جماعت ِ اسلامی کا احتجاج کیا حاصل کر سکتا ہے ؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 12 جولائی 2024
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جماعتِ اسلامی پاکستان کے لیے کسی بھی شہر میں جلسہ کرنا اور دھرنے دینا کوئی مشکل ہے نہ کوئی نئی بات۔ یوں سمجھئے یہ دونوں سیاسی اور احتجاجی کام جماعتِ اسلامی کے وابستگان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جماعتِ اسلامی کو اِن ’’کاموں ‘‘ میں تخصص حاصل ہے تو یہ کہنا کوئی بے جا بھی نہیں ہوگا۔

جب جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا تو اس وقت یہ سوال اٹھا کہ کیا وہ اسلام آباد میں دھرنا (بعنوان ’’حق دو دھرنا‘‘) دے پائیگی؟ کیا اسلام آباد کی انتظامیہ اُسے دھرنے کی اجازت اور کھلی چھُٹی دے دے گی ؟ ابھی چند دن پہلے ، 6جولائی کو، پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے مضافاتی علاقے ، ترنول، میں جلسہ کرنے کی کوشش کی مگر عین وقت پر اُسے جلسہ نہیں کرنے دیا گیا۔ عدالت نے تو مبینہ طور پر پی ٹی آئی کو ترنول میں جلسہ منعقد کرنے کی اجازت دے دی تھی، این او سی بھی جاری کر دیا تھا لیکن جب پی ٹی آئی نے جلسہ گاہ میں اسٹیج بھی تیار کر لیا تھا ، اسلام آباد انتظامیہ نے این او سی منسوخ کر دیا ۔

پی ٹی آئی ہاتھ ملتی رہ گئی ۔ اسلام آباد انتظامیہ نے جلسے کی منسوخی کے لیے وجہ اور دلیل یہ پیش کی کہ (1) عاشورۂ محرم کی آمد آمد ہے (2) ترنول میں اسپیکر اور جلسہ گاہ کے ترانوں سے ماحول خراب ہو سکتا ہے (3)ترنول میں کچھ مبینہ شرپسند عناصر کی موجودگی (4)مذکورہ علاقے سے مبینہ طور پر آتشیں اسلحے کی برآمدگی (5)عاشورئہ محرم کی وجہ سے پی ٹی آئی جلسہ کی سیکیورٹی کے لیے مقامی پولیس کی عدم دستیابی!

پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے جلسہ منسوخی پر فِیل تو بہت مچایا ہے، مگر حالات اور حکومت و انتظامیہ کے تیور اور عزائم ملاحظہ کرتے ہُوئے صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین ، جناب بیرسٹر گوہر، نے مختصر سی پریس کانفرنس میں جو موقف اپنایا ، وہ اِس امر کا غماز ہے کہ پی ٹی آئی جلسہ منسوخی پر کوئی احتجاج نہیں کرنا چاہتی ۔ یہ بیرسٹر گوہر کی عقلمندی کہی جا سکتی ہے ۔ اب وہ کسی اور دن کو یہ جلسہ کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی کو مگر اِس پر غصہ بہت ہے ۔ اِس کا اظہار پی ٹی آئی کے اُن ارکانِ اسمبلی اور لیڈروں کے انگارہ صفت بیانات سے مترشح ہوتا ہے جو وہ نجی ٹی ویوں کے پروگراموں میں دھڑلّے سے دے رہے ہیں۔ البتہ یہ بات بالیقین کہی جا سکتی ہے کہ اگر پی ٹی آئی جلسہ کرتی تو یہ نہائت کامیاب ہوتا۔

پی ٹی آئی کا جلسہ تو اس لیے منسوخ کر دیا گیا کہ محرم شریف کی آمد آمد ہے ، حالانکہ ابھی ماہِ محرم کا چاند طلوع بھی نہیں ہُوا تھا ۔ سوال اُٹھائے جا رہے ہیں کہ اب جب کہ آج محرم کی پانچ تاریخ ہو چکی ہے ،اسلام آباد کے قلب میں جماعتِ اسلامی کو دھرنا دینے کی اجازت کیونکر دی جا سکتی ہے ؟ جماعتِ اسلامی آج جن اساسات پر دھرنا دینے جا رہی ہے ،اُصولی طور پر ان اساسات پر دھرنا دینا اور احتجاج کرنا عین عوامی مفادات اور احساسات کی ترجمانی ہے۔امیرِ جماعتِ اسلامی کا کہنا تھا کہ دھرنا اس لیے دیا جارہا ہے کہ حکومت نے نہائت ظالمانہ طریقے سے غریب عوام پر بے جا ٹیکسوں کا نفاذ کر دیا ہے ، غریب دشمن بجٹ پیش کیا ہے ، بجلی کے بِلوں میں قیامت خیزاضافے نے قیامت ڈھا دی ہے ۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور اووَربلز کے مظالم کے خلاف عوام کو باہر نکلنا ہوگا۔‘‘

