’’سُرخ رُو عشق غیور از خُون او‘‘ ؛ حسین  ؓ  ظلمت شب میں ہے اک  مۂ کامل

عبداللطیف ابو شامل  جمعـء 12 جولائی 2024
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

حسینؓ لامثال ہیں، لامثال ہیں حسینؓ، کہاں سے لائے گی دنیا حسینؓ جیسا کوئی۔۔۔ ؟

وہ جو شہر علم ﷺ کے چہیتے نواسے، جنہیں آپؐ اپنا بیٹا فرماتے تھے، وہ حسینؓ جن کے بابا شہر علمؐ کے باب علمؓ ہیں۔ جی! وہ حسینؓ ذی وقار کہ جن کے لیے رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اﷲ تعالیٰ اس شخص کو محبوب رکھتا ہے، جو حسین سے محبت رکھے، حسین (میری) اولاد میں سے ایک فرزند ارجمند ہے۔‘‘

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’اے اﷲ! میں اس حسین سے محبت کرتا ہوں، تُو بھی حسین سے محبت فرما۔‘‘

’’جس نے حسین سے محبّت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔‘‘

وہ حسینؓ جن کے فرمودات گرامی روشنی کا مینار ہیں، وہ جو دنیا کی تارک راہوں میں شمع نُور ہیں، وہ حسینؓ جو سراپا حق اور باطل کے سامنے کوہ سار بنے رہے اور ایسے کوہ سار جنہیں کوئی بھی اپنی راہ حق سے ذرّہ بھر بھی پیچھے نہیں ہٹا سکا، جی وہ حسینؓ! جس نے اپنی ہی نہیں اپنے پورے گھرانے کی قربانی اپنے رب کے سامنے پیش کی اور سرخ رُو اور سر بلند رہے، جی وہ حسینؓ! جس نے ہماری راہ نمائی کا حق ادا کیا اور ہمیں تعلیم کیا: ’’اس شخص پر ظلم کرنے سے گریز کرو، جس کا خدا کے سوا کوئی حامی نہ ہو۔‘‘ جس نے ہمیں آگاہ فرمایا: ’’سب سے سخاوت کرنے والا شخص وہ ہوتا ہے جو ان لوگوں کو مدد کی پیش کش کرتا ہے جو اس سے مدد کی توقع نہیں کرتے ہیں۔ سب سے مہربان شخص وہ ہے جو بدلہ لینے کے قابل ہونے پر معاف کرتا ہے۔‘‘

وہ حسینؓ جس نے ہمیں حکمت اور حق کا مفہوم سمجھایا اور بتایا: ’’حکمت پوری نہیں ہوگی سوائے حق کی پیروی کرنے سے۔‘‘ وہ حسینؓ جس نے اپنے مقصد حیات کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’میرے انقلاب کا مقصد معاشرے کی اصلاح اور اسلام کی اصل تعلیمات کو زندہ کرنا ہے۔‘‘

وہ حسینؓ جس نے میدان کارزار میں بے خوف و خطر اپنے انصار سے مخاطب ہوتے ہوئے خطبہ مرحمت فرمایا: ’’صبر کرو۔ موت صرف ایک پُل ہے جو آپ کو تکالیف اور نقصان سے لے کر وسیع جنّت اور ابدی مقامات تک لے جاتا ہے۔ اے لوگو! میرا مقصد سنو! اور جنگ شروع کرنے میں جلد بازی نہ کرو، تاکہ میں اپنے انقلاب کی وجہ واضح کردوں۔ حق کی راہ میں ثابت قدم رہو، یہاں تک کہ اگر تمہارا سفر درد اور مصائب سے بھرا ہوا ہو۔ سنو! وقار کے ساتھ موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔

موت حصول عزت کی راہ میں حیات جاوداں کے سوا کچھ نہیں اور ذلت کے سائے میں زندگی ایسی موت ہے جس کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی ذلیل شخص کی طرح اپنے دشمنوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گا اور کبھی بھی غلاموں کی طرح ان سے بیعت نہیں کروں گا۔ سب سے زیادہ نااہل شخص وہ ہے جو دعا نہیں کرسکتا ہے۔ علم اور بردباری انسان کی سیرت کو آراستہ کرتی ہے۔ جو اﷲ کی اس طرح عبادت کرے گا جیسا عبادت کا حق ہے تو خدا اسے اس کی تمناؤں اور کفایت سے زیادہ عطا فرمائے گا۔ بے شک! اﷲ عزوجل تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اپنے گریبانوں میں جھانکو اور اپنا محاسبہ خود کرو۔ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں جس قدر ہو دوسروں کے کام آؤ۔ ظالموں کے ساتھ رہنا بہ ذاتِ خود ایک جرم ہے۔ جو اپنے بھائی کی دنیاوی ضرورت میں کام آیا اﷲ اس کی آخرت کی مصیبت دور کر دیتا ہے۔

جو تمہیں دوست رکھتا ہے وہ برائی سے روکے گا اور جو تمہیں دشمن رکھے گا وہ تمہیں برائی پر ابھارے گا۔ میں نے ہر مشکل میں صرف اﷲ کو ہی پکارا اور اس نے میری تمام مشکلیں آسان فرما دیں۔ سنو! اعلی درجے کا معاف کرنے والا وہ ہے جو انتقام پر قدرت رکھتے ہوئے عفو و در گزر سے کام لے۔ جس نے خدا کی عبادت اور بندگی کرتے ہوئے عبادت کا حق ادا کیا تو خداوند تعالی اس کی آرزؤوں سے کہیں بڑھ کر اور اس کی ضرورت سے کہیں زیادہ اسے عطا فرمائے گا۔ اگر لوگ تم سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں تو یہ تم پر خدا کے فضل کی دلیل ہے۔ اﷲ عز و جل ہر مصیبت میں بہترین پناہ گاہ ہے اور ہر سختی میں بہترین سہارا ہے۔

ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنی ہی زیادہ قربانی دینی پڑے گی۔ اﷲ کے سوا کبھی بھی کسی سے کوئی سوال نہیں کرنا۔ مجھے جنّت سے زیادہ نماز عزیز ہے کیوں کہ جنّت میری رضا ہے اور نماز میرے رب کی رضا ہے۔ لوگو! جُود و سخا کرنے والا سردار قرار پاتا ہے اور بخل کرنے والا ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔ مومن نہ برائی کرتا ہے نہ ہی عذر پیش کرتا ہے جب کہ منافق ہر روز برائی کرتا ہے اور ہر روز عذر خواہی کرتا ہے۔‘‘

ہمیں ڈاکٹر اقبالؒ جنہیں ہم حکیم الامت کہتے ہیں، نے بتایا:

رمز قرآن از حسین آموختیم

ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم

(مفہوم: ہم نے قرآن کے رموز و اسرار حسینؓ سے سیکھے ہیں ان کی آتش عشق سے کئی شمعیں روشن کی ہیں اور چراغ جلائے ہیں)

صدق خلیلؑ بھی ہے عشق، صبر حسینؓ بھی ہے عشق

معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

سرخ رُو عشق غیور از خون او

شوخی ایں مصرعہ از مضمون او

(مفہوم: امام حسینؓ کے خون کی رنگینی سے عشق غیور سرخ رُو ہے، کربلا سے اس میں حسن و رعنائی پیدا ہوگئی ہے)

یہ ہیں حسینؓ ذی وقار، سر بلند و سرخ رُو، آمریت کے خلاف جمہور کی آواز۔ حق کائنات کا حُسن ہے، احسان ہے، خُوب صورتی ہے۔ حق روشنی ہے، مینارۂ نور ہے، صراط مستقیم ہے حق۔ انسانیت کا دوام، ترقی اور فلاح، حق سے وابستہ رہنے میں ہی ہے۔ حق ہی ہے جوہر خالص باقی تو بسں ننگ ہے۔

باطل بدصورتی ہے، طاغوت ہے، کراہت ہے، غلاظت ہے، اندھیر ہے، ظلم ہے۔ باطل حیلہ و دجل ابلیس ہے۔ گم راہی ہے، تذلیل انسانیت ہے باطل۔ مسترد و مردود ہے باطل۔ چراغ مصطفویؐ ہے حق اور شرار بولہبی ہے باطل۔

