پاکستان اورآذربائیجان تعاون کی نئی راہ پر

پاکستان اورآذربائیجان نے مختلف شعبوں میں 15مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے ہیں

پاکستان اورآذربائیجان نے مختلف شعبوں میں 15مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جب کہ آذر بائیجان کے صدر الہام علیوف کا کہنا ہے کہ باہمی مفاد کے مختلف شعبوں میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان تجارتی حجم 10 کروڑ ڈالر ہے جو ہماری قریبی دوستی کا عکاس نہیں، دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں اربوں ڈالر کی آیندہ سالوں میں سرمایہ کاری متوقع ہے۔ آذربائیجان کے صدر کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی۔


دنیا کی ترقی کا واحد راستہ بین الملکی تجارت ہے۔ اس تجارت سے ان کے ملک میں روزگار مہیا ہوتا ہے اور ان کا اقتصادی ڈھانچہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ پاکستان اور آذربائیجان، دو برادر مسلم ممالک، منفرد تاریخی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی اور سیاسی مشترکات رکھتے ہیں، دونوں ممالک کے عوام قریب آتے جا رہے ہیں، اس سے دیگر شعبوں بالخصوص تجارت میں تعلقات کو مزید گہرا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ کئی ایسے شعبہ جات ہیں جن میں ہم بنیادی طور پر دفاعی نظام پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔


دفاعی سازوسامان اور توانائی کے شعبے کی ترقی پر توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے۔ آذربائیجان کو تیل اور گیس کے شعبے میں کافی مہارت حاصل ہے، سرکاری مندوبین کے باقاعدہ دوروں کے ذریعے، ہم ٹھوس نتائج کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعاون پیدا کر سکتے ہیں، تعلیمی تعاون اس پائیدار بندھن کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے اور دونوں ریاستوں میں سماجی و اقتصادی خوشحالی لا سکتا ہے۔


پاکستان اور وسط ایشیائی ملکوں کے درمیان حالیہ عرصے میں قربتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی کچھ عرصہ قبل تاجکستان کا دورہ کیا تھا جس میں اسٹرٹیجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں تناؤ جب کہ امریکا اور مغربی ملکوں کی جانب سے اہمیت نہ ملنے پر پاکستان وسطیٰ ایشیائی ملکوں کے ساتھ روابط بڑھانے پر توجہ دے رہا ہے جسے ''ویژن وسطیٰ ایشیا'' پالیسی کا نام دیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان وسطیٰ ایشیا کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں روابط مضبوط بنانے کے لیے پُر عزم ہے۔


کاسا 1000 توانائی منصوبے کو ویژن وسطیٰ ایشیا کا ایک اہم جزو قرار دیا جاتا ہے۔ مبصرین پاکستان کے وسطیٰ ایشیائی ممالک سے روابط میں اضافے کو ملک کی خارجہ پالیسی کو متنوع بنانے اور خطے میں سفارتی تنہائی دور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی سفارت کاری کا پہلا محور اب معاشی اہداف کا حصول ہے اور اسی بنا پر وسطیٰ ایشیا، پاکستان کے سفارتی نقشے پر اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستان کے وسطیٰ ایشیائی ممالک کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں جو توانائی کے حصول کی صورت میں ہیں جن میں ''ٹاپی'' اور ''کاسا 1000' سرِفہرست ہیں۔ ''ٹاپی'' ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ (ٹاپی) ہے جب کہ کاسا 1000 میں کرغستان اور تاجکستان سے افغانستان اور پاکستان کو 1300 میگاواٹ بجلی فراہم کی جا سکے گی۔ یہ دونوں منصوبے زیرِ تکمیل ہیں۔


یورپی منڈی تک زمینی راستے کا حصول پاکستان کی پرانی خواہش ہے۔ توانائی کی حالیہ شدید قلت اور افغانستان کی صورتِ حال نے وسطیٰ ایشیا کو پاکستان کے لیے مزید اہم بنا دیا ہے۔ چین اور روس کے بھی وسطیٰ ایشیا میں مفادات ہیں اور وہ اس خطے کے ممالک کو شامل کر کے شنگھائی تعاون آرگنائزیشن (ایس سی او) اور بھارت، چین، برازیل، جنوبی افریقہ اور روس پر مشتمل پانچ ملکوں کی تنظیم 'برکس' کو توسیع دینا چاہتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب امریکا اور مغربی ممالک افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ گئے ہیں۔ پاکستان کے لیے بھارت اور افغانستان کے تناظر میں وسطیٰ ایشیا بہت اہم ہو جاتا ہے۔



سیاسی، سفارتی و معاشی تناظر میں وسطیٰ ایشیائی ممالک پاکستان کے لیے اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ کیوں کہ ایران پائپ لائن گیس منصوبہ اور سی پیک کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ بھارت جنوبی ایشیائی ممالک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے بعد آسیان ممالک کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے اور پاکستان کے پاس اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے خطے میں وسطیٰ ایشیائی ممالک کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔


وسطیٰ ایشیاء کے ممالک کو روس سے آزاد ہوئے تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔ یہ ممالک صنعتی طور پر پہلے سے ترقی یافتہ تھے۔ ان ممالک میں مواصلات اور توانائی حاصل کرنے کے ذرایع دنیا میں مثالی تھے۔ ماسوائے خوراک کے وہ باقی تمام شعبوں میں خود کفیل تھے، لیکن باوجود اس سب کے ان کا دنیا کے تجارتی اور اقتصادی سرکل میں حصہ بہت ہی کم تھا۔2021 میں وسطیٰ ایشیائی ممالک کی جی ڈی پی 347 بلین امریکی ڈالر تھی۔ جو گزشتہ دو برسوں میں سات گنا بڑھ چکی ہے۔ ان ممالک نے آزاد تجارتی معاہدے شروع کردیے ہیں جن سے توقع کی جارہی ہے کہ ان کی دوسرے ممالک سے تجارت میں دس سے پندرہ گنا مزید اضافہ ہوگا۔


