اسٹیبلشمنٹ

برصغیر پاک و ہند پر برطانوی استعمار کی جڑیں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مستحکم ہوئیں۔


Orya Maqbool Jan June 30, 2014
[email protected]

برصغیر پاک و ہند پر برطانوی استعمار کی جڑیں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مستحکم ہوئیں۔ یہ وہ جنگ تھی جس نے انگریز کے گزشتہ سو سالہ اقتدار کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سے پہلے وہ سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو کو شکست دینے کے بعد چین سے اپنے مفتوحہ علاقوں پر حکومت کر رہا تھا۔ مغل بادشاہ کو بھی اس نے اپنا باجگزار بنا لیا تھا۔ اس جنگ آزادی میں جہاں حریت کے پیکر مسلمانوں کے جذبۂ جہاد کا نظارہ دکھائی دیتا ہے' وہیں انگریز کی فوج میں جوق در جوق بھرتی ہونے والے مسلمانوں کے مکروہ چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں۔

1849ء میں پنجاب کی فتح کے بعد جس طرح یہاں کے چوہدریوں' نوابوں اور گدی نشین پیروں نے انگریز کو اپنا مائی باپ تسلیم کیا وہ ایک شرمناک باب ہے۔ لیکن 1857ء کی جنگ آزدی کے حریت' پسند' مسجدوں کی چٹائیوں سے اٹھے تھے۔ تین جلدوں پر مشتمل غدر رپورٹ Report Mutiny جو انگریز نے مرتب کی اس میں صرف اور صرف مسلمانوں کی بغاوت کا تذکرہ ملتا ہے جو موجودہ دور کے مشہور مورخ ولیم ڈار لپل نے اپنی کتاب Last Moughal میں بھی واضح کیا کہ یہ جنگ آزادی نہیں بلکہ جہاد تھا جس کا اعلان جامع مسجد دہلی سے کیا گیا تھا اور اس میں صرف مسلمان شریک تھے۔

اس عظیم جنگ آزادی کے کرداروں پر نظر ڈالی جائے تو منبر و محراب کے امین علماء کا کردار روشن ستاروں کی طرح چمکتا نظر آتا ہے۔ جنگ آزادی سے پہلے 33 علمائے کرام نے اپنے دستخطوں سے انگریز کے خلاف جہاد کے لیے فتویٰ تحریر کیا جس میں ہر مکتبہ فکر کے علماء شامل تھے اور ان میں سے مفتی صدر الدین آزردہ اور رحمت اللہ کیرانوی تو کمانڈر کی حیثیت سے جنگ لڑتے رہے لیکن ایک دوسرا گروہ ان علماء کا بھی تھا جن کے ساتھ سرسید احمد خان بھی شامل تھے۔ انھوں نے کہا ''انگریز حاکم وقت ہے' مسلمان اس کی پناہ میں ہیں (مستامن ہیں)۔

پس اطاعت واجب اور غدر حرام''۔ لیکن خیبر سے لے کر کلکتہ تک جہاد کے حق میں لکھے گئے فتوے کی نقول ہاتھ سے لکھ کر تقسیم ہوتی رہیں۔ یہ ایک طویل اور خونچکاں داستان ہے۔ لڑنے والوں میں دونوں جانب کلمہ گو شامل تھے۔ وہ سپاہی جس نے لال قلعے کے بند ہوتے ہوئے دروازے میں اپنی گردن دے دی تھی تا کہ دروازہ کھلا رہ جائے اور انگریز فوج اندر داخل ہو جائے اس کی رجمنٹ 2 ایف ایف مدتوں تک اپنی یونیفارم کے کالر پر اعزازی طور پر نیلی پٹی لگاتی رہی۔ اس سپاہی کو کس قدر یقین تھا کہ یہ انگریز حکومت جائز ہے اور اس کے خلاف لڑنے والے واجب القتل۔

31 مئی 1857ء کو شروع ہونے والی اس جنگ کا آخری معرکہ 14 ستمبر کو دہلی کی جامع مسجد میں لڑا گیا۔ اس دن ہزاروں مسلمان وہاں جمع تھے۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا جس نے اس امتحان میں کامیاب ہونا ہے وہ شمالی دروازے کی جانب بڑھے اور جس نے جان بچانی ہے وہ جنوبی دروازے سے نکل جائے۔ کوئی ایک بھی جنوبی سمت نہیں گیا۔ وہ تمام علماء جنہوں نے فتوے پر دستخط کیے تھے' ان میں سے اکثر اسی لڑائی میں شہید ہو گئے۔

غدر رپورٹ بہت سے انکشافات کرتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ انگریز فوج ہندوئوں کے گائوں میں اطمینان سے داخل ہو جاتی جب کہ مسلمانوں کے گائوں پر حملہ کر کے پہلے اسے تباہ کرتی۔ رپورٹ میں ان تمام غداران ملت' راجوں' مہاراجوں اور زمینداروں کا ذکر وائسرائے لارڈ کیننگ کے تعریفی جملوں سے ہے۔ اس معرکے میں فتح کے بعد ایسے تمام مسلمان جن کا تعلق مسجد کی چٹائیوں اور درس و تدریس سے تھا انھیں چوراہوں پر پھانسیاں دی گئیں' توپوں کے آگے باندھ کر اڑایا گیا اور گولیوں کی باڑ کے سامنے رکھ کر بھون دیا گیا۔

لیکن اس جنگ آزادی یا انگریز کی زبان میں غدر کے بعد ہندوستان کو تاج برطانیہ کے زیر نگیں کر دیا گیا اور انگریز نے اس خطے کو ایک بدترین تحفہ دیا جسے اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ اس کے دو اہم ترین ادارے تھے سول انتظامیہ اور فوج۔ ان دونوں اداروں کو سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سیکولر قوانین ترتیب دیے گئے۔ چھ سو سال سے اس ملک پر اسلامی فقہ نافذ تھی۔ اس کی جگہ تعزیرات ہند کا قانون آیا' روز مرہ تنازعات کے لیے ضابطہ دیوانی اور ان سب قوانین کے نفاذ کے طریق کار کو ضابطہ فوجداری کے ذریعے منظم کیا گیا۔

جب پورے ملک کا قانون سیکولر بنیادوں پر استوار ہو گیا تو پولیس کے قوانین مرتب ہوئے اور ان قوانین کے تحت دو عہدوں کو فرعون کی سطح کے اختیارات دیے گئے' ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور دوسرا ایس ایچ او۔ اسی قانون کے تحفظ اور عملداری کے لیے سیکولر عدالتی نظام قائم کیا گیا جس کے طریق کار کا نہ اسلام سے کوئی واسطہ تھا اور نہ برطانوی اینگلو سیکسن قانون سے۔ یہ تمام کے تمام قوانین' ضابطے اور ادارے آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہیں اور اپنی اس سیکولر شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اسلام کے نظام عدل میں سب سے زیادہ اہمیت گواہ کے کردار پر ہوتی ہے' اسے ترک کر کے ایک سیکولر قانون شہادت نافذ ہوا جس کی جڑیں مغربی سیکولر عدالتی نظام سے ملتی تھیں۔ فوج کو نظریے نہیں بلکہ مادر وطن اور علاقے کی پاسداری کے لیے منظم کیا گیا۔ اسلام کی سر بلندی' امت مسلمہ کی سرفرازی اور امت کے مظلوم گروہوں کو ظلم سے بچانا فوج کے تصور سے خالی ہو گیا۔ یہی وہ بنیادیں تھیں جس کی وجہ سے سراج الدولہ' ٹیپو سلطان اور جنگ آزادی میں مسلمانوں کو قتل کرنے والے ہیرو بنا دیے گئے۔

ریاست کی وفاداری دلوں میں ایسی جاگزیں ہوئی کہ کسی کو پہلی جنگ عظیم میں عراق میں اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے اور خانہ کعبہ پر گولیاں برسانے پر بھی شرمندگی محسوس نہ ہوئی۔ نوے سال کی انگریز حکومت نے اس اسٹیبلشمنٹ کو سیکولر اور قومی بنیادوں پر اس طرح ترتیب دیا کہ یہ پوری قوم پر ایک خوفناک بلا کی طرح مسلط ہو گئی۔ جاسوسی کا ایک مربوط نظام بنایا گیا جسے سی آئی ڈی کہتے تھے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف ملک کے اندر اٹھنے والی آوازوں کی انتظامیہ کو خبر دینا تھا تا کہ ان کا بروقت قلع قمع کیا جا سکے۔

یہ لوگ مسجدوں میں جا کر مسلمانوں کی نماز کے بعد اجتماعی دعائیں تک سنتے اور اگر کوئی صرف یہ دعا بھی مانگتا کہ اے اللہ تو ان ظالموں سے مظلوموں کو نجات دے'' تو اسے غدار قرار دے کر گرفتار کر لیا جاتا اور گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا۔ ایک طویل عرصہ لوگ صرف تہجد کی نمازوں میں دعائیں کرنے لگے۔ مدرسوں کو دہشت گردی اور بغاوت کا اڈہ سمجھا گیا اور سب سے پہلے شاہ ولی اللہ کی قائم کردہ اسلامی یونیورسٹی مدرسۃ رحیمیہ کو توپوں سے اڑا دیا گیا اور اس کی زمین ایک ہندو لالہ رام کشن داس کے ہاتھ فروخت کر دی گئی۔ مسجد اکبری جہاں شاہ عبدالقادر نے چالیس برس درس دیا تھا اسے گرا کر وہاں ایک کلب قائم کیا گیا جہاں سول اور فوجی افسران شراب اور رقص سے لطف اندوزہ ہوتے اور آج بھی یہ کلب قائم ہے۔

یہ سب اس اسٹیبلشمنٹ سے کروایا گیا جس میں مسلمان بھی بدرجہ اتم موجود تھے لیکن انھیں ریاستی قانون' امن و امان کے قیام اور وطن کے تحفظ کی ایسی لوریاں دی گئی تھیں کہ انھیں اس بات کا ادراک تک نہ ہوتا کہ یہ جو کچھ وہ کرنے جا رہے ہیں اس کے لیے انھیں ایک دن آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ ان کے نزدیک O.B.E,K.B.E' خان صاحب' خان بہادر اور وکٹوریہ کراس جیسے میڈل ہی زندگی کی متاع بن گئے جنھیں وہ اپنے سینوں پر سجائے فخر سے ریاست کی وفاداری میں اپنا سر بلند کرتے۔

ملک تقسیم ہوا۔ یہ ایک ایسا معجزہ تھا جس نے موجود دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا تھا۔ تین سو سال یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے اس علم کی نفی ہو گئی تھی کہ قومیں رنگ' زبان' نسل اور علاقے سے بنتی ہیں۔ ملک تقسیم تو جنگ عظیم اول کے بعد سے ہو رہے تھے۔ مسلم امہ چھوٹی چھوٹی قومی سیکولر ریاستوں میں بٹ رہی تھی لیکن پاکستان ایک حیران کن ملک تھا جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور اس نے ثابت کیا کہ کروڑوں لوگ صرف اس لیے اپنی دھرتی ماتا کو چھوڑ کر ہجرت بھی کر سکتے ہیں۔

پاکستان بن گیا لیکن ورثے میں ایک سیکولر قومی اسٹیبلشمنٹ ملی جس کی رگوں میں ایک ایسا خون دوڑتا تھا' ذہنوں میں جو سبق موجود تھا اور دلوں میں یہ ایمان تھا کہ اس دنیا میں مسلم امہ نام کی چڑیا کا کوئی وجود نہیں۔ مذہب ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے اور برطانیہ کا دیا گیا سیاسی اور فوجی نظام ارفع و اعلیٰ۔ اس ملک کے لیے بہترین ہے' آزادی کے پہلے دن سے ہی اس آزاد ملک کے عوام اور اسٹیبلشمنٹ مقابل آ کر کھڑے ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ میں سول اور فوج کے علاوہ وہ خان' چوہدری' وڈیرے اور سردار بھی شامل تھے جو 1857ء سے انگریز کے وفادار رہے تھے۔

سرحدیں بن گئیں' امت تقسیم ہو گئی' ہر مسلمان ملک کی ایک قومی ریاستی اسٹیبلشمنٹ وجود میں آ گئی۔ وہ سرحدیں جو مغرب نے بنائیں۔ سو سال پہلے قائم کیںاس کا تحفظ مقدس ہو گیا لیکن اب نصف صدی کے بعد نقشہ دوبارہ ترتیب دیا جا رہا ہے۔ ہر ملک کی اسٹیبلشمنٹ سرحدوں کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے' مغربی دنیا نئی لکیریں کھینچنا چاہتی ہے' لیکن درویشان باِصفا کہتے ہیں اب اب لکیریں اللہ کی مرضی سے بنیں گی۔ ابھی تو ابتلا کا دور ہے' ابھی تو جنگ ہے' ابھی تو قتل و غارت ہے۔ وہ جنہوں نے اس امت کو فرقہ پرستی کے عذاب میں مبتلا کیا ان کے عمامے خون سے رنگین ہونے والے ہیں اور جنہوں نے سیکولر قومی تشخص کی جنگ لڑی ہے انھوں نے بھی اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو فرماتی ہے کہ اگر ہم ظالموں کو ظالموں سے نہ لڑائیں تو دنیا میں امن قائم نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں