عمرو عیار، ایک نئی شروعات (فلم ریویو)

وقار احمد شیخ  ہفتہ 13 جولائی 2024
فلم میں گرافکس اور وی ایف ایکس ایفیکٹس کا کام بین الاقوامی معیار کا ہے۔ (فوٹو: فائل)

فلم میں گرافکس اور وی ایف ایکس ایفیکٹس کا کام بین الاقوامی معیار کا ہے۔ (فوٹو: فائل)

’’عمرو عیار‘‘ ایک سحرانگیز کردار، جس کا نام ہی ہمیں تخیلاتی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں جادوگر، جنوں، پریوں کے ساتھ چالاکی و عیاری کا شہنشاہ اپنی ’’کمالاتی زنبیل‘‘ کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔

بچپن سے عمرو عیار کے کردار کے سحر میں ڈوبے اذہان کو جب یہ اطلاع ملی کہ اس عیدالاضحیٰ پر پاکستان کی سب سے مہنگی فلم (دعوے کے مطابق) ’’عمرو عیار، اے نیو بگیننگ‘‘ ریلیز ہوگی تو فلم شائقین میں اسے دیکھنے کا شوق فزوں تر ہوگیا۔

ڈائریکٹر اظفر جعفری کی اس جادوئی سائنس فکشن فلم کے لیے کہا جارہا ہے کہ یہ پاکستان کی اب تک سب سے مہنگی فلم ہے، کیونکہ اس فلم کی تکمیل کےلیے مختلف تکنیکی شعبوں میں ہالی ووڈ سے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔ کئی میڈیا ٹاک اور مختلف طریقوں سے فلم کی بے پناہ تشہیر کی گئی اور ان تشہیری مہمات پر بہت پیسہ خرچ کیا گیا۔ فلم ریلیز ہونے سے پہلے جس بات کا سب سے زیادہ چرچا تھا، وہ اس فلم کے وی ایف ایکس ایفیکٹس تھے، اور اسی بنیاد پر اس فلم کا بین الاقوامی میڈیا پر بھی تذکرہ کیا گیا۔

بلاشبہ فلم دیکھنے کے بعد کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس فلم کے VFX effects اور گرافکس پر بہت زیادہ محنت کی گئی ہے اور ایک بین الاقوامی معیار کا کام پیش کیا گیا ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر اظفر جعفری اینی میشن فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سے قبل اینی میٹڈ فلم ’’اللہ یار اینڈ دی لیجنڈ آف مارخور‘‘ کے اینی میشن ہیڈ تھے، اس لیے انھوں نے عمرو عیار کے وی ایف ایکس ایفیکٹس پر بھی بہت محنت کی، اور اس عمدہ تخلیقی کام کو نہ سراہنا کنجوسی ہوگی۔ بلاشبہ انھوں نے جو مناظر پیش کیے وہ بہترین ہیں۔

فلم کا پروڈکشن سیٹ، ملبوسات، جیولری، ہتھیاروں کے ڈیزائن اور ایڈیٹنگ بہترین اور تخلیقی ہے، لیکن اس کے باوجود فلم بینوں کی توقعات پوری نہ ہوسکیں، اور فلم کو اس پائے کا بزنس نہیں مل سکا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ شائقین کو اس فلم سے جو شکایات ہیں، ہم یہاں ان کا تذکرہ کریں گے۔

فلم کی کہانی

سب سے پہلے ہم فلم کے مرکزی پلاٹ اور کہانی کی بات کریں گے۔ فلم کا نام ہی مشہور زمانہ کردار ’’عمرو عیار‘‘ کے نام پر ہے۔ عمرو عیار کے کردار سے واقف لوگوں کے سامنے جب بات کی جائے کہ اس موضوع پر کوئی فلم بن رہی ہے تو لامحالہ ان کے ذہن میں عمرو عیار اپنی مکمل شخصیت اور جادوئی چیزوں کے ساتھ اجاگر ہوجائے گا۔ فلم بین توقع کررہے تھے کہ عمرو عیار کو نئے زمانے میں پیش کرنے کے حوالے سے کوئی پلاٹ رکھا گیا ہوگا لیکن عمرو کی شخصیت اور اس سے وابستہ جادوئی چیزیں خاص طور پر ’’زنبیل‘‘ تو لازمی موجود ہوگی۔ فلم میں جنوں، پریوں اور جادوئی دنیا کی عکاسی ہوگی اور عمرو عیار موجودہ دور میں رہتے ہوئے وہی کمالات دکھائے گا جو ہم بچپن سے عمرو عیار کی کہانیوں میں پڑھتے ہوئے آئے ہیں۔ لیکن فلم ’’عمرو عیار‘‘ میں ایسا کچھ نہ تھا، بلکہ ایک سیدھی اور سپاٹ کہانی تھی، جس میں کسی قسم کا کوئی اتار چڑھاؤ، کوئی سرپرائز نہیں تھا۔

