بُک شیلف
نوازشریف وہ کاروباری شخصیت ہیں جو سابق آمر جنرل محمد ضیاء الحق کی مہربانی سے کوچۂ سیاست میں داخل ہوئے اور پھرچھاگئے
تنقیدی افق
مصنف: پروفیسر سحر انصاری
قیمت : 400 روپے،ناشر: ڈاکٹر سید جعفر احمد ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی 75270
دو عدد شعری مجموعے ''نمود'' اور ''خدا سے بات کرتے ہیں'' کے بعد ممتاز شاعر، نقاد، ماہر تعلیم، ہر جا یکساں مقبولیت و شہرت رکھنے والے پروفیسر سحر انصاری کے تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب ''تنقیدی افق'' کی اشاعت یقیناً ایک خوش آئند بات ہے۔ ادبی حلقے ایک عرصے سے ان کی تنقیدی کتابوں کے منتظر تھے۔
اس کتاب کے مرتب و ناشر ڈاکٹر سید جعفر احمد قابل داد ہیں کہ انھوں نے پروفیسر سحر انصاری کے مضامین (جو دست یاب ہوئے) کو اکٹھا کرکے کتابی شکل میں یک جا کیا، اس بارے میں ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں، ''اس کتاب میں جو مضامین شامل کیے گئے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں نظری نوعیت کے مضامین ہیں ان میں ادب کے منصب، ادبی مسائل، ادب کے بدلتے ہوئے رجحانات، سائنسی عہد میں ادب کی نوعیت اور کردار، آزادی کی تحریک کے دوران اور آزادی کے بعد کے ماہ و سال میں ادب کے کردار پر بحث کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں کلاسیکی دور سے لے کر عصر حاضر تک کے ادیبوں اور شاعروں میں سے چند ایک ایسے تخلیق کاروں پر لکھے گئے مضامین شامل ہیں جن سے ہمارے ادب کا اعتبار قائم ہوا۔''
پروفیسر سحر انصاری کا مطالعہ کتب وسیع ہے، اردو، انگریزی، فارسی اور ہندی کے کلاسیکی اور جدید ادب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم پر بھی گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے طرز تحریر میں تمام تر لوازمات مکمل حوالوں کے ساتھ ملتے ہیں اور ان کی تحریریں پڑھنے والے کو بھی صاحب علم بنانے میں معاونت کرتی ہیں، میں خود گذشتہ 29 سال سے پروفیسر سحر انصاری کو ادب کی تعلیم کی اور ادب سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی مخلصانہ راہ نمائی، مدد کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، میرے جیسے لاکھوں ان کے مداح ہیں، حقیقی طور پر سحر انصاری ان معدودے چند لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
جن کے ساتھ رہ کر آپ کا وقت ضائع نہیں ہوتا آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں، پروفیسر سحر انصاری نے بہت ہی اہم ادبی موضوعات اور شخصیات پر لکھا ہے۔ ان میں سے بیشتر مواد اس کتاب میں شامل نہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سحر انصاری کی وسیع و عریض لائبریری کی تلاشی لے کر اور پرانے ادبی جریدوں کو کھنگال کر مضامین یک جا کیے جائیں اور انھیں بھی کتابی شکل دی جائے۔ سحر انصاری نے تو ''تنقیدی افق) میں بے ترتیب زندگی بسر کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔تاہم یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے اپنے آپ کو کتنے حصوں میں تقسیم کررکھا ہے تعلیم، ادب، ادبی و سماجی تقریبات، نوجوان ادیبوں کی راہ نمائی، مشورے، اصلاح، آرٹس کونسل کراچی (جس میں وہ مسلسل کئی سالوں سے کثیر تعداد میں ووٹ لے کر منتخب ہوتے آرہے ہیں) گھریلو مصروفیات اپنے بچوں کی راہ نمائی، ان تمام حصوں میں تقسیم سحر انصاری شان دار ادب تخلیق کر رہے ہیں، ایسا ادب جس کے پڑھنے سے ایم اے اردو کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ ادب سے تعلق رکھنے والے شاعر و ادیب یکساں مستفیض ہوسکتے ہیں، اس کتاب کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔
نواز شریف کا سیاسی سفر
مصنف: راشد لطیف
قیمت: 500 روپے، ناشر: JF ایسوسی ایٹس SB-4 سیکٹر X-V، گلشن معمار، کراچی
144 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ''نوازشریف کا سیاسی سفر'' جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہورہا ہے، نواز شریف پر تحریر کی گئی ہے۔ نوازشریف وہ خوش قسمت کاروباری شخصیت ہیں جو سابق آمر جنرل محمد ضیاء الحق کی مہربانی سے کوچۂ سیاست میں داخل ہوئے اور پھر چھاگئے۔
اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلی شخصیت ہیں جو تیسری بار وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حیثیت سے حکم رانی کررہے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں مصنف نے نوازشریف کے ابتدائی دور سے لے کر ان کے تین بار وزیراعظم مقرر ہونے، جلاوطنی، وطن آمد اور ان کی رفاعی اسکیموں کے حوالے سے مثبت انداز میں تفصیلات بیان کی ہیں۔ نوازشریف کے کچھ مضبوط فیصلوں جن میں غلام اسحاق خان (سابق صدر پاکستان) کے خلاف اسٹینڈ لینا، قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے کا ذکر بھی کیا ہے۔
نوازشریف کی شخصیت اور سیاست اور تیسری بار وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان منتخب ہونے پر اراکین اسمبلی و اہم ملکی شخصیات جن میں محمد برجیس طاہر، عابد شیر علی، رانا تنویر حسین، سینیٹر مشاہد اﷲ خان، سینیٹر عبدالرحمٰن ملک، شیخ روحیل اصغر، محمد امین فہیم، ایس ایم منیر (ممتاز کاروباری شخصیت) ہمایوں خان مندوخیل، اعجاز الحق، ذوالفقار کھوسہ، سلیم ضیا اور دیگر کی آراء بھی شامل کی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر سب کی رائے میں نواز شریف سیاست میں نفاست پسند طبیعت، صاف (صاف گو شخصیت، شریف النفس، محب وطن راہ نما ہیں۔ راشد لطیف نے ذاتی محبت کو زمینی حقائق پر ترجیح دیتے ہوئے بہت سے اختلافی مسائل کو پرکھنے سے گریز کیا ہے۔
وہ خود بھی لکھتے ہیں کہ میں ایک پیدائشی مسلم لیگی ہوں، میں یہ کتاب اس لیے شائع کر رہا ہوں کہ ''عوامی سطح پر نوازشریف سے ناراض لوگوں کو بتاسکوں، سمجھاسکوں کہ شیر اس وقت مسائل کے آہنی پنجرے میں بند ہے۔'' راشدلطیف نے لکھتے ہوئے کئی بار تسلسل کو توڑا ہے۔ بعض جگہ صفحات نامعلوم وجوہ سے خالی بھی نظر آتے ہیں تو ادھورے بھی، مثلاً صفحہ 20 پر سابق آرمی چیف جہانگیر کرامت کے حوالے سے راشد لطیف نے لکھا ہے،''نوازشریف کو جنرل جہانگیر کرامت کی یہ بات ناگوار گزری انھوں نے فوجی جنرل سے پوچھا کہ آپ نے یہ بات اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے لیے کی ہے؟ اس کے بعد صفحہ خالی ہے اور یہ بات بھی ادھوری رہ جاتی ہے۔
ایسا لگا کہ جیسے اس کے بعد سنسر لگ گیا ہو موجودہ صورت حال میں یہ بات عمومی طور پر کہی جارہی ہے کہ نواز شریف اپنے انہی ساتھیوں کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جن کے مشوروں پر چل کر انہوں نے اپنی پچھلی حکومت گنوائی تھی، دوسری طرف یہ خیال اب بھی کیا جارہا ہے کہ شہباز شریف نواز شریف کی نسبت زیادہ بہتر فیصلہ کرنے اور یک جہتی کے ساتھ چلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان تمام امور پر اور نواز شریف پر کرپشن کے الزامات، جائیداد میں بے تحاشا اضافے سعودیہ میں شریف محل کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات، کسی پر راشد لطیف نے بحث یا حقائق سمیٹنے کی شعوری کوشش نہیں کی ہے۔ کتاب کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ نواز شریف سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ اہم دستاویزی کتاب ہے۔
ذرے میں کواڑ
شاعر: امتیاز الحق امتیاز،قیمت: 200 روپے
ناشر: مثال پبلی کیشنز، رحیم سینٹر، پریس مارکیٹ، فیصل آباد
معیاری شاعری کبھی بھی کسی فرقے، گروپ، یا مخصوص افراد تک محدود نہ رہی ہے نہ رہے گی یہ تو جس پر مہربان ہوتی ہے اس سے شعر کہنے کی ریاضت شروع کرادیتی ہے، خواہ وہ اعلیٰ عہدے پر فائز آفیسر ہو یا رکشہ چلانے والا یا پھر اینٹیں چُن کر دیوار بنانے والا مزدور۔ اسی لیے آج ہمارے ہاں ادبی خزانے میں شاعری کے بے پناہ عمدہ نمونے مختلف ذرائع سے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ایبٹ آباد گو بڑے شہروں کی بہ نسبت ایک چھوٹا سا مگر پُرامن خوب صورت شہر ہے جس میں معیاری اشعار کہنے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے بس ضرورت انھیں موقع ملنے کی ہے۔ کچھ جوان شعرا نسیم عباسی، رستم نامی، پرویز ساحر، جان عالم، ڈاکٹر ضیاء الرشید، واحد سراج، احمد حسین مجاہد کی صف میں ایک نمایاں نام امتیاز الحق امتیاز کا بھی ہے۔
