- ایف بی آر نے ٹیکس کی شرح کا ٹیبل جاری کر دیا، ٹیکس کی یکمشت ادائیگی پر 25 فیصد ڈسکاونٹ
- کرفیو کی وجہ سے بنگلہ دیش اے ٹیم کی پاکستان آمد تاخیر کا شکار
- کراچی؛ بلوچ یکجہتی کونسل کے 13 کارکنان رہا
- ملک بھر میں ماہ صفرالمظفر کا چاند نظر نہیں آیا
- اعجاز انور چوہان صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب کے عہدے پر بحال
- کراچی ائیرپورٹ سمیت ملکی ہوائی اڈوں پر یوم استحصال کشمیرکی مناسبت سے بینرزآویزاں
- وزیرخارجہ اسحاق ڈار او آئی سی کے خصوصی اجلاس میں شرکت کریں گے
- بنگلادیش؛ مظاہرین چیف جسٹس کے گھر سے کاریں اور قیمتی سامان لے گئے
- والدہ اب کبھی سیاست میں واپس نہیں آئیں گی؛ شیخ حسینہ کے بیٹے کا بیان
- خاتون کے سر میں جوئیں رینگنے پر طیارے کی ہنگامی لینڈنگ
- عبوری حکومت میں شمولیت؛ آرمی چیف طلبا سے بھی ملاقات کریں گے
- مظاہرین کا حسینہ واجد کے گھر پر دھاوا؛ کھانے پر ٹوٹ پڑے، قیمتی سامان لے گئے
- کراچی میں کل رات سب سے زیادہ بارش کہاں ہوئی؟ اعداد و شماری جاری
- واردات کا شکار ہونے والے جرمن سیاح کو وزیراعلی پنجاب کی جانب سے 5 لاکھ روپے کی امداد
- ملائیشیا: تائیکوانڈو چمپیئن شپ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے دو گولڈ میڈل جیت لئے
- حسینہ واجد سرکاری محل سے اپنے ساتھ کیا کیا چیزیں بھارت لے گئیں
- اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا سپریم کورٹ سے مبارک ثانی فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ
- شہری ہمارا ساتھ دیں تو ہمیں وفاق اور سندھ کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، میئر کراچی
- حسینہ واجد کے بیٹے کی ملکی فوج سے اپیل
- عالمی برادری کشمیریوں کی حالت زار پر آنکھیں بند نہ کرے، شرجیل میمن
سپریم کورٹ کے فیصلے سے آئین، قانون اور جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا،مصطفٰی کمال
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما و رکن قومی اسمبلی سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے جمہوریت، آئین اور قانون کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔
ایم کیوایم پاکستان کے دفتر پاکستان ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم نے آج کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں چھپے مثبت پہلوؤں کو کھوجنے کی کوشش کی، مگر آج کے فیصلے نے بصد احترام جمہوریت آئین اور قانون کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اِنصاف کی تاریخ میں یہ دن یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا، آئین کی کِتاب کے بجائے سماجی رابطے کی سائٹس کو مدنگاہ رکھ کر فیصلے ہو رہے ہیں، اِس مُلک کی بدنصیبی ہے کہ جو پاپولر ہے وہ بُلند آواز سے مغلظات بک سکتا ہے، مُلکی سالمیت کے لیے کام کرنے والے اِداروں کے افراد کے اہلِ خانہ کی تذلیل کرسکتا ہے اور قانُون کو ہاتھ میں لے کر قومی املاک کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ ایسے فیصلوں سے وطن عزیز میں غلط کو غلط کہنے کا تصوّر معدوم ہو جائےگا، 2018ء میں بھی اُس وقت کے ثاقب نثار صاحب پورا آر ٹی ایس کا نظام مفلوج کروا کر ایک حکومت کو مُلک پر مسلط کروانے میں سہولت کار بنے اور واٹس ایپ پر فیصلے لکھے اور صادر کیے جاتے رہے۔
مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ نے آزاد حیثیت سے اِنتخاب لڑا اور اُن کی جماعت کے آئین کے مطابق کوئی بھی اقلیتی نمائندہ اِس اتحاد کا حصہ نہیں ہوگا مگر پھر ایک نام نہاد سیاسی جماعت کو اِس اتحاد میں ضم کروا کر مخصوص نشستوں کے لیے پنجہ آزمائی شروع کردی گئی اور مقدمہ دائر کیا گیا کہ یہ تمام نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جائیں مگر آج کا جو فیصلہ آیا ہے وہ پی ٹی آئی کے نام پر آیا ہے جو اِس تمام معاملے کا حصہ ہی نہیں تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 9 مئی کو جو کُچھ بھی ہوا ریاست اور اُس کے سربراہان پر جو تہمتیں لگائی جاتی رہیں اور اُن کو کسی دُشمن مُلک کا فرد بنا کر سوشل میڈیا پر پیش کیا جاتا رہا مگر کراچی کا ڈومیسائل رکھنے والا اِس طرح کا خیال بھی اپنے ذہن میں نہیں لا سکتا کیوں کہ پاکستان کی عدلیہ اِس پر نہ ہمارا ساتھ دے گی اور نہ آواز اُٹھائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے کارکنان سے تو ناک سے لکیر کھنچوائی جاتی ہے اور بے قصور ہوتے ہوئے بھی سرزنش کی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف صِرف نام نہاد پاپولیرٹی کی بُنیاد پر شخصیات کو گڈ ٹو سی یو جیسے کلمات سے نوازا جاتا ہے.
مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ امید کی آخری کرن آج ریزہ ریزہ ہوگئی ہے، اب اس فیصلے کے بعد ہماری عدالتوں کے پاس یہ جواز نہیں رہا کہ کسی کم جرم کرنے والے کو جو کہ کم مقبول ہے اور اس کی سوشل میڈیا پر کوئی فالوونگ نہیں ہے اسے بھی سزا ملے، قانون اس کے لیے بھی معافی کا کوئی راستہ نکالے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اِس مُلک میں کردار نہیں صِرف پاپولر ہونا کافی ہے کہ پھر آپ آئین اور قانُون سے ماورا ہوجاتے ہیں، سیّد مصطفیٰ کمال کا مزید کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کسی پر تنقید نہیں کر رہی بلکہ آئین میں دیے جانے والے حق کو استعمال کرکے اپنی رائے دے رہی ہے کیوں کہ ایم کیو ایم کا ووٹر اور ہمدرد ہم سے یہ سوال کر رہا ہے کہ ہم کس درجے کے پاکستانی ہیں یہ تمام سہولیات ہمیں کب میسر ہوں گی۔
اِس موقع پر سینئر مرکزی رہنما نسرین جلیل، انیس احمد قائم خانی، ارکانِ مرکزی کمیٹی سمیت قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی علی خورشیدی اور اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی بھی موجود تھے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