسانج کو امریکا کے سپرد کرنے پر تیار ہوگئی تھی مگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسانج کی امریکا کو متوقع حوالگی کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔
ذرایع ابلاغ نے اس مہم کو نمایاں کوریج دی جس کی بناء پر امریکا اسانج سے ایک معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا۔ یوں 7سال تک ایکوڈور سفارت خانہ میں ایک کمرہ میں زندگی گزارنے اور لندن کی جیل میں 5 سال تک قید رہنے کے بعد انھیں رہائی ملی اور اس کو اپنے خاندان کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے آسٹریلیا جانے کا موقع مل گیا۔ مگر امریکی حکومت سے معاہدہ کے تحت اسانج کو شایع نہ ہونے والی وکی لیکس کو ضایع کرنے یا واپس کرنے کی شق پر عمل کرنا ہوگا اور ایک حلف نامہ بھی داخل کرنا ہوگا۔ جولین اسانج کی رہائی کی مہم میں ان کی اہلیہ نے بھرپور حصہ لیا۔ جولین اسانج آج دنیا بھر میں آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کا سب سے بڑ ااستعارہ بن کرابھرا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جولین اسانج سچائی، انصاف اور احتساب کا سب سے بڑا سمبل بن گیا ہے۔ اسانج نے برطانیہ اور امریکا کی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے کر عوام کو خفیہ دستاویزات سے آگاہ کرنے کی ایسی مثال قائم کی ہے جو نئے آنے والے صحافیوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اسانج نے وکی لیکس کے ذریعے، حکومت اور کارپوریٹ اداروں کی ایک درجہ بندی سے ہزاروں اندرونی یا خفیہ دستاویزات جاری کیں۔ اس سے پیار کریں یا اس سے نفرت کریں یا محض پرواہ نہ کریں، جولین اسانج کی آزادی کی لڑائی ہم سب کی لڑائی ہے۔ ابلاغِ عامہ کے ماہر ڈاکٹر عرفان عزیز نے اسانج کی کامیابی کا یوں تجزیہ کیا ہے۔جمہوری نظام میں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں اور حکومتوں کو خفیہ فیصلے کرنے اور ریاست کے مسائل اور وسائل کو خفیہ مقاصد کے لیے خفیہ طریقے سے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
امریکا کی تاریخ میںپینٹاگون پیپرز 1971، واٹر گیٹ اسکینڈل 1974 اور ایران کو ہتھیاروں کی خفیہ فروخت 1987 ایسے واقعات ہیں جو امریکی حکومتوں نے عوام سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی، لیکن آزاد میڈیا کی موجودگی میں حقائق عوام تک پہنچے تو حکومتوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ جولین آسانج نے 2006 میں وکی لیکس نامی ویب سائٹ قائم کی اور دنیا بھر کے صحافیوں کو دعوت دی کہ وہ اس ویب سائٹ پر حکومتوں کے خفیہ معاملات سے متعلق معلومات شیئر کریں۔
اسانج بنیادی طور پر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ماہر تھے۔ وکی لیکس پر حکومتوں کے جنگی جرائم، مالی کرپشن اور دیگر راز افشا ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تو جولین اسانج کے لیے زندگی مشکل ہوتی چلی گئی۔ اس کے اندر اہم معلومات دستیاب ہونے کی وجہ سے جہاں ایک طرف whistle blowers کی اہمیت اجاگر ہوئی تو ان افراد کے تحفظ کے لیے مختلف ملکوں میں قانون سازی بھی ہوئی۔ دوسری جانب ڈیٹا جرنلزم کی بنیاد بھی پڑی۔ بڑی تعداد میں صحافیوں نے ڈیٹا کو سمجھنے اور اس میں سے خبریں نکالنے کا ہنر سیکھنا شروع کیا۔ جمہوری نظام میں عوام کے جاننے کے حق اور معلومات تک رسائی کے حقوق کو تسلیم کرنے سے جمہوری نظام میں شفافیت قائم کرنے میں مدد ملی۔