پاکستان اسٹیل ملز کو نجکاری سے نکال دیا گیا ہے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ
نجکاری کمیشن نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ بجلی کی 9 تقسیم کار کمپنیوں کی 5 سال میں نج کاری کی جائے گی
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کو حکام نے آگاہ کیا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر (پی آئی اے) کمپنی لمیٹڈ، روزویلٹ ہوٹل، ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی لمیٹڈ، فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ کی نج کاری اسی سال مکمل ہو نے کی امید ہے جبکہ پاکستان اسٹیل ملز کو نجکاری سے نکال دیا گیا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلال بدر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہو ا، جس میں سینیٹرز بلال احمد خان، خالدہ اطیب، فیصل سلیم رحمان، خلیل طاہر، محسن عزیز، محمد قاسم، ندیم احمد بھٹو کے علاوہ سیکریٹری وزارت نج کاری، سیکریٹری نج کاری کمیشن اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت نج کاری اور اس کے ماتحت اداروں کی مجموعی کارکردگی اور کام کے طریقہ کار کے علاوہ وزارت نج کاری سے آئندہ ایک سال کے نج کاری پروگرام کی تفصیلات کے امور کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلال بدر نے اراکین کمیٹی اور وزارت کے نمائندوں کو خوش آمدید کرتے ہوئے کہا کہ اراکین کمیٹی اور وزارت کے ساتھ مل کر ملک کی معیشت کی بحالی اور نج کاری کے عمل کو شفاف سے شفاف تر بنانے کے لیے لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ وزارت واحد امید ہے جو اگر احسن طریقے سے نج کاری کے عمل پر عمل درآمد کرے تو ملکی معیشت بھنور سے نکل سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتیں بزنس نہیں کرتیں بلکہ اداروں کو ریگولیٹ کرتی ہیں اور یہ حکومت کا اولین فرض ہوتا ہے کہ وہ ادرے جو قومی نقصان کا سبب بن رہے ہوں ان کو ترقی کی جانب گامزن کر سکے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اس کے لئے موثر لائحہ عمل اختیار کرے اور ملک کو نقصان سے بچایا جا سکے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا جس میں شفافیت یقینی بنا کر اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
سیکریٹری وزارت نج کاری نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دی اور بتایا کہ نج کاری کے امور میں شفافیت کا پہلو نہ صرف حکومت اور ملک کے لئے اہم ہوتا ہے بلکہ اس سے عوام کی حالت زار بھی بہتر ہوتی ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ نجکاری ڈویڑن میں 82 اسامیاں ہیں، جن میں سے 17 خالی ہیں اور نج کاری کمیشن میں 143 پوسٹیں ہیں جن میں سے 20 خالی ہیں۔
قائمہ کمیٹی کو نجکاری ڈویڑن اور نجکاری کمیشن کے بجٹ کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا اور کمیشن کے تنظیمی ڈھانچے سے آگاہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ نجکاری کمیشن کے پاس حکومت کی جانب سے اختیار ہوتا ہے کہ وہ رولز بنائیں اور کمیٹی کو مختلف رولز کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔
نج کاری کمیشن کی جانب سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ 15 برسوں میں کوئی بڑی ٹرانزکشن نہیں کی گئی اور پاکستان اسٹیل ملز کو نج کاری سے نکال دیا گیا ہے۔
قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ مجموعی طور پر 84 اداروں کی مختلف وزارتوں میں نج کاری کے لیے کی نشان دہی کی گئی تھی جن میں 24 اداروں کی نج کاری کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور 41 کابینہ کے پاس ہیں۔
حکام نے بتایا کہ مذکورہ 24 اداروں میں سے 4 ادارے جن میں پی آئی اے کمپنی لمیٹڈ، روزویلٹ ہوٹل، ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی لمیٹڈ، فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ کی نج کاری امید ہے اسی سال مکمل ہو جائے گی۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نج کاری کا عمل ایک سے 5 سال کے دوران تین مراحل میں مکمل ہوگا اور نجکاری کا عمل قانونی تقاضوں کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔
اس موقع پر قائمہ کمیٹی نے نقصان کے حامل سرکاری اداروں کے نقصانات کی تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی اور اراکین کمیٹی نے استفسار کیا کہ چند ادارے منافعے میں ہیں ان کی نج کاری کیوں کی جا رہی ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ابھی منافع کم ہو رہا ہے، نج کاری کے بعد منافع بڑھ جائے گا، کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ فرسٹ ویمن بینک، ہاؤس بلڈنگ فنانس، پی آر سی ایل اور اسٹیٹ لائف منافع بخش ادارے ہیں۔
