حال ہمارا جانے ہے
تنقید برائے اصلاح بہت ضروری ہے، برائیوں اور نقائص کی نشاندہی بھی ہونی چاہیے
کسی بھی فرد ، قوم اور معاشرہ کے ذاتی حالات دوسرے معاشروں کے علم میں بہت کم ہوتے ہیں، یہ تو اسی کو پتہ ہوتا ہے جس پر گزرتی ہے اور وہی اپنے حالات سدھارنے کی حتی المقدور کوشش کر رہا ہوتا ہے ، بغیر تحقیق اور مکمل جانکاری کے کسی پر انگلی اٹھانا اس لئے درست نہیں ہوتا کہ خواہ مخواہ کے الزامات اور بہتان حقیقت کھلنے پر خودبخود اپنی حیثیت کھو بیٹھتے ہیں' میر تقی میر نے برسوں قبل ایسے ویسے تو نہیں کہہ دیا تھا کہ
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے!!!
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
تو قارئین کرام ! وطن عزیز پاکستان بھی ان دنوں معاشی اور اقتصادی طور پر بلاشبہ مشکل حالات سے گزر رہا ہے لیکن استحکام معیشت کیلئے کوششیں بھی تو سر توڑ کی جارہی ہیں، وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہباز شریف انتہائی اخلاص کے ساتھ سرگرم عمل ہیں، انکے مختلف غیر ملکی دورے جن میں چین اور تاجکستان سرفہرست ہیں ان دوروں کے دوران وزیراعظم نے نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کوپرخلوص دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان آکر مختلف شعبوں میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کریں بلکہ انہیں یقین بھی دلایا ہے کہ ان کو ایک بہتر اور خوشگوار ماحول کے ساتھ ساتھ تمام تر سہولیات بھی مہیا کی جائیں گی.
صنعت و تجارت کو فروغ ملے گا تو لا محالہ ملکی معیشت مستحکم ہو گی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا، یہ بات کسی طور درست نہیں کہ ہم سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈال دیںاور نامساعد حالات کا ذمہ دار موجودہ حکمرانوں کو ٹھہرائیں ، سابقہ حکومت بھی کوئی دودھ سے دھلی ہوئی نہ تھی، ہمارے سامنے تحریک انصاف دور کے کئی واقعات اور شواہد موجود ہیں جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں بھی یار لوگوں نے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا ، رشوت خوری کا بازار گرم رکھا ، اقرباء پروری بھی اس دور میں سر چڑھ کر بولتی رہی ، نا اہل اور نالائق لوگوں کو بڑی بڑی مسندوں پر بٹھایا گیا ، سی پیک جیسے عظیم منصوبوں پر کام بند رہا، ترقی کا پہیہ بھی خاصی حد تک جام رہا، دراصل معیشت کی گاڑی پٹڑی سے اتر جائے تو بڑی مشکل سے دوبارہ پٹڑی پر آتی ہے.
اب ایک بار پھر از سر نو تعمیر وطن کیلئے مختلف شعبوں میں انقلابی اقدامات اٹھانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ، جس پر لامحالہ کچھ وقت تو ضرور لگے گا لیکن امید واثق ہے کہ حالات سدھر جائیں گے اور قوم ترقی و خوشحالی کا نیا سفرشروع کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی، وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باوجود بجلی کے نرخوں میں حالیہ کیا جانے والا اضافہ واپس لے کر عوام کے دل جیت لئے ہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ نہ کرے ایسے حالات جنم لیں ابھی تک پانی سر سے نہیں گزرا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مایوسی اور نا امیدی کو یکسر ترک کر کے نئے عزم اور ولولہ سے اٹھیں اور امید کا دامن تھام کر یقین کامل کے ساتھ آگے بڑھیں اور صرف تنقید برائے تنقید کے منفی رویے کو مکمل طور پر چھوڑ کر تعمیری سوچ کے ساتھ اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی تگ ودو کریں.
