اعلیٰ تعلیم اور ہماری ترجیحات
ہم نے جامعات سمیت مجموعی طور پر اپنی تعلیمی ترجیحات کو پس پشت ڈالا ہوا ہے
سیاسی، انتظامی، مالی اور علمی و فکری بنیادوں پر اعلی تعلیم اور جامعات کی خود مختاری سمیت شفافیت، میرٹ ، صلاحیت ، سازگار آزادانہ طور پر تحقیق و تعلیم کا فکری ماحول ہماری ریاستی ، حکومتی اور جامعات کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے ۔کیونکہ اگر ہم نے علمی اور فکری بنیادوں پر ریاستی سطح کے مسائل کا علاج تلاش کرنا ہے اور ایک متبادل فکر و سوچ کو آگے بڑھانا ہے تو جامعات کو بیانیہ کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ہمارا یہ فکری مغالطہ ہے کہ ہم اعلی تعلیم اور جامعات کو نظرانداز کرکے ریاستی ، حکومتی و معاشی مسائل کا حل یا خود کو ایک آزادانہ اور مہذہب سماج کی بنیاد پر پروان چڑھاسکتے ہیں ۔ دنیا میں متبادل علم یا حل کی تلاش میں جامعات ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور ریاستی و حکومتی اداروں کی سطح پر جامعات کو ترجیحی بنیادوں پر ریاستی وحکومتی امور سے جوڑا جاتا ہے ۔ اسی بنیاد پر ریاست و حکومت کا نظام اعلی تعلیم وجامعات کی سطح پر ایک بڑی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ اور سرمایہ کاری کرتا ہے ۔
پاکستان کا مسئلہ کافی پیچیدہ ہے ۔ ہم نے جامعات سمیت مجموعی طور پر اپنی تعلیمی ترجیحات کو پس پشت ڈالا ہوا ہے ۔ اس کا انداز ہ ہمیں قومی تعلیم سے جڑے سیاسی ، انتظامی اور مالی مسائل سمیت دیگر امور کی صورت میں دیکھنا پڑتا ہے ۔ سب سے دلچسپ لطیفہ یہ ہے کہ یہاں پر ہم اعلی تعلیم کو تعلیمی ماہرین یا علمی و فکری سطح پر کام کرنے والے اہم افراد یا اداروں کی بجائے سیاست دانوں اوربیوروکریسی سمیت عالمی اداروں کا غلبہ نظر آتا ہے ۔ پاکستان کی مختلف جامعات کی سطح پر وائس چانسلرز کی تقرری کا عمل جاری ہے ۔ پنجاب میں مختلف جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے تین مختلف سرچ کمیٹیاں تشکیل دے کر جامعات کی درجہ بندی کی گئی ہے ۔اگر آپ تینوں سرچ کمیٹیوں میں شامل افراد کو دیکھیں تو اس میں ہمیں مجموعی طور پر تعلیمی ماہرین کے مقابلے میں بیوروکریسی کا غلبہ نظر آتا ہے۔ کسی ماہر تعلیم کا کمیٹی کی سربراہی میں نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ تعلیمی ماہرین ترجیحات میں کہاں کھڑے ہیں ۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کیونکہ وائس چانسلرز کی پوسٹ ایک انتظامی پوسٹ ہے تو اس کی تقرری کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے بیوروکریسی کے افراد اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انتظامی صلاحیت ایک اشاریہ ہے جب کہ دیگر اشاریوں میں ان کی قابلیت ،صلاحیت، علمی و فکری کاوشیں ، جدید تعلیمی تصورات سے آگاہی ، لیڈر شپ اور موثر فیصلہ سازی کی صلاحیت کا ہونا بھی اہم نکات ہوتے ہیں ۔لگتا ایسا ہے کہ حکومت بیوروکریسی کی مدد سے اپنی مرضی او رمنشا کے مطابق وائس چانسلرزکی تقرری کو یقینی بنانا چاہتی ہے اور میرٹ سے زیادہ سیاسی وابستگیوں کو اہمیت دی جائے گی ۔حکومتی سرکاری حاضر یا ریٹائرڈ افسر کیسے حکومتی مرضی پر انکار کرسکتا ہے ۔پہلے ہی جامعات کی سطح پر سنڈیکیٹ کی سطح پر حکومتی ایم پی اے کی شمولیت نے سیاسی مداخلتوں کو تقویت دی ہے جس کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے ۔