وسطیٰ ایشیا کے ممالک ٹیکنالوجی کی منتقلی کی بہت بڑی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر یہ ممالک اپنے آزاد تجارتی معاہدوں کو جاری رکھتے ہیں اور چین کی طرح ہر شعبہ میں برآمدات شروع کردیتے ہیں تو اس سے ان ممالک کی جی ڈی پی چالیس گنا سے زیادہ بڑھ سکتی ہے جس کے نتیجے میں اس خطے کی اقتصادی حالت دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہوجائے گی۔ وسطیٰ ایشیائی ممالک دنیا کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی تجارت کو فروغ دے رہے ہیں جن سے ان کا باقی دنیا پر درآمدی انحصار کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اس لیے وسطیٰ ایشیائی ممالک کا علاقائی تجارتی تعاون کو وسعت دینا اور آزاد، پائیدار ترقی کی یقین دہانی واضح ہے۔


وسطیٰ ایشیائی ممالک کی جغرافیائی پوزیشن، جس میں 76 ملین سے زیادہ افراد کی ایک متحرک مارکیٹ ہے اور کوئی سمندری سرحدیں نہیں ہیں، ان کو ایسی اقتصادی پالیسی کی ترقی کی ضرورت تھی جو علاقائی تعاون اور تجارت کو فروغ دے سکے۔ ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے ساتھ داخلی تجارتی اصلاحات، مارکیٹ تک رسائی میں بہتری، اور تمام رکن ممالک کے لیے وسطیٰ ایشیائی خطے میں رکاوٹیں کم ہوئی ہیں نتیجتاً ملکوں کی اندرونی تجارت عالمگیر ہو گئی ہے۔ جغرافیائی سیاسی تناظر کے پیش نظر، خطہ سرحد پار تعاون کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے نقل و حمل کی نئی راہداریوں کی تلاش میں ہے۔ وسطیٰ ایشیا میں علاقائی کاری کے عمل کی شدت کے نتیجے میں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے لیے نقل و حمل اور مواصلاتی نظام کی ترقی کے ساتھ ساتھ باہمی ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت بھی بڑھی ہے۔


قازقستان اور ازبکستان کے درمیان سرحد کے ساتھ ساتھ کرغیزقازق صنعتی، تجارتی، اور لاجسٹکس کمپلیکس اک ٹیلک اور کاراسو چوکیوں کے قریب سینٹرل ایشیاء انٹرنیشنل سینٹر فار کراس بارڈر کوآپریشن کے قیام کا فیصلہ، ایک بہت ہی نمایاں قدم ہے۔


یہ راستہ یہ منصوبے علاقائی تجارتی تعلقات کو بڑھانے کے لیے مشترکہ منصوبوں کے قیام، باہمی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، اور نمائشوں، میلوں اور دیگر تقریبات کی میزبانی کے ذریعے ملکوں کے درمیان بین الاقوامی تعاون کو فروغ دے رہے ہیں۔ اکتاو اور کوریک کی کیسپین بندرگاہوں کے ذریعے کا کیشین اور یورپی منڈیوں تک رسائی کے ساتھ، قازقستان میں نقل و حمل کی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔ قازقستان اقتصادی راہداریوں اور نقل و حمل کے مراکز کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو مشرق اور مغرب کو جوڑتے ہیں، اور ملک اکتاؤ کنٹینر ہب بنانے کے ساتھ ساتھ اکتاؤ بندرگاہ اور کریک کی بندرگاہ کی صلاحیت کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔


ٹرانزٹ کے طریقہ کار کی ڈیجیٹلائزیشن سے وسطیٰ ایشیائی کاروباروں کو کم وقت اور کم قیمت پر بین الاقوامی تجارت شروع کرنے میں بھی مدد مل رہی ہے۔ قازقستان اور وسطیٰ ایشیاء کے درمیان تجارتی روابط کو بہتر بنانے کا ایک نیا منصوبہ مئی 2022 میں وزارت تجارت اور انضمام اور اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے درمیان تعاون کے حصے کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ یہ وسطیٰ ایشیائی نقل و حمل کے رابطے پر پہلے مکمل کیے گئے منصوبے کی منطقی توسیع ہے۔ برآمدات کے فروغ کے لیے بنیادی ڈھانچہ تمام وسطیٰ ایشیائی ممالک کے لیے اولین ترجیح ہے۔


پاکستان اور آذربائیجان مجموعی طور پر سماجی و اقتصادی تعلقات کی مضبوطی کے ساتھ تجارتی اور کاروباری تعلقات کی ترقی دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ ماضی کی طرح اگر بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے تو ان کی طاقت دگنی ہو جائے گی۔ حکومت پاکستان بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح آسان شرائط اور رشوت سے پاک تجارتی اور اقتصادی سہولت کاری شروع کردے تو یہ ممالک پاکستان کے ساتھ بھی تجارتی روابط کا آغاز کرسکتے ہیں، جس سے ہم سستی اور پائیدار اشیا کی تجارت کرسکیں گے۔

Load Next Story