ہندوستان میں مسلم ورثہ تعصب کا شکار

بھارت میں مساجد و مدراس کو مندر بنانے کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے

رواں سال تین مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں '' ثقافتِ امن'' کے عنوان سے ایک سیشن منعقد ہوا، جس میں بھارت میں جاری '' ہندو توا'' سوچ پر تشویش کا اظہار کیا گیا، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ جب سے نریندر مودی کے ہاتھوں میں بھارت کی باگ ڈور آئی ہے، ویسے ہی ''ہندو توا'' سوچ کو فروغ ملا ہے۔ ہندو توا نظریے کے دائرہ کار کی وجہ سے بھارت میں دو سو ملین مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف منظم طریقے سے نفرت، جبر اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2014ء سے بھارت پر راج کرنے والا مودی مسلمانوں کو ''گھس بیٹھیے'' سمجھتا ہے، جس کا اظہار وہ انتخابی مہم کے دوران بھی کرچکا ہے۔ بھارت میں بڑھتا ہوا اسلامو فوبیا تشویشناک ہے اور ہندو گروپ مساجد کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے درپے ہیں۔

ہندو توا مہم کا ایک اور اہم مقصد ملک میں کثیر اسلامی ورثے کو ملیامیٹ کرنا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندو قوم پرستوں کے نظریات کے مطابق بھارت میں مسلم فن تعمیر کی تاریخی عمارات اور مقامات کی شناخت کو شدید خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ تعصب زدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے مطالبات کیے جا رہے ہیں کہ مسلم حکمرانوں کے ناموں سے منسوب شاہراہوں، چوراہوں یا دیگر عمارتوں کے نام تبدیل کر کے ہندوؤں کی شخصیات پر رکھے جائیں، اس سوچ کے تحت دہلی میں بی جے پی کے کارکنان نے اورنگزیب لین کے ایک سائن بورڈ پر '' بابا وشوا ناتھ مارگ'' کے نام کا ایک پوسٹر چسپاں کیا، بی جے پی کے سربراہ ادیش گپتا نے نئی دہلی میونسپل کے چیئرمین کو ایک خط لکھا اور یہ مطالبہ پیش کیا کہ جتنی سڑکیں مغل بادشاہوں کے ناموں پر ہیں انہیں معروف ہندو شخصیات کے نام سے تبدیل کردیا جائے۔ مثال کے طور پر ہمایوں روڈ، اکبر روڈ، بابر لین، کی جگہ انہیں مہارانا پرتاپ، مہارشی بالمیکی، کھڈی رام بوس اور جنرل پبن روات کے ناموں پر رکھا جائے۔

ہندوتوا نظریے کے تحت آگرہ کے تاج محل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، ہندو توا سوچ کے مطابق تاج محل بھارتی ثقافت کا عکاس نہیں ہے، کیونکہ یہ حملہ آوروں کی بنوائی ہوئی ہے، دراصل ہندو توا سوچ شاہ جہاں کو ہندوستانی تسلیم نہیں کرتی ہے۔

22 مارچ 2024 کو الٰہ آباد ہائیکورٹ کے دو ججوں ( جسٹس ویوک چوہدری اور جسٹس سبھاش ودیارتھی) نے فیصلہ سنایا کہ اُتر پردیش میں جتنے بھی مساجد و دینی مدارس ہیں، یہ سب غیر آئینی اور بھارت کے سیکولر آئین سے متصادم ہیں، اس لیے سب بند کر دیے جائیں۔ گزشتہ سال تیس مارچ کو بھارتی ریاست بہار میں ایک ہجوم نے تلواروں، اینٹوں اور پٹرول بموں سے لیس ہوکر عزیزیہ مدرسہ میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی، جس کی وجہ سے مدرسے کی لائبریری میں موجود 4500 کتابیں خاکستر ہوگئیں۔