کمیشن کے حکام نے بتایا کہ 9 بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی 5 سال میں نج کاری کی جائے گی، تین بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری کے لیے فنانشل ایڈوائزر کی تعیناتی اسی سال ہو جائے گی۔
سیکرٹری نج کاری ڈویڑن نے کہا کہ پی آئی اے نے 800 ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں جبکہ حکومت ہر سال 100 سے 125 ارب دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بینکوں کے 260 ارب روپے پی آئی اے کے ذمہ واجب الادا ہیں جن میں بینک آف پنجاب، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک، حبیب بینک، نیشنل بینک سمیت 9 بینکوں کے پیسے ہیں، پی ایس او کے 20 ارب روپے اور سول ایوی ایشن 120 ارب روپے کے بقایاجات ہیں۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارا یہ ہدف ہے پی آئی اے کے لیے 6 بڈرز میں سے زیادہ سے زیادہ بڈنگ آئیں، پی آئی اے کے کل اثاثے 160 ارب روپے کے ہیں۔ پی آئی اے کی نج کاری میں اتنے بڑے واجبات کی وجہ سے کمپنیاں دلچسپی نہیں لے رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 600 ارب کی ادائیگی پی آئی اے کمپنی لمیٹیڈ سے نکال دی گئی ہے اور اس کو کور اور نان کور میں تقسیم کرکے ودہولڈنگ کمپنی میں تبدیل کر دیا ہے اور 600 ارب ود ہولڈنگ کمپنی میں جائیں گے اور 200 ارب کور کمپنی میں رہ جائیں گے۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2015 سے اب تک پی آئی اے نے 500 ارب کا خسارہ کیا، پی آئی اے نے 25 فیصد سالانہ شرح سود سے قرض حاصل کیا تھا تاہم بینکوں سے بات کر کے اسے 12 فیصد پر لایا گیا ہے۔
ورز ویلٹ ہوٹل کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے، بورڈ اس کی تجاویز تیار کر کے وفاقی کابینہ کو پیش کرے گا۔
اسی طرح قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات نے فرسٹ ویمن بینک میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے، وفاقی کابینہ نےفروری 2024 میں گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ ماڈ ٹرانزیکشن کی منظوری دی ہے اور نجکاری کمیشن نے نجکاری کے عمل کو جی ٹو جی بنیاد پر آگے بڑھانے کا آغاز کردیا ہے۔
کمیشن نے بتایا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے لیے تکنیکی کنسلٹنٹ ہائر کرلیا گیا ہے اور ٹیکنیکل کنسلٹنٹ ستمبر 2024 تک پلان شیئر کرے گا، اس موقع پر قائمہ کمیٹی نے وزارت نج کاری سے نج کاری کی لسٹ میں شامل اداروں کی تفصیلات کا ڈیٹا بھی طلب کرلیا۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے نج کاری نے کہا کہ ملک کی جو معاشی حالت ہو گئی ہے، لوگوں کی نظریں حکومت پر ہیں کہ ان نقصان دینے والے اداروں کے حوالے سے مؤثر فیصلہ کریں تاکہ ملک مزید خسارے سے نکل کر ترقی و خوش حالی اور استحکام کی جانب گامزن ہو سکے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلال بدر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہو ا، جس میں سینیٹرز بلال احمد خان، خالدہ اطیب، فیصل سلیم رحمان، خلیل طاہر، محسن عزیز، محمد قاسم، ندیم احمد بھٹو کے علاوہ سیکریٹری وزارت نج کاری، سیکریٹری نج کاری کمیشن اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت نج کاری اور اس کے ماتحت اداروں کی مجموعی کارکردگی اور کام کے طریقہ کار کے علاوہ وزارت نج کاری سے آئندہ ایک سال کے نج کاری پروگرام کی تفصیلات کے امور کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلال بدر نے اراکین کمیٹی اور وزارت کے نمائندوں کو خوش آمدید کرتے ہوئے کہا کہ اراکین کمیٹی اور وزارت کے ساتھ مل کر ملک کی معیشت کی بحالی اور نج کاری کے عمل کو شفاف سے شفاف تر بنانے کے لیے لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ وزارت واحد امید ہے جو اگر احسن طریقے سے نج کاری کے عمل پر عمل درآمد کرے تو ملکی معیشت بھنور سے نکل سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتیں بزنس نہیں کرتیں بلکہ اداروں کو ریگولیٹ کرتی ہیں اور یہ حکومت کا اولین فرض ہوتا ہے کہ وہ ادرے جو قومی نقصان کا سبب بن رہے ہوں ان کو ترقی کی جانب گامزن کر سکے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اس کے لئے موثر لائحہ عمل اختیار کرے اور ملک کو نقصان سے بچایا جا سکے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا جس میں شفافیت یقینی بنا کر اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
سیکریٹری وزارت نج کاری نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دی اور بتایا کہ نج کاری کے امور میں شفافیت کا پہلو نہ صرف حکومت اور ملک کے لئے اہم ہوتا ہے بلکہ اس سے عوام کی حالت زار بھی بہتر ہوتی ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ نجکاری ڈویڑن میں 82 اسامیاں ہیں، جن میں سے 17 خالی ہیں اور نج کاری کمیشن میں 143 پوسٹیں ہیں جن میں سے 20 خالی ہیں۔