حق اور اس کے پیروکار سر جھکاتے ہیں فقط خالق کائنات کے رُو بہ رُو، سر تسلیم خم کرتے ہیں بس وحدہ لا شریک کے احکامات پر۔ حق کے ندیم باصفا رب کی مخلوق کے حقوق کے محافظ اور زمینی خداؤں سے برسر پیکار رہتے ہیں۔ حق کے دل دادہ اپنے لیے نہیں، رب کائنات کی مخلوق کے لیے جیتے ہیں۔ حق کی پیشانی خاک آلود ہوتی ہے بس رب کائنات کی بارگاہ میں۔

باطل اور اس کے حواری اپنے نفس کے اسیر اور ہر اک کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ باطل خاک آلود و خوار رہتا ہے نفس کی شرارگاہ میں۔ باطل، خلق خدا کے حقوق کو غصب کرتا ہے۔ باطل رب کے باغیوں کا گروہ ہوتا ہے، جن کا امام راندۂ درگار ابلیس مایوس ہے۔ باطل رب کی مخلوق کے لیے آزار ہوتا ہے۔ باطل رب کے آزاد بندوں کو غلامی کی زنجیریں پہناتا ہے۔ روز ازل سے باطل کے رُو بہ رُو حق ہمیشہ برسر پیکار رہا ہے اور ابد تک رہے گا، کہ حق ہی کے لیے ہے سرخ روئی اور سربلندی، فقط حق کا نصیبا ہے سر بلندی اور سرخ روئی۔ وہ حق، حق ہی نہیں، جس کے مقابل باطل نہ آئے کہ دجل و فریب باطل کی موت ہے، حق فقط حق۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی

کربلا، حق و باطل میں امتیاز ہے۔ کربلا، سچائی اور کذب میں تفریق کا نام ہے۔ کربلا، انسانیت کی پناہ گاہ ہے۔ کربلا، آمریت کے خلاف جمہور کی آواز ہے۔ کربلا، غاصبوں اور حقوق انسانی کے نغمہ خوانوں کے درمیان حد فاصل ہے۔ کربلا، حق و باطل کی ازلی کش مکش کا نام ہے۔ کردار حسینؓ ہی دراصل بقائے انسانیت ہے۔ حسینؓ! مظلوم کی سر پرستی کا نام ہے۔ حسینؓ اسلام کی حقانیت اور سربلندی کا نام ہے۔ حسینؓ قافلۂ عشاق کا امام ہے۔

حسینؓ بقائے دوام ہے۔ حسینؓ حقوق انسانی کے جری علم بردار کا نام ہے۔ حسینؓ آمریت کے مقابل جمہور کا ترجمان اور اس معرکے میں مظلوم انسانیت کا سپاہ سالار ہے۔ حسینؓ شجیع نے اپنے اور اپنے چہیتوں کے خون سے اسلام کے شجر طیّب کی آب یاری کی اور ثابت کردیا کہ نظریہ اور دین ضروری اور اتنا اہم ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے جیون وار دیا جائے کہ جان دے دی، دی ہوئی اسی کی تھی۔ حسینؓ نے اس عظیم الشان مقصد حیات کے لیے اپنا ہی نہیں اپنے گھرانے کا جیون وار دیا اور ایسی شان سے کہ حسینؓ اپنی مثال بس آپ ہی ہیں۔

جواں مردوں کا امتحان ہمیشہ میدان کارزار میں ہُوا کرتا ہے اور جواں مرد ہی سرخ رُو اور سر بلند رہتے ہیں اور ایسے سربلند کہ ان سے زیادہ سربلند کوئی اور نہیں ہوتا۔ ایسے سربلند کہ گردن کٹوا کے بھی جن کے سر بلند ہی رہتے ہیں۔ اور جب وہ راہ حق میں قتل کر دیے جائیں تو خالق کُل کائنات خبردار کرتا ہے کہ کوئی انہیں مردہ مت جانے، کوئی اپنے شعور خام کے دھوکے میں نہ آئے، انہیں ہی دوام ہے جو راہ خدا میں جان کا نذرانہ پیش کردیں۔ حسینؓ اسی قافلے کا امام سربلند و سرخ رُو ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ حسینؓ اپنی مثال آپ ہے، کہاں سے لائے گی دنیا حسینؓ جیسا کوئی۔۔۔ ؟

