ملاقاتیں

رئیس فاطمہ  جمعـء 12 جولائی 2024
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

یہ ’’ملاقاتیں‘‘ دراصل ان ادبی کالموں کا مجموعہ ہے جو انتظار حسین نے ایک معروف روزنامے کے ادبی صفحے کے لیے لکھنا شروع کی تھیں، ان کالموں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ حصہ اول میں کل چھیاسٹھ (66)، دوسرے حصے میں اکتیس (31) کالم ہیں جو مختلف ادیبوں اور شاعروں پر لکھے گئے ہیں۔ آئیے، آپ کی ملاقات ہم ان ’’ملاقاتوں‘‘ سے کرواتے ہیں۔ ویسے تو اس کتاب میں ستانوے (97) خواتین و حضرات کا تعارف ہے، لیکن ذاتی طور پر مجھے اس میں پٹیالہ گھرانے کے معروف استاد فتح علی خاں کا خاکہ سب سے زیادہ پسند آیا۔

’’ میاں کامل عرف میاں کالوجی، میاں کالوجی کے بیٹے جرنیل علی بخش، جرنیل علی بخش کے بیٹے اختر حسین خاں اور اختر حسین کے بیٹے استاد امانت علی خاں اور استاد فتح علی خاں‘‘ یعنی جرنیل علی بخش استاد فتح علی خاں اور استاد امانت علی خاں کے دادا تھے، استاد فتح علی خاں کے چھوٹے بھائی استاد حامد علی خاں اور استاد امانت علی خاں کے فرزند استاد اسد امانت علی خاں نے بھی اپنی گائیکی کا لوہا دنیا بھر میں منوایا ہے۔ موسیقی کے متوالے کبھی نہ استاد امانت علی کو بھول سکتے ہیں نہ استاد فتح علی خاں کو۔

اس کالم میں انتظار حسین لکھتے ہیں ’’ بات یہ ہے کہ ادب میں یہ نہیں پوچھا جاتا کہ کون کس کا بیٹا ہے اورکس کا پوتا، مگر موسیقی میں تو یہ بہت پوچھا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری موسیقی کی روایت میں یہ علم سینہ بہ سینہ چلتا ہے اور سلطنت دست بہ دست آتی ہے۔ ادب میں مکاتب فکر بنائے جاتے ہیں اور موسیقی میں گھرانے ہوتے ہیں۔ ان گھرانوں میں ایک بڑھا چڑھا گھرانا پٹیالہ کا گھرانہ ہے، استاد فتح علی خاں اسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔

’’ استاد فتح علی خاں سے مل لیے تو سمجھو پورے پٹیالہ گھرانے سے مل لیے۔ موسیقار اپنے ایک اکیلے کی بات تو نہیں کرتا۔ پورے گھرانے کی بات کرتا ہے۔ ان کے دادا تھے میاں کالوجی جنھوں نے بہادر شاہ ظفرکا زمانہ پایا۔ مہاراجہ پٹیالہ کے محل کی زینت گوگی بائی گوکہ موسیقی میں طاق تھی رجھالیا، وہ محل چھوڑ اس موسیقار کے ساتھ گوالیار گئی اور ان کی منکوحہ بن گئی۔

اور ایک تھی گوہر جان کلکتہ والی، گوہر جان کو موسیقی کے بعد اگرکسی چیز سے عشق تھا تو وہ تھی چار گھوڑوں والی بگھی۔ مگر اب ملکہ وکٹوریہ کا زمانہ تھا۔ چارگھوڑوں کی بگھی میں تو بس ملکہ ہی سواری کر سکتی تھی، گوہر جان کو دیکھو وہ چارگھوڑوں کی بگھی میں نکلتی، جتنا جرمانہ ہوتا بھرتی اورکلکتہ کی سیر کرتی، استاد فتح علی خاں کہتے ہیں خبر ہوتے ہوتے لندن پہنچی، ملکہ نے گوہر جان کو بلا بھیجا، گانا سنا اورکہا: یہ اپنے فن کی ملکہ ہے۔ چارگھوڑوں کی بگھی میں سواری کرتی ہے تو بجا کرتی ہے۔‘‘

گوہر جان کا ذکر قرۃ العین حیدر نے اپنے ضخیم ناول ’’ گردش رنگ چمن‘‘ میں بھی تفصیل سے کیا ہے، کیسی کیسی فنکارائیں ہوا کرتی تھیں اس دور میں۔ گوہر جان کو ایک بار ان کی سہیلی ’’چھپن چھری‘‘ الٰہ آباد میں اکبر الٰہ آبادی کے گھر لے گئی، اکبر درویش منش آدمی تھے، چھپن چھری الٰہ آبادی کی رہنے والی تھی، اس نے اکبر سے کہا کہ گوہر جان ان سے ملنے کی بے حد مشتاق تھی، اس لیے وہ اسے لے کر آئی ہے۔ اکبر نے کہا میں سیدھا سادا آدمی ہوں آپ کی خدمت میں کیا پیش کروں؟ تو چھپن چھری نے کہا کہ ’’ آپ کوئی شعر ان کے لیے کہہ دیجیے‘‘ اکبر نے ترنت ایک شعر کہہ دیا۔

