سرمایہ دارانہ نظام کے تبرکات

انسانی سماج صدیوں تک شخصی آمریتوں، قبائلی آمریتوں اور جاگیردارانہ نظام کی چکیوں میں پستا رہا،

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

انسانی سماج صدیوں تک شخصی آمریتوں، قبائلی آمریتوں اور جاگیردارانہ نظام کی چکیوں میں پستا رہا، اس طویل اور جابرانہ نظام کا انت بھاپ کی دریافت کے ساتھ ہوا۔ بھاپ کی دریافت کے ساتھ جو نظام بتدریج دنیا میں متعارف ہوا اسے سرمایہ دارانہ نظام کا نام دیا گیا۔ اس نظام کے نام ہی سے اس بات کا پتہ چل جاتا ہے کہ یہ نظام سرمایہ داروں کا ہے، عوام کا اس نظام میں کوئی حاکمانہ کردار نہیں۔

اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام سے قبل جاری رہنے والے تمام نظام بھی طاقت کی برتری کے حامل نظام تھے اور عوام کی حیثیت ان نظاموں میں بھی غلاموں جیسی ہی تھی لیکن سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کی یہ کارستانی ہے کہ اس نظام نے انسانوں کو کئی طبقوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس نظام زر نے انسانوں میں زرپرستی کا ایک ایسا کلچر فروغ دیا ہے کہ ہر شخص کی اولین ترجیح زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول بن گئی ہے اور حصول دولت کی اس اندھی دوڑ میں دوستی، رشتے ناتے، انسانیت، اخلاق سب کچلے جاتے ہیں۔

ظلم پر مبنی ہر نظام کے خلاف مفکرین، دانشوروں، فلسفیوں اور نظریہ سازوں نے آواز بھی اٹھائی اور ان نظاموں کے بہتر متبادل بھی پیش کیے، جاگیردارانہ نظام کے بہتر متبادل کے طور پر جن معاشی ماہرین نے سرمایہ دارانہ نظام کو نظام فطرت کے طور پر پیش کیا ان کے سامنے صرف ایک جواز یہ تھا کہ اس نظام میں مقابلے کی جو فضا پیدا ہوتی ہے وہی معاشرے کو ترقی کی طرف لے جاتی ہے، یہ جواز بلاشبہ نظریاتی حوالے سے تو درست تھا لیکن ان مفکرین نے ان حقائق پر نظر ڈالنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں موجود مقابلے کا کلچر انسانیت، انسانی قدروں، انسانی ضمیر، رشتوں ناتوں سب کو کچل کر رکھ دیتا ہے اور انسان عملاً حیوان سے بدتر جاندار بن کر رہ جاتا ہے۔

مقابلے کے اس کلچر کو معاشرے کی اجتماعی ترقی کا ناگزیر حصہ تو قرار دے دیا گیا لیکن اس حقیقت کی طرف نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کی گئی کہ مقابلے کی اس دوڑ سے آبادی کا 98 فیصد حصہ بالکل الگ تھلگ کھڑا ہے مثلاً چار صنعتکاروں کے درمیان مقابلے کی فضا سے ہر صنعتکار ایک سے چار کارخانوں کا مالک بن جاتا ہے اور ارب پتی سے کھرب پتی تک پہنچ جاتا ہے لیکن اسی مقابلے کی فضا جب مزدور طبقے میں پیدا ہوتی ہے تو پانچ سو روز دیہاڑی پانے والے کا مقابلہ چار سو روپے روز حاصل کرنے پر مجبور مزدور سے ہوتا ہے۔ بے روزگار مزدور زندہ رہنے کے لیے کم سے کم اجرت پر کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

یہ وہ مقابلہ ہے جو غریب طبقات کے درمیان جاری رہتا ہے، جس سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اسی مقابلے کی وجہ سے سرمایہ داروں کو سستی لیبر حاصل ہوتی ہے، جو ان کے منافع میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہر ملک کا سرمایہ دار ایسے ملکوں میں سرمایہ کاری کی تلاش میں رہتا ہے جہاں اسے سستی لیبر دستیاب ہوتی ہے، اس سرمایہ کاری کو ترقی کا وسیلہ گردان کر اس کی اس قدر آؤ بھگت کی جاتی ہے کہ بیرونی سرمایہ ایک بہت بڑا احسان ہے اور اس تلخ حقیقت کو بھلا دیا جاتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کار سستی لیبر کے علاوہ ٹیکسوں میں چھوٹ سمیت بے شمار سہولتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اسے اپنا سرمایہ مع منافع باہر لے جانے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ اس پورے گورکھ دھندے میں جو فائدہ ہمیں ملتا ہے وہ ہے روزگار کے مواقع، باقی سارے فوائد اشرافیہ ہڑپ کر جاتی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا دوسرا بڑا محرک منافع ہے اور اس نظام میں منافع کی کوئی حد مقرر نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر مذہب میں تجارت کو بڑا تقدس حاصل ہے لیکن کسی تجارت میں منافع کی کوئی حتمی حد نہیں، اس لیے تجارت اور منافع کو حلال بھی سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑے پیمانے کی تجارت ارتکاز زر کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے اور ارتکاز زر ہر معاشرے میں غربت میں اضافے کا سبب بنا ہوا ہے، عوام کی محنت سے تشکیل پانے والا سرمایہ جب چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتا ہے تو ایک بھاری اکثریت غربت سے دوچار ہو جاتی ہے۔