تنقید برائے اصلاح بہت ضروری ہے، برائیوں اور نقائص کی نشاندہی بھی ہونی چاہیے، لیکن ذاتی پسند وناپسند اور بلا سوچے سمجھے سیاسی تقلید کو اپنا طرہ امتیاز نہیں سمجھنا چاہیے، ملکی تعمیر و ترقی کیلئے ہمیں تمام سیاسی وابستیوں کو بالائے طاق پر رکھ کر اس وقت خالصتا قومی سوچ ابھارنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم متحدو منظم ہو کر ترقی کی راہ میں حائل گھمبیر مسائل اور سنگین بحرانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں، اگر ہم نے یہ سوچ لیا کہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ، ہم ہر لحاظ سے کمزور ہیں تو پھر ہمارے دشمن ہمارے بارے میں کیا گمان کریں گے ، کیا سوچیں گے، ہمیں اپنا رخ منفی نہیں مثبت رویوں کی طرف موڑنا ہو گا.
وزیراعظم محمد شہباز شریف جو ہمہ وقت کام کام اور صرف کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، انہوں نے پورے ملکی و قومی انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے بیوروکریسی سمیت تمام اداروں کے سربراہان اور اہلکاروں کو ہائی الرٹ کر دیا ہے کہ اب کسی قسم کی کوئی غفلت اور لاپرواہی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، ملکی و غیر ملکی قرضوں کی واپسی کیلئے ہمیں کچھ عرصہ کڑوا گھونٹ لینا ہو گا لیکن آنے والے وقتوں میں امید کی جاسکتی ہے کہ حالات خاصی حد تک سدھر جائیں گے اور ہم اپنی وہ منزل ان شاء اللہ ضرور پالیں گے جس منزل کی جستجو میں وطن پاک معرض وجودمیں آیا تھا۔
موجودہ نامساعد حالات کے باوجود وفاقی حکومت نے قومی بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے سفید پوش طبقہ کی عملا ّ دلجوئی کی ہے جو یقینا لائق تحسین ہے ، غیر ملکی سرمایہ کاری سے ان شاء اللہ ہماری انڈسٹری کی گروتھ بڑھے گی، ضرورت ا س امر کی ہے کہ زراعت کے شعبہ میں بھی مثبت تبدیلیاں لانی چاہیے ، تاکہ زرعی اجناس کی پیداوار بڑھ سکے ، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ اور موسمیاتی تغیر و تبدل کو اعتدال پر رکھنے کیلئے قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ درخت اگائے ، سورج آگ اگلنے لگا ہے ، سیلابوں میں شدت آرہی ہے، اس سب کو روکنے کیلئے ایک خوشگوار ماحول وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
دکھ ہے تو اس بات کا ہے کہ ہم سب کچھ اور ہر ذمہ داری حکومت پر ہی ڈال دیتے ہیں، بہت سے کام ہمارے اپنے کرنے کے ہوتے ہیں، زندہ قومیں ہمیشہ اپنی بقاء اور سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے کچھ ذمہ داریاں اپنی ذات پر بھی ڈالتی ہیں اگر سب کچھ حکومتی اداروں پر چھوڑ دیا جائے تو ترقی کا پہیہ جام ہو کر رہ جاتا ہے ، اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ غربت و افلاس کے خاتمہ اور صحت کے شعبہ میں اپنی اعلی خدمات انجام دینے کیلئے این جی اوز اپنا مثبت اور مثالی کردار ادا کریں، اس سے حکومت اور قومی خزانہ پر کم سے کم بوجھ پڑے گا اور مسائل بھی خاصی حد تک حل ہو جائیں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی مساعی جمیلہ اور لگن اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال کر ساحل مراد پر لاکھڑا کرنے کی جستجو میں مصروف ہیں، اس لئے قوم کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ ان کی حوصلہ افزائی کریں، اور دشمنان وطن کے آگے ایسی تمام باتوں کا اظہار کرنے سے گریز کریں جن سے ہماری کوئی بھی کمزوری ظاہر ہو، بات وہی ہے کہ مسائل و مشکلات اور ان سے نمٹنے والا ہی سب کچھ سہہ رہا ہوتا ہے ، خواہ مخواہ کی افواہیں اڑانے والے اور نادان دوست سمجھدار دشمن سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، پتا پتا بوٹا بوٹا سب حالات حاضرہ سے واقف ہیں، بس کچھ لوگ واقف حال ہو کر بھی اپنوں کو کمزور کر کے دراصل غیروں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہوتے ہیں، ایسے عناصر سے بچنا اور ہوشیار رہنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے!!!
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
تو قارئین کرام ! وطن عزیز پاکستان بھی ان دنوں معاشی اور اقتصادی طور پر بلاشبہ مشکل حالات سے گزر رہا ہے لیکن استحکام معیشت کیلئے کوششیں بھی تو سر توڑ کی جارہی ہیں، وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہباز شریف انتہائی اخلاص کے ساتھ سرگرم عمل ہیں، انکے مختلف غیر ملکی دورے جن میں چین اور تاجکستان سرفہرست ہیں ان دوروں کے دوران وزیراعظم نے نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کوپرخلوص دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان آکر مختلف شعبوں میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کریں بلکہ انہیں یقین بھی دلایا ہے کہ ان کو ایک بہتر اور خوشگوار ماحول کے ساتھ ساتھ تمام تر سہولیات بھی مہیا کی جائیں گی.
صنعت و تجارت کو فروغ ملے گا تو لا محالہ ملکی معیشت مستحکم ہو گی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا، یہ بات کسی طور درست نہیں کہ ہم سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈال دیںاور نامساعد حالات کا ذمہ دار موجودہ حکمرانوں کو ٹھہرائیں ، سابقہ حکومت بھی کوئی دودھ سے دھلی ہوئی نہ تھی، ہمارے سامنے تحریک انصاف دور کے کئی واقعات اور شواہد موجود ہیں جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں بھی یار لوگوں نے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا ، رشوت خوری کا بازار گرم رکھا ، اقرباء پروری بھی اس دور میں سر چڑھ کر بولتی رہی ، نا اہل اور نالائق لوگوں کو بڑی بڑی مسندوں پر بٹھایا گیا ، سی پیک جیسے عظیم منصوبوں پر کام بند رہا، ترقی کا پہیہ بھی خاصی حد تک جام رہا، دراصل معیشت کی گاڑی پٹڑی سے اتر جائے تو بڑی مشکل سے دوبارہ پٹڑی پر آتی ہے.
اب ایک بار پھر از سر نو تعمیر وطن کیلئے مختلف شعبوں میں انقلابی اقدامات اٹھانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ، جس پر لامحالہ کچھ وقت تو ضرور لگے گا لیکن امید واثق ہے کہ حالات سدھر جائیں گے اور قوم ترقی و خوشحالی کا نیا سفرشروع کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی، وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باوجود بجلی کے نرخوں میں حالیہ کیا جانے والا اضافہ واپس لے کر عوام کے دل جیت لئے ہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ نہ کرے ایسے حالات جنم لیں ابھی تک پانی سر سے نہیں گزرا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مایوسی اور نا امیدی کو یکسر ترک کر کے نئے عزم اور ولولہ سے اٹھیں اور امید کا دامن تھام کر یقین کامل کے ساتھ آگے بڑھیں اور صرف تنقید برائے تنقید کے منفی رویے کو مکمل طور پر چھوڑ کر تعمیری سوچ کے ساتھ اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی تگ ودو کریں.
تنقید برائے اصلاح بہت ضروری ہے، برائیوں اور نقائص کی نشاندہی بھی ہونی چاہیے، لیکن ذاتی پسند وناپسند اور بلا سوچے سمجھے سیاسی تقلید کو اپنا طرہ امتیاز نہیں سمجھنا چاہیے، ملکی تعمیر و ترقی کیلئے ہمیں تمام سیاسی وابستیوں کو بالائے طاق پر رکھ کر اس وقت خالصتا قومی سوچ ابھارنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم متحدو منظم ہو کر ترقی کی راہ میں حائل گھمبیر مسائل اور سنگین بحرانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں، اگر ہم نے یہ سوچ لیا کہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ، ہم ہر لحاظ سے کمزور ہیں تو پھر ہمارے دشمن ہمارے بارے میں کیا گمان کریں گے ، کیا سوچیں گے، ہمیں اپنا رخ منفی نہیں مثبت رویوں کی طرف موڑنا ہو گا.
وزیراعظم محمد شہباز شریف جو ہمہ وقت کام کام اور صرف کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، انہوں نے پورے ملکی و قومی انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے بیوروکریسی سمیت تمام اداروں کے سربراہان اور اہلکاروں کو ہائی الرٹ کر دیا ہے کہ اب کسی قسم کی کوئی غفلت اور لاپرواہی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، ملکی و غیر ملکی قرضوں کی واپسی کیلئے ہمیں کچھ عرصہ کڑوا گھونٹ لینا ہو گا لیکن آنے والے وقتوں میں امید کی جاسکتی ہے کہ حالات خاصی حد تک سدھر جائیں گے اور ہم اپنی وہ منزل ان شاء اللہ ضرور پالیں گے جس منزل کی جستجو میں وطن پاک معرض وجودمیں آیا تھا۔
موجودہ نامساعد حالات کے باوجود وفاقی حکومت نے قومی بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے سفید پوش طبقہ کی عملا ّ دلجوئی کی ہے جو یقینا لائق تحسین ہے ، غیر ملکی سرمایہ کاری سے ان شاء اللہ ہماری انڈسٹری کی گروتھ بڑھے گی، ضرورت ا س امر کی ہے کہ زراعت کے شعبہ میں بھی مثبت تبدیلیاں لانی چاہیے ، تاکہ زرعی اجناس کی پیداوار بڑھ سکے ، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ اور موسمیاتی تغیر و تبدل کو اعتدال پر رکھنے کیلئے قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ درخت اگائے ، سورج آگ اگلنے لگا ہے ، سیلابوں میں شدت آرہی ہے، اس سب کو روکنے کیلئے ایک خوشگوار ماحول وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
دکھ ہے تو اس بات کا ہے کہ ہم سب کچھ اور ہر ذمہ داری حکومت پر ہی ڈال دیتے ہیں، بہت سے کام ہمارے اپنے کرنے کے ہوتے ہیں، زندہ قومیں ہمیشہ اپنی بقاء اور سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے کچھ ذمہ داریاں اپنی ذات پر بھی ڈالتی ہیں اگر سب کچھ حکومتی اداروں پر چھوڑ دیا جائے تو ترقی کا پہیہ جام ہو کر رہ جاتا ہے ، اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ غربت و افلاس کے خاتمہ اور صحت کے شعبہ میں اپنی اعلی خدمات انجام دینے کیلئے این جی اوز اپنا مثبت اور مثالی کردار ادا کریں، اس سے حکومت اور قومی خزانہ پر کم سے کم بوجھ پڑے گا اور مسائل بھی خاصی حد تک حل ہو جائیں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی مساعی جمیلہ اور لگن اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال کر ساحل مراد پر لاکھڑا کرنے کی جستجو میں مصروف ہیں، اس لئے قوم کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ ان کی حوصلہ افزائی کریں، اور دشمنان وطن کے آگے ایسی تمام باتوں کا اظہار کرنے سے گریز کریں جن سے ہماری کوئی بھی کمزوری ظاہر ہو، بات وہی ہے کہ مسائل و مشکلات اور ان سے نمٹنے والا ہی سب کچھ سہہ رہا ہوتا ہے ، خواہ مخواہ کی افواہیں اڑانے والے اور نادان دوست سمجھدار دشمن سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، پتا پتا بوٹا بوٹا سب حالات حاضرہ سے واقف ہیں، بس کچھ لوگ واقف حال ہو کر بھی اپنوں کو کمزور کر کے دراصل غیروں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہوتے ہیں، ایسے عناصر سے بچنا اور ہوشیار رہنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