''ذرے میں کواڑ'' ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے، جو اچھی طباعت اور معیار کے ساتھ مناسب قیمت پر شائع ہوا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد صفیان صفی نے امتیاز کی شاعری پر رائے دیتے ہوئے لکھا ہے،''امتیاز کی شاعری کی بنیادی خصوصیت اس کا موضوعاتی تنوع اور اسلوبیاتی پُرکاری ہے۔'' امتیاز الحق امتیاز کے ہاں اسلوبیاتی پُرکاری ہے یا نہیں، تاہم موضوعاتی تنوع کے مختلف نمونے ضرور ملتے ہیں۔ مجھے امتیازالحق امتیاز کی شاعری کی جو نمایاں خوبی محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کو کسی مخصوص دائرے میں قید نہیں رکھا، بلکہ محسوسات، مشاہدات، آپ بیتی اور جگ بیتی کے تمام لوازمات کو سمیٹ کر ''ذرے میں کواڑ'' کی شکل دی ہے۔
اب صدائے حق نہیں کافی عروج دار پر
مختلف ہے دُکھ ہمارے عہد کے منصور کا
۔۔۔۔۔۔
مکیں ہوتے تو آوازیں بھی ہوتیں
یہ گاؤں بس دکانوں سے بھرا ہے
۔۔۔۔۔
امتیاز اور تو کچھ بھی نہیں ہوتا ان سے
مری بے چینی بڑھادیتے ہیں خدشات مرے
امتیاز الحق امتیاز، مزدور طبیعت رکھتا ہے۔ سو محنت مزدوری، بھوک افلاس، اس کی حسیات کا اہم ترین جزو بن کر شاعری میں پروئے ہوئے ملتے ہیں اور یہ بہت خوب صورت جذبہ ہے، جو مکمل طاقت کے ساتھ قاری کو متوجہ کرتے ہیں، بھرپور طنز کے ساتھ:
گھروں میں پیٹیاں گندم سے خالی
مگر قصبہ کسانوں سے بھرا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی یہ برف باری سارا دن جاری رہی
آج بھی بھوکا رہا بچہ کسی مزدور کا
امتیاز الحق امتیاز نے نظمیں بھی اس مجموعے میں شامل کی ہیں، ان میں ''بے خوابی'' ترجیح، فرسٹریشن، کسک، اعزاز، المیہ، لے پالک اور تو نمایاں ہیں۔ ان میں ''تو'' بہت متاثر کن ہے اور اپنے موضوع کے لحاظ سے کئی زاویوں کو مکمل کرتی ہے، ملاحظہ ہو:''مرے سگ، اے مرے گھر کے محافظ سگ، وفاداری پہ تیری، کوئی شک مجھ کو نہیں، لیکن، ترے خلیوں میں، تبدیلی کی صورت میں، تری پہچان کی حس، مرگئی تو؟''امتیاز الحق امتیاز، محنتی باحوصلہ، توانا، لب و لہجے کا شاعر ہے، ادب اس سے اہم توقعات برائے مستقبل وابستہ کیے ہوئے ہے۔
مرے کشکول میں ہیں چاند سورج
شاعر ... عارف شفیق
قیمت ... 150 روپے،ناشر ... ادبی دنیاSP/1 بلاک i فیز نائن فلور الکرم اسکوائر ایف سی ایریا، کراچی
عارف شفیق کا شمار ان شعرا میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی ادبی شناخت کا حوالہ اپنے اشعار کو بنایا اور اندرون ملک اور بیرون ملک ان کے کئی اشعار سفر کرتے کرتے ضرب المثل کی حیثیت بھی اختیار کرگئے مثلاً:
غریب شہر تو فاقے سے مرگیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی
عارف شفیق، حبیب جالب کی طرح تو قدآور نہیں ہوسکے، تاہم ان کا ایک حوالہ انقلابی شاعر کا بھی ہے۔ ان کا وژن اس لحاظ سے محدود ہے کہ وہ اسے صرف کراچی شہر تک محدود کیے ہوئے ہیں، کراچی سے محبت اور اس شہر پر ٹوٹنے والے ظلم اے شعر کہنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ انہوں نے متوازن لہجے کے ساتھ خوب صورت اور آواز رکھنے والی شاعری کی ہے۔ لیکن زیرِتبصرہ کتاب ''مرے کشکول میں ہیں چاند سورج'' مجھے عارف کے پچھلے سارے شعری مجموعوں سے مختلف محسوس ہوئی وہ عشق مجاز سے عشق حقیقی کی طرف پلٹے ہیں اور اپنے نام کی طرح عرفان و معرفت کے دروازے چھونے کی شعوری کوشش کی ہے:
اگر دل میں نہ ہو عشق محمدؐ تو یقیں کرلو
کوئی انسان بھی عارف خدا کو پا نہیں سکتا
۔۔۔۔۔۔
اس لیے وقت سحر جاگ رہا ہوتا ہوں
میں پرندوں سے ترا ذکر سنا کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔
وہ ایک بیج کو پہلے شجر بنائے گا
پھر اس شجر کو پرندوں کا گھر بنائے گا
اسی طرح سے اولیاء اﷲ اور قلندروں کی طرف بھی عارف نے رجوع کیا ہے اور یہ اثر بھی بہت گہرا اثر ہے جو مضبوطی سے انہیں جکڑے ہوئے ہے۔ کتاب کے پہلے صفحے پر درج شعر:
