میں بڑا اہم تھا یہ میرا وہم تھا
امریکا میں چند ڈالرز دے کر کھلاڑیوں کے ساتھ تقریب میں تصاویر بنوانے کا اشتہار سامنے آیا
انسان کی یہ فطرت ہے کہ اچھے وقت میں وہ اونچی ہواؤں میں اڑنے لگتا ہے، اسے لگتا ہے کہ عروج ہمیشہ رہے گا، باس زندگی بھر آنکھ کا تارا بنائے رہیں گے، وہ جو چاہے کرے کوئی سوال نہیں پوچھے گا،ایسے میں پرانے دوستوں سے رابطہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ ضرورت نہیں رہتی، البتہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی، جب تک آپ کسی ادارے کی ضرورت ہیں وہ اون کرے گا جہاں کوئی مسئلہ ہوا خود کو بچانے کیلیے قربان کرنے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں برتی جائے گی، پھر جب اونچی ہواؤں میں اڑنے والا دھڑام سے زمین پر گرتا ہے تو اسے یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ''میں بڑا اہم تھا یہ میرا وہم تھا''
بیچارے وہاب ریاض کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا،انھوں نے گذشتہ 1،2 برس میں بڑا عروج دیکھا، نگراں حکومت میں جھنڈے والی گاڑی میں گھومتے رہے،لاہور کی بارش میں ان کے دورے کی تصاویر اور ویڈیوز آپ نے بھی دیکھی ہوں گی، پھر جب ذکا اشرف چیئرمین پی سی بی بنے تو وہاب کو چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سونپ دی گئی، محمد حفیظ سابق بورڈ چیف کے بہت قریب ہیں، ان کے تجویز کردہ ناموں میں وہاب بھی شامل تھے،وہ کمیٹی کا سربراہ بن گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چند ہی روز بعد دونوں میں اختلاف ہو گیا، وہاب میچ فکسنگ میں جیل جانے والے سابق کرکٹر سلمان بٹ کو کمیٹی میں لے آئے، اس پر طوفان برپا ہوگیا،حفیظ کا کہنا تھا کہ سلمان کو فیصلہ سازی کا حصہ نہیں ہونا چاہیے، حکومتی مداخلت پر ذکا اشرف کو فیصلہ تبدیل کرنا پڑا، بعد میں سابق وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے میٹنگ میں جب سلمان کی شمولیت پر سوال کیا تو ورچوئل طور پر شریک حفیظ نے فیصلے کی ذمہ داری وہاب پر ڈال دی، اس سے تعلقات میں اور گہری لکیر آ گئی،سلیکشن معاملات میں بھی اختلافات ہوئے، پھر جب بورڈ میں تبدیلی آئی اور محسن نقوی چیئرمین بن گئے تو حفیظ کو ملاقات کا وقت بھی نہیں ملا اور فارغ کر دیا گیا، شاید ان کے دل میں یہ بات آتی ہو کہ وہاب اس پر کیوں چپ رہا۔
نگراں حکومت میں محسن نقوی کے ساتھ کام کرنے والے وہاب ریاض چیف کے بغیر نئی سلیکشن کمیٹی میں بھی برقرار رہے، ان کی رائے پر ہی ہر فیصلہ ہوا کرتا تھا، پھر ان کے لیے سینئر منیجر کا عہدہ تخلیق کرتے ہوئے برطانیہ اور امریکا بھی بھیج دیا گیا، اس وقت تک وہ پاکستان کرکٹ کی دوسری طاقتور ترین شخصیت تھے، کھلاڑی یہ باتیں کرنے لگے تھے کہ ''وہاب بھائی بدل گئے'' ، پھر ورلڈکپ آیا اور وہاب بھائی کی قسمت ہی بدل گئی، جتنی جلدی ان کے عروج کو زوال آیا اتنا بہت کم ہی دیکھا گیا ہے، ہر جانب سے تنقید ہونے لگی۔
امریکا میں چند ڈالرز دے کر کھلاڑیوں کے ساتھ تقریب میں تصاویر بنوانے کا اشتہار سامنے آیا، رات گئے تک پلیئرز کے ہوٹل سے باہر رہنے کی باتیں افشا ہوئیں، کوئی بھی افسر ہو وہ آپ سے نہیں بلکہ آپ کے کام سے عشق کرتا ہے، جب تک آپ اچھے نتائج دے رہے ہوں آنکھوں میں بسے رہتے ہیں جہاں کوئی گڑبڑ ہوئی تو ہم آپ کے ہیں کون، وہاب بھی آہستہ آہستہ حکام کی نظروں سے اترنے لگے۔
اب ورلڈ کپ کے بعد کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا، وائٹ بال کی کرکٹ ابھی ہونی نہیں تو اتنی جلدی بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کا کیا فائدہ ہوتا، ان کی فین فولوئنگ بھی بہت ہے،مداح ناراض بھی ہو جاتے، ایسے میں وہاب نظر میں آئے اور انھیں نہ صرف سلیکشن کمیٹی بلکہ سینئر منیجر کی پوسٹ سے بھی فارغ کر دیا گیا، یہ فیصلہ بالکل درست ہے لیکن کیا 2 سلیکٹرز وہاب ریاض اور عبدالرزاق نے ہی اسکواڈ منتخب کیا جو صرف انھیں نکالا گیا؟ دیگر کیوں بچ گئے؟
محمد یوسف بے ضرر قسم کے انسان ہیں، وہ ٹی وی پر بیٹھ کر تنقید کریں یا آپ کے ساتھ مل جائیں یہ دو آپشنز ہوتے ہیں، زیادہ تر بورڈ حکام انھیں کوئی نہ کوئی ذمہ داری سونپ ہی دیتے ہیں، بالکل لوپروفائل شخصیت کے مالک اسد شفیق تو یوسف سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں، ایسے لوگ کمیٹی کیلیے بہترین ہوتے ہیں، ان سے من پسند فیصلہ کرانا مشکل نہیں ہوتا، یہ ہوا کے رخ پر چلتے ہیں،ان سمیت سابق منسٹر صاحب بلال افضل و دیگر کو بھی گھر بھیجنا چاہیے، بالکل نئی سلیکشن کمیٹی بنائیں،
ویسے جب وہاب اور عبدالرزاق اتنے اہم موقع پر انگلینڈ میں لیجنڈز لیگ کھیلنے گئے تھے تب ہی مجھے آئیڈیا ہو گیا تھا کہ انھیں برطرفی کی سن گن لگ گئی ہے ورنہ کبھی نہ جاتے، پھر جب سابق کرکٹرز کی چیئرمین سے ملاقات کے بعد پریس ریلیز میں یہ پڑھا کہ ''سابق اسٹارز نے بعض سلیکٹرز پر تحفظات ظاہر کیے'' تو شک یقین میں بدل گیا، بعد میں یہی ہوا،اب آج اچانک شاہین آفریدی کے رویے پر میڈیا رپورٹس سامنے آنے لگی ہیں، اس سے لگتا ہے کہ شاید اگلا نشانہ وہ بنیں۔
ویسے وہاب جیسے سابق کرکٹرز آپ کو سینکڑوں مل جائیں گے لیکن شاہین جیسا بولر ایک بھی نہیں ملے گا لہذا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا پڑے گا،ان سب میں کپتان بابر اعظم سائیڈ میں آرام سے بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں حالانکہ شکستوں کی بڑی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے، وہ بطور قائد اور بیٹر اپنا کردار ادا نہ کر سکے، اصل سوال جواب ان سے ہونے چاہیئں، بابر کو بھی کم از کم شائقین سے معافی تو مانگنا چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
گذشتہ دنوں راشد لطیف نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے ساتھ راہول ڈریوڈ جیسا ایک مینٹور ہونا چاہیے، اس پر میں نے پوچھا کہ کون ہو سکتا ہے تو کوئی نام سامنے نہ آیا، یقینی طور پر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا، ڈریوڈ وہ انسان ہے جس کیلیے کپتان روہت شرما نے دل کو چھو لینے والا خط بھی لکھا، انھوں نے ڈھائی کروڑ روپے چھوڑ دیے کہ مجھے بھی دیگر کوچز کے برابر انعامی رقم ملنی چاہیے، بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی ایسا سابق کرکٹر موجود نہیں جو ڈھائی روپے بھی چھوڑ دے، جب آپ پیسے کو بھول کر ملک کو اہمیت دیں تب ہی مثبت نتائج سامنے آتے ہیں،لوگ بھی عزت دیتے ہیں، اب دیکھتے ہیں کسے چیف سلیکٹر بنایا جاتا ہے، ہم تو ماضی میں یہ ذمہ داری محمد الیاس کو بھی سونپ چکے تو اب جس کسی کا بھی نام سامنے آیا کوئی حیرت نہیں ہوگی۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
بیچارے وہاب ریاض کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا،انھوں نے گذشتہ 1،2 برس میں بڑا عروج دیکھا، نگراں حکومت میں جھنڈے والی گاڑی میں گھومتے رہے،لاہور کی بارش میں ان کے دورے کی تصاویر اور ویڈیوز آپ نے بھی دیکھی ہوں گی، پھر جب ذکا اشرف چیئرمین پی سی بی بنے تو وہاب کو چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سونپ دی گئی، محمد حفیظ سابق بورڈ چیف کے بہت قریب ہیں، ان کے تجویز کردہ ناموں میں وہاب بھی شامل تھے،وہ کمیٹی کا سربراہ بن گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چند ہی روز بعد دونوں میں اختلاف ہو گیا، وہاب میچ فکسنگ میں جیل جانے والے سابق کرکٹر سلمان بٹ کو کمیٹی میں لے آئے، اس پر طوفان برپا ہوگیا،حفیظ کا کہنا تھا کہ سلمان کو فیصلہ سازی کا حصہ نہیں ہونا چاہیے، حکومتی مداخلت پر ذکا اشرف کو فیصلہ تبدیل کرنا پڑا، بعد میں سابق وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے میٹنگ میں جب سلمان کی شمولیت پر سوال کیا تو ورچوئل طور پر شریک حفیظ نے فیصلے کی ذمہ داری وہاب پر ڈال دی، اس سے تعلقات میں اور گہری لکیر آ گئی،سلیکشن معاملات میں بھی اختلافات ہوئے، پھر جب بورڈ میں تبدیلی آئی اور محسن نقوی چیئرمین بن گئے تو حفیظ کو ملاقات کا وقت بھی نہیں ملا اور فارغ کر دیا گیا، شاید ان کے دل میں یہ بات آتی ہو کہ وہاب اس پر کیوں چپ رہا۔
نگراں حکومت میں محسن نقوی کے ساتھ کام کرنے والے وہاب ریاض چیف کے بغیر نئی سلیکشن کمیٹی میں بھی برقرار رہے، ان کی رائے پر ہی ہر فیصلہ ہوا کرتا تھا، پھر ان کے لیے سینئر منیجر کا عہدہ تخلیق کرتے ہوئے برطانیہ اور امریکا بھی بھیج دیا گیا، اس وقت تک وہ پاکستان کرکٹ کی دوسری طاقتور ترین شخصیت تھے، کھلاڑی یہ باتیں کرنے لگے تھے کہ ''وہاب بھائی بدل گئے'' ، پھر ورلڈکپ آیا اور وہاب بھائی کی قسمت ہی بدل گئی، جتنی جلدی ان کے عروج کو زوال آیا اتنا بہت کم ہی دیکھا گیا ہے، ہر جانب سے تنقید ہونے لگی۔
امریکا میں چند ڈالرز دے کر کھلاڑیوں کے ساتھ تقریب میں تصاویر بنوانے کا اشتہار سامنے آیا، رات گئے تک پلیئرز کے ہوٹل سے باہر رہنے کی باتیں افشا ہوئیں، کوئی بھی افسر ہو وہ آپ سے نہیں بلکہ آپ کے کام سے عشق کرتا ہے، جب تک آپ اچھے نتائج دے رہے ہوں آنکھوں میں بسے رہتے ہیں جہاں کوئی گڑبڑ ہوئی تو ہم آپ کے ہیں کون، وہاب بھی آہستہ آہستہ حکام کی نظروں سے اترنے لگے۔