آج اگر ہم دنیا کے منظرنامے پر نظر ڈالیں تو ہر طرف جنگوں کے شعلے بھڑکتے نظر آئیں گے، ان جنگوں اور خونریزیوں کی وجوہات تو مختلف ہو سکتی ہیں لیکن ان تمام جنگوں اور خونریزیوں میں جو بات مشترک ہے وہ ہے ہتھیاروں کا استعمال۔ دنیا بھر میں ہتھیاروں کی صنعت میں سرمایہ داروں کے کھربوں ڈالر لگے ہوئے ہیں اور اس صنعت کی بقا ترقی اور منافع کے لیے جنگوں کا ہونا ضروری ہے، جنگیں لڑی جاتی ہیں تو ہتھیاروں کی تجارت میں اضافہ ہوتا ہے، ہتھیاروں کی تجارت میں اضافہ ہوتا ہے تو اس صنعت میں سرمایہ لگانے والے اربوں ڈالر کما لیتے ہیں۔

جنگوں کے ساتھ اس نظام میں جنگوں کا خوف بھی پیدا کیا جاتا ہے اور متحارب ملک اس خوف کی وجہ سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدتے ہیں، اس بدمعاشی کا نام ''طاقت کا توازن'' رکھا گیا ہے یعنی متحارب ملکوں کی جنگی طاقت ایسی ہو کہ مخالف ملک حملہ کرنے سے باز رہے، اس کے لیے علاقائی تنازعات پیدا کیے جاتے ہیں، مثلاً کشمیر کا مسئلہ ہے، فلسطین کا مسئلہ ہے، یوکرین کا تازہ مسئلہ ہے، ان مسائل کے کردار بظاہر جو نظر آتے ہیں یہ سب کٹھ پتلیاں ہوتی ہیں، ان میں اصل کردار ہتھیاروں کے سوداگروں اور تنازعات پیدا کرنے والے ماہرین اور خفیہ ایجنسیوں کا ہوتا ہے، جو ان تنازعات ان جنگوں میں کہیں نظر نہیں آتے لیکن پس منظر میں رہنے والوں کے ہاتھوں ہی میں وہ ڈور ہوتی ہے جسے ضرورت کے مطابق ہلا کر اسلحے کی ضرورت پیدا کی جاتی ہے اور جس پر کسی کی نظر جاتی ہی نہیں۔

کشمیر کے مسئلے کو ہم جیسے لائق فائق لوگ بھی کشمیریوں کے حق خودارادی اور ہندو اقلیت مسلم اکثریت کا مسئلہ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کی پشت پر بھی ہتھیاروں کی بھاری تجارت اور ماہرین کی منصوبہ بندی ایک بہت بڑا محرک ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے غریب ملکوں کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہو رہا ہے اور اس دفاع کی ضرورت مسئلہ کشمیر ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے کچھ حلقے مسئلہ کشمیر کو اس لیے بھی حل ہونے نہیں دیتے کہ اگر یہ مسئلہ حل ہو گیا تو خطے میں جاری ہتھیاروں کی دوڑ ختم ہو جائے گی، جس کا اثر اسلحے کی صنعت پر پڑے گا اور اسلحے کی صنعت میں سرمایہ لگانے والوں کا منافع مارا جائے گا۔ کیا اس تناظر میں کوئی غور کرتا ہے؟

یہی حال مسئلہ فلسطین کا ہے، اگر امریکا اور اس کے حلیف چاہیں تو یہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو سکتا ہے لیکن اس مسئلے اور اسرائیل کے خوف کی وجہ عرب ملک اربوں ڈالر بلکہ کھربوں ڈالر کا جدید اسلحہ جنگی جہاز میزائل وغیرہ خرید رہے ہیں اور ہتھیاروں کی صنعت کے مالک کھربوں ڈالر کما رہے ہیں۔ کیا فلسطین کا مسئلہ حل کروا کر اسلحے کی تجارت سے حاصل ہونے والے کھربوں ڈالر سے ہاتھ اٹھا لیے جا سکتے ہیں؟ کیا کوئی دانشور، مفکر، فلسفی ان خطوط پر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ہتھیاروں کی تجارت اور منافع کے لالچ نے حکمرانوں اور ان کے ہمنواؤں کو اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ وہ خود اپنے ملکوں کو جنگوں کی بھٹی میں جھونک رہے ہیں۔

عراق پر حملے کو صدام کی ظالمانہ آمریت سے جوڑا گیا اور دنیا بھر کے دانشور مفکر اہل علم چیختے رہے کہ یہ بش کی حماقت ہے، افغانستان پر حملے کا جواز اسامہ بن لادن کو ختم کرنا بتایا گیا، جو مبینہ طور پر 9/11 کا ذمے دار تھا اور افغانستان کے پہاڑوں میں چھپا ہوا تھا۔ اس بہانے افغانستان پر وہ تاریخی کارپٹ بمباری کی گئی جس پر اربوں کا اسلحہ خرچ ہوا۔ عراق اور افغانستان پر حملوں کے جو جواز دنیا کے سامنے پیش کیے گئے وہ فضول اور غیر منطقی تھے اصل اور بڑی وجہ اسلحے کی ڈیمانڈ پیدا کرنا تھا اور اس ڈیمانڈ کے پیدا کرنے میں بالواسطہ کردار خود امریکی صدر کا تھا۔

یہاں ہم نے سرمایہ دارانہ نظام کی سرشت کے چند حوالے دیے ہیں، ان کی تفصیل کے لیے درجنوں کتابوں کی ضرورت ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس ظالمانہ اور وحشیانہ نظام کے خلاف مفکرین دانشور فلسفی اور نظریہ ساز لوگ چپ سادھے بیٹھے ہیں کیا یہ چپ بھی اس نظام زر کا کوئی حصہ تو نہیں؟
Load Next Story