میں نہ درویش نہ صوفی نہ قلندر عارف
اور ہی کچھ مجھے وجدان بنادیتا ہے
کے ساتھ ساتھ اس کتاب کا انتساب معروف روحانی شخصیت حضرت عبداﷲ شاہ غازیؒ کے نام سے منسوب ہے اور ان پر کیے گئے وارفتگی شوق اور عقیدت سے گندھے ہوئے اشعار بھی اس کتاب میں شامل ہیں، کچھ دیگر اولیاء اﷲ کا بھی ذکر ان کے ہاں ملتا ہے، کچھ مصرعے اور کچھ اشعار اسی تناظر میں:
سخی شہباز سا کوئی قلندر آنہیں سکتا
۔۔۔۔
میں پھر کشکول لے کر آگیا عبداﷲ شاہ غازی
۔۔۔۔۔
جاری ہے داتا کا لنگر اور فقیری کیا ہوتی ہے
۔۔۔۔۔
ہیں اس میں کتنے صوفی قلندر بسے ہوئے
لگتا ہے اپنا دل مجھے ملتان کی طرح
عارف شفیق نے مجذوبیت کی کیفیت میں ڈوب کر شاعری کی ہے اور ان کا اپنا رنگ بھی اس شعری مجموعے کی کئی غزلوں میں شامل ہے۔ اس میں کراچی شہر، گولیاں، قتل، بھاری بوٹوں کی آہٹ، سب شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے والد محترم معروف شاعر شفیق بریلوی کے لیے جو اشعار کہے اس میں سے ایک شعر ملاحظہ ہو:
گھر سے چیخیں اٹھ رہی ہیں اور میں جاگا نہ تھا
اتنی گہری نیند تو پہلے کبھی سویا نہ تھا
عارف شفیق کا یہ شعر بھی اس کی والدین سے محبت کا واضح ثبوت ہے
دنیا کے ہر غم سے ہوکر بے گانہ
ماں کی گود میں سر رکھ کر سوجاتا ہوں
عارف شفیق نے ''درویشی کی راہ چلادے پیارے اﷲ سائیں'' دعا مانگی ہے، سو انھیں ان کی منزل مبارک ہو۔ کتاب کی قیمت بہت مناسب ہے اور یقیناً یہ ایک متوازن لب و لہجے کا شعری مجموعہ ہے جو قاری کو گرفت میں لیے رکھتا ہے۔
امید بہار رکھ
مصنفہ: کلثوم واحد
قیمت:750 روپے،ناشر: اسد واحد پبلی کیشنز، B-239 بلاک 2، پی ای سی ایچ ایس، کراچی 29 ،تقسیم کار: توکل اکیڈمی 31 نیو اردو بازار کراچی
576 صفحات پر مشتمل اس نثری مجموعے میں مصنفہ کلثوم واحد کی 17 کہانیاں، 2سفر نامے اور ایک مختصر ناول آسماں کا اشارہ شامل ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک ضخیم تخلیقی مجموعہ ہے، جسے پڑھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ مصنفہ نے اپنی تحریروں کے حوالے سے خود لکھا ہے،''میں نے اپنا پہلا افسانہ لکھا اور ماہنامہ ''دوشیزہ'' کو ارسال کردیا۔ بہت خوشی اور اعتماد حاصل ہوا جب اسے پذیرائی ملی، رعنا فاوقی جیسی مستند مصنفہ سے داد اور ہمت افزائی نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔
کئی دیگر رسائل میں بھی لکھا لیکن زیادہ تعلق ''دوشیزہ'' ہی سے رہا تقریباً میرا ہر دوسرا افسانہ ایوارڈ کا مستحق ٹھہرا۔'' اس تحریر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس کتاب میں جتنی بھی تخلیقات کو جمع کیا گیا ہے سب کے سب ڈائجسٹوں کے لیے لکھی گئی ہیں اور ڈائجسٹوں کے لیے تحریر کردہ کہانیاں ایک خاص مزاج کی حامل ہوتی ہیں اور انھیں کسی طور بھی ادبی تحریر نہیں سمجھا گیا۔
مصنفہ نے اپنی تحریر میں لفظ ''افسانہ'' استعمال کیا ہے، جب کہ اس کتاب میں جتنی تحریریں شامل ہیں وہ ''کہانیاں'' ہیں۔ سفر نامے متوازن ہیں، جو معلومات کے ساتھ ساتھ مصنفہ کی تحریر پر مضبوط گرفت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ مصنفہ نے اپنی کہانیوں میں معاشرے کے مختلف کرداروں پر بات کی ہے ''آئینہ روبرو'' میں خواتین کی منافقت اور مفاد پرستی پر تلخی سے لکھا ہے۔ ''بے مہر آسماں'' کاری کے موضوع پر لکھی گئی روایتی تحریر ہ، اسی طرح سے دیگر کہانیاں بھی مختلف موضوعات کو سمیٹے ہوئے ہیں۔
کچھ کہانیاں معیاری ہیں کچھ کم زور، کچھ کا اختتام مصنفہ سنبھال نہیں سکیں، جیسے ''چیلینج'' ایک ایسے موضوع پر لکھی گئی کہانی ہے جس میں بہت سے تلخ سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ میرے خیال میں مصنفہ اسے مزید بہتر لکھ سکتی تھیں۔ بہرحال ساری کہانیوں، سفر نامے اور ناول کو پڑھنے کے بعد ایک بات تو یقینی اور حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ کلثوم واحد نثر لکھنے کا ہنر رکھتی ہیں اور یہ بات ہی کافی ہے۔ یہ کہانیوں کا مجموعہ گھریلو خواتین کے لیے وقت گزاری کا ایک اہم وسیلہ ہے۔
