دنیا بھر میں ہر 10 میں سے ایک بچہ دردِ شقیقہ کا شکار ہے طبی ماہر

سیمینار سے ڈاکٹر محمد اسماعیل خالد نے امریکا سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا اور بچوں میں سردرد پر گفتگو کی


دعا عباس July 11, 2024

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں "دردِ شقیقہ" کے بین الاقوامی مہینے کے سلسلے میں"مائیگرین اینڈ ہیڈیک اویرنس" کے عنوان سے منعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئےطبی ماہر ڈاکٹر محمد اسماعیل خالد یوسف نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں ہر 7 میں سے ایک بالغ اور ہر 10 میں سے ایک بچہ دردِ شقیقہ کا شکار ہے۔

سیمینار کا انعقاد ڈاؤ یونیورسٹی کے پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹر نے پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی (پی ایس این) کے اشتراک سے کیا جس کی صدارت پروفیسر نیورولوجی ڈاکٹر نائلہ نعیم شہباز نے کی اور ڈاکٹر سدرہ جازل فاروقی پروگرام کوآرڈینیٹر تھیں۔

سیمینار سے ڈاکٹر محمد اسماعیل خالد یوسف نے امریکا سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا اور بچوں اور نو عمر افرا د میں سردرد پر گفتگو کی۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر 3.1 ارب سے زائد افراد یعنی دنیا کی 40 فیصد آبادی کسی نہ کسی قسم کےسردرد کے عارضے میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً 2 ارب افراد ٹینشن سے ہونے والے سردرد جبکہ ایک ارب افراد مائیگرین کا شکار ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق 90 فیصد کیسز میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا سردرد مائیگرین ہی نکلتا ہے۔

ڈاکٹر اسماعیل نے کہا کہ دنیا بھرمیں ہر 7 میں سے ایک بالغ انسان مائیگرین کاشکار ہے جبکہ عالمی سطح پر 10 میں سے ایک بچہ اورنو عمر مریض دردِ شقیقہ میں مبتلا ہے۔تاہم،پاکستان میں اس مرض میں مبتلا بالغ افراد کی تعداد بدقسمتی سے اوسط سے زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر مائیگرین کا پھیلاؤ 14 فیصد ہے جبکہ 2017 میں مقامی سطح پر کی جانے والی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ایک سال میں مائیگرین کا پھیلاؤ انداز اً 22.5 فیصد ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عالمی سطح پر ٹینشن سے ہونے والے سردر د کا پھیلاؤ 26 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں اس کی شرح 44.6 فیصد ہے۔بچوں میں سرد رد سے متعلق ڈاکٹر اسماعیل نے کہا کہ بچوں اور نوعمروں میں سرد رد ، اسکول میں غیر حاضری کی وجہ بننے والی تیسری سب سے عام بیماری ہے جو معیارِ زندگی، تفریحی سرگرمیوں، ذاتی زندگی اور پڑھائی میں دشواری کا باعث بن سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بار بار ہونے والا سردرد جو ایک یا اس سے زائد دن ہوتا ہے، یہ درد عموماً 30 فیصد بچوں کو ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مائیگرین کے محرکات میں خواتین میں ہارمونز کی تبدیلی، ٹینشن، اسٹریس سونے کی اوقات کار میں کمی یا تبدیلی،موسم، تیز روشنی یا شور شامل ہیں۔مردوں کے مقابلے میں خواتین اس تکلیف کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ بچے جنہیں کم عمری میں سردرد کی شکایت ہوتی ہیں ان میں بڑے ہونے کے بعد ذہنی امراض کا خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

مائیگرین کے نفسیاتی و سماجی اسباب اور اثرات سے متعلق انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں سردرد کا ممکنہ تشدد، نظرانداز کیے جا نا یا بدسلوکی کو بتایا جاتا ہے تاہم بروکن فیملیز کے بچوں کی اس سردرد سے نمٹنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ زندگی کے ابتدائی 18 برسوں میں ہونے والے منفی تجربات اور ان سے ہونے والا اسٹریس بھی منفی اور مجموعی طور پر نوجوانوں میں دائمی درد اور ذہنی امراض سے منسلک ہے۔

انہوں نے مختلف نوعیت کے سرد رد کا شکار بچوں کی کیس اسٹڈیز پر بھی روشنی ڈالی ، جن میں سے ایک8 سال بچے کا سردرد ٹیومر کا نتیجہ تھا، جبکہ 11 سے 16 سال کے بچوںمیں ہونے والا سردرد ذہنی دباؤ اور خاص طور پر پڑھائی سے متعلق اسٹریس اور گھریلو پریشانی کی وجہ سےتھا جو دردِ شقیقہ کی وجہ بنا۔

ڈاکٹر اسماعیل نے دردِ شقیقہ سے جڑے دیگر امراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں میں مائیگرین سے جڑے ان سنڈرومز کی شرح 5 فیصد ہے، جیسا کہ جن بچوں کو ایبڈومنل مائیگرین ہوتا ہے تو 70 فیصد امکان ہے کہ وہ بالغ العمری میں دردِ شقیقہ کا شکار ہوں گے۔

انہو ں نے کہا کہ مائیگرین کی تشخیص میں فیملی ہسٹری بھی اہم ہے، جن بچوں میں مائیگرین کی تشخیص ہوتی ہے ان میں سے کم از کم دو تہائی فیصد کے والدین میں سے کسی ایک کو بھی اسی عمر میں اس درد کی شکایت تھی۔اگر والدین میں سے کسی ایک کو مائیگرین ہے تو بچوں میں منتقلی کاامکان تقریباً 50فیصد ہے اور اگر دونوں کو یہ مسئلہ ہے تو بچوں کے دردِ شقیقہ کا شکارہونے کا امکان 75 فیصد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مائیگرین کے کم ازکم ایک تہائی مریضوں کو یہ شکایت بچپن یا نوعمری سے ہوتی ہے، جن کی اکثریت کو سردرد کی شکایت زندگی بھر ہوتی رہتی ہے، جبکہ 50 فیصد کو مائیگرین ہوتا ہے اور 25 فیصد کو ٹینشن پر مبنی سردرد میں تبدیل ہوجاتا ہے،انہوں نے کہا کہ دردِ شقیقہ کے لیے درد کش ادویات دی جاتی ہیں اور بوقت ضرورت تھراپی تجویز کی جاتی ہے جو مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

مائیگرین پر قابو پانے کے لیے انہوں نے اسکرین ٹائم میں کمی بھی تجویز کی کہ 2 برس سے کم عمر بچوں کو موبائل فون بالکل بھی نہ دکھایا جائے، 2 سے 5 برس کے بچوں کو روزانہ ایک گھنٹے سے زیادہ نہ دکھایا جائے، فون ایک فٹ دورہونا چاہیے، کمپیوٹر سے کم از کم 2 فٹ کے فاصلے پر بیٹھیں اور ٹی وی سے 10 فٹ دور بیٹھا جائے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسمارٹ فونز یا کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے بیٹھنے کا انداز بھی اس درد کی وجہ بنتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