ویسے بھی ہائی کورٹ کی واضح ہدایت ہیں کہ سرچ کمیٹی کے ارکان غیر سیاسی ہونے چاہیے لیکن کمیٹیوں میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا ہے جن کا جھکاؤ حکومت کے ساتھ ہے ۔عدالتی حکم موجود ہے کہ ہر یونیورسٹی کے لیے علیحدہ سرچ کمیٹی تشکیل دی جائے گی جب کہ عملاً ایک ہی سرچ کمیٹی 12جامعات کے لیے وزیر اعلی سے منظور کرالی ہے اور 8ارکان کی بجائے 5ارکان کے نام منظور کرائے گئے ہیں ۔اصولی طور پر توجامعات کی سطح پر وائس چانسلرز کی تقرری میں بیوروکریسی پر مبنی سرچ کمیٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ جیسے ججز کی تقرری میں ہم سپریم جوڈیشل کونسل کو دیکھتے ہیں ۔ اسی طرز پر ایک مستقل کمیٹی اعلی تعلیم کے ماہرین پر مشتمل ہو بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ کمیٹی مستقل ہو اور اگر کوئی ماہر وفات پاجائے یا کسی بھی مسئلہ کی وجہ سے مزید کام کرنے سے قاصر ہو تو اس کی جگہ نیا ممبر بھی یہ ہی کمیٹی باہمی مشاورت سے یقینی بنائے ۔ اس سے وائس چانسلرز کی تقرری میں حکومت اور سیاسی مداخلت کا عمل بھی ختم یا کم ہوسکتا ہے ۔ ماہرین جامعات کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اعلی تعلیم کے مسائل کیا ہیں اور کون اس کو بہتر طور پر بطور وائس چانسلرز حل کرسکتا ہے ۔ جو مستقل کمیٹی بنائی جائے اسے مکمل اختیارات دیے جائیں اور یہ ہی کمیٹی نہ صرف وائس چانسلرز کی تقرری بلکہ ان کی کاکارکردگی کی بھی نگرانی کرے تاکہ شفافیت کا عمل اور زیادہ موثر ہو۔ پنجاب میں پنجاب ہائر ایجوکشن کمیشن نے پہلی بار بلکہ کسی بھی صوبہ میں پہلی بار وائس چانسلرز کی مجموعی کارکردگی کو جانچنے کا ایک مکمل میکنزئم یا اشاریے تشکیل دیے ہیں۔اس سے بھی یہ مستقل کمیٹی فائدہ اٹھاسکتی ہے تاکہ وائس چانسلرز کی سطح پر بھی جوابدہی کا نظام آگے بڑھ سکے ۔
وزیر اعظم نے تعلیمی کے معاملات پر ایک اسپیشل ٹاسک فورس تشکیل دی ہے ۔ وہ اس کے سربراہ ہیں ۔ دیگر ارکان میں وفاقی وزیر ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ،وفاقی وزیر انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی ، سیکریٹری ایجوکیشن کنونیر، صوبائی وزیر تعلیم اور سیکریٹریزشامل ہیں۔ اس کمیٹی میں ورلڈ بینک، ایشن ڈولیپمنٹ بینک ، کامن ویلتھ، یونیسیف، یونیسکو اور دیگر افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر تمام حکومتی اورعالمی اداروں پر مشتمل افراد ہی تعلیم سے جڑے فیصلے کریں گے اور یہ عالمی اداروں کی بالادستی جہاں مالیات سے جڑی ہیں وہیں ان کے فیصلے بھی ہم پر مسلط ہوںگے۔ لیکن اس فورس میں کہیں بھی پبلک سیکٹر کے ماہرین تعلیم حاضر سروس اور ریٹائرڈ افراد کو شامل ہی نہیںکیا گیا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں اور عالمی درجہ بندی میں ہماری ساکھ پر داخلی و خارجی دونوں محاذوں پر سوالات ہی سوالات ہیں ۔لیکن سوالوں کا موثر جواب دینے اور مثبت حکمت عملیاں اختیار کرنے کی بجائے ہم مسلسل روائتی طور پر تعلیم کے نظام کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں جو بہتر نتائج دینے سے قاصر ہے۔مجموعی طور پر ہم اعلی تعلیم کے ساتھ ایک مہم جوئی اور ایڈونچرز کے کھیل کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں او ریہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کی سطح پر ہماری جامعات کی درجہ بندی ، اعلی تعلیم کے معیارات اور تحقیق کے معاملات پر تنقید کی جاتی ہے یا ہم پر تواترکے ساتھ سوالات کو اٹھایا جاتا ہے ۔
پاکستان کا مسئلہ کافی پیچیدہ ہے ۔ ہم نے جامعات سمیت مجموعی طور پر اپنی تعلیمی ترجیحات کو پس پشت ڈالا ہوا ہے ۔ اس کا انداز ہ ہمیں قومی تعلیم سے جڑے سیاسی ، انتظامی اور مالی مسائل سمیت دیگر امور کی صورت میں دیکھنا پڑتا ہے ۔ سب سے دلچسپ لطیفہ یہ ہے کہ یہاں پر ہم اعلی تعلیم کو تعلیمی ماہرین یا علمی و فکری سطح پر کام کرنے والے اہم افراد یا اداروں کی بجائے سیاست دانوں اوربیوروکریسی سمیت عالمی اداروں کا غلبہ نظر آتا ہے ۔ پاکستان کی مختلف جامعات کی سطح پر وائس چانسلرز کی تقرری کا عمل جاری ہے ۔ پنجاب میں مختلف جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے تین مختلف سرچ کمیٹیاں تشکیل دے کر جامعات کی درجہ بندی کی گئی ہے ۔اگر آپ تینوں سرچ کمیٹیوں میں شامل افراد کو دیکھیں تو اس میں ہمیں مجموعی طور پر تعلیمی ماہرین کے مقابلے میں بیوروکریسی کا غلبہ نظر آتا ہے۔ کسی ماہر تعلیم کا کمیٹی کی سربراہی میں نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ تعلیمی ماہرین ترجیحات میں کہاں کھڑے ہیں ۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کیونکہ وائس چانسلرز کی پوسٹ ایک انتظامی پوسٹ ہے تو اس کی تقرری کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے بیوروکریسی کے افراد اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انتظامی صلاحیت ایک اشاریہ ہے جب کہ دیگر اشاریوں میں ان کی قابلیت ،صلاحیت، علمی و فکری کاوشیں ، جدید تعلیمی تصورات سے آگاہی ، لیڈر شپ اور موثر فیصلہ سازی کی صلاحیت کا ہونا بھی اہم نکات ہوتے ہیں ۔لگتا ایسا ہے کہ حکومت بیوروکریسی کی مدد سے اپنی مرضی او رمنشا کے مطابق وائس چانسلرزکی تقرری کو یقینی بنانا چاہتی ہے اور میرٹ سے زیادہ سیاسی وابستگیوں کو اہمیت دی جائے گی ۔حکومتی سرکاری حاضر یا ریٹائرڈ افسر کیسے حکومتی مرضی پر انکار کرسکتا ہے ۔پہلے ہی جامعات کی سطح پر سنڈیکیٹ کی سطح پر حکومتی ایم پی اے کی شمولیت نے سیاسی مداخلتوں کو تقویت دی ہے جس کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے ۔
ویسے بھی ہائی کورٹ کی واضح ہدایت ہیں کہ سرچ کمیٹی کے ارکان غیر سیاسی ہونے چاہیے لیکن کمیٹیوں میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا ہے جن کا جھکاؤ حکومت کے ساتھ ہے ۔عدالتی حکم موجود ہے کہ ہر یونیورسٹی کے لیے علیحدہ سرچ کمیٹی تشکیل دی جائے گی جب کہ عملاً ایک ہی سرچ کمیٹی 12جامعات کے لیے وزیر اعلی سے منظور کرالی ہے اور 8ارکان کی بجائے 5ارکان کے نام منظور کرائے گئے ہیں ۔اصولی طور پر توجامعات کی سطح پر وائس چانسلرز کی تقرری میں بیوروکریسی پر مبنی سرچ کمیٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ جیسے ججز کی تقرری میں ہم سپریم جوڈیشل کونسل کو دیکھتے ہیں ۔ اسی طرز پر ایک مستقل کمیٹی اعلی تعلیم کے ماہرین پر مشتمل ہو بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ کمیٹی مستقل ہو اور اگر کوئی ماہر وفات پاجائے یا کسی بھی مسئلہ کی وجہ سے مزید کام کرنے سے قاصر ہو تو اس کی جگہ نیا ممبر بھی یہ ہی کمیٹی باہمی مشاورت سے یقینی بنائے ۔ اس سے وائس چانسلرز کی تقرری میں حکومت اور سیاسی مداخلت کا عمل بھی ختم یا کم ہوسکتا ہے ۔ ماہرین جامعات کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اعلی تعلیم کے مسائل کیا ہیں اور کون اس کو بہتر طور پر بطور وائس چانسلرز حل کرسکتا ہے ۔ جو مستقل کمیٹی بنائی جائے اسے مکمل اختیارات دیے جائیں اور یہ ہی کمیٹی نہ صرف وائس چانسلرز کی تقرری بلکہ ان کی کاکارکردگی کی بھی نگرانی کرے تاکہ شفافیت کا عمل اور زیادہ موثر ہو۔ پنجاب میں پنجاب ہائر ایجوکشن کمیشن نے پہلی بار بلکہ کسی بھی صوبہ میں پہلی بار وائس چانسلرز کی مجموعی کارکردگی کو جانچنے کا ایک مکمل میکنزئم یا اشاریے تشکیل دیے ہیں۔اس سے بھی یہ مستقل کمیٹی فائدہ اٹھاسکتی ہے تاکہ وائس چانسلرز کی سطح پر بھی جوابدہی کا نظام آگے بڑھ سکے ۔
وزیر اعظم نے تعلیمی کے معاملات پر ایک اسپیشل ٹاسک فورس تشکیل دی ہے ۔ وہ اس کے سربراہ ہیں ۔ دیگر ارکان میں وفاقی وزیر ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ،وفاقی وزیر انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی ، سیکریٹری ایجوکیشن کنونیر، صوبائی وزیر تعلیم اور سیکریٹریزشامل ہیں۔ اس کمیٹی میں ورلڈ بینک، ایشن ڈولیپمنٹ بینک ، کامن ویلتھ، یونیسیف، یونیسکو اور دیگر افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر تمام حکومتی اورعالمی اداروں پر مشتمل افراد ہی تعلیم سے جڑے فیصلے کریں گے اور یہ عالمی اداروں کی بالادستی جہاں مالیات سے جڑی ہیں وہیں ان کے فیصلے بھی ہم پر مسلط ہوںگے۔ لیکن اس فورس میں کہیں بھی پبلک سیکٹر کے ماہرین تعلیم حاضر سروس اور ریٹائرڈ افراد کو شامل ہی نہیںکیا گیا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں اور عالمی درجہ بندی میں ہماری ساکھ پر داخلی و خارجی دونوں محاذوں پر سوالات ہی سوالات ہیں ۔لیکن سوالوں کا موثر جواب دینے اور مثبت حکمت عملیاں اختیار کرنے کی بجائے ہم مسلسل روائتی طور پر تعلیم کے نظام کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں جو بہتر نتائج دینے سے قاصر ہے۔مجموعی طور پر ہم اعلی تعلیم کے ساتھ ایک مہم جوئی اور ایڈونچرز کے کھیل کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں او ریہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کی سطح پر ہماری جامعات کی درجہ بندی ، اعلی تعلیم کے معیارات اور تحقیق کے معاملات پر تنقید کی جاتی ہے یا ہم پر تواترکے ساتھ سوالات کو اٹھایا جاتا ہے ۔