مصنف: پروفیسر سحر انصاری
قیمت : 400 روپے،ناشر: ڈاکٹر سید جعفر احمد ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی 75270
دو عدد شعری مجموعے ''نمود'' اور ''خدا سے بات کرتے ہیں'' کے بعد ممتاز شاعر، نقاد، ماہر تعلیم، ہر جا یکساں مقبولیت و شہرت رکھنے والے پروفیسر سحر انصاری کے تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب ''تنقیدی افق'' کی اشاعت یقیناً ایک خوش آئند بات ہے۔ ادبی حلقے ایک عرصے سے ان کی تنقیدی کتابوں کے منتظر تھے۔
اس کتاب کے مرتب و ناشر ڈاکٹر سید جعفر احمد قابل داد ہیں کہ انھوں نے پروفیسر سحر انصاری کے مضامین (جو دست یاب ہوئے) کو اکٹھا کرکے کتابی شکل میں یک جا کیا، اس بارے میں ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں، ''اس کتاب میں جو مضامین شامل کیے گئے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں نظری نوعیت کے مضامین ہیں ان میں ادب کے منصب، ادبی مسائل، ادب کے بدلتے ہوئے رجحانات، سائنسی عہد میں ادب کی نوعیت اور کردار، آزادی کی تحریک کے دوران اور آزادی کے بعد کے ماہ و سال میں ادب کے کردار پر بحث کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں کلاسیکی دور سے لے کر عصر حاضر تک کے ادیبوں اور شاعروں میں سے چند ایک ایسے تخلیق کاروں پر لکھے گئے مضامین شامل ہیں جن سے ہمارے ادب کا اعتبار قائم ہوا۔''
پروفیسر سحر انصاری کا مطالعہ کتب وسیع ہے، اردو، انگریزی، فارسی اور ہندی کے کلاسیکی اور جدید ادب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم پر بھی گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے طرز تحریر میں تمام تر لوازمات مکمل حوالوں کے ساتھ ملتے ہیں اور ان کی تحریریں پڑھنے والے کو بھی صاحب علم بنانے میں معاونت کرتی ہیں، میں خود گذشتہ 29 سال سے پروفیسر سحر انصاری کو ادب کی تعلیم کی اور ادب سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی مخلصانہ راہ نمائی، مدد کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، میرے جیسے لاکھوں ان کے مداح ہیں، حقیقی طور پر سحر انصاری ان معدودے چند لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
جن کے ساتھ رہ کر آپ کا وقت ضائع نہیں ہوتا آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں، پروفیسر سحر انصاری نے بہت ہی اہم ادبی موضوعات اور شخصیات پر لکھا ہے۔ ان میں سے بیشتر مواد اس کتاب میں شامل نہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سحر انصاری کی وسیع و عریض لائبریری کی تلاشی لے کر اور پرانے ادبی جریدوں کو کھنگال کر مضامین یک جا کیے جائیں اور انھیں بھی کتابی شکل دی جائے۔ سحر انصاری نے تو ''تنقیدی افق) میں بے ترتیب زندگی بسر کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔تاہم یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے اپنے آپ کو کتنے حصوں میں تقسیم کررکھا ہے تعلیم، ادب، ادبی و سماجی تقریبات، نوجوان ادیبوں کی راہ نمائی، مشورے، اصلاح، آرٹس کونسل کراچی (جس میں وہ مسلسل کئی سالوں سے کثیر تعداد میں ووٹ لے کر منتخب ہوتے آرہے ہیں) گھریلو مصروفیات اپنے بچوں کی راہ نمائی، ان تمام حصوں میں تقسیم سحر انصاری شان دار ادب تخلیق کر رہے ہیں، ایسا ادب جس کے پڑھنے سے ایم اے اردو کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ ادب سے تعلق رکھنے والے شاعر و ادیب یکساں مستفیض ہوسکتے ہیں، اس کتاب کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔
نواز شریف کا سیاسی سفر
مصنف: راشد لطیف
قیمت: 500 روپے، ناشر: JF ایسوسی ایٹس SB-4 سیکٹر X-V، گلشن معمار، کراچی
144 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ''نوازشریف کا سیاسی سفر'' جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہورہا ہے، نواز شریف پر تحریر کی گئی ہے۔ نوازشریف وہ خوش قسمت کاروباری شخصیت ہیں جو سابق آمر جنرل محمد ضیاء الحق کی مہربانی سے کوچۂ سیاست میں داخل ہوئے اور پھر چھاگئے۔
اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلی شخصیت ہیں جو تیسری بار وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حیثیت سے حکم رانی کررہے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں مصنف نے نوازشریف کے ابتدائی دور سے لے کر ان کے تین بار وزیراعظم مقرر ہونے، جلاوطنی، وطن آمد اور ان کی رفاعی اسکیموں کے حوالے سے مثبت انداز میں تفصیلات بیان کی ہیں۔ نوازشریف کے کچھ مضبوط فیصلوں جن میں غلام اسحاق خان (سابق صدر پاکستان) کے خلاف اسٹینڈ لینا، قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے کا ذکر بھی کیا ہے۔
نوازشریف کی شخصیت اور سیاست اور تیسری بار وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان منتخب ہونے پر اراکین اسمبلی و اہم ملکی شخصیات جن میں محمد برجیس طاہر، عابد شیر علی، رانا تنویر حسین، سینیٹر مشاہد اﷲ خان، سینیٹر عبدالرحمٰن ملک، شیخ روحیل اصغر، محمد امین فہیم، ایس ایم منیر (ممتاز کاروباری شخصیت) ہمایوں خان مندوخیل، اعجاز الحق، ذوالفقار کھوسہ، سلیم ضیا اور دیگر کی آراء بھی شامل کی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر سب کی رائے میں نواز شریف سیاست میں نفاست پسند طبیعت، صاف (صاف گو شخصیت، شریف النفس، محب وطن راہ نما ہیں۔ راشد لطیف نے ذاتی محبت کو زمینی حقائق پر ترجیح دیتے ہوئے بہت سے اختلافی مسائل کو پرکھنے سے گریز کیا ہے۔
وہ خود بھی لکھتے ہیں کہ میں ایک پیدائشی مسلم لیگی ہوں، میں یہ کتاب اس لیے شائع کر رہا ہوں کہ ''عوامی سطح پر نوازشریف سے ناراض لوگوں کو بتاسکوں، سمجھاسکوں کہ شیر اس وقت مسائل کے آہنی پنجرے میں بند ہے۔'' راشدلطیف نے لکھتے ہوئے کئی بار تسلسل کو توڑا ہے۔ بعض جگہ صفحات نامعلوم وجوہ سے خالی بھی نظر آتے ہیں تو ادھورے بھی، مثلاً صفحہ 20 پر سابق آرمی چیف جہانگیر کرامت کے حوالے سے راشد لطیف نے لکھا ہے،''نوازشریف کو جنرل جہانگیر کرامت کی یہ بات ناگوار گزری انھوں نے فوجی جنرل سے پوچھا کہ آپ نے یہ بات اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے لیے کی ہے؟ اس کے بعد صفحہ خالی ہے اور یہ بات بھی ادھوری رہ جاتی ہے۔
ایسا لگا کہ جیسے اس کے بعد سنسر لگ گیا ہو موجودہ صورت حال میں یہ بات عمومی طور پر کہی جارہی ہے کہ نواز شریف اپنے انہی ساتھیوں کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جن کے مشوروں پر چل کر انہوں نے اپنی پچھلی حکومت گنوائی تھی، دوسری طرف یہ خیال اب بھی کیا جارہا ہے کہ شہباز شریف نواز شریف کی نسبت زیادہ بہتر فیصلہ کرنے اور یک جہتی کے ساتھ چلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان تمام امور پر اور نواز شریف پر کرپشن کے الزامات، جائیداد میں بے تحاشا اضافے سعودیہ میں شریف محل کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات، کسی پر راشد لطیف نے بحث یا حقائق سمیٹنے کی شعوری کوشش نہیں کی ہے۔ کتاب کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ نواز شریف سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ اہم دستاویزی کتاب ہے۔
ذرے میں کواڑ
شاعر: امتیاز الحق امتیاز،قیمت: 200 روپے
ناشر: مثال پبلی کیشنز، رحیم سینٹر، پریس مارکیٹ، فیصل آباد
معیاری شاعری کبھی بھی کسی فرقے، گروپ، یا مخصوص افراد تک محدود نہ رہی ہے نہ رہے گی یہ تو جس پر مہربان ہوتی ہے اس سے شعر کہنے کی ریاضت شروع کرادیتی ہے، خواہ وہ اعلیٰ عہدے پر فائز آفیسر ہو یا رکشہ چلانے والا یا پھر اینٹیں چُن کر دیوار بنانے والا مزدور۔ اسی لیے آج ہمارے ہاں ادبی خزانے میں شاعری کے بے پناہ عمدہ نمونے مختلف ذرائع سے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ایبٹ آباد گو بڑے شہروں کی بہ نسبت ایک چھوٹا سا مگر پُرامن خوب صورت شہر ہے جس میں معیاری اشعار کہنے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے بس ضرورت انھیں موقع ملنے کی ہے۔ کچھ جوان شعرا نسیم عباسی، رستم نامی، پرویز ساحر، جان عالم، ڈاکٹر ضیاء الرشید، واحد سراج، احمد حسین مجاہد کی صف میں ایک نمایاں نام امتیاز الحق امتیاز کا بھی ہے۔
