ایک نئی سیاسی پارٹی کی لانچنگ
جناب شاہد خاقان عباسی چند مہینوں سے اپنی سیاسی پارٹی لانچ کرنے کا عندیہ دے رہے تھے
جناب شاہد خاقان عباسی نے چند رفقاء کے ہمراہ 6جولائی2024کو اسلام آباد ایک پریس کانفرنس میں ایک نئی سیاسی پارٹی کی داغ بیل ڈالنے کا اعلان کیا۔اس نئی پارٹی کا نام عوام پاکستان پارٹی رکھا گیا ہے۔جناب شاہد خاقان عباسی پاکستانی سیاست کا ایک معروف نام ہیں۔
آپ پاکستان ایئر فورس کے ایک سابق افسر مرحوم خاقان عباسی کے فرزند ہیں۔وہ اوجڑی کیمپ کے جانکاہ حادثے کے موقع پر پھٹنے والے ایک شیل کی زد میں آ کر وفات پا گئے۔وفات سے قبل جناب خاقان عباسی ،جنرل ضیاالحق کے دیرینہ دوست ہونے کی وجہ سے وفاقی وزیر تھے۔ اپنے والد مرحوم کی وفات کی وجہ سے جناب شاہد خاقان عباسی نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور متعدد بار اپنے مری کے حلقے سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ جناب شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے سیاست کی اور مختلف وزارتیں لیں۔
جب جنرل پرویز مشرف نے جناب نواز شریف کو وزارتِ عظمٰی سے ہٹا کر گرفتار کیا اور ان پر طیارہ اغوا کرنے کا کیس بنایا تو اس وقت جناب شاہد خاقان عباسی پی آئی اے کے سربراہ تھے،اور اسی بنا پر انھیں بھی دھر لیا گیا۔انھیں سزا ہوئی اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔انھیں اس بات کی شاباش دینی پڑے گی کہ وہ وعدہ معاف گواہ نہیں بنے اور بہت حوصلے و صبر سے تمام تکالیف کا سامنا کیا۔ابھی چند ہفتے پہلے جب جناب نواز شریف صاحب نے مسلم لیگ ن کی دوبارہ صدارت سنبھالی تو اس موقع پر پارٹی قائدین اور ممبران سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے جناب شاہد خاقان عباسی کا خاص طور پر ذکر کیا،ان کے عزم و حوصلہ کو بے حد سراہا اور داد دی۔ایسے لگتا ہے کہ موجودہ moveسے پہلے صدر مسلم لیگ ن، جناب شاہد خاقان پر بہت بھروسہ کرتے تھے تبھی ان کو وزارتِ عظمٰی کا منصبِ جلیلہ سونپا گیا لیکن جناب عباسی نے مسلم لیگ ن کی گرتی ساکھ و مقبولیت کو بروقت بھانپ لیا اور کنارہ کشی اختیار کر لی۔
2018 کے انتخابات میں شاہد خاقان عباسی اپنے حلقہ انتخاب سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے مقابلے میں ہار گئے۔ مسلم لیگ ن آپ کو ہر صورت قومی اسمبلی میں دیکھنا چاہتی تھی۔ پارٹی قیادت نے ضمنی انتخابات کے ذریعے ان کو لاہور کے ایک حلقے سے کامیاب کروایا لیکن آپ اپنی پارٹی سے دور ہونے لگے۔جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو تب شاہد خاقان عباسی نے کوئی وزارت لینے سے انکار کر دیا۔ بظاہر آپ کو محترمہ مریم نواز کے مسلم لیگ ن میں مقام و مرتبہ سے الجھن ہوئی۔جناب چوہدری نثار بھی مسلم لیگ کے بہت ہی اہم رہنماء تھے اور شریف خاندان کے ساتھ گہری دوستی تھی لیکن وزارتِ عظمیٰ کی باری آئی تو چوہدری نثار کو چھوڑ کر شاہد خاقان عباسی کو پسند کر لیا گیا اور بعد میں شاہد خاقان عباسی کے ہوتے ہوئے محترمہ مریم نواز کو سینئر نائب صدر کے عہدے پر متمکن کر دیا گیا۔
شاید چوہدری نثار اور شاہد خاقان عباسی اپنے اپنے ساتھ ہونے والی ان بظاہر زیادتیوں سے صلح نہ کر سکے اور مسلم لیگ ن سے راہیں جدا کر بیٹھے۔ویسے جناب نواز شریف کے مخالفین کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو صاف لگتا ہے کہ جناب نواز شریف کو بندوں کی پہچان بالکل نہیں ہے۔ وہ افراد جو ان کے انتہائی قریبی ساتھی تھے،آج خم ٹھونک کر ان کے سامنے کھڑے ہیں۔جناب پرویز الٰہی ایک وقت میں شریف خاندان کے بہت قریب تھے اور ان کو پنجاب اسمبلی کی اسپیکر شپ دی گئی۔جناب چوہدری شجاعت صاحب ان کی کابینہ میں بہت ہی اہم وزارت داخلہ کے وزیر رہے لیکن پھر تعلقات میں تلخی آ گئی۔ شیخ رشید بھی ایک لمبے عرصے تک بہت قریب رہے۔ اب شیخ صاحب کا ہر بیان اپنے ماضی کے رہنماء کو للکارنے والا ہوتا ہے۔ حماد اظہر کے والد مسلم لیگ ن کے گورنر رہے۔ اسی طرح اور کئی نام گنوائے جا سکتے ہیں۔
جناب شاہد خاقان عباسی چند مہینوں سے اپنی سیاسی پارٹی لانچ کرنے کا عندیہ دے رہے تھے اور بالآخر6جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں پارٹی کا باقاعدہ اعلان ہو گیا۔سٹیج پر پارٹی کا جھنڈا بھی لہرا رہا تھا۔بتایا گیا کہ یہ پارٹی نظام کی تبدیلی چاہتی ہے۔ سٹیج کے پیچھے ایک بڑے پینا فلیکس پر اور روسٹرم پر نظام کی تبدیلی کا پیغام تھا۔یہ نئی سیاسی پارٹی ایک ایسے وقت میں لانچ ہوئی ہے جب انتخابات ہوئے چند مہینے ہی ہوئے ہیں اور اگلے انتخابات بظاہر بہت دور ہیں۔اگر یہ سیاسی پارٹی عوام کی اکثریت کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو اس کو حکومت بنانے اور عوام کو ریلیف دینے میں چند سال لگیں گے۔جناب شاہد خاقان عباسی،جناب مفتاح اسماعیل،جناب مہتاب عباسی کی ایک عمر موجودہ نظام کی آبیاری کرتے گزری ہے۔
شاہد خاقان عباسی تو مملکت کے چیف ایگزیکٹو رہے، جناب مہتاب عباسی، گورنر،وزیرِ اعلیٰ اور وزیر رہے اور مفتاح اسماعیل کے پاس دو مرتبہ وزارت خزانہ کا قلمدان رہا، یوں وہ اس بد بو دار نظام میں اہم عہدوں پر رہے۔نظام کا اہم حصہ رہنے والے، اس کی آبیاری کرنے والوں سے کیونکر یہ توقع کرنی چاہیے کہ وہ اس نظام کو بدل پائیں گے، جب کہ وہ لانچنگ کے وقت یہ بھی نہ بتا سکے کہ وہ کون سا نیا نظام لائیں گے۔جب وہ اقتدار میں تھے تو اس وقت انھوں نے بد بو دار نظام کو بدلنے کی بات کیوں نہ کی۔ مفتاح اسماعیل نے اپنی وزارتِ خزانہ کے دنوں میں قوم کو بتایا تھا کہ پاکستان کے اپنے 6یا7بینک باہمی ملی بھگت سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرا کر اربوں کما رہے ہیں۔کیا انھوں نے ان بینکوں کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا۔جو مافیاز اس وقت سرگرم تھے وہ تو اب بھی موجود اور سرگرم ہیں۔
عوام پاکستان پارٹی ایک ایسے وقت میں لانچ ہوئی ہے جب ایک بالکل نئی سیاسی پارٹی کے لیے جگہ بنانی مشکل ہے۔پی ٹی آئی اس وقت ایک مقبول سیاسی جماعت ہے۔ 8فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے پاس انتخابی نشان بھی نہیں تھا ۔پی ٹی آئی کے پاس صرف عمران خان کی مقبولیت تھی۔یہ ان کے چاہنے والوں کا کمال تھا کہ انھوں نے پی ٹی آئی امیدواروں کو ڈھونڈ کر ان کے لیے ووٹ ڈالے۔سندھ میں اس سے پہلے پی پی پی کا کوئی مقابلہ نہیں تھا لیکن پی ٹی آئی نے پچھلے دو انتخابات میں اچھے خاصے ووٹ حاصل کیے۔
خیبر پختون خوا تو خان کا ہو چکا ہے۔عوام پاکستان پارٹی کی قیادت کا یہ حال ہے کہ جناب شاہد خاقان عباسی کے لیے اپنے حلقے سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کے مقابلے میںنشست جیتنا ممکن نہیں۔ جناب مفتاح اسماعیل اچھے وقتوں میں کراچی اپنے شہر سے کبھی جیت نہیں پائے۔یہی حال مہتاب عباسی صاحب کا ہے۔وہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر رہے۔مسلم لیگ ن نے ان کو وزارتیں، گورنری اور وزارتِ اعلیٰ دی۔ کیا وہ اپنے تئیں پی ٹی آئی و مسلم لیگ ن کے مقابلے میں الیکشن جیت سکتے ہیں۔عوام پاکستان پارٹی کی قیادت کو ایک لمبی اننگ کھیلنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ہماری نیک خواہشات اس قیادت کے ساتھ ہیں۔
آپ پاکستان ایئر فورس کے ایک سابق افسر مرحوم خاقان عباسی کے فرزند ہیں۔وہ اوجڑی کیمپ کے جانکاہ حادثے کے موقع پر پھٹنے والے ایک شیل کی زد میں آ کر وفات پا گئے۔وفات سے قبل جناب خاقان عباسی ،جنرل ضیاالحق کے دیرینہ دوست ہونے کی وجہ سے وفاقی وزیر تھے۔ اپنے والد مرحوم کی وفات کی وجہ سے جناب شاہد خاقان عباسی نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور متعدد بار اپنے مری کے حلقے سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ جناب شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے سیاست کی اور مختلف وزارتیں لیں۔
جب جنرل پرویز مشرف نے جناب نواز شریف کو وزارتِ عظمٰی سے ہٹا کر گرفتار کیا اور ان پر طیارہ اغوا کرنے کا کیس بنایا تو اس وقت جناب شاہد خاقان عباسی پی آئی اے کے سربراہ تھے،اور اسی بنا پر انھیں بھی دھر لیا گیا۔انھیں سزا ہوئی اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔انھیں اس بات کی شاباش دینی پڑے گی کہ وہ وعدہ معاف گواہ نہیں بنے اور بہت حوصلے و صبر سے تمام تکالیف کا سامنا کیا۔ابھی چند ہفتے پہلے جب جناب نواز شریف صاحب نے مسلم لیگ ن کی دوبارہ صدارت سنبھالی تو اس موقع پر پارٹی قائدین اور ممبران سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے جناب شاہد خاقان عباسی کا خاص طور پر ذکر کیا،ان کے عزم و حوصلہ کو بے حد سراہا اور داد دی۔ایسے لگتا ہے کہ موجودہ moveسے پہلے صدر مسلم لیگ ن، جناب شاہد خاقان پر بہت بھروسہ کرتے تھے تبھی ان کو وزارتِ عظمٰی کا منصبِ جلیلہ سونپا گیا لیکن جناب عباسی نے مسلم لیگ ن کی گرتی ساکھ و مقبولیت کو بروقت بھانپ لیا اور کنارہ کشی اختیار کر لی۔
2018 کے انتخابات میں شاہد خاقان عباسی اپنے حلقہ انتخاب سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے مقابلے میں ہار گئے۔ مسلم لیگ ن آپ کو ہر صورت قومی اسمبلی میں دیکھنا چاہتی تھی۔ پارٹی قیادت نے ضمنی انتخابات کے ذریعے ان کو لاہور کے ایک حلقے سے کامیاب کروایا لیکن آپ اپنی پارٹی سے دور ہونے لگے۔جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو تب شاہد خاقان عباسی نے کوئی وزارت لینے سے انکار کر دیا۔ بظاہر آپ کو محترمہ مریم نواز کے مسلم لیگ ن میں مقام و مرتبہ سے الجھن ہوئی۔جناب چوہدری نثار بھی مسلم لیگ کے بہت ہی اہم رہنماء تھے اور شریف خاندان کے ساتھ گہری دوستی تھی لیکن وزارتِ عظمیٰ کی باری آئی تو چوہدری نثار کو چھوڑ کر شاہد خاقان عباسی کو پسند کر لیا گیا اور بعد میں شاہد خاقان عباسی کے ہوتے ہوئے محترمہ مریم نواز کو سینئر نائب صدر کے عہدے پر متمکن کر دیا گیا۔
شاید چوہدری نثار اور شاہد خاقان عباسی اپنے اپنے ساتھ ہونے والی ان بظاہر زیادتیوں سے صلح نہ کر سکے اور مسلم لیگ ن سے راہیں جدا کر بیٹھے۔ویسے جناب نواز شریف کے مخالفین کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو صاف لگتا ہے کہ جناب نواز شریف کو بندوں کی پہچان بالکل نہیں ہے۔ وہ افراد جو ان کے انتہائی قریبی ساتھی تھے،آج خم ٹھونک کر ان کے سامنے کھڑے ہیں۔جناب پرویز الٰہی ایک وقت میں شریف خاندان کے بہت قریب تھے اور ان کو پنجاب اسمبلی کی اسپیکر شپ دی گئی۔جناب چوہدری شجاعت صاحب ان کی کابینہ میں بہت ہی اہم وزارت داخلہ کے وزیر رہے لیکن پھر تعلقات میں تلخی آ گئی۔ شیخ رشید بھی ایک لمبے عرصے تک بہت قریب رہے۔ اب شیخ صاحب کا ہر بیان اپنے ماضی کے رہنماء کو للکارنے والا ہوتا ہے۔ حماد اظہر کے والد مسلم لیگ ن کے گورنر رہے۔ اسی طرح اور کئی نام گنوائے جا سکتے ہیں۔
جناب شاہد خاقان عباسی چند مہینوں سے اپنی سیاسی پارٹی لانچ کرنے کا عندیہ دے رہے تھے اور بالآخر6جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں پارٹی کا باقاعدہ اعلان ہو گیا۔سٹیج پر پارٹی کا جھنڈا بھی لہرا رہا تھا۔بتایا گیا کہ یہ پارٹی نظام کی تبدیلی چاہتی ہے۔ سٹیج کے پیچھے ایک بڑے پینا فلیکس پر اور روسٹرم پر نظام کی تبدیلی کا پیغام تھا۔یہ نئی سیاسی پارٹی ایک ایسے وقت میں لانچ ہوئی ہے جب انتخابات ہوئے چند مہینے ہی ہوئے ہیں اور اگلے انتخابات بظاہر بہت دور ہیں۔اگر یہ سیاسی پارٹی عوام کی اکثریت کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو اس کو حکومت بنانے اور عوام کو ریلیف دینے میں چند سال لگیں گے۔جناب شاہد خاقان عباسی،جناب مفتاح اسماعیل،جناب مہتاب عباسی کی ایک عمر موجودہ نظام کی آبیاری کرتے گزری ہے۔
شاہد خاقان عباسی تو مملکت کے چیف ایگزیکٹو رہے، جناب مہتاب عباسی، گورنر،وزیرِ اعلیٰ اور وزیر رہے اور مفتاح اسماعیل کے پاس دو مرتبہ وزارت خزانہ کا قلمدان رہا، یوں وہ اس بد بو دار نظام میں اہم عہدوں پر رہے۔نظام کا اہم حصہ رہنے والے، اس کی آبیاری کرنے والوں سے کیونکر یہ توقع کرنی چاہیے کہ وہ اس نظام کو بدل پائیں گے، جب کہ وہ لانچنگ کے وقت یہ بھی نہ بتا سکے کہ وہ کون سا نیا نظام لائیں گے۔جب وہ اقتدار میں تھے تو اس وقت انھوں نے بد بو دار نظام کو بدلنے کی بات کیوں نہ کی۔ مفتاح اسماعیل نے اپنی وزارتِ خزانہ کے دنوں میں قوم کو بتایا تھا کہ پاکستان کے اپنے 6یا7بینک باہمی ملی بھگت سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرا کر اربوں کما رہے ہیں۔کیا انھوں نے ان بینکوں کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا۔جو مافیاز اس وقت سرگرم تھے وہ تو اب بھی موجود اور سرگرم ہیں۔
عوام پاکستان پارٹی ایک ایسے وقت میں لانچ ہوئی ہے جب ایک بالکل نئی سیاسی پارٹی کے لیے جگہ بنانی مشکل ہے۔پی ٹی آئی اس وقت ایک مقبول سیاسی جماعت ہے۔ 8فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے پاس انتخابی نشان بھی نہیں تھا ۔پی ٹی آئی کے پاس صرف عمران خان کی مقبولیت تھی۔یہ ان کے چاہنے والوں کا کمال تھا کہ انھوں نے پی ٹی آئی امیدواروں کو ڈھونڈ کر ان کے لیے ووٹ ڈالے۔سندھ میں اس سے پہلے پی پی پی کا کوئی مقابلہ نہیں تھا لیکن پی ٹی آئی نے پچھلے دو انتخابات میں اچھے خاصے ووٹ حاصل کیے۔
خیبر پختون خوا تو خان کا ہو چکا ہے۔عوام پاکستان پارٹی کی قیادت کا یہ حال ہے کہ جناب شاہد خاقان عباسی کے لیے اپنے حلقے سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کے مقابلے میںنشست جیتنا ممکن نہیں۔ جناب مفتاح اسماعیل اچھے وقتوں میں کراچی اپنے شہر سے کبھی جیت نہیں پائے۔یہی حال مہتاب عباسی صاحب کا ہے۔وہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر رہے۔مسلم لیگ ن نے ان کو وزارتیں، گورنری اور وزارتِ اعلیٰ دی۔ کیا وہ اپنے تئیں پی ٹی آئی و مسلم لیگ ن کے مقابلے میں الیکشن جیت سکتے ہیں۔عوام پاکستان پارٹی کی قیادت کو ایک لمبی اننگ کھیلنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ہماری نیک خواہشات اس قیادت کے ساتھ ہیں۔