استحکام کا مستحکم ہونا
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے زمانے میں کبھی فل بینچ نہیں بن سکا
چار سال عدم استحکام کا شکار رہنے کے بعد پاکستان اس وقت استحکام کی طرف گامزن ہے۔ استحکام اور عدم استحکام کا یہ سفر اور تاریخ بڑی پرانی ہے۔ یقینا ہم استحکام پائیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس استحکام کو مستحکم کر پائیں گے؟ کیا یہ استحکام دیرپا ہوگا؟ کیونکہ اب ہم بہت دور نکل آئے ہیں۔ سرد جنگ نے ہماری ساخت کو بہت نقصان پہنچایا، معاشی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم کیا۔ ان زمانوں میں جس طرح ہم بہ طور فرنٹ لائن اسٹیٹ استعمال ہوئے اور ان زمانوں میں جو یہاں حکمراں تھے وہ خود بھی عوام کے منتخب کردہ نہ تھے اور جو عوام کے منتخب کردہ تھے، ان کو اس ملک میں مکمل حکمرانی نصیب نہ ہوئی۔ ایک معذور جمہوریت تھی، داغ داغ اجالا تھا شب گزیدہ سحر تھی، ہمارا ماضی ہمارے حال اور مستقبل پر حاوی ہے۔
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے۔ سنی اتحاد کونسل آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت پارلیمنٹری پارٹی نہیں ہے اور تحریِک انصاف ایک پارلیمینٹری پارٹی ہے۔ پی ٹی آئی کے اکاسی ارکان میں سے آدھے ارکان جو بغیر حلف لیے سنی اتحاد کونسل میں گئے، ان کے لیے یہ گنجائش نکلتی ہے کہ وہ واپس پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکر لیں اور اس طرح متناسب نمائندگی کے تحت تمام سیاسی جماعتوں میں مخصوص نشستوں کی نئے سرے سے تقسیم ہوگی۔ پی ٹی آئی اس کیس میں نہیں تھی، نہ ہی پی ٹی آئی اس مقدمے میں پارٹی تھی، جو ممبرز حلفاً سنی اتحاد کونسل میں گئے، وہ اب آزاد امیدوار ہیں اور ان کا ووٹ مخصوص نشستوں کے تناسب میں شامل ہوگا، اگر وہ واپس پارٹی میں چلے جائیں تو۔ اس تمام منظر نامے کو اگر دیکھا جائے تو کیا اس فیصلے سے استحکام یا پھر عدم استحکام آیا؟ یہاں سپریم کورٹ کے متعلق غلط فہمیاں دور ہوئیں۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے زمانے میں کبھی فل بینچ نہیں بن سکا۔ ایک مخصوص جج صاحبان کا گروپ تھا جو بار بار انھیں بینچوں میں بیٹھتا تھا اور پی ٹی آئی کو ریلیف دیتا رہا۔ شہباز شریف کی پچھلی حکومت میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرکا نیا قانون پاس کیا گیا۔ سپریم کورٹ پریکٹس ا ینڈ پروسیجر کے سیکشن 4 کے تحت فل کورٹ بینچ بنا، اعلیٰ عدالت کی حرمت بحال ہوئی۔ پی ٹی آئی سے صرف ان کا انتخابی نشان بلا چھین لیا گیا تھا، ایسا نہیں تھا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں تھی بلکہ یہ غلطی تو ان کے اپنے قانونی ماہرین سے ہوئی تھی کہ انھوں نے ان ممبرزکو سنی اتحاد کونسل میں شامل کرایا۔ پی ٹی آئی نے یہ جو اکاسی نشستیں جیتیں وہ بغیر انتخابی نشان ( بلے ) کے جیتیں، مگر جیتیں پی ٹی آئی کی وجہ سے ہی تھیں، لٰہذا یہ پی ٹی آئی کی نشستیں تھیں۔ پی ٹی آئی کے وکلاء کو یہ بات سمجھ نہیں آئی اور انھوں نے پوری قوم کے ساتھ ایک احمقانہ مذاق کیا، یہ کہہ کر کہ پی ٹی آئی سیاسی پارٹی ہی نہیں رہی۔