''ذرے میں کواڑ'' ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے، جو اچھی طباعت اور معیار کے ساتھ مناسب قیمت پر شائع ہوا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد صفیان صفی نے امتیاز کی شاعری پر رائے دیتے ہوئے لکھا ہے،''امتیاز کی شاعری کی بنیادی خصوصیت اس کا موضوعاتی تنوع اور اسلوبیاتی پُرکاری ہے۔'' امتیاز الحق امتیاز کے ہاں اسلوبیاتی پُرکاری ہے یا نہیں، تاہم موضوعاتی تنوع کے مختلف نمونے ضرور ملتے ہیں۔ مجھے امتیازالحق امتیاز کی شاعری کی جو نمایاں خوبی محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کو کسی مخصوص دائرے میں قید نہیں رکھا، بلکہ محسوسات، مشاہدات، آپ بیتی اور جگ بیتی کے تمام لوازمات کو سمیٹ کر ''ذرے میں کواڑ'' کی شکل دی ہے۔
اب صدائے حق نہیں کافی عروج دار پر
مختلف ہے دُکھ ہمارے عہد کے منصور کا
۔۔۔۔۔۔
مکیں ہوتے تو آوازیں بھی ہوتیں
یہ گاؤں بس دکانوں سے بھرا ہے
۔۔۔۔۔
امتیاز اور تو کچھ بھی نہیں ہوتا ان سے
مری بے چینی بڑھادیتے ہیں خدشات مرے
امتیاز الحق امتیاز، مزدور طبیعت رکھتا ہے۔ سو محنت مزدوری، بھوک افلاس، اس کی حسیات کا اہم ترین جزو بن کر شاعری میں پروئے ہوئے ملتے ہیں اور یہ بہت خوب صورت جذبہ ہے، جو مکمل طاقت کے ساتھ قاری کو متوجہ کرتے ہیں، بھرپور طنز کے ساتھ:
گھروں میں پیٹیاں گندم سے خالی
مگر قصبہ کسانوں سے بھرا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی یہ برف باری سارا دن جاری رہی
آج بھی بھوکا رہا بچہ کسی مزدور کا
امتیاز الحق امتیاز نے نظمیں بھی اس مجموعے میں شامل کی ہیں، ان میں ''بے خوابی'' ترجیح، فرسٹریشن، کسک، اعزاز، المیہ، لے پالک اور تو نمایاں ہیں۔ ان میں ''تو'' بہت متاثر کن ہے اور اپنے موضوع کے لحاظ سے کئی زاویوں کو مکمل کرتی ہے، ملاحظہ ہو:''مرے سگ، اے مرے گھر کے محافظ سگ، وفاداری پہ تیری، کوئی شک مجھ کو نہیں، لیکن، ترے خلیوں میں، تبدیلی کی صورت میں، تری پہچان کی حس، مرگئی تو؟''امتیاز الحق امتیاز، محنتی باحوصلہ، توانا، لب و لہجے کا شاعر ہے، ادب اس سے اہم توقعات برائے مستقبل وابستہ کیے ہوئے ہے۔
مرے کشکول میں ہیں چاند سورج
شاعر ... عارف شفیق
قیمت ... 150 روپے،ناشر ... ادبی دنیاSP/1 بلاک i فیز نائن فلور الکرم اسکوائر ایف سی ایریا، کراچی
عارف شفیق کا شمار ان شعرا میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی ادبی شناخت کا حوالہ اپنے اشعار کو بنایا اور اندرون ملک اور بیرون ملک ان کے کئی اشعار سفر کرتے کرتے ضرب المثل کی حیثیت بھی اختیار کرگئے مثلاً:
غریب شہر تو فاقے سے مرگیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی
عارف شفیق، حبیب جالب کی طرح تو قدآور نہیں ہوسکے، تاہم ان کا ایک حوالہ انقلابی شاعر کا بھی ہے۔ ان کا وژن اس لحاظ سے محدود ہے کہ وہ اسے صرف کراچی شہر تک محدود کیے ہوئے ہیں، کراچی سے محبت اور اس شہر پر ٹوٹنے والے ظلم اے شعر کہنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ انہوں نے متوازن لہجے کے ساتھ خوب صورت اور آواز رکھنے والی شاعری کی ہے۔ لیکن زیرِتبصرہ کتاب ''مرے کشکول میں ہیں چاند سورج'' مجھے عارف کے پچھلے سارے شعری مجموعوں سے مختلف محسوس ہوئی وہ عشق مجاز سے عشق حقیقی کی طرف پلٹے ہیں اور اپنے نام کی طرح عرفان و معرفت کے دروازے چھونے کی شعوری کوشش کی ہے:
اگر دل میں نہ ہو عشق محمدؐ تو یقیں کرلو
کوئی انسان بھی عارف خدا کو پا نہیں سکتا
۔۔۔۔۔۔
اس لیے وقت سحر جاگ رہا ہوتا ہوں
میں پرندوں سے ترا ذکر سنا کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔
وہ ایک بیج کو پہلے شجر بنائے گا
پھر اس شجر کو پرندوں کا گھر بنائے گا
اسی طرح سے اولیاء اﷲ اور قلندروں کی طرف بھی عارف نے رجوع کیا ہے اور یہ اثر بھی بہت گہرا اثر ہے جو مضبوطی سے انہیں جکڑے ہوئے ہے۔ کتاب کے پہلے صفحے پر درج شعر:
