دہشت گرد نیٹ ورکس کا خاتمہ بھی ناگزیر
پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں بھارت اور افغانستان کے ملوث ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آپریشن کے دوران اہم کمانڈر سمیت 3 دہشت گرد مارے گئے جب کہ 4 اہلکار شہید اور ایک آفیسر سمیت چار اہلکار زخمی ہوگئے، دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ وگولہ بارود برآمد ہوا ہے، آپریشن پشاورکے مضافاتی علاقے متنی حسن خیل میں کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ملک بھر میں امن واستحکام کو یقینی بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور ہمارے بہادر جوانوں کی قربانیوں سے ہمارے عزم کو مزید تقویت ملتی ہے۔
بلاشبہ پاک فوج کے افسران اور جوان اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے اور ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے دن رات برسرپیکار ہیں اور اس میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہے ہیں، قوم ان کو سلام پیش کرتی ہے۔ پاکستان کے تقریباً تمام چھوٹے، بڑے شہر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں اور گزشتہ دو دہائیوں سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کا ہمیں سامنا ہے، لیکن صوبہ خیبر پختونخوا کا دارالحکومت تو ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے۔
دشمن ریاستوں کی سرپرستی میں علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ ایسے واقعات کا رونما ہونا، لمحہ فکریہ بھی ہے جس نے دہشت گرد نیٹ ورکس اور سلیپرز سیلز کی خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں موجودگی کی یاددہانی کرائی ہے۔ ان دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے کون عناصر ہیں، اس بارے میں قطعی طور پرکچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں بھارت اور افغانستان کے ملوث ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ پاکستان میں اسلام سے محبت فراواں ہے۔ اسی خوبی کو مذہب کے نام پر قائم ہونے والی القاعدہ، طالبان یا داعش جیسے بدنیت گروہوں نے عوام کی کمزوری سمجھ کر خوب ایکسپلائٹ کیا۔ اسلامی جذبے سے سر شارکچھ لوگوں نے انھیں واقعی اسلامی کاز کے لیے کام کر نے والے مجاہد تسلیم کر لیا تھا، کچھ نے انھیں فنڈ فراہم کیے اور بیشتر نے اگر عملاً کچھ نہیں کیا تو کم ازکم ان سے ہمدردی پیدا کر لی، نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے ان نام نہاد لیوا گروہوں نے ملک میں حشر برپا کردیا۔
امریکی افواج کی واپسی کے بعد 15 اگست 2021 کو طالبان نے کابل پر قبضہ کر کے ایک عبوری حکومت کا اعلان کر دیا تھا۔ توقع تھی کہ اس کے بعد پاکستان اور افغانستان اور دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد کے آس پاس کے علاقوں میں مسلح افراد کی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی، لیکن توقع کے بالکل برعکس ملک کے شمال میں واقع قبائلی علاقوں میں، جہاں 2014 اور 2017 کے آپریشنز کے نتیجے میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں ختم ہو گئی تھیں، اچانک دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات میں اضافہ ہوگیا۔ ان سرگرمیوں کا نشانہ بننے والوں میں امن کمیٹیوں کے اراکین، مقامی سیاسی رہنما اور قبائلی زعما کے علاوہ عام لوگ، تاجر اور سول سوسائٹی کے اراکین بھی شامل رہے۔
عوام نے دیکھا کہ 2007 سے 2014 تک شمالی علاقوں میں جن دہشت گردوں نے پورے علاقے میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا اور جو ان علاقوں میں فوجی آپریشنز کے نتیجے میں افغانستان چلے گئے تھے، وہ افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد واپس آ گئے ہیں اور انھوں نے پھر وہی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو ضربِ عضب اور ردالفساد آپریشنز کے بعد بھاگ کر افغانستان چلے گئے تھے اور وہاں انھوں نے افغان طالبان کی صفوں میں شامل ہوکر امریکا اور نیٹو افواج کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔
جنگ کے اختتام پر افغان طالبان نے انھیں واپس پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے پی ٹی آئی حکومت آمادہ بھی ہوگئی، لیکن ٹی ٹی پی کے یہ مسلح جنگجو نہ صرف اپنے ساتھ نیٹو افواج کے زیر استعمال جدید ترین ہتھیار لائے بلکہ اب وہ باقاعدہ جنگی تربیت یافتہ بھی تھے، جس کے نتیجے میں وہ پہلے سے زیادہ منظم اور خطرناک ثابت ہوئے۔ یہ بات نوٹ کرنا لازمی ہے کہ افغانستان میں جنگ بند ہونے اور ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی پاکستان واپسی کے بعد جب دہشت گردی کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ ہوا تو قبائلی علاقے کے لوگوں نے، جن میں سیاسی کارکن، کاروباری طبقہ، وکلا اور نوجوان شامل تھے، نے وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے اور حکومت سے ان شرپسندوں کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔دوسری جانب خواتین خودکش بمباروں کا استعمال بیک وقت شدت پسند گروہوں کی طاقت اور کمزوری کا اظہارکرتا ہے۔