فلم عمرو عیار کی کہانی کو ایک ون لائنر کی صورت میں بیان کیا جائے تو یہ وہی اچھائی اور برائی کے درمیان جنگ کا قصہ ہے، جس میں کچھ اچھے لوگ، دنیا میں برائی کے نمائندوں سے نمٹنے کےلیے خود کو تیار کررہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح برائی کے نمائندے طاقتور اور تعداد میں زیادہ جبکہ اچھے لوگ کم اور کمزور ہیں لیکن اپنے حوصلے و عزم سے برائی کو ختم کرنے کےلیے سینہ سپر ہیں۔

کہانی کا مرکزی کردار ’’امر‘‘ دراصل ’’عمرو عیار‘‘ کی نسل کا چشم و چراغ ہے لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کا تعلق عمرو کی نسل سے ہے اور اس کا باپ بھی ایک عیار تھا۔ فلم کی کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ امر ایک پروفیسر ہے جو ہر چیز کو سائنس کی نظر سے دیکھتا ہے اور جنوں، پریوں اور دیومالائی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ اچانک اس کے ساتھ کچھ غیرمعمولی واقعات ہوتے ہیں اور پھر اس کی ملاقات کچھ ’’عیاروں‘‘ سے ہوتی ہے۔ یہ عیار دنیا میں چھپ کر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور برائی کا نمائندہ ’’لقا‘‘ انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر شکار کررہا ہے۔ لقا کا اصل ہدف دراصل ’’امر‘‘ ہے، کیونکہ امر ہی وہ شخص ہے جو لقا کو شکست دے سکتا ہے۔ امر اپنی صلاحیتوں سے ناواقف ہے لیکن عیاروں سے ملنے کے بعد اسے اپنی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے۔ عیار اسے اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور لقا سے لڑنے کی تربیت دیتے ہیں اور بالآخر کہانی کے اختتام پر امر کی جیت ہوتی ہے۔

اس فلم کے اسکرپٹ کی سب سے بڑی خامی ہی ’’عمرو عیار‘‘ کا کردار ہے۔ عمرو عیار کی شخصیت کو ذہن میں لائیے تو وہ نیک دل ہونے کے ساتھ چالاک اور فطین انسان بھی تھا، جس میں لالچ اور موقع پرستی جیسے منفی پہلو بھی تھے۔ لیکن فلم کے اسکرپٹ میں عمرو عیار صرف ایک ذہن شخص اور نیکی کا نمائندہ ہے جس کے بہت سے پیروکار ہیں۔ کہانی کے مطابق ہر دور میں ’’عیار‘‘ رہے ہیں اور اکیسویں صدی میں عیاروں کی یہ جماعت چھپ کر رہ رہی ہے۔ ان عیاروں کو برائی کا نمائندہ ’’لقا‘‘ شکار کررہا ہے۔ کہانی سپاٹ ہونے کے باوجود مبہم ہے جس سے دیکھنے والے کنفیوژن کا شکار ہوں گے۔ لقا ان عیاروں کی قربانی دے رہا ہے۔ اور امر کے باپ، شایان اور عیاروں کے ’’گرو‘‘ کو مارنے کے بعد وہ ’’گرو‘‘ کی بیٹی کی چوتھی قربانی دینے کی بات کرتا ہے، لیکن اس قربانی کا مقصد کیا ہے یہ واضح نہیں۔ نیز اگر وہ امر کا دشمن ہے تو قربانی امر کی دینی چاہیے، لیکن فلم کے بالکل اختتام پر علم ہوتا ہے کہ ’’لقا‘‘ کے اندر جو عفریت ہے اسے بھی جادوگر افراسیاب نے امر کو قابو کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ جبکہ لقا کو شکست دینے کےلیے امر اسی عفریت کو اپنے جسم میں داخل ہونے کا کہتا ہے۔ لیکن جب امر، لقا کو ہرا کر دوسری جگہ ٹیلی پورٹ کرتا ہے تو اسے افراسیاب کو پیغام دینے کےلیے کہتا ہے۔ اسکرپٹ کی یہ کنفیوژن فلم شائقین کو بھی ذہنی خلجان میں مبتلا کررہی ہے۔

جن لوگوں نے اب تک یہ فلم نہیں دیکھی اور دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ان کے لیے مشورہ ہے کہ اپنے ذہن سے عمرو عیار کے روایتی دیومالائی کردار کو مٹا کر یہ فلم دیکھیں۔ کیونکہ آپ کو اس فلم میں اپنا چہیتا عمرو عیار دیکھنے کو نہیں ملے گا، نہ ہی یہ کہانی اس عمرو عیار سے تعلق رکھتی ہے۔

