پی ٹی آئی کا داخلی بحران
عمر ایوب کو پارلیمانی سطح پر کام کرنے دیا جائے اور نیا سیکرٹری جنرل لایا جائے
پی ٹی آئی کا موجودہ داخلی بحران فطری ہے۔ 9مئی کے بعد سے پی ٹی آئی ایک سنگین بحران سے گزر رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں پر جب بھی کوئی برا وقت آتا ہے تو اصل امتحان ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا ہوتا ہے کہ وہ اس بحران میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔اس وقت دیکھیں تو پی ٹی آئی سیاسی سرگرمیاں نہیں کرپارہی ہے ۔ عدالتی حکم کے باوجود اسے جلسہ نہیں کرنے دیا گیا ۔وفاقی وصوبائی اسمبلیوں میں ایک موثر نمائندگی کے باوجود ان کی موجودہ قیادت جن کے ہاتھ میں جماعت کی باگ ڈور ہے وہ کوئی بڑی منظم تحریک تو کجا جیلوںمیں قید عمران خان سمیت دیگر ساتھیوں کے لیے بھی کوئی بڑے دباؤ کی سیاست پیدا نہیں کرسکے۔
اس وقت تین گروپس آپس میں الجھے ہوئے ہیں اول، وہ لوگ جن کے پاس 9مئی کے بعد ہونے والے واقعات کے نتیجہ میں پارٹی قیادت یا دیگر عہدوں پر ذمے داری ملی اور ان میں وکلا پیش پیش ہیں ۔ دوئم، وہ لوگ جو پی ٹی آئی کے سیاسی چہرے ہیں، وہ جیلوں میں تھے اور اب جیل سے باہر ہیں ، رکن اسمبلی ہیں اور ان کو محسوس ہوتا ہے کہ نئی قیادت ان کو سیاسی راستہ دینے یا کوئی بڑی ذمے داری دینے کے لیے تیار نہیں۔ سوئم، وہ لوگ ہیں جو مشکل حالات میں اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے باعث پارٹی چھوڑ گئے مگر اب موجودہ حالات میں وہ پارٹی میں باعزت طریقے سے واپس آنا چاہتے ہیں مگر ان کی واپسی پر پارٹی کے اندر ایک واضح خلیج یا تقسیم موجود ہے ۔
عمران خان ،شاہ محمود قریشی ، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری کی نظر بندی،چوہدری پرویز الہی کی رہائی کے باوجود سیاسی سرگرمیاں نہ کرنا ، ارکان اسمبلی میں ڈر اور خوف کی فضا، سیاسی کارکنوں میں موجودہ قیادت کے بارے میں مایوسی کا پیدا ہونا اور اس کا سخت ردعمل دینا ، کچھ افراد کی طرف سے مسلسل روپوشی، جیلوں میں قید مرد و خواتین کی بڑھتی ہوئی مشکلات ، پارٹی کو تقسیم کرنے کے کھیل کی موجودگی میں جو کچھ پی ٹی آئی کی سطح پر ہورہا ہے وہ یقینی تھا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ جو بھی موجودہ قیادت یا لیڈر ہیں۔
وہ بجائے مل بیٹھ کر چلنے کے، اپنے اختلافات کو نمایاں اور میڈیا کی زینت بنانا اور اپنی ہی جماعت کے افراد پر سنگین الزامات اور ایک دوسرے کو سیاسی طور پر برداشت نہ کرنے کا عمل یا یہ تاثر دینا کہ پارٹی کو خیبر پختونخواہ کی سطح پر کچھ لوگوں نے ہائی جیک کرلیا ہے ، سب ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی کے معاملات میں خرابیاں موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کو جن معاملات پر توجہ دینی چاہیے تھی، وہ آپس میں دست وگریبان ہیں ۔ یہ ساری لڑائی جو نظر آرہی ہے اس کا اصل فائدہ یقینی طور پر ان کے سیاسی مخالفین کو ہو رہا ہے اور پی ٹی آئی حکومت پر دباؤ میں ناکام ہے۔
جو لوگ بھی پی ٹی آئی کے اندر ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کے داخلی بحران کو پیدا کرنے یا اسے نمایاں کرنے یا اپنی کمزوریوں کو عیاں کرنے کے ذمے دار ہیں وہ پارٹی کی خدمت کم اور نقصان زیادہ پہنچا رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی کو اگر اس داخلی بحران سے باہر نکلنا ہے تو عمران خان کو بڑے سیاسی فیصلے کرنے ہوں گے۔پی ٹی آئی میں اب وقت آگیا ہے کہ جو لوگ موجودہ قیادت کررہے ہیں، ان میں بہت سے لوگوں کے مقابلے میں سیاسی چہروں کو بالادستی حاصل ہونی چاہیے۔ بیرسٹر گوہر ، علی ظفر، حامد خان ،روف حسن، لطیف کھوسہ، عمر ایوب خان کے مقابلے میں سیاسی چہروں کو سامنے لانا ہوگا۔ دیگر لوگ جو جیل سے باہر ہیں، ان میں ڈاکٹر عارف علوی اور اسد قیصر نمایاں ہیں۔ پرویز الہی بھی باہر ہیں مگر ان کی صحت کے مسائل ہیں۔کے پی کے میںعلی محمد خان ، شاندانہ گلزار اور شہریار آفریدی نمایاں ہیں ۔
کے پی کے کی قیادت بھی وزیر اعلی کی بجائے ایسے رہنما کے پاس ہونی چاہیے جو انتظامی یا حکومتی عہدہ نہ رکھتا ہو۔ عمر ایوب کو پارلیمانی سطح پر کام کرنے دیا جائے اور نیا سیکرٹری جنرل لایا جائے ۔جو لوگ روپوش ہیںان کو قیادت کا واضح پیغام ہونا چاہیے کہ وہ سامنے آئیں ، گرفتاری سے ڈرنے کی بجائے حالات کا مقابلہ کریں کیونکہ ان کی روپوشی سے جماعت کو نقصان ہو رہا ہے ، خصوصاًجن کے پاس بدستور اہم پارٹی عہدے بھی ہیں۔ ان میں حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال نمایاں ہیں۔ پارٹی چھوڑ جانے والے واپس آنا چاہتے ہیں ، انھیں کہا جائے کہ وہ پہلے کام کریں، جلسے، جلوس اور ریلیوں کا اہتمام کریں ، اگر وہ یہ کارکردگی دکھائیں تو انھیں پارٹی عہدوں پر لایاجاسکتا ہے ۔
عمران خان کو پارٹی کے داخلی بحران پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے ، سخت کوڈ آف کنڈکٹ ہونا چاہیے۔ فواد چوہدری ، عمران اسماعیل ، علی زیدی، شیریں مزاری سمیت جو بھی پارٹی میں دوبارہ آنا چاہتے ہیں تو انھیں راستہ دیا جائے ۔ ڈاکٹر عارف علوی پارٹی کے پرانے نظریاتی اور بانی ارکان میں سے ہیں اور پارٹی کے مختلف دھڑوں میں ان کو عزت کی نگاہ سے بھی دیکھاجاتا ہے اور ورکرز کی سطح پر بھی ان کی اہمیت ہے ۔ اب وقت ہے عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور اسد قیصر جیسے لوگوں کو عبوری طور پر پارٹی کی قیادت دیں اور یہ لوگ ناراض لوگوں میں پل کا کردار ادا کریں اور تنظیمی معاملات میںجو بھی مسائل ہیں ان کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ پارلیمانی سیاست اور پارٹی سیاست میں توازن پیدا کریں اور ڈاکٹر عارف علوی اس عمل میں ایک بہتر چوائس ہوسکتے ہیں ۔
اس وقت تین گروپس آپس میں الجھے ہوئے ہیں اول، وہ لوگ جن کے پاس 9مئی کے بعد ہونے والے واقعات کے نتیجہ میں پارٹی قیادت یا دیگر عہدوں پر ذمے داری ملی اور ان میں وکلا پیش پیش ہیں ۔ دوئم، وہ لوگ جو پی ٹی آئی کے سیاسی چہرے ہیں، وہ جیلوں میں تھے اور اب جیل سے باہر ہیں ، رکن اسمبلی ہیں اور ان کو محسوس ہوتا ہے کہ نئی قیادت ان کو سیاسی راستہ دینے یا کوئی بڑی ذمے داری دینے کے لیے تیار نہیں۔ سوئم، وہ لوگ ہیں جو مشکل حالات میں اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے باعث پارٹی چھوڑ گئے مگر اب موجودہ حالات میں وہ پارٹی میں باعزت طریقے سے واپس آنا چاہتے ہیں مگر ان کی واپسی پر پارٹی کے اندر ایک واضح خلیج یا تقسیم موجود ہے ۔
عمران خان ،شاہ محمود قریشی ، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری کی نظر بندی،چوہدری پرویز الہی کی رہائی کے باوجود سیاسی سرگرمیاں نہ کرنا ، ارکان اسمبلی میں ڈر اور خوف کی فضا، سیاسی کارکنوں میں موجودہ قیادت کے بارے میں مایوسی کا پیدا ہونا اور اس کا سخت ردعمل دینا ، کچھ افراد کی طرف سے مسلسل روپوشی، جیلوں میں قید مرد و خواتین کی بڑھتی ہوئی مشکلات ، پارٹی کو تقسیم کرنے کے کھیل کی موجودگی میں جو کچھ پی ٹی آئی کی سطح پر ہورہا ہے وہ یقینی تھا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ جو بھی موجودہ قیادت یا لیڈر ہیں۔