جب یہ گروہ روایتی دہشت گردی کے طریقوں سے اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ خواتین خودکش بمباروں کو استعمال کرتے ہیں۔ عسکریت پسند خواتین، پر ہجوم علاقوں میں مردوں کی نسبت زیادہ آگے تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے روایتی مذہبی معاشروں میں خواتین کو ممکنہ طور پرکم سخت حفاظتی چیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کے مخصوص لباس اور برقعہ کا استعمال جس میں سر سے پاؤں تک جسم ڈھانپا جاتا ہے خواتین خودکش بمباروں کو ایک فائدہ فراہم کرتا ہے کیونکہ وہ لباس کے نیچے خودکش جیکٹ پہن سکتی ہیں۔ پاکستان میں سیکیورٹی امورکا جائزہ لینے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں خواتین کے ذریعے دہشت گردی کوئی نئی بات نہیں ہے۔
بیشتر واقعات میں خواتین نے دہشت گردوں کی سہولت کاری کا کردار ادا کیا ہے، جیسا کہ بھتہ خوری میں شہری کی معلومات فراہم کرنا یا کسی ٹارگٹ کلنگ میں مخبری کرنا۔ ان تمام کیسز کو غور سے دیکھا جائے تو ان خواتین کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق ضرور نکل آتا ہے۔ اکثر دہشت گردوں کے گھر میں موجود خواتین ایسے واقعات میں ملوث نکلتی ہیں، تاہم کچھ دہشت گردوں کے گھر میں موجود خواتین برین واش بھی ہوئی ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث خواتین کی معلومات اکٹھی کرنا ایک چیلنج ہوتا ہے،کیونکہ زیادہ تر مخبر مرد ہوتے ہیں، اسی لیے مشکوک خواتین کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
خواتین دہشت گرد موبائل فون کا استعمال بھی کم کرتی ہیں جس کے باعث ان تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔ بھارتی انیٹلی جنس ایجنسی ''را '' مختلف جی پی ایس کے ذریعے سی پیک CPEC کے منصوبوں پر حملے کروا کے ان منصوبوں کی پیش رفت رکوانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں پاکستان دشمن منصوبوں کی تیاری، عملدرآمد، پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کی مکمل ڈوزیئر افغان عبوری حکومت کو فراہم کیے جاچکے ہیں، لیکن افغان حکومت نے ایک طویل عرصہ گذر جانے کے بعد، تاحال پاکستان کے مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیا ہے۔
بلکہ افغانستان سے ان دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ افغان حکومت مسلسل اس بات کی تردید کرتی رہی ہے کہ افغانستان میں نہ تو کوئی دہشت گرد تنظیم ہے نہ اس کا ٹھکانہ ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر دہشت گرد، جن میں ٹی ٹی پی کے خوارج سرفہرست ہیں،کس طرح افغانستان سے آکر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے جو ڈوزیئر افغانستان کے حوالے کیے تھے، اس پر افغان حکومت کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ دال میں کچھ کالا تو ضرور ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ رواں برس کالعدم تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی)، لشکر اسلامی (ایل آئی) اور لشکر جھنگوی (ایل ای جے) جیسی بعض دہشت گرد تنظیموں (جو پچھلے سال انتہائی سرگرم تھیں) نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کرنے سے گریزکیا، رواں سال کے دوران دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کی ذمے داری صرف کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش نے قبول کی۔ باغی کالعدم گروہوں مثلاً بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ راجی اجوئی سانگر اور سندھودیش ریولوشنری آرمی نے کچھ حملوں کی ذمے داری قبول کی جوکہ عسکریت پسند گروہوں کے حملوں سے 3 گنا زیادہ ہے، باغی گروہوں کا بنیادی ہدف سیکیورٹی اور سرکاری تنصیبات تھے، جن میں گوادر پورٹ کمپلیکس، مچھ جیل اور تربت نیول بیس شامل ہیں۔
اسی طرح بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی نئی لہر واضح کرتی ہے کہ عسکریت پسند تنظیموں نے حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے اب شاید نئی حکمت عملی مرتب کی ہے۔ سی پیک کے مرکزگوادر اور ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے صوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن سمیت سیاسی قیادت کو ملک کے عوام اور مستقبل کے اقتصادی آرڈر کو بچانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔
اب آواز اُٹھانے یا دعوے کرنے سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے، اگر ایک طرف بلوچستان کے اپنے مسائل کے سیاسی حل کی ضرورت ہے تو دُوسری جانب اس سے قبل کہ بلوچستان دُوسرا وزیرستان بنے، یہاں سے تمام دہشت گرد نیٹ ورکس کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے۔ملک کی بقا کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ایک جامع، مربوط اور تمام ضروری وسائل سے آراستہ موثر آپریشن لازمی ہے، اگر ریاست نے آپریشن عزم استحکام کے تحت ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کا خوش آئند فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اس کے یقینی نتائج حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوم اس آپریشن میں پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہو۔