فلم کے اختتام پر ناظرین کو احساس ہوگا کہ ’’پکچر ابھی باقی ہے‘‘، کیونکہ اختتام نہ صرف تشنہ ہے بالکل فلم کا سیکوئیل بنانے کےلیے گنجائش رکھی گئی ہے اور ڈائیلاگ کے ذریعے بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ ابھی اس فلم کے مزید حصے آئیں گے۔

کمزور اور بوگس اداکاری

فلم کے ساتھ کئی بڑے اور منجھے ہوئے نام جڑے ہوئے ہیں لیکن اداکاری کے معاملے میں شائقین کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر جادوگرنی کا کردار نباہنے والی فلمسٹار ثنا نواز نے بہت مایوس کیا۔ اکثر اداکاروں نے جذبات سے عاری ایکٹنگ کی اور بے تاثر چہروں نے فلم کا مزہ کرکرا کردیا۔ ڈائیلاگ ڈیلیوری بھی ٹھہر ٹھہر کر تھی جس میں بے ساختگی اور حقیقت کا فقدان تھا۔ فلم کے ولن فاران طاہر اور سپورٹنگ کیریکٹر علی کاظمی نے بہرحال بہترین اداکاری کرکے اس شکایت کو دور کرنے کی کوشش کی۔ فلم کے اختتام پر عمرو عیار کا کردار ادا کرنے والے حمزہ علی عباسی نے عمرو کے ’’حقیقی کردار‘‘ کی شاندار اداکاری کی۔ کاش یہ کردار فلم کی ابتدا سے پیش کیا جاتا اور درمیان میں بھی فلیش بیک کے ذریعے اس کردار سے کام لیا جاتا تو فلم میں اصل عمرو عیار کی بھی شرکت ہوجاتی۔

میوزک اور مزاح کی کمی

ہر فلم میں گانوں کا ہونا لازمی نہیں، بغیر گانوں کے بھی فلمیں کامیاب ہوتی ہیں۔ فلم کی کہانی میں شاید گانوں کی گنجائش بھی نہیں رکھی گئی تھی۔ اس فلم کا صرف ایک ٹائٹل سونگ ہی تھا، لیکن وہ بھی بے روح اور کسی قسم کا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہا۔ فلم کی کمزور کہانی کو مزاح سے کور کرنے کی کوشش کی جاسکتی تھی، لیکن ایسا بھی نہیں کیا گیا۔ حالانکہ فلم کا ایک کردار ’’سفیر‘‘ اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا، اور ایسا محسوس بھی ہوا کہ سفیر کا کردار مزاح کےلیے رکھا گیا ہے لیکن ایسا کچھ ہوا نہیں۔ اسی وجہ سے اکثر ناظرین کو فلم کے ابتدائی پہلے گھنٹے میں ہی بوریت کا احساس ہوا۔ فلم میں بیک گراؤنڈ میوزک کا کئی جگہ استعمال کیا گیا، اس میوزک نے کچھ جگہ پر تو بہرحال فلم کے فریمز کو جاندار بنانے میں کامیابی حاصل کی لیکن پوری فلم میں کئی جگہ یہ میوزک غیر ضروری اور میل نہیں کھا رہا تھا۔

فلم کے شائقین کی توقع پر پورا نہ اترنے کے باوجود اظفر جعفری کی اس کوشش کو سراہا جانا چاہیے۔ عمرو عیار پاکستانی فلمی صنعت میں واقعی ایک ’’نئی شروعات‘‘ ہے۔ پاکستان میں ان موضوعات پر فلمیں نہیں بنائی جاتیں اور نہ ہی اس سے پہلے گرافکس اور وی ایف ایکس کا اتنا شاندار کام پیش کیا گیا ہے۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ عالمی معیار کا یہ کام پاکستان میں ہوا اور اس میں پاکستانی نوجوان شامل ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس جہت میں مزید پیش رفت کی جائے گی۔

فلم بنانے والوں کو اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ پاکستانی فلمی شائقین عالمی سینما سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ مارول اسٹوڈیوز اور DC فلمز کے معیاری کام کو اپنے پورٹل پر دیکھنے والے شائقین فلم یقیناً تنقیدی نگاہ رکھتے ہیں، انھیں کسی قسم کے بچگانہ کام سے بہلایا نہیں جاسکتا۔ بہرحال عمروعیار فلم کی پوری ٹیم اور اظفر جعفری کا کام قابل ستائش ہے۔ یاد رہے کہ کوشش ضروری ہے، اپنی ابتدائی خامیوں کو مزید کوششوں سے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