قائمہ کمیٹی کو نجکاری ڈویڑن اور نجکاری کمیشن کے بجٹ کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا اور کمیشن کے تنظیمی ڈھانچے سے آگاہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ نجکاری کمیشن کے پاس حکومت کی جانب سے اختیار ہوتا ہے کہ وہ رولز بنائیں اور کمیٹی کو مختلف رولز کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔
نج کاری کمیشن کی جانب سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ 15 برسوں میں کوئی بڑی ٹرانزکشن نہیں کی گئی اور پاکستان اسٹیل ملز کو نج کاری سے نکال دیا گیا ہے۔
قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ مجموعی طور پر 84 اداروں کی مختلف وزارتوں میں نج کاری کے لیے کی نشان دہی کی گئی تھی جن میں 24 اداروں کی نج کاری کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور 41 کابینہ کے پاس ہیں۔
حکام نے بتایا کہ مذکورہ 24 اداروں میں سے 4 ادارے جن میں پی آئی اے کمپنی لمیٹڈ، روزویلٹ ہوٹل، ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی لمیٹڈ، فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ کی نج کاری امید ہے اسی سال مکمل ہو جائے گی۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نج کاری کا عمل ایک سے 5 سال کے دوران تین مراحل میں مکمل ہوگا اور نجکاری کا عمل قانونی تقاضوں کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔
اس موقع پر قائمہ کمیٹی نے نقصان کے حامل سرکاری اداروں کے نقصانات کی تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی اور اراکین کمیٹی نے استفسار کیا کہ چند ادارے منافعے میں ہیں ان کی نج کاری کیوں کی جا رہی ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ابھی منافع کم ہو رہا ہے، نج کاری کے بعد منافع بڑھ جائے گا، کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ فرسٹ ویمن بینک، ہاؤس بلڈنگ فنانس، پی آر سی ایل اور اسٹیٹ لائف منافع بخش ادارے ہیں۔
کمیشن کے حکام نے بتایا کہ 9 بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی 5 سال میں نج کاری کی جائے گی، تین بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری کے لیے فنانشل ایڈوائزر کی تعیناتی اسی سال ہو جائے گی۔
سیکرٹری نج کاری ڈویڑن نے کہا کہ پی آئی اے نے 800 ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں جبکہ حکومت ہر سال 100 سے 125 ارب دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بینکوں کے 260 ارب روپے پی آئی اے کے ذمہ واجب الادا ہیں جن میں بینک آف پنجاب، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک، حبیب بینک، نیشنل بینک سمیت 9 بینکوں کے پیسے ہیں، پی ایس او کے 20 ارب روپے اور سول ایوی ایشن 120 ارب روپے کے بقایاجات ہیں۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارا یہ ہدف ہے پی آئی اے کے لیے 6 بڈرز میں سے زیادہ سے زیادہ بڈنگ آئیں، پی آئی اے کے کل اثاثے 160 ارب روپے کے ہیں۔ پی آئی اے کی نج کاری میں اتنے بڑے واجبات کی وجہ سے کمپنیاں دلچسپی نہیں لے رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 600 ارب کی ادائیگی پی آئی اے کمپنی لمیٹیڈ سے نکال دی گئی ہے اور اس کو کور اور نان کور میں تقسیم کرکے ودہولڈنگ کمپنی میں تبدیل کر دیا ہے اور 600 ارب ود ہولڈنگ کمپنی میں جائیں گے اور 200 ارب کور کمپنی میں رہ جائیں گے۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2015 سے اب تک پی آئی اے نے 500 ارب کا خسارہ کیا، پی آئی اے نے 25 فیصد سالانہ شرح سود سے قرض حاصل کیا تھا تاہم بینکوں سے بات کر کے اسے 12 فیصد پر لایا گیا ہے۔
ورز ویلٹ ہوٹل کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے، بورڈ اس کی تجاویز تیار کر کے وفاقی کابینہ کو پیش کرے گا۔
اسی طرح قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات نے فرسٹ ویمن بینک میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے، وفاقی کابینہ نےفروری 2024 میں گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ ماڈ ٹرانزیکشن کی منظوری دی ہے اور نجکاری کمیشن نے نجکاری کے عمل کو جی ٹو جی بنیاد پر آگے بڑھانے کا آغاز کردیا ہے۔
کمیشن نے بتایا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے لیے تکنیکی کنسلٹنٹ ہائر کرلیا گیا ہے اور ٹیکنیکل کنسلٹنٹ ستمبر 2024 تک پلان شیئر کرے گا، اس موقع پر قائمہ کمیٹی نے وزارت نج کاری سے نج کاری کی لسٹ میں شامل اداروں کی تفصیلات کا ڈیٹا بھی طلب کرلیا۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے نج کاری نے کہا کہ ملک کی جو معاشی حالت ہو گئی ہے، لوگوں کی نظریں حکومت پر ہیں کہ ان نقصان دینے والے اداروں کے حوالے سے مؤثر فیصلہ کریں تاکہ ملک مزید خسارے سے نکل کر ترقی و خوش حالی اور استحکام کی جانب گامزن ہو سکے۔