زوال حیدر آباد کی کہانی
ابھی پچھلے دنوں اسی ہمارے اخبار ایکسپریس میں سابق لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود کا ایک انٹرویو چھپا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں اسی ہمارے اخبار ایکسپریس میں سابق لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود کا ایک انٹرویو چھپا ہے۔ محمود الحسن نے یہ انٹرویو کیا ہے۔ طلعت مسعود صاحب ہمارے زمانے کے جانے مانے سیاسی مبصر ہیں اور ان سیاسی مبصرین میں سے ہیں جو مروجہ جذباتی رویوں سے قطع نظر کر کے سیاسی معاملات و مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس انٹرویو میں ہماری خصوصی دلچسپی اس حساب سے تھی کہ انھوں نے حیدر آباد دکن کے حوالے سے جو انھیں یاد آ رہا تھا وہ بیان کر رہے تھے۔ اس سارے بیان کو ہم نے بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھا۔ لیکن ایک مقام پر آ کر ٹھٹھک گئے۔
ان کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیے ''نظام ٹھیک آدمی نہیں تھے۔ سمجھ بھی کمزور تھی۔ لالچی اور کنجوس تھے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا رہا۔ ورنہ وہ ان سے کافی حد تک بچ سکتے تھے۔'' اس بیان کی وضاحت میں جو انھوں نے فرمایا ہے وہ توجہ طلب ہے۔ فرماتے ہیں کہ ''لینڈ لاک ہونے کے باعث حیدر آباد دکن کے لیے آزاد ریاست کے طور پر زندہ رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ وہاں کی اسی فی صدی آبادی ہندو' بیس فی صدی مسلمانوں کی تھی۔ تو ایسے میں نظام کی حیدر آباد کو آزاد ریاست قرار دینے کی خواہش دانش مندانہ نہیں تھی۔ اس سے مسلمانوں کو فائدہ نہیں نقصان ہوا''۔
فائدہ نہیں نقصان ہوا' بالکل صحیح فرمایا۔ مگر جس طرح انھوں نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے اسے قبول کرنے میں ہمیں تامل ہے۔ ویسے تو ہمیں بیچ میں بولنا نہیں چاہیے۔ طلعت مسعود صاحب موقعہ واردات پر موجود تھے۔ اور ادھر ہم لاہور میں بیٹھے بس خبریں پڑھ رہے تھے اور افواہیں سن رہے تھے۔
مگر یہ یاد رہنا چاہیے کہ اس وقت حیدر آباد پاکستان کے لوگوں کا بہت بڑا جذباتی مسئلہ بنا ہوا تھا۔ شاید تقسیم کے فوراً بعد جذباتیت کا جیسا مظاہرہ حیدر آباد کے سلسلہ میں ہوا تھا ویسا شاید ہی اور کسی مسئلہ کے بارے میں ہوا ہو۔ حیدر آباد برصغیر میں سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی۔ ذہنی طور پر یہاں لوگ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ اس ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہو جائے۔
اور خود حیدر آباد میں کیا ہو رہا تھا۔ اتفاق سے ان دنوں ہم ایک ہفتہ وار رسالہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور تبادلہ میں حیدر آباد کے سارے اردو اخبارات' روزنامے بھی اور ہفت روزے بھی ہمیں موصول ہوتے تھے اور کس انہماک سے ہم یہ ساری خبریں اور تبصرے پڑھتے تھے۔ حیدر آباد میں ایک تنظیم تھی جس کا نام ہمیں اگر غلط یاد نہیں تو وہ تھا مجلس اتحاد المسلمین۔ اس کے سربراہ تھے سید قاسم رضوی۔ کیسے شعلہ فشاں خطیب تھے۔
اپنی تقریروں میں اخباری بیانات میں انگارے اگلتے تھے۔ اعلان کرتے تھے کہ ہم موسی ندی کو جمنا ندی سے ملا دیں گے اور لال قلعہ پر ریاست عثمانیہ کا پرچم لہرائیں گے۔ ان تقریروں نے ادھر حیدر آباد میں سخت جذباتی فضا پیدا کر دی تھی۔ ادھر پاکستان میں بھی یار لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حیدر آباد کے محاذ پر بڑا معرکہ پڑنے والا ہے۔ ساتھ میں ہتھیاروں کے ایک ایجنٹ کا نام خبروں میں بہت آ رہا تھا۔ خبریں یہ تھیں کہ حیدر میں ہتھیار بہت بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ بس جب معرکہ پڑے گا تو دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ نو نیزے پانی چڑھے گا۔
نظام حیدر آباد ایسی جذباتی مخلوق کے نرغے میں تھے۔ اس کے باوصف درون پردہ افہام و تفہیم کی بہت کوششیں ہو رہی تھیں جس کے نتیجہ میں اسٹینڈ اسٹل اگریمنٹ Stand Still Agreement کے نام سے ایک سمجھوتہ ہوا جس کی رو سے یہ طے ہوا کہ اگلے پانچ سال تک ریاست حیدر آباد جوں کی توں رہے گی۔ پانچ سال کے بعد ٹھنڈے دل سے ریاست کے مسئلہ پر سوچ بچار کیا جائے گا۔
سنا گیا کہ اس سمجھوتہ کے کرانے میں ہندوستان کے بعض مسلمان زعما نے یعنی نیشنلسٹ مسلمان زعما نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ خاص طور پر دو نام لیے جا رہے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور سر مرزا اسماعیل۔ بس ادھر پاکستان میں شور مچ گیا کہ نظام نے حیدر آباد کو بیچ ڈالا۔ یہ کہ ع
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
ادھر حیدر آباد میں سید قاسم رضوی کی تنظیم نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ مجاہد اعظم موسی ندی کو جمنا ندی سے ملانے کے لیے پر تول رہا تھا۔ ادھر نظام حیدر آباد نے غداری کی۔ حیدر آباد سے لے کر پاکستان تک نظام پر تھو تھو ہونے لگی۔ ہم حیران ہیں کہ اتنے بڑے واقعہ کو طلعت مسعود صاحب نے کس کمال سے نظر انداز کیا ہے۔ جو الزام سید قاسم رضوی کو دینا چاہیے وہ انھوں نے نظام حیدر آباد کے سر تھوپ دیا۔ اور اب اس تنظیم کا احوال سن لیجیے۔ ہم نے بی بی سی کے ایک نمایندے کی ایک رپورٹ ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ اس نے اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سید قاسم رضوی سے ملاقات کی۔ اس کا بیان ہے کہ یہ سب رضا کار مرنے مارنے کے لیے تیار تھے مگر تیاری ان کی یہ تھی کہ ان کے پاس ہتھیار کے نام بلم تھے۔ رائفل اس گروہ کے پاس صرف ایک تھی۔
تو جو ہونا تھا وہی ہوا۔ یعنی ؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
جب ہندوستان کی طرف سے فوجی کارروائی ہوئی جسے پولیس ایکشن کا نام دیا گیا تھا تو چند جوشیلے رضاکار ٹینکوں کی زد میں آ کر کچلے گئے کارروائی چند گھنٹوں میں مکمل ہو گئی۔
ہندی مسلمانوں کی سیاست ہمیشہ اس طرح رنگ لائی کہ سیاسی سوجھ بوجھ کم' جذبات کی ندی چڑھی ہوئی جیسے دشمنوں کو بہا کر لے جائے گی۔ مگر آخر میں ٹائیں ٹائیں فش۔ جذباتیت کے ہاتھوں تحریک کا انجام ہوتا ہے۔ مگر الزام دیا جاتا ہے ان اکا دکا ان افراد کو جو جذبات سے ہٹ کر زمینی حقائق کو جانچتے پرکھتے ہیں اور مفاہمت کی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جذباتی مخلوق یہ سو لگائے بیٹھی تھی کہ حیدر آباد پاکستان سے الحاق کا یا آزاد ریاست ہونے کا اعلان کرے گا۔
ادھر اور ہی گل کھلا۔ ہندوستان سے مفاہمت اور مولانا ابوالکلام آزاد کے واسطے سے۔ بھلا یہ واقعہ کیسے ہضم ہو جاتا۔ یاروں کو اس واقعہ سے سازش کی بو آنے لگی۔ حیدر آباد کے لوگوں کو جو پانچ سال کی مہلت ملی تھی وہ ہم میں سے کسی کو گوارا نہ ہوئی۔ جو شور پڑا اس میں سید قاسم رضوی خوب چمکے دمکے۔ نظام حیدر آباد سمجھوتہ کر کے چور بن گئے۔ اس کے بعد وہی ہوا کہ کتنی خلقت حیدر آباد سے اکھڑ کر پاکستان کے لیے نکل کھڑی ہوئی اور کراچی کی مہاجر کالونیوں میں ایک کالونی کا اور اضافہ ہو گیا۔ حیدر آباد کالونی۔
ان کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیے ''نظام ٹھیک آدمی نہیں تھے۔ سمجھ بھی کمزور تھی۔ لالچی اور کنجوس تھے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا رہا۔ ورنہ وہ ان سے کافی حد تک بچ سکتے تھے۔'' اس بیان کی وضاحت میں جو انھوں نے فرمایا ہے وہ توجہ طلب ہے۔ فرماتے ہیں کہ ''لینڈ لاک ہونے کے باعث حیدر آباد دکن کے لیے آزاد ریاست کے طور پر زندہ رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ وہاں کی اسی فی صدی آبادی ہندو' بیس فی صدی مسلمانوں کی تھی۔ تو ایسے میں نظام کی حیدر آباد کو آزاد ریاست قرار دینے کی خواہش دانش مندانہ نہیں تھی۔ اس سے مسلمانوں کو فائدہ نہیں نقصان ہوا''۔
فائدہ نہیں نقصان ہوا' بالکل صحیح فرمایا۔ مگر جس طرح انھوں نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے اسے قبول کرنے میں ہمیں تامل ہے۔ ویسے تو ہمیں بیچ میں بولنا نہیں چاہیے۔ طلعت مسعود صاحب موقعہ واردات پر موجود تھے۔ اور ادھر ہم لاہور میں بیٹھے بس خبریں پڑھ رہے تھے اور افواہیں سن رہے تھے۔
مگر یہ یاد رہنا چاہیے کہ اس وقت حیدر آباد پاکستان کے لوگوں کا بہت بڑا جذباتی مسئلہ بنا ہوا تھا۔ شاید تقسیم کے فوراً بعد جذباتیت کا جیسا مظاہرہ حیدر آباد کے سلسلہ میں ہوا تھا ویسا شاید ہی اور کسی مسئلہ کے بارے میں ہوا ہو۔ حیدر آباد برصغیر میں سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی۔ ذہنی طور پر یہاں لوگ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ اس ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہو جائے۔
اور خود حیدر آباد میں کیا ہو رہا تھا۔ اتفاق سے ان دنوں ہم ایک ہفتہ وار رسالہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور تبادلہ میں حیدر آباد کے سارے اردو اخبارات' روزنامے بھی اور ہفت روزے بھی ہمیں موصول ہوتے تھے اور کس انہماک سے ہم یہ ساری خبریں اور تبصرے پڑھتے تھے۔ حیدر آباد میں ایک تنظیم تھی جس کا نام ہمیں اگر غلط یاد نہیں تو وہ تھا مجلس اتحاد المسلمین۔ اس کے سربراہ تھے سید قاسم رضوی۔ کیسے شعلہ فشاں خطیب تھے۔
اپنی تقریروں میں اخباری بیانات میں انگارے اگلتے تھے۔ اعلان کرتے تھے کہ ہم موسی ندی کو جمنا ندی سے ملا دیں گے اور لال قلعہ پر ریاست عثمانیہ کا پرچم لہرائیں گے۔ ان تقریروں نے ادھر حیدر آباد میں سخت جذباتی فضا پیدا کر دی تھی۔ ادھر پاکستان میں بھی یار لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حیدر آباد کے محاذ پر بڑا معرکہ پڑنے والا ہے۔ ساتھ میں ہتھیاروں کے ایک ایجنٹ کا نام خبروں میں بہت آ رہا تھا۔ خبریں یہ تھیں کہ حیدر میں ہتھیار بہت بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ بس جب معرکہ پڑے گا تو دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ نو نیزے پانی چڑھے گا۔
نظام حیدر آباد ایسی جذباتی مخلوق کے نرغے میں تھے۔ اس کے باوصف درون پردہ افہام و تفہیم کی بہت کوششیں ہو رہی تھیں جس کے نتیجہ میں اسٹینڈ اسٹل اگریمنٹ Stand Still Agreement کے نام سے ایک سمجھوتہ ہوا جس کی رو سے یہ طے ہوا کہ اگلے پانچ سال تک ریاست حیدر آباد جوں کی توں رہے گی۔ پانچ سال کے بعد ٹھنڈے دل سے ریاست کے مسئلہ پر سوچ بچار کیا جائے گا۔
سنا گیا کہ اس سمجھوتہ کے کرانے میں ہندوستان کے بعض مسلمان زعما نے یعنی نیشنلسٹ مسلمان زعما نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ خاص طور پر دو نام لیے جا رہے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور سر مرزا اسماعیل۔ بس ادھر پاکستان میں شور مچ گیا کہ نظام نے حیدر آباد کو بیچ ڈالا۔ یہ کہ ع
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
ادھر حیدر آباد میں سید قاسم رضوی کی تنظیم نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ مجاہد اعظم موسی ندی کو جمنا ندی سے ملانے کے لیے پر تول رہا تھا۔ ادھر نظام حیدر آباد نے غداری کی۔ حیدر آباد سے لے کر پاکستان تک نظام پر تھو تھو ہونے لگی۔ ہم حیران ہیں کہ اتنے بڑے واقعہ کو طلعت مسعود صاحب نے کس کمال سے نظر انداز کیا ہے۔ جو الزام سید قاسم رضوی کو دینا چاہیے وہ انھوں نے نظام حیدر آباد کے سر تھوپ دیا۔ اور اب اس تنظیم کا احوال سن لیجیے۔ ہم نے بی بی سی کے ایک نمایندے کی ایک رپورٹ ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ اس نے اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سید قاسم رضوی سے ملاقات کی۔ اس کا بیان ہے کہ یہ سب رضا کار مرنے مارنے کے لیے تیار تھے مگر تیاری ان کی یہ تھی کہ ان کے پاس ہتھیار کے نام بلم تھے۔ رائفل اس گروہ کے پاس صرف ایک تھی۔
تو جو ہونا تھا وہی ہوا۔ یعنی ؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
جب ہندوستان کی طرف سے فوجی کارروائی ہوئی جسے پولیس ایکشن کا نام دیا گیا تھا تو چند جوشیلے رضاکار ٹینکوں کی زد میں آ کر کچلے گئے کارروائی چند گھنٹوں میں مکمل ہو گئی۔
ہندی مسلمانوں کی سیاست ہمیشہ اس طرح رنگ لائی کہ سیاسی سوجھ بوجھ کم' جذبات کی ندی چڑھی ہوئی جیسے دشمنوں کو بہا کر لے جائے گی۔ مگر آخر میں ٹائیں ٹائیں فش۔ جذباتیت کے ہاتھوں تحریک کا انجام ہوتا ہے۔ مگر الزام دیا جاتا ہے ان اکا دکا ان افراد کو جو جذبات سے ہٹ کر زمینی حقائق کو جانچتے پرکھتے ہیں اور مفاہمت کی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جذباتی مخلوق یہ سو لگائے بیٹھی تھی کہ حیدر آباد پاکستان سے الحاق کا یا آزاد ریاست ہونے کا اعلان کرے گا۔
ادھر اور ہی گل کھلا۔ ہندوستان سے مفاہمت اور مولانا ابوالکلام آزاد کے واسطے سے۔ بھلا یہ واقعہ کیسے ہضم ہو جاتا۔ یاروں کو اس واقعہ سے سازش کی بو آنے لگی۔ حیدر آباد کے لوگوں کو جو پانچ سال کی مہلت ملی تھی وہ ہم میں سے کسی کو گوارا نہ ہوئی۔ جو شور پڑا اس میں سید قاسم رضوی خوب چمکے دمکے۔ نظام حیدر آباد سمجھوتہ کر کے چور بن گئے۔ اس کے بعد وہی ہوا کہ کتنی خلقت حیدر آباد سے اکھڑ کر پاکستان کے لیے نکل کھڑی ہوئی اور کراچی کی مہاجر کالونیوں میں ایک کالونی کا اور اضافہ ہو گیا۔ حیدر آباد کالونی۔