وہ بجائے مل بیٹھ کر چلنے کے، اپنے اختلافات کو نمایاں اور میڈیا کی زینت بنانا اور اپنی ہی جماعت کے افراد پر سنگین الزامات اور ایک دوسرے کو سیاسی طور پر برداشت نہ کرنے کا عمل یا یہ تاثر دینا کہ پارٹی کو خیبر پختونخواہ کی سطح پر کچھ لوگوں نے ہائی جیک کرلیا ہے ، سب ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی کے معاملات میں خرابیاں موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کو جن معاملات پر توجہ دینی چاہیے تھی، وہ آپس میں دست وگریبان ہیں ۔ یہ ساری لڑائی جو نظر آرہی ہے اس کا اصل فائدہ یقینی طور پر ان کے سیاسی مخالفین کو ہو رہا ہے اور پی ٹی آئی حکومت پر دباؤ میں ناکام ہے۔
جو لوگ بھی پی ٹی آئی کے اندر ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کے داخلی بحران کو پیدا کرنے یا اسے نمایاں کرنے یا اپنی کمزوریوں کو عیاں کرنے کے ذمے دار ہیں وہ پارٹی کی خدمت کم اور نقصان زیادہ پہنچا رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی کو اگر اس داخلی بحران سے باہر نکلنا ہے تو عمران خان کو بڑے سیاسی فیصلے کرنے ہوں گے۔پی ٹی آئی میں اب وقت آگیا ہے کہ جو لوگ موجودہ قیادت کررہے ہیں، ان میں بہت سے لوگوں کے مقابلے میں سیاسی چہروں کو بالادستی حاصل ہونی چاہیے۔ بیرسٹر گوہر ، علی ظفر، حامد خان ،روف حسن، لطیف کھوسہ، عمر ایوب خان کے مقابلے میں سیاسی چہروں کو سامنے لانا ہوگا۔ دیگر لوگ جو جیل سے باہر ہیں، ان میں ڈاکٹر عارف علوی اور اسد قیصر نمایاں ہیں۔ پرویز الہی بھی باہر ہیں مگر ان کی صحت کے مسائل ہیں۔کے پی کے میںعلی محمد خان ، شاندانہ گلزار اور شہریار آفریدی نمایاں ہیں ۔
کے پی کے کی قیادت بھی وزیر اعلی کی بجائے ایسے رہنما کے پاس ہونی چاہیے جو انتظامی یا حکومتی عہدہ نہ رکھتا ہو۔ عمر ایوب کو پارلیمانی سطح پر کام کرنے دیا جائے اور نیا سیکرٹری جنرل لایا جائے ۔جو لوگ روپوش ہیںان کو قیادت کا واضح پیغام ہونا چاہیے کہ وہ سامنے آئیں ، گرفتاری سے ڈرنے کی بجائے حالات کا مقابلہ کریں کیونکہ ان کی روپوشی سے جماعت کو نقصان ہو رہا ہے ، خصوصاًجن کے پاس بدستور اہم پارٹی عہدے بھی ہیں۔ ان میں حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال نمایاں ہیں۔ پارٹی چھوڑ جانے والے واپس آنا چاہتے ہیں ، انھیں کہا جائے کہ وہ پہلے کام کریں، جلسے، جلوس اور ریلیوں کا اہتمام کریں ، اگر وہ یہ کارکردگی دکھائیں تو انھیں پارٹی عہدوں پر لایاجاسکتا ہے ۔
عمران خان کو پارٹی کے داخلی بحران پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے ، سخت کوڈ آف کنڈکٹ ہونا چاہیے۔ فواد چوہدری ، عمران اسماعیل ، علی زیدی، شیریں مزاری سمیت جو بھی پارٹی میں دوبارہ آنا چاہتے ہیں تو انھیں راستہ دیا جائے ۔ ڈاکٹر عارف علوی پارٹی کے پرانے نظریاتی اور بانی ارکان میں سے ہیں اور پارٹی کے مختلف دھڑوں میں ان کو عزت کی نگاہ سے بھی دیکھاجاتا ہے اور ورکرز کی سطح پر بھی ان کی اہمیت ہے ۔ اب وقت ہے عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور اسد قیصر جیسے لوگوں کو عبوری طور پر پارٹی کی قیادت دیں اور یہ لوگ ناراض لوگوں میں پل کا کردار ادا کریں اور تنظیمی معاملات میںجو بھی مسائل ہیں ان کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ پارلیمانی سیاست اور پارٹی سیاست میں توازن پیدا کریں اور ڈاکٹر عارف علوی اس عمل میں ایک بہتر چوائس ہوسکتے ہیں ۔