نئی برطانوی حکومت اور محکوم قوموں کی آزادی

لگتا ہے اسٹارمر فلسطین کی طرح مسئلہ کشمیر پر بھی بولڈ اسٹیپ لیں گے

4 جولائی 2024 کو برطانیہ میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں چودہ سالوں سے اقتدار پر براجمان کنزرویٹیو پارٹی اپنی حریف لیبر پارٹی سے شکست کھا گئی۔ لیبر پارٹی نے ہاؤس آف کامن میں اکثریت حاصل کر لی ہے۔ اس نے 650 کے ایوان میں 412 نشستیں حاصل کی ہیں جب کہ کنزرویٹیو پارٹی کو کل 119 نشستیں ملی ہیں ۔ کنزرویٹیو پارٹی کا دور برطانوی عوام کے لیے خوش کن ثابت نہیں ہوا، اس پورے دور میں پانچ وزرائے اعظم نے اقتدار سنبھالا مگرکوئی بھی ملک کی گرتی ہوئی ساکھ کو نہ سنبھال سکا۔ اس دور میں برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی اختیارکی جسے کنزرویٹیو پارٹی اپنا کارنامہ قرار دے رہی تھی مگر یہ فیصلہ ملک اور عوام کے لیے درست ثابت نہیں ہو سکا۔

اس کے بعد ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور عوامی بے چینی میں اضافہ ہوا۔کنزرویٹیو پارٹی نے ملکی حالت کو سنبھالنے اور اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے آخر میں رشی سونک کو وزیر اعظم بنایا جس سے کافی امیدیں کی جا رہی تھیں کہ وہ ملک کو بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوجائے گا مگر بہتری کے بجائے حالات مزید بگڑتے چلے گئے، اس لیے پارٹی کو وقت سے پہلے عام انتخابات منعقد کرانے پڑے۔

اس وقت برطانیہ کی معاشی حالت بہت ابتر ہے۔ ملک کے کئی خاندان ملک میں معاشی مشکلات کی وجہ سے ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اب برطانیہ میں جہاں نوکریاں تلاش کرنا بہت مشکل ہے وہاں کاروبار کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ اس وقت برطانیہ میں باہر سے بہت کم لوگ ذرائع معاش کی تلاش میں آ رہے ہیں اور جو آ رہے ہیں وہ بھی یہاں سے کسی دوسرے یورپی ملک میں آباد ہونے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

سابقہ حکومت کے دور میں ملک میں جو معاشی جمود آیا ہے اسے نئی لیبر حکومت درست کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ نئے لیبر وزیر اعظم اسٹارمر بہت محنتی اور ایماندار شخص ہیں گو کہ ان کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے مگر وہ اپنے ملک کے معاملے میں بہت مخلص ہیں اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے قائل ہیں۔ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیبر پارٹی کا منشور کنزرویٹیو پارٹی سے بہت مختلف ہے۔ لیبر پارٹی جنگوں کے خلاف اور عالمی امن کی حامی ہے۔ وہ جمہوریت، انسانی حقوق، آزادی فکر و عمل اور احترام انسانیت جیسے اصولوں کو فروغ دینا چاہتی ہے۔

یہی عوامل اس کی خارجہ پالیسی کے بھی اہم عناصر ہیں۔ وہ قوموں کی غلامی کے شروع سے خلاف ہے، برطانوی سامراج کی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی مقبوضہ ریاستوں کو آزادی دینے کا سلسلہ اسی پارٹی نے شروع کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد گوکہ برطانیہ ایک فاتح ملک تھا۔ اس وقت وہاں لیبر پارٹی کی حکومت تھی اس کے وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی اگر چاہتے تو اپنے مقبوضہ ممالک سے مزید وسائل لوٹ کر اپنے ملک لا کر اپنی معیشت کو بہتر کر سکتے تھے مگر لیبر پارٹی نے ایسا کوئی قدم اٹھانے کے بجائے وہاں کی اقوام کو آزادی دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی پارٹی کے دور میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ کئی ممالک کو آزادی حاصل ہوئی اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا اور اس کے نتیجے میں مزید ممالک برطانوی چنگل سے آزاد ہوئے۔