مخصوص نشستوں کے اس کیس کا بڑا چرچہ تھا۔ کچھ لوگ ایسا سمجھ رہے تھے کہ یہ فیصلہ یا تو آر ہے یا پار ہے، مگر ایسا ہوا نہیں۔ جو امید لگائے بیٹھے تھے کہ حکومتی اتحاد کو دوتہائی اکثریت ملے گی، وہ نہیں مل سکی۔ ان کے لیے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پیپلزپارٹی اب واضح انداز میں مسلم لیگ (ن) سے اپنی خفگی کا اظہارکر رہی ہے اور جو لوگ یہ سمجھے کہ پی ٹی آئی یا پھر سنی اتحاد کونسل کو اکثریت ملے گی، ایسا بھی نہیں ہوا۔
اس وقت اہم کام ہے ملک کی معیشت، سیاست اور حکمرانی میں استحکام لانا اور ہمارے لیے افغان سرحد اور دہشت گردی کے واقعات جن میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے، بڑی اہمیت کے حامل ہیں، لٰہذا اس سیاسی تناؤ کو کم کیا جائے۔ ماضی قریب میں ہم نے بڑے بڑے آپریشن کیے مگر حاصل کیا ہوا ؟ اچھے طالبان اور برے طالبان کا نعرہ بلند ہوتا رہا ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کو سابقہ فاٹا کے علاقوں میں آباد کرایا گیا تھا۔
عمران خان،عارف علوی، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید، سب ایک صفحے پر تھے۔ اس وقت دنیا دو بلاکوں بٹی ہوئی تو نہیں مگر حالات اسی سمت جا رہے ہیں اور یہ حالات ماضی کی سرد جنگ کی شکل اختیارکریں گے۔ روس کے اندر آمریت مستقل نہیں رہ سکتی مگر یہ بحران کبھی روس اور یوکرین کے مابین کشیدگی کو صورت اختیارکرلیتا ہے توکبھی اسرائیل، غزہ میں داخل ہوکر مسلمانوں پر ظلم و بر بریت ڈھا دیتا ہے اور نسل کشی کے اس عمل میں امریکا، اسرائیل کی حمایت کرنے پر مجبور ہے۔ اس پس منظر میں دو بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں وہ ہیں آرٹیفشل انٹیلی جنس اور ماحولیاتی تبدیلی۔
سرد جنگ کے فوراً بعد یہ دنیا گامزن ہوئی عالمگیریت یعنی گلوبلائزیشن کی طرف۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس عالمگیریت کو اس طرح سے مضبوط کیا کہ دنیا کی تمام ریاستیں اب بین الاقوامی قوانین پر پہلے سے زیادہ انحصار کرنے لگیں۔ اسمارٹ فون، یوٹیوب، سوشل میڈیا اور تمام ماڈرن ٹیکنالوجی نے اس دنیا کو براہِ راست کردیا ہے۔ یہ کسی ریاست کے محتاج نہیں اور اگرکوئی ریاست ان سائٹس کو بند کردے گی تو وہ ریاست تنہا رہ جائے گی۔
ہمیں ان تمام فرسودات اور فسادوں سے نکلنا ہے جو اس ملک کو ماضی میں جنرل ضیا الحق نے تحفے میں دیے۔ جنرل ضیاء نے اپنے اقتدارکی بقاء کے لیے اور جمہوریت کوکمزور بنانے کے لیے مذہب کارڈ کو خوب استعمال کیا، دہشت گردی کو پروان چڑھایا، انتہا پسندی کے نظریے کو مضبوط کیا اور وہی سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ لاقانونیت نے اس ملک میں اسمگلنگ اور منشیات فروشی کے کاروبارکو پروان چڑھایا۔ معیشت اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور ہم نے اس کو صحیح ستونوں پرکبھی کھڑا کرنے کا سوچا ہی نہیں۔ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان اور بنگلہ دیش، ایڈوانس ٹیکنالوجی اور ہنر میں ہم سے کہیں آگے ہیں اور ان کے برعکس آج تک ہم اپنے انسانی وسائل کو بہتر نہ بنا سکے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ کوئی بھی پلاننگ، زمینی وسائل کو مدِنظر ر کھے بغیر نہیں کی جاسکتی۔
نو مئی کا واقعہ یقینی طور پر دو سوچوں کا ٹکراؤ تھا۔ ایک سوچ یہ تھی کہ اس ریاست کو اسی سمت میں چلانا چاہیے جس طرح جنرل ضیاء الحق نے چلائی۔ اسی افغان پالیسی کو ایڈاپٹ کیا جائے، ویسے ہی منشیات کے کاروبار اور اسمگلنگ کو فروغ ملے اور ساتھ ہی کوئی افغان جہاد، سوویت یونین، اسامہ بن لادن یا پھر ملا عمر جیسا موقعہ ملے کہ ہم امریکا کی مجبوری بن جائیں اور ڈالرکی امداد اس ملک کو جاری رہے۔ اس ملک کی بقاء کے لیے استحکام چاہیے وہ ہم پائیں گے لیکن اگر ہم نے پاکستان کی بنیادی سوچ کو نہ بدلا اور نئے سرے سے اس کا تعین نہ کیا تو یہ استحکام دیرپا ثابت نہیں ہوگا۔
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ استحکام دے پایا اور نہ ہی عدم استحکام لایا، ہم اب بھی بٹے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ ماضی میں ہی رہنا چاہتے ہیں، مگر اکثریت اس بات کی حامی ہے کہ پاکستان اس تیزی سے بدلتی دنیا میں ایک قابلِ تائید انداز میں ماڈریٹ ریاست کے طور پر متعارف ہو اور وہ ہے جناح کا جمہوری پاکستان۔ پاکستان کا استحکام تبھی ممکن ہے جب ہم واپس لوٹ چلیں، جناح اور جمہوریت کی طرف۔
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے۔ سنی اتحاد کونسل آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت پارلیمنٹری پارٹی نہیں ہے اور تحریِک انصاف ایک پارلیمینٹری پارٹی ہے۔ پی ٹی آئی کے اکاسی ارکان میں سے آدھے ارکان جو بغیر حلف لیے سنی اتحاد کونسل میں گئے، ان کے لیے یہ گنجائش نکلتی ہے کہ وہ واپس پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکر لیں اور اس طرح متناسب نمائندگی کے تحت تمام سیاسی جماعتوں میں مخصوص نشستوں کی نئے سرے سے تقسیم ہوگی۔ پی ٹی آئی اس کیس میں نہیں تھی، نہ ہی پی ٹی آئی اس مقدمے میں پارٹی تھی، جو ممبرز حلفاً سنی اتحاد کونسل میں گئے، وہ اب آزاد امیدوار ہیں اور ان کا ووٹ مخصوص نشستوں کے تناسب میں شامل ہوگا، اگر وہ واپس پارٹی میں چلے جائیں تو۔ اس تمام منظر نامے کو اگر دیکھا جائے تو کیا اس فیصلے سے استحکام یا پھر عدم استحکام آیا؟ یہاں سپریم کورٹ کے متعلق غلط فہمیاں دور ہوئیں۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے زمانے میں کبھی فل بینچ نہیں بن سکا۔ ایک مخصوص جج صاحبان کا گروپ تھا جو بار بار انھیں بینچوں میں بیٹھتا تھا اور پی ٹی آئی کو ریلیف دیتا رہا۔ شہباز شریف کی پچھلی حکومت میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرکا نیا قانون پاس کیا گیا۔ سپریم کورٹ پریکٹس ا ینڈ پروسیجر کے سیکشن 4 کے تحت فل کورٹ بینچ بنا، اعلیٰ عدالت کی حرمت بحال ہوئی۔ پی ٹی آئی سے صرف ان کا انتخابی نشان بلا چھین لیا گیا تھا، ایسا نہیں تھا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں تھی بلکہ یہ غلطی تو ان کے اپنے قانونی ماہرین سے ہوئی تھی کہ انھوں نے ان ممبرزکو سنی اتحاد کونسل میں شامل کرایا۔ پی ٹی آئی نے یہ جو اکاسی نشستیں جیتیں وہ بغیر انتخابی نشان ( بلے ) کے جیتیں، مگر جیتیں پی ٹی آئی کی وجہ سے ہی تھیں، لٰہذا یہ پی ٹی آئی کی نشستیں تھیں۔ پی ٹی آئی کے وکلاء کو یہ بات سمجھ نہیں آئی اور انھوں نے پوری قوم کے ساتھ ایک احمقانہ مذاق کیا، یہ کہہ کر کہ پی ٹی آئی سیاسی پارٹی ہی نہیں رہی۔
مخصوص نشستوں کے اس کیس کا بڑا چرچہ تھا۔ کچھ لوگ ایسا سمجھ رہے تھے کہ یہ فیصلہ یا تو آر ہے یا پار ہے، مگر ایسا ہوا