مدرسہ عزیزیہ کے پرنسپل مولانا شاکر قاسمی نے اظہار خیال کیا کہ یہ مدرسہ کسی سرکاری اسکول سے کم نہیں تھا، یہاں مذہبی و عصری تعلیم ہوتی تھی اور آگے بھی ہوگی، انہوں نے کہا کہ یہ ایک ادارے پر حملہ نہیں بلکہ دستور ہند، سرکاری املاک، انسانیت، تعلیم اور محب وطن کے جذبات و احساسات پر حملہ ہے۔ آئین کی روح کو مجروح کیا گیا ہے، مدارس کی عظیم تاریخ ہے کہ جب بھی ملک کو خطرہ لاحق ہوا ہے، مدارس نے آگے بڑھ کر قربانی پیش کی ہے، شدت پسند ہمارے حوصلے اور عزم کو پست نہیں کرسکتے، ہم اسی طرح غریب نادار مفلس یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرتے رہیں گے۔

مدرسہ عزیزیہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے، یہ 1910کا قائم شدہ ادارہ ہے، اسے بہار کے قدیم اداروں کی فہرست میں ہونے کا اعزاز حاصل ہے، یہاں 500 سو سے زائد طلبا و طالبات زیر تعلیم ہوتے ہیں، اس کو گزشتہ سال رام نومی کے تہوار کے موقع پر نذرآتش کیا گیا تھا۔ نذرآتش کرنا تو ہندو قوم پرست ہجوم کا شیوہ ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ گجرات میں 2002 کے فسادات کے دوران 2.230 منفرد اسلامی مقامات کو تباہ کیا گیا تھا۔

بابری مسجد کا پرسوز واقعہ کیسے بھلایا جاسکتا ہے، یہ بھارتی ریاست اتر پردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک تھی۔ اسے مغل سالار میر باقی نے تعمیر کروایا تھا۔ 9 نومبر 2019 کو ہندوستانی عدالت عظمیٰ نے ہندو توا کے حق میں فیصلہ دیا، بعد ازاں 5 اگست 2020 کو رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا، بھارت میں مساجد و مدراس کو مندر بنانے کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے، مبینہ طور پر 2000 مساجد کو مندر بنانے کے لیے منہدم کردیا گیا ہے۔

بی جے پی حکومت اور آر ایس ایس مزید اسلامی ورثے اور ثقافتی ریکارڈ کو تباہ کررہی ہے۔ ہندو توا نے تاریخی اور ثقافتی ورثے کے شعبے میں توسیع کو روک دیا ہے، مسلم ورثے کی تاراجی اور زبوں حالی ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن بین الاقوامی اداروں کی عدم توجہ کے باعث ہندو توا سوچ پر زور اور مسلمان کمزور دکھائی دے رہے ہیں، بین الاقوامی برادری کی خوشی سے گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ ہندو توا نظریات کے ذریعے مسلمانوں کی ثقافت کے خاتمے پر متفق ہیں۔ اس صورتحال پر عالم اسلام کو سخت ایکشن لینا چاہیے او،آئی سی کو اس موضوع کو اٹھانا ہوگا، اس پر بات کرنی ہوگی، دوسری جانب یونیسکو جیسی بین الاقوامی تنظیم کو صورتحال کے لیے کچھ مثبت اقدامات کرنے چاہئیں۔

بین الاقوامی اداروں کو مسلمانوں کی ثقافتی نسل کشی کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یونیسکو اس ظلم پر ہندوستان کی رکنیت منسوخ کردے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی اپنا 46 واں اجلاس 21 سے 31 جولائی تک نئی دہلی میں منعقد کررہی ہے۔ یہ ایک اور طریقے سے مسلمانوں کی حوصلہ شکنی ہے، اس کھلی بربریت پر ہندوستان ورلڈ کانفرنس منعقد کرنے کا مستحق نہیں ہے، کیونکہ ہندوستان مسلمان سمیت دیگر اقلیتوں کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے جبکہ مسلمان دشمنی میں تو وہ اتنا آگے نکل گیا ہے کہ اب مسلم ورثے کو بھی مسمار کرنے پر تلا ہے۔ تاریخی ورثہ ریاست اور ملت کا افتخار ہوتا ہے، اسے یوں تعصب کی نذر کرنا قابل مذمت ہے، مسلم ممالک اور بین الاقوامی اداروں کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی۔
Load Next Story