حقیقی آزادی

جہاں اور جدھر بھی دیکھتے ہیں آزادی ہی آزادی دکھائی دیتی ہے

barq@email.com

آئی ایم ایف کی مہربانی ،امریکا کی آشیرباد اور ہمارے نہایت ہی ایماندار دیانت دار اورنیکو کارلیڈروں کی سعی بیسار سے پاکستان ایک ایسا ملک ہے بلکہ بن چکا ہے جہاں مکمل حقیقی اوراصل تے وڈی آزادی ہے ابتدا میں کچھ کم کم تھی کہیں دھوپ کہیں چھاؤں جیسی حالت تھی بلکہ بقول ایک سالکہ صوفیہ محترمہ فریدہ خانم۔


اپنا بنا لیا کبھی بیگانہ کردیا


یہ دھوپ چھاؤں حسب ضرورت بھی خوب ہے


لیکن چوں کہ یہ زمین بڑی زرخیز ہے اوراس میں کئی بابرکت ہستیاں جنم لیتی رہی ہیں اوروہ بابرکت ہستیاں مسلسل آبیاری کرتی رہی ہیں ، یہ آزادی ترقی کرتے کرتے مکمل ہوگئی مثلاً جناب قائد عوام عرف فخر ایشیا عرف روٹی کپڑا مکان نے بہت ساری زنجیروں کو تہس نہس کرکے بہت ساری ''آزادی'' قوم کا نصیبہ کردی وہ جو ایک آنچ کی کسر یا آنکھوں کی سوئیاں باقی تھیں کہ وہ ''دیدہ ور'' پیدا ہوا جس کے لیے رورو کر ''نرگس'' نے اپنی آنکھیں سجالی تھیں اورپاکستان کے کالانعاموں نے ایک لمبا انتظار کھینچا تھا وہ ''گل سرسبد'' جسے ''ریاست مدینہ'' لانچ کرکے اس کا امیر چننا تھا اورکالانعاموں کو حقیقی آزادی دلانا تھی اس کا ظہور ہوتے ہی ملک کے کونے کونے میں حقیقی آزادی کا سیلاب آیا ، طوفان برپا ہوا بلکہ سونامی آگئی جس کے نتیجے میں آج ملک کے کونے کونے گوشے گوشے اور چپے چپے پر حقیقی آزادی کی برسات ہے ، بہار سے نسبت ہے ساون ہے بلکہ ہرطرف سے شہنائی کے ساتھ بہاروں پھول برساؤ کانغمہ گونج رہاہے


سحر زہاتف غنچہ رسد مژدہ بگوش


کہ دور''شاہ شجاع '' است می دلیر بنوش


ترجمہ۔ صبح دم ہاتف غیبی کی طرف سے یہ مژدہ سنائی دیا ہے کہ شاہ شجاع کادورہے شراب جی بھر کے اورکھلم کھلا پیو۔ اس حقیقی آزادی کی نعمت سے ملک اتنا بہرہ ور ہوچکا ہے کہ کیا انسان کیاحیوان، بے جان چیزیں بھی آزادی کے ترانے گارہے ہیں ۔


پنچھی بنوں اڑتی پھروں مست گگن میں


آج میں آزاد ہوں دنیا کے چمن میں


چور بھی اتنا ہی آزاد ہے جتنا سپاہی آزاد ہے اور سپاہی بھی اتنا آزاد ہے جتنا کوتوال آزاد ہے اورکوتوال بھی اتنا آزاد ہے جتنا '' قاضی'' ہے اورقاضی بھی اتنا آزاد ہے جتنا چورہے ۔ فرق اگر ہے بھی تو بہت تھوڑا سا۔ مثلاً چور نے سپاہی سے کہا کہ ہم تم بھائی بھائی ہیں اس پر سپاہی نے کہا کہ ہاں بھائی بھائی تو ہم ہیں لکین میں تم سے بڑا ہوں ۔اس لیے کہ میں تم یعنی چور بن سکتا ہوں کہ لیکن تم ۔ میں نہیں بن سکتا ۔ اس پر چور نے ہنستے ہوئے کہا بڑے بھائی یہ ٹھیک ہے کہ میں کسی طرح بھی تم نہیں بن سکتا لیکن باپ کی وراثت میں ہم تم دونوں ہی ہم ہوجاتے ہیں بلکہ