اب ورلڈ کپ کے بعد کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا، وائٹ بال کی کرکٹ ابھی ہونی نہیں تو اتنی جلدی بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے کا کیا فائدہ ہوتا، ان کی فین فولوئنگ بھی بہت ہے،مداح ناراض بھی ہو جاتے، ایسے میں وہاب نظر میں آئے اور انھیں نہ صرف سلیکشن کمیٹی بلکہ سینئر منیجر کی پوسٹ سے بھی فارغ کر دیا گیا، یہ فیصلہ بالکل درست ہے لیکن کیا 2 سلیکٹرز وہاب ریاض اور عبدالرزاق نے ہی اسکواڈ منتخب کیا جو صرف انھیں نکالا گیا؟ دیگر کیوں بچ گئے؟
محمد یوسف بے ضرر قسم کے انسان ہیں، وہ ٹی وی پر بیٹھ کر تنقید کریں یا آپ کے ساتھ مل جائیں یہ دو آپشنز ہوتے ہیں، زیادہ تر بورڈ حکام انھیں کوئی نہ کوئی ذمہ داری سونپ ہی دیتے ہیں، بالکل لوپروفائل شخصیت کے مالک اسد شفیق تو یوسف سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں، ایسے لوگ کمیٹی کیلیے بہترین ہوتے ہیں، ان سے من پسند فیصلہ کرانا مشکل نہیں ہوتا، یہ ہوا کے رخ پر چلتے ہیں،ان سمیت سابق منسٹر صاحب بلال افضل و دیگر کو بھی گھر بھیجنا چاہیے، بالکل نئی سلیکشن کمیٹی بنائیں،
ویسے جب وہاب اور عبدالرزاق اتنے اہم موقع پر انگلینڈ میں لیجنڈز لیگ کھیلنے گئے تھے تب ہی مجھے آئیڈیا ہو گیا تھا کہ انھیں برطرفی کی سن گن لگ گئی ہے ورنہ کبھی نہ جاتے، پھر جب سابق کرکٹرز کی چیئرمین سے ملاقات کے بعد پریس ریلیز میں یہ پڑھا کہ ''سابق اسٹارز نے بعض سلیکٹرز پر تحفظات ظاہر کیے'' تو شک یقین میں بدل گیا، بعد میں یہی ہوا،اب آج اچانک شاہین آفریدی کے رویے پر میڈیا رپورٹس سامنے آنے لگی ہیں، اس سے لگتا ہے کہ شاید اگلا نشانہ وہ بنیں۔
ویسے وہاب جیسے سابق کرکٹرز آپ کو سینکڑوں مل جائیں گے لیکن شاہین جیسا بولر ایک بھی نہیں ملے گا لہذا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا پڑے گا،ان سب میں کپتان بابر اعظم سائیڈ میں آرام سے بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں حالانکہ شکستوں کی بڑی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے، وہ بطور قائد اور بیٹر اپنا کردار ادا نہ کر سکے، اصل سوال جواب ان سے ہونے چاہیئں، بابر کو بھی کم از کم شائقین سے معافی تو مانگنا چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
گذشتہ دنوں راشد لطیف نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے ساتھ راہول ڈریوڈ جیسا ایک مینٹور ہونا چاہیے، اس پر میں نے پوچھا کہ کون ہو سکتا ہے تو کوئی نام سامنے نہ آیا، یقینی طور پر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا، ڈریوڈ وہ انسان ہے جس کیلیے کپتان روہت شرما نے دل کو چھو لینے والا خط بھی لکھا، انھوں نے ڈھائی کروڑ روپے چھوڑ دیے کہ مجھے بھی دیگر کوچز کے برابر انعامی رقم ملنی چاہیے، بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی ایسا سابق کرکٹر موجود نہیں جو ڈھائی روپے بھی چھوڑ دے، جب آپ پیسے کو بھول کر ملک کو اہمیت دیں تب ہی مثبت نتائج سامنے آتے ہیں،لوگ بھی عزت دیتے ہیں، اب دیکھتے ہیں کسے چیف سلیکٹر بنایا جاتا ہے، ہم تو ماضی میں یہ ذمہ داری محمد الیاس کو بھی سونپ چکے تو اب جس کسی کا بھی نام سامنے آیا کوئی حیرت نہیں ہوگی۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)