دنیا میں کون ہے خوش قسمت گوہر کے سوا

سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

کہتے ہیں کہ اس ملاقات کے بعد گوہر جان نے اپنے سیکریٹری عباس سے بیاہ رچا لیا، جو عمر میں اس سے چھوٹا تھا۔ یہ شادی زیادہ نہ چل سکی اور عباس گوہرکا تمام مال لے کر بھاگ گیا۔

’’ چارگھوڑوں والی گوہر جان شہسوار موسیقی استاد علی بخش خاں کی چیلی بن گئی اور استاد علی بخش نے کلکتہ جا کرگوہر جان ہی کو اپنا گرویدہ نہیں کیا بلکہ اس وقت کے وائسرائے لارڈ ایلکن پر بھی اپنے فن کی ایسی دھاک بٹھائی کہ انھوں نے استاد کو جرنیل کا خطاب دے دیا، استاد علی بخش جرنیل علی بخش بن گئے۔‘‘

جرنیل علی بخش کے تین پوتے تھے بلکہ میں استاد امانت علی خاں، استاد علی خاں اور استاد حامد علی خاں جو حیات ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے کا واقعہ ہے کہ اس وقت امانت علی پندرہ کے پیٹے میں اور فتح علی خاں بارہ کے پیٹے میں تھے۔ ان دونوں نے لاہور کے وائی۔ایم۔سی۔اے کی ایک تقریب میں گانا گایا، وہاں مہاراجہ پٹیالہ کے بھائی موجود تھے، انھیں پتا چلا کہ ہم پٹیالہ کے ہیں تو ہمیں لاہور سے پٹیالہ لے گئے۔‘‘

استاد فتح علی خاں نے ایک سال کے اندر ایک سو دس ریکارڈ تیار کروا ڈالے۔ وہ کہتے ہیں ’’ٹی وی پر موسیقی کے نام پر کیا ہو رہا ہے، جنھیں موسیقی کی الف، ب، ت نہیں آتی، انھیں موسیقار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پروڈیوسر کو موسیقی کی اتنی سدھ بدھ تو ہونی چاہیے کہ جسے انھوں نے پیش کیا ہے وہ کیا گل کھلا رہا ہے۔‘‘

دوسرا کالم جو میرے جی کو بھایا وہ قدرت اللہ شہاب کا خاکہ ہے، شہاب صاحب کی تصنیف شہاب نامہ سے تو سبھی واقف ہیں، یہاں دیکھتے ہیں کہ انتظار صاحب نے ان کے بارے میں کیا لکھا ہے:

’’ شہاب صاحب کو اگر کسی نے پہچانا تو وہ ممتاز مفتی نے پہچانا ( میرا خیال ہے کہ انھوں نے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے انھیں ولی کا دل بنا دیا ہے) اور اعلان کیا کہ یہ جو شخص افسر کے بھیس میں پھرتا ہے اصل میں ولی اللہ ہے۔‘‘

میں نے پوچھا مفتی صاحب میں آپ نے کیا دیکھا کہ آپ کے بارے میں ایسے بیانات دے دیے۔ بولے مفتی صاحب نے مجھ سے کچھ اقوال زریں سنے اور عقیدت مند بن گئے۔ ان اقوال زریں کی صورت یہ ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ نفرت سے پرہیز کرے، عداوت سے باز رہے، غصے پر قابو پائے۔ پھر فرمایا، آدمی کسی کے پیچھے وہی کہے جو اس کے منہ پر کہہ سکتا ہو۔ میں نے کہا ’’آپ کے بارے میں جتنا کچھ سنا ہے، اس سے گمان ہوتا ہے کہ تصوف سے آپ کی دلچسپی محض ذہنی قسم کی نہیں ہے، کچھ واردات سے بھی آپ کی شناسائی معلوم ہوتی ہے۔

واضح ہو کہ شہاب صاحب بہت کچھ جانتے ہیں، وہ پاکستان کے نامی گرامی افسر ہیں جس نے کئی سربراہان مملکت کو یکے بعد دیگرے بھگتایا ہے، جن لوگوں نے ان کا نام سنا ہے وہ انھیں بہت رعب داب والا سمجھتے ہیں، مگر دیکھو تو وہ ایسے نظر آتے ہیں بلکہ افسر ہی نہیں لگتے۔ بات یہ ہے کہ سی۔ایس۔ پی افسر کی چال ڈھال ان میں بالکل نظر نہیں آتی، نہ خو بو۔ باتوں میں بھی طنطنہ نہیں ہے، اسٹیج پر آ کر جب تقریر کرتے ہیں تو اس وقت بھی افسرانہ بلند آہنگی سے نہیں بولتے، کم اور آہستہ بولتے ہیں، ادیبوں کو نصیحتیں نہیں کرتے۔‘‘

’’اب مجھے یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوئی کہ شہاب صاحب کون سے سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پتا چلا کہ وہ سب سلسلوں کو مانتے ہیں۔ بولے کہ میں حضرت حاجی امداد اللہ مکی مہاجر سے زیادہ متاثر ہوں جن کے بیان میں مختلف سلسلوں کا امتزاج نظر آتا ہے اور جنھوں نے وہ بنا دیا جسے Made Easy کہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