پیار جب حد سے بڑھا سارے تکلف مٹ گئے



آپ سے ہم ، تم ہوئے پھر تو کا عنوان ہوگئے


مطلب یہ کہ ہم اس وقت ساری دنیا میں واحد ہیں جو یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم مکمل طور پر آزاد اورحقیقی آزادی سے مالامال قوم ہیں کہ ... ہرفرد آزاد ہے قوم آزاد ہے حکومت آزاد ہے حکومت کا ہرمحکمہ اور ادارہ آزاد ہے، ہرمحکمے اور ادارے کا ہرچھوٹا بڑا آزاد ہے


شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ جب سب کے سب ہی آزاد ہیں تو قانون وآئین کا کیا۔ تو ہم یہ مژدہ بھی آپ کو سنائے دیتے ہیں کہ قانون اورآئین بھی آزاد ہیں جہاں جی چاہے جائیں ، آئیں اٹھیں بیٹھیں کھائے پیئے اورکھیلیں کودیں ۔ قانون کا وہ قصہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ دو آدمی قانون کی عدالت میں پیش ہوئے ، ایک نے بیان دیا تو قانون نے کہا تم ٹھیک کہہ رہے ہو ،پھر دوسرے نے بیان دیا تو قانون نے فرمایا تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو، اس پر دیکھنے سننے والوں میں سے کسی نے کہا ۔ یہ کیا ، وہ بھی ٹھیک ہے اوروہ بھی ٹھیک ہے تو پھر غلط کون ؟ اس پر قانون نے مسکرا کر کہا ۔ تم بھی ٹھیک کہہ رہے ہو ۔


اور یہ اس حقیقی آزادی کی برکت ہے کہ آج جو بھی کہہ رہا ہے اور جو کچھ بھی کہہ رہا ہے ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ ایوب خان بھی ٹھیک تھا بھٹو بھی ٹھیک تھا پھر ضیاء الحق بھی ٹھیک تھا ، بے نظیر بھی ٹھیک تھی زرداری بھی ٹھیک تھا نواز شریف بھی ٹھیک عمران بھی ٹھیک چور بھی ٹھیک اورسپاہی بھی ٹھیک ۔ بلیک بھی ٹھیک ہے اور وائٹ بھی ٹھیک ۔ مطلب یہ کہ راوی، چناب، ستلج، بیاس، جہلم کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ ،دریائے کابل، دریائے سوات ، دریائے پنجگورہ بلکہ باڑہ، کرم اورگومل بھی ٹھیک ہی ٹھیک لکھ رہا ہے


ارمہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ


طوطی کو ہرطرف سے مقابل ہے آئینہ


اور ایسا صرف حقیقی آزادی ہی میں ممکن ہوتا ہے کہ بازار بھی آزاد ہو دکاندار بھی آزاد ہو اورخریدار بھی آزاد ہو اوراگر دیکھا جائے تو اس وقت ہمارے اس وطن عزیز میں سب کے سب آزاد ہیں، کسی پر کوئی بھی پابندی نہیں ہے


برروئے شش جہت درآئینہ بازہے


یاں امتیاز ناقص و کامل نہیں رہا


آپ کا تو پتہ نہیں کہ اس آزادی کا احساس ہے یا نہیں کیوں کہ آپ بھی آزاد ہیں لیکن ہمیں اس حقیقی آزادی کا پوراپورا احساس بھی ہے اورادراک بھی ہے اورحق بھی ہے ۔اس لیے جہاں اور جدھر بھی دیکھتے ہیں آزادی ہی آزادی دکھائی دیتی ہے۔


اورایسا صرف اورصرف ایک وجہ سے ممکن ہوا ہے ، مکمل یقین مکمل عقیدہ اورمکمل اعتماد اور وہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سب کو ہے اوربہت زیادہ ہے اپنے قائد اوران کی تصویر پر


یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم

Load Next Story