میں نہ درویش نہ صوفی نہ قلندر عارف
اور ہی کچھ مجھے وجدان بنادیتا ہے
کے ساتھ ساتھ اس کتاب کا انتساب معروف روحانی شخصیت حضرت عبداﷲ شاہ غازیؒ کے نام سے منسوب ہے اور ان پر کیے گئے وارفتگی شوق اور عقیدت سے گندھے ہوئے اشعار بھی اس کتاب میں شامل ہیں، کچھ دیگر اولیاء اﷲ کا بھی ذکر ان کے ہاں ملتا ہے، کچھ مصرعے اور کچھ اشعار اسی تناظر میں:
سخی شہباز سا کوئی قلندر آنہیں سکتا
۔۔۔۔
میں پھر کشکول لے کر آگیا عبداﷲ شاہ غازی
۔۔۔۔۔
جاری ہے داتا کا لنگر اور فقیری کیا ہوتی ہے
۔۔۔۔۔
ہیں اس میں کتنے صوفی قلندر بسے ہوئے
لگتا ہے اپنا دل مجھے ملتان کی طرح
عارف شفیق نے مجذوبیت کی کیفیت میں ڈوب کر شاعری کی ہے اور ان کا اپنا رنگ بھی اس شعری مجموعے کی کئی غزلوں میں شامل ہے۔ اس میں کراچی شہر، گولیاں، قتل، بھاری بوٹوں کی آہٹ، سب شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے والد محترم معروف شاعر شفیق بریلوی کے لیے جو اشعار کہے اس میں سے ایک شعر ملاحظہ ہو:
گھر سے چیخیں اٹھ رہی ہیں اور میں جاگا نہ تھا
اتنی گہری نیند تو پہلے کبھی سویا نہ تھا
عارف شفیق کا یہ شعر بھی اس کی والدین سے محبت کا واضح ثبوت ہے
دنیا کے ہر غم سے ہوکر بے گانہ
ماں کی گود میں سر رکھ کر سوجاتا ہوں
عارف شفیق نے ''درویشی کی راہ چلادے پیارے اﷲ سائیں'' دعا مانگی ہے، سو انھیں ان کی منزل مبارک ہو۔ کتاب کی قیمت بہت مناسب ہے اور یقیناً یہ ایک متوازن لب و لہجے کا شعری مجموعہ ہے جو قاری کو گرفت میں لیے رکھتا ہے۔
امید بہار رکھ
مصنفہ: کلثوم واحد
قیمت:750 روپے،ناشر: اسد واحد پبلی کیشنز، B-239 بلاک 2، پی ای سی ایچ ایس، کراچی 29 ،تقسیم کار: توکل اکیڈمی 31 نیو اردو بازار کراچی
576 صفحات پر مشتمل اس نثری مجموعے میں مصنفہ کلثوم واحد کی 17 کہانیاں، 2سفر نامے اور ایک مختصر ناول آسماں کا اشارہ شامل ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک ضخیم تخلیقی مجموعہ ہے، جسے پڑھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ مصنفہ نے اپنی تحریروں کے حوالے سے خود لکھا ہے،''میں نے اپنا پہلا افسانہ لکھا اور ماہنامہ ''دوشیزہ'' کو ارسال کردیا۔ بہت خوشی اور اعتماد حاصل ہوا جب اسے پذیرائی ملی، رعنا فاوقی جیسی مستند مصنفہ سے داد اور ہمت افزائی نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔
کئی دیگر رسائل میں بھی لکھا لیکن زیادہ تعلق ''دوشیزہ'' ہی سے رہا تقریباً میرا ہر دوسرا افسانہ ایوارڈ کا مستحق ٹھہرا۔'' اس تحریر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس کتاب میں جتنی بھی تخلیقات کو جمع کیا گیا ہے سب کے سب ڈائجسٹوں کے لیے لکھی گئی ہیں اور ڈائجسٹوں کے لیے تحریر کردہ کہانیاں ایک خاص مزاج کی حامل ہوتی ہیں اور انھیں کسی طور بھی ادبی تحریر نہیں سمجھا گیا۔
مصنفہ نے اپنی تحریر میں لفظ ''افسانہ'' استعمال کیا ہے، جب کہ اس کتاب میں جتنی تحریریں شامل ہیں وہ ''کہانیاں'' ہیں۔ سفر نامے متوازن ہیں، جو معلومات کے ساتھ ساتھ مصنفہ کی تحریر پر مضبوط گرفت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ مصنفہ نے اپنی کہانیوں میں معاشرے کے مختلف کرداروں پر بات کی ہے ''آئینہ روبرو'' میں خواتین کی منافقت اور مفاد پرستی پر تلخی سے لکھا ہے۔ ''بے مہر آسماں'' کاری کے موضوع پر لکھی گئی روایتی تحریر ہ، اسی طرح سے دیگر کہانیاں بھی مختلف موضوعات کو سمیٹے ہوئے ہیں۔
کچھ کہانیاں معیاری ہیں کچھ کم زور، کچھ کا اختتام مصنفہ سنبھال نہیں سکیں، جیسے ''چیلینج'' ایک ایسے موضوع پر لکھی گئی کہانی ہے جس میں بہت سے تلخ سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ میرے خیال میں مصنفہ اسے مزید بہتر لکھ سکتی تھیں۔ بہرحال ساری کہانیوں، سفر نامے اور ناول کو پڑھنے کے بعد ایک بات تو یقینی اور حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ کلثوم واحد نثر لکھنے کا ہنر رکھتی ہیں اور یہ بات ہی کافی ہے۔ یہ کہانیوں کا مجموعہ گھریلو خواتین کے لیے وقت گزاری کا ایک اہم وسیلہ ہے۔