جماعتِ اسلامی جو کہہ رہی ہے، لاریب یہ عوام کی ترجمانی ہے ۔ حکمران جماعتوں ( نون لیگ اور پیپلز پارٹی) نے رَل مل کر بجٹ کی شکل میں عوام پر مہنگائی اور گرانی کے لاتعداد نئے بم گرا دیے ہیں ۔ عوام کی کراہیں ، بلبلاہٹیں اور آہ و زاریاں تا ثریا پہنچ رہی ہیں ۔

حکمرانوں نے مگر اپنی آنکھوں اور کانوں پر پٹیاں باندھ رکھی ہیں ۔ وزیر اعظم صاحب کے وزیر خزانہ کمر توڑ بجٹ پیش کرنے کے بعد بھی عوام کو مزید دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ابھی مزید ٹیکس لگیں گے ۔ مزید بجلی مہنگی ہوگی ۔ گویا حکومت اور حکمرانوں کا ’’ہل من مزید‘‘ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ وزیر اعظم صاحب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہُوئے روزانہ کی بنیاد پر یہ بیان داغ دیتے ہیں: بجٹ میں ہم نے عوام کو ریلیف دیا ہے ۔ ارے بھائی ، عوام کو عنائت کیا گیا وہ ریلیف کہاں ہے ؟ اور اگر یہ ریلیف ہے تو پھر تکلیف کسے کہتے ہیں ؟یاد رکھا جائے عوام مخالف حکومتی زیادتیوں کا ردِ عمل ضرور سامنے آئیگا ۔

یہ ہیں وہ حالات جن کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ فصل پک چکی ہے؛ چنانچہ حکومت، انتہائی مراعات یافتہ سرکاری اشرافیہ اور متنوع حکمرانوں کے خلاف دھرنے دینے اور احتجاجات کا موسم آ چکا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ جماعتِ اسلامی جو احتجاج کر رہی ہے ، یہ دراصل عوامی مقاصد ، اہداف اور کاز ہیں۔ بجٹ زدگان اور غربت کی لکیر کے نیچے بسنے اور کراہنے والے عوام کی زبان ہے ۔سوال مگر یہ ہے کہ ماضی قریب میں اسٹیبلشمنٹ کا ’’اثاثہ ‘‘ کہلوانے والی جماعتِ اسلامی اپنے پاؤں اور زبان پر قائم رہ سکے گی؟ عوام کی توقعات اور اُمیدوں پر کہیں پانی تو نہیں پھیر دے گی؟ حق اور سچ یہ ہے کہ آج عوام نون لیگ ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو آزما کر مایوسیوں کی گہری کھائیوں میں گر چکی ہے ۔ مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے اِن اندھیروں میںجماعتِ اسلامی کی قیادت روشنی کی ایک کرن بن سکتی ہے ۔

مصائب زدہ عوام کی دستگیری کرکے وہ مقبولیت اور محبوبیت کے نئے سنگِ میل قائم کر سکتی ہے۔ پاکستانی عوام نے مگر ہماری جملہ سیاسی جماعتوں کے دھرنوں اور احتجاجوں کے نام پر اتنے دھوکے کھائے ہیں کہ اب ہر دھرنے کو سراب ہی سمجھا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی تو مبینہ عوامی مفاد میں 126روزہ ’’تاریخی‘‘ دھرنا دیا تھا مگر اقتدار کی دہلیز پار کرتے ہی وہ سب عوامی وعدے بھول بھال گئی۔ سابق امیرِ جماعتِ اسلامی، قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور، نے بھی نہائت توانا اور پُر جوش دھرنے دیے تھے ۔ ان سے عوام کو مگر کیا فائدہ پہنچا ؟ قاضی صاحب مرحوم کے دَور میں بھی نعرے بلند کیے گئے :’’ ظالمو، قاضی آ رہا ہے ۔‘‘ اور اب نئے امیر کے لیے جماعتِ اسلامی نعرے لگا رہی ہے :’’ ظالمو، حافظ نعیم آ رہا ہے۔‘‘قاضی صاحب تو ظالموں کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔ اور اب دیکھنا یہ ہے کہ حافظ نعیم الرحمن صاحب ’’ظالموں‘‘ کا کچھ بگاڑ کر عوامی مفادات کا تحفظ کیسے کرتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