لیبر پارٹی نے آج بھی اپنی پالیسی کو نہیں بدلا ہے۔ وہ فلسطین اور کشمیر کو اسرائیلی اور بھارتی سامراج سے آزاد کرنے کے حق میں آواز بلند کرتی رہتی ہے۔ اسے تو سکھوں سے متعلق بھارت کی پالیسی پر بھی سخت اعتراض ہے، وہ خالصتان کے قیام کی تحریک کی حامی ہے۔ کنزرویٹیو پارٹی کی اس وقت شکست کی اگر ایک وجہ یورپی یونین سے نکلنا ہے تو دوسری وجہ غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیل کے ظلم و ستم سے بچانے کے بجائے نیتن یاہوکی پیٹھ ٹھونکنا ہے اور اس کے ظالمانہ فیصلوں پر خاموش رہنا بھی ہے۔

برطانوی عوام کی بڑی تعداد کے علاوہ برطانیہ میں آباد لاکھوں مسلمان ووٹروں نے کنزرویٹیو پارٹی کی شکست اور لیبر پارٹی کی فتح میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعظم اسٹارمر نے اپنا پہلا بیان فلسطینیوں کے حق میں دیا ہے اور نیتن یاہو کو فوراً جنگ بند کرنے کوکہا ہے۔ اب تک نیتن یاہو کو امریکا کے ساتھ ساتھ سابق برطانوی حکومت کی جانب سے اس کی فلسطینیوں سے متعلق جابرانہ پالیسی کو جو حمایت حاصل تھی وہ اب لیبر پارٹی کی جیت سے اس سے محروم ہوگئی ہے۔ اس سے لگتا ہے اس کے جارحانہ عزائم میں اب ضرور خلل پڑے گا۔

کشمیر کے مسئلے پر لیبر پارٹی کی پالیسی کسی ابہام کا شکار نہیں ہے وہ کھلے طور پر کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادی دینے کی حامی ہی نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے پر زور دیتی رہتی ہے۔ کنزرویٹیو پارٹی کے دور میں بھارت کو کشمیر کے مسئلے پر من مانی کرنے کی چھوٹ حاصل تھی وہ اب ختم ہو چکی ہے۔

سابق برطانوی حکومت کشمیر کے مسئلے کو دو ملکوں یعنی بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع مسئلہ قرار دیتی تھی اور ان دونوں ممالک کو اسے حل کرنے کا مشورہ دیتی تھی مگر لیبر پارٹی کا شروع سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اہم ہیں انھیں عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں بھارت کو پہل کرنا چاہیے اور کشمیریوں کی خواہش کے مطابق مسئلے کا حل ہونا چاہیے۔ وہ پاکستان کے کشمیریوں کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے کے حق میں ہے اور کشمیریوں کو آزادی دینے کے بجائے بھارتی حکومت ان پر جو ظلم و ستم ڈھا رہی ہے اسے فوری رکنا چاہتی ہے۔

سابق لیبر وزیر خارجہ رابن کک بھارتی حکومت کو واضح پیغام دے چکے ہیں کہ برطانیہ مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں مصالحت کار کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ جب مودی نے بھارتی آئین کی شق 370 کو ختم کیا تھا لیبر پارٹی کے رہنما جرمی کوربن نے ایک ٹویٹ کر کے کہا تھا کہ کشمیر میں حالات پریشان کن ہیں جس پر لیبر پارٹی کو بہت تشویش ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مودی نے جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی جو مضحکہ خیزکوشش کی ہے اس پر دوسرے ممالک کی طرح برطانیہ بھی ناراض ہے، یہ اور بات ہے کہ کنزرویٹیو پارٹی کے دور میں مودی نواز پالیسی پر عمل کیا گیا لیکن مسئلہ کشمیر کی حقیقت کو اس نے بھی نظرانداز نہیں کیا تھا تاہم لیبر پارٹی کے دور میں مسئلہ کشمیر کو اب بھارت کے لیے اپنا اٹوٹ انگ بنانا مشکل ہے۔

لگتا ہے اسٹارمر فلسطین کی طرح مسئلہ کشمیر پر بھی بولڈ اسٹیپ لیں گے اور اس مسئلے کو پھر سے بھارت کے لیے درد سر بنا دیں گے مگر لگتا ہے وہ خالصتان مسئلے کو بھی حل کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالیں گے کیونکہ ان کی پارٹی میں بڑی تعداد میں سکھ شامل ہیں اور اس کی ایک لیڈر پریتی کور کھلم کھلا خالصتان کی آزادی کی بات کرتی ہیں۔ خالصتان کے مسئلے پر لندن میں ہونے والے ریفرنڈم کو تو کنزرویٹیو حکومت نے بھی نہیں روکا تھا۔
Load Next Story