کربلا میں بہ ظاہر تو باطل مردود کو فتح حاصل ہوئی، شیرخوار اور معصوم بچوں، عفت مآب خواتین، باکردار جوانوں اور افضل مردان حق کے ساتھ ظلم و ستم ہوا اور سب ہی جانتے ہیں کیسا ظلم، ایسا ظلم کہ خود ظلم بھی شرم سار اور رسوا ہوا۔ مگر رازدارانِ حقیقت اور صاحبانِ بصیرت خوب جانتے ہیں اور اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ شکست ابدی کس کا مقدر بنی اور بدکرداری کی کالک کس کے حصے میں آئی۔ کون نہیں جانتا یہ سچائی، کہ حسینؓ اور حسینؓ کے انصار ہی سربلند اور سرخ رُو رہے۔ یزید بہ ظاہر جیت کر بھی ایسا ہارا کہ رہتی دنیا تک ہار کی بدترین اور عبرت ناک مثال بن گیا اور بنا رہے گا۔

ہر انسان پیدائش کے بعد طبعی عمر گزار کر اپنے وجود کے خاک ہوجانے کا شعور رکھتا ہے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد انسان کو زندگی اور موت کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ عقل اور حاصل ہونے والے دنیاوی علم کی بنیاد اور مشاہدے پر وہ اس بات کا یقین کرلیتا ہے کہ دنیا میں ہر جنم لینے والے کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ تاہم قرآن حکیم اپنے ماننے والوں کو ایک اور روشن ترین اور ابدیت کی طرف جانے والے راستے کا ادراک کرواتا اور اس کا فہم عطا کرتا ہے۔

قرآن عظیم کے بتائے ہوئے اس راستے میں وہ زندگی پوشیدہ ہے جو بقاء میں قیام کرتی ہے، جسے فنا نہیں، جو نیست سے ہم آغوش نہیں ہوتی اور جو کبھی معدوم نہیں ہوتی۔ اس ابدیت کے راستے پر بس وہی مسافران حق سفر کرتے ہیں جو خالقِ کائنات کی وحدانیت اور اس کے حبیب کریمؐ پر ایمان لاتے ہیں۔ حسینؓ کے نانا جناب رسول اﷲ ﷺ جو شہر علم ہیں، حسینؓ کے والد گرامی جناب علیؓ جنہیں شہر علم کے باب علم کا شرف عظیم حاصل ہے، وہ حسینؓ ہی تو جانتے ہیں کہ علم کیا ہے، حقیقت کیا ہے، بصیرت کسے کہتے ہیں، بصارت کیا ہوتی ہے، ہاں! حسینؓ جانتے ہیں۔

قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے: ’’جو اﷲ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں انہیں مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں اور اپنے رب سے رزق پا رہے ہیں، مگر تمہیں اس کا شعور نہیں۔‘‘

یہ کیسی زندگی ہے، جس سے ہمیں کتاب اﷲ، جو ہر شک اور شبہے سے پاک و منزہ ہے، آگاہ کر رہی ہے؟ یہ کون سا رتبہ و مقام ہے جس کا ذکر قرآن حکیم فرقان مجید نے کیا ہے؟ اس کا جواب بھی قرآن سے ہی ہمیں ملا ہے۔ یہ وہ اعزاز ہے جو اﷲ رب العزت خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی راہ میں جان قربان کردینے والوں کو عطا فرماتا ہے۔ مسلمان اس رتبے کے حامل کو شہید اور شہادت کے نام سے جانتے ہیں۔ حقیقی اور ابدی زندگی کی طرف جاتا ہوا یہ راستہ مومن کا انعام ہے۔ قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے رب کائنات کی رضا کا عظیم سندیسہ، سند اور انعام ہے۔

شہادت دراصل باطل کی نفی کرنے اور راہ حق میں اپنی جان قربان کردینے کا نام ہے۔ اسلام ایسا دین ہے جس میں عدل، انصاف اور احسان کو بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ہمارا دین اسلام، جو رب کائنات کا پسندیدہ دین ہے، ہمیں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنے، مجبور اور محکوم کو ظالم کے مظالم سے نجات دلانے اور حق بات کہنے میں جرأت کا مظاہرہ کرنے کا درس دیتا ہے، اور اعلائے کلمۃ الحق کی راہ میں زندگی بھی نچھاور کردینا حق کے داعیوں کا شیوہ ہے، جس کا انعام شہادت کے مرتبے اور مقام کی صورت میں ملتا ہے۔

دنیائے اسلام میں قربانی اور ایثار کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ کہیں مسلمانوں نے اﷲ کی راہ میں مال و دولت اور دنیاوی آسائشوں کو قربان کردیا تو کہیں ظالمین اور جبر کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں لیکن کربلا لامثال ہے۔ یہ مہینہ محرم الحرام سن ہجری کا پہلا ماہ مکرم جو ہمیں راہ حق پر ڈٹ جانے اور ظالموں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کا درس دیتا ہے۔

اس ماہ میں میدان کربلا میں حق و انصاف کے علم برداروں کی طرف سے دی جانے والی عظیم الشان قربانی مسلمانوں کے لیے قیامت تک مثال بن گئی۔ محرم الحرام میں نواسۂ رسول کریمؐ حضرت امام حسینؓ نے یزید اور یزیدیت کو شکست فاش دی۔ اپنے اہل خانہ اور چند جاں نثاروں کے ساتھ آپؓ نے اپنی اور اپنے چہیتوں کی جان کا نذرانہ اپنے رب کی بارگاہ عظیم میں پیش کرکے اسلام کو زندہ کردیا، ہر ظلم کو خندہ پیشانی اور پامردی سے برداشت کیا، لیکن حسینؓ شجیع نے ظلم کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔ حسینؓ جری نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کا درس میدان کار زار کرب و بلا میں بہ نوک سناں بھی پیش کیا۔ حسینؓ ذی وقار نے آمریت کے خلاف اپنے خون مطہر سے وہ تاریخ رقم کردی جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ میدان کرب و بَلا میں یزید ابدی رسوائی کا نشان عبرت اور حسینؓ ذی وقار نشان عزم و استقلال اور مظلوموں کی زندگی بن گئے۔

ایک بار پھر ہم کرب و بلا کے معرکے میں امام عالی مقام حسینؓ شجیع و جری اور ان کے وفا شعار ساتھیوں کی شہادت عظمیٰ کو یاد کررہے ہیں اور تاقیامت یاد کرتے رہیں گے۔ قرآن کی مذکورہ بالا آیت ہمیں بتاتی ہے کہ شہید بہ ظاہر تو قتل ہوجاتے ہیں لیکن وہ حیات ابدی پالیتے ہیں۔ ہر مسلمان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ اﷲ اپنے بندوں سے کیے گئے وعدے ضرور پورے کرتا ہے اور یہی یقین ہمیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ ہم ظالموں کا مقابلہ کریں اور راہ حق میں اپنے مال اور جان کی قربانی کی اگر ضرورت پڑجائے تو اس سے بھی دریغ نہیں کریں۔ دنیا میں ہمیشہ ہی حق اور باطل معرکہ آرا رہے ہیں اور رہیں گے اور کردار حسینؓ ہر دور میں قافلۂ عشاق کی رہ بری اور راہ نمائی کرتا رہے گا۔

ہم کہاں کھو گئے۔۔۔۔ ؟ ہم تو خود کو حسینی کہتے ہیں ، کیا ہم بھول گئے:

تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر

کہ جہانِ نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری

ہمیں تو بتایا گیا ہے:

حقیقت ابدی ہے مقام شبّیری

بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

کہاں کھو گئے ہم ، اپنی اصل بنیاد کی جانب پلٹ جائیے کہ یہی ہے ہمارے مسائل و مصائب کا حل:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبّیری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

ترے دین و ادب سے آرہی ہے بُوئے رہبانی

یہی ہے مرنے والی امّتوں کا عالم پیری

شیاطین ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادُو

کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوق نخچیری

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