سجاد ظہیر کی تاریخی غلطی…
سید سجاد ظہیر 1905 میں پیدا ہوئے۔
سید سجاد ظہیر 1905 میں پیدا ہوئے۔ وہ لکھنو یوپی کے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور سر وزیر حسن چیف جسٹس کے صاحبزادے تھے۔ انھوں نے آکسفورڈ میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی اور پیرس کے Latinatrs میں سرخوں کے درمیان خاصا وقت گزارا۔ اس طرح وہ سوشلزم اور کمیونزم کی طرف مائل ہوگئے اور مزدوروں کی خدمت کے لیے خود کو وقف کردیا۔
1932 میں انھوں نے ''انگارے'' کے نام سے ایک افسانوی مجموعہ شایع کیا جس نے واقعی آگ لگادی۔ اس طرح 1936 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی اور جلد ہی اس تحریک نے مقبولیت اختیار کرلی۔ سجاد ظہیر اپنے دوسرے ساتھیوںکے ہمراہ اس انجمن کو آگے بڑھانے کے لیے دن رات محنت کرتے رہے، ان کی اہلیہ رضیہ سجاد ظہیر بھی جو افسانہ نگار اور مترجم تھیں اپنے شوہر کے ساتھ سرگرم رہیں۔ انھوں نے گورکی کے مشہور ناول ''ماں'' کا ترجمہ کیا تھا۔
1947 میں دو اہم واقعات پیش آئے۔ روس کی ہدایت پر ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے بنیادی سیکولر موقف سے ہٹ کر قیام پاکستان کو ایک ''عوامی مطالبے'' کے طور پر قبول کرلیا اور سید سجاد ظہیر کو جو نمایاں کمیونسٹ رہنما تھے اور جواہر لال نہرو کے دوست بھی تھے، پاکستان روانہ کیا تاکہ وہ نئے ملک میں کمیونسٹ تحریک کو مضبوط کریں اور انجمن ترقی پسند مصنفین کو بھی زندہ و فعال بنائیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسی قسم کی دلچسپی روس نے اسرائیل میں بھی لی تھی اور وہاں موشے شارط کو نامزد کیا تھا کہ وہ کمیونزم کو فروغ دیں۔
دوسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ سوویت یونین میں کومن ٹرن Comintern (تھرڈ انٹرنیشنل) کی جگہ نئی تنظیم کومن فارم (Cominform) قائم کی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا کی کمیونسٹ پارٹیوں کو ہدایت نامہ جاری کیا جائے تاکہ وہ سوویٹ پولٹ بیورو کے مقاصد کو آگے بڑھا سکیں اور یوگوسلاویہ کے ٹیٹو کی طرح الگ راستہ اختیار نہ کریں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد روس نے اسٹونیا سے بلغاریہ تک مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک کو اپنے حلقہ اثر میں شامل کرلیا۔ امریکا یہ سب خاموشی سے دیکھتا رہا اس لیے کہ ان میں بیشتر کا تعلق سلاو نسل تھا، ہٹلر کی طرح امریکا اور انگلینڈ بھی انھیں حقیر سمجھتے تھے لیکن جب اسٹالن نے یونان، ترکی اور ایران پر قبضہ جمانا چاہا تو امریکی صدر ٹرومین نے سخت مخالفت کی اور روس ان ممالک کو حاصل نہ کرسکا۔ لہٰذا اس کی توجہ پاکستان اور اسرائیل پر تھی۔ پاکستانی اکھاڑے میں روس کی طرف سے بنے بھائی (سجاد ظہیر) میدان میں اترے ۔
پاکستان میں کمیونزم کے فروغ کے لیے روس نے ایک ثقافتی وفد بھی بھیجا جس کی قیادت فارسی شاعر مرزا ترسون زادہ کررہے تھے، عام طور سے ایسے وفد کی قیادت مشہور ناول نگار ایلیا اہرن برگ Ilya Ehrenberg کرتے تھے، لیکن چونکہ وہ یہودی تھے اس لیے ایک مسلمان ملک میں ان کو بھیجنا مناسب نہیں سمجھا گیا، علاوہ ازیں ایک ہدایت نامہ بھی پاکستانی ترقی پسند ادیبوں کے لیے تیار تھا۔
لاہور میں بسنت روڈ پرایک جگہ بورڈ لگا تھا ''افسانہ خواں'' اس مکان میں لکھنو کی افسانہ نگار لڑکیاں ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور رہتی تھیں اور ان کے منہ بولے بھائی احمد ندیم قاسمی بھی۔ آج اس مکان میں ایک عدالت منعقد ہونے والی ہے۔ جج صاحبان میں شامل ہیں ندیم، ہاجرہ، خدیجہ، صفدر میر، عبداﷲ ملک، ظہیر کاشمیری وغیرہ۔ ''وکیل سرکار'' میں حمید اختر (جو بمبئی میں سجاد ظہیر کے ہاں مقیم رہے تھے) روس میں کمیونسٹ پارٹی کو Purge کرنے کے لیے وائشنسکی vaishinsky نے جو بدنام عدالت قائم کی تھی یہ عدالت بھی اسی قسم کی تھی۔ حاضر ملزم ہیں میرزا ادیب مشہور ناول نگار اور ترقی پسند رسالے 'ادب لطیف' کے مدیر، غائب ملزم ہیں حسن عسکری اور سعادت حسن منٹو وغیرہ۔ مزے کی بات کہ منٹو صاحب اس وقت چند گز کے فاصلے پر نصیر انور مدیر ''جاوید'' کے ڈرائنگ روم میں جاں بلب تھے)
یہاں میرزا ادیب پر زور دیا گیا کہ وہ کومن فارم کی ہدایات کے تحت ''باغی'' ادیبوں (مثلاً عسکری اور منٹو) کو اپنے رسالے میں ہرگز نہ چھاپیں، میرزا ادیب قدرے لنگڑاتا ہوا یہاں آیا تھا لیکن اب وہ اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑا ہوگیا اور ''تخلیق کار کوئی پابندی قبول نہیں کرسکتا'' کہتا ہوا واپس ہوگیا۔
مزید برآں ادیبوں کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ وہ ''مزدور ادب'' پیش کریں اور ''بورژوا'' ادب سے خود کو دور کرلیں۔ شاعروں سے کہا گیا کہ وہ تغزل اور ترنم کو ترک کرکے عوامی شاعری پیش کریں۔ افسانہ نگاروں کو پابند کیا گیا کہ وہ پمفلٹی افسانے لکھیں۔ ادھر پکاسو، نرودا، ژاں پال ساغت نے اس مداخلت کو رد کردیا، ہندی کے پرگیتی شیل لیکھک بھی الگ رہے۔ اٹلی کے کمیونسٹ لیڈر تولیاتی Togliatti نے کومن فارم کی ہدایت کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اپنے ملک کے حالات کے مطابق فیصلے کریں گے۔
انگلینڈ نے بھی ان مشوروں کو نظر انداز کیا مگر فرانس کے کمیونسٹ سربراہ ژاک دو کول Jaques Duclos بڑی فرماں برداری سے اس ہدایت نامے پر عمل کرتے رہے۔ سجاد ظہیر کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کے قبائلی اور جاگیر دارانہ ماحول کو ختم کرانے کے لیے جدوجہد کرتے، طبقہ نسواں کو ظلم و ستم سے نجات دلاتے۔ ملک میں روشن خیالی کو فروغ دینے کی خاطر دوسری جماعتوں سے بھی تعاون کرتے۔ سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض نے ایک بہت بڑی غلطی یہ کی کہ اس محفل میں شریک ہوئے جس میں حکومت کا تختہ الٹنے پر غور کیا گیا تھا اور اس کے نتیجے میں راولپنڈی سازش کیس کا مقدمہ وجود میں آیا۔ کمیونسٹ تباہ ہوگئے اور ترقی پسندی اور روشن خیالی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
مگر 1936 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے وقت اس انجمن میں تمام روشن خیال اور جواں فکر ادیبوں اور شاعروں کے لیے جگہ تھی۔ منشی پریم چند، حسرت موہانی، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، آل احمد سرور، پروفیسر احمد علی ، ڈاکٹر تاثیر، ن م راشد، میرا جی، مجاز، جذبی، اپندر ناتھ اشک، منٹو، میرزا ادیب وغیرہ سب کا اس تحریک سے تعلق تھا۔ انجمن صرف مارکسزم ہی کی نمایندہ نہیں تھی بلکہ اس میں جدیدیت، وجودیت، شعورکی لہر، رومانیت، چھایا واد بھی شامل تھے، یعنی یہ ایک ایسا گلدستہ تھی جس میں ہر رنگ اور ہر مہک کا پھول موجود تھا۔
بنیادی معیار تھا روشن خیالی، مساوات، انسان دوستی، جوش حیات اور ہر قسم کے تعصبات سے دوری۔ اظہار کے نئے نئے طریقے بھی اپنائے گئے اور شعر و ادب کو مالا مال کیا گیا۔ مگر یہ جمال و کمال جلد ہی گہنا گیا۔ تنگ نظری نے ترقی پسندوں کو اپنی گرفت میں لے لیا، Collectivization کے نام پر لاکھوں کسانوں کا قاتل اسٹالن Inquisition کے تورکے ماد Torquemada کی طرح کا مرشداعظم بن گیا۔