حبیب جالب کی توقیری

برسوں سے ساتھ رہنے کے دوران بھی توقیر نے بھنک نہ دی کہ وہ کیا

Warza10@hotmail.com

میں ،شاعر و ادیب و صحافی توقیر چغتائی سے حبیب جالب کے تعلق اور محبت سے بھی واقف ہوں اور توقیر چغتائی کے جنون صلاحیت اور دھن کے پکے ہونے کو بھی جانتا ہوں بلکہ اگر یوں کہوں کہ توقیر چغتائی اپنے خیالات میں بسنے والی امن و شانتی اور غور وفکر کی نظر سے دنیا بنانے اور دیکھنے والا ایک ایسا درویش صفت ہے جس کے خوابوں کو سنبھالنے اور ساتھ دینے میں جاوید صبا یکتا سا لگتا ہے تو کسی طور غلط نہ ہوگا۔

اب اس مرحلے پر میں نہیں جانتا کہ توقیر چغتائی اپنے حقیقی نام کے بجائے غالب،کیفی اعظمی،ساحر لدھیانوی،امرتا پریتم،جون ایلیا،سحر انصاری یا جاوید صبا کے چلن پر کیوں گامزن ہوئے،گو کہ اپنے پیدائشی نام سے بھی جانے جا سکتے تھے،اس بارے میں میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ ادب و شاعری کے ایسے مہان افراد دراصل اپنے اوپر کسی بھی جبر کو برداشت کرنے کے قائل نہیں ہوتے، حتی کہ وہ اپنے پیدا ہونے کو بھی آزادانہ حیثیت دینے اور کرنے کے ایسے عمل کے قائل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بلا تفریق انسانی آزادی اور فرد کی حرمت کا پیغام دنیا کو دے سکیں جس میں فرد کی نفسانی آزادی سے لے کر عملی آزادی کار فرما ہو،گویا یہ افراد جبر کی کسی بھی شکل کو قبول کرنے کے نا قائل ہوتے ہیں اور نہ ہی ''فرد کی آزادی'' کا دان کرتے ہیں۔

توقیر چغتائی کی صلاحیتوں کے ایسے پوشیدہ تخلیقی روپ ہیں جن سے واقف ہونے کی بنا پر ایک عام آدمی صرف 'محو حیرت ' ہی ہوگا،توقیر چغتائی پتھریلی زمین اٹک کے دیندار گھرنے کا وہ فرد رہا کہ جس نے گھٹن کو تج کیا اور اپنی آزادانہ سوچ کی جِلا خاطر کراچی کی جانب رخت سفر باندھا،کراچی کے وسیع و عریض شہر میں قدم رکھنے والے توقیر نے جفاکشی کے ہر اس ہنر کو اپنا ذریعہ بنایا جس سے اس کی آزادی اور خودمختاری نہ ہو،یہی وجہ رہی کہ مڈل کلاس کا یہ طالبعلم اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے طفیل جلد ہی کراچی کے ادبی حلقوں میں جانا پہچانا گی۔

اپنے جفاکش مزاج اور جدوجہد سے مشکلات کا خم ٹھونک کر مقابلہ کرنے والی عادت ہی نے توقیر چغتائی کو اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ انسانی حقوق کے لئے شعر و سخن کی محافل کا وہ جز بنا دیا کہ جس کے بغیر انسانی جدوجہد اور آزادی کی ہر محفل پھیکی سی معلوم ہونے لگی،توقیر چغتائی کی زبان و بیان اور زبانوں سے محبت کا جنون دیکھیے کہ توقیر جتنا اردو پر مہارت رکھتا ہے اتنی ہی دسترس اسے گر مکھی پنجابی اور کسی قدر سندھی پر بھی ہے،انگریزی جاننے کے باوجود انگریزی سے پرہیز دراصل اس کے مزاج اور دھرتی کی زبانوں سے عقیدت کی وہ نشانی ہے،جس پر بلا شبہ تمام احباب فخر کر سکتے ہیں۔توقیر تمام دھرموں کا وہ پجاری ہے جس کی نس نس میں انسانی حرمت و تعظیم کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،نہ اسے مسجد و امام بارگاہ جانے میں تامل ہے اور نہ وہ کسی مندر،گرجا اور گوردوارے میں جانے چوکتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ مشرقی پنجاب کے گورمکھی اول ادب اور امرتا پریتم کے لیے توقیر ہمیشہ باعث تعظیم رہا۔

توقیر چغتائی اپنی دھن کا ایک ایسا خاموش شاعر و ادیب ہے کہ نہ اسے شہرت کی فکر ہے اور نہ ہی اسے سراہے جانے کی کوئی تمنا، برسوں سے ساتھ رہنے کے دوران بھی توقیر نے بھنک نہ دی کہ وہ کیا،کب اور کس کام میں مصروف ہے،بہت کم دوست ہی جانتے ہوں گے کہ توقیر اردو پنجابی کی شاعری اور افسانوں کی 9 کتابیں اہل ادب کو دے چکا ہے اور آجکل بھی برصغیر کے دو دھرم کی تاریخ کی کھوجنا میں مصروف ہے۔


حبیب جالب کی پنجابی شاعری پر لکھی گئی توقیر چغتائی کی کتاب حبیب جالب کے شعری محاسن اور شخصیت پر چار ابواب پر مشتمل ہے جس میں توقیر چغتائی نے نہایت محنت سے پہلے باب میں حبیب جالب کی پنجابی شاعری اور ان کے روز و شب کے ساتھیوں کی محافل کا ذکر کرتے ہوئے جہاں حبیب جالب کی معصومانہ باتوں کا ذکر کیا ہے وہیں جستہ جستہ پنجابی زبان سے ان کی محبت اور لگاؤ کو بھی نہایت سلیقے سے اہل علم کے سامنے رکھا ہے،خاص طور پر کراچی آرٹس کونسل بنانے میں رگ و جان دینے والے ایس ایم انعام کی ادبی و سماجی سرگرمیوں کا ذکر اور پنجابی کے معروف شاعر بابا نجمی سے حبیب جالب کی محبت اور بے تکلفی کا باب سب کے سامنے رکھتے ہوئے ،حبیب جالب کی سادگی اور انسانی نظریاتی احترام کو خوبصورتی سے لکھا ہے،حبیب جالب کی پنجابی شاعری سے واقفیت نہ رکھنے والوں کے لیے جہاں توقیر چغتائی کی مذکورہ کتاب پڑھنا ضروری ہے وہیں توقیر کا حبیب جالب کو خراج پیش کرنے کا یہ انداز بھی حبیب جالب کے سوشلسٹ نظریئے کی پختہ کاری کا اعتراف بھی ہے کہ۔

ہزاروں سولیاں آواز دیتی ہیں بلاتی ہیں

کسی منصور کے سر کا بھرم رکھتا نہیں کوئی

سنا ہے اک جالب تھا سو وہ بھی اب نہیں باقی

تو کیا اب ساری بستی میں قلم رکھتا نہیں کوئی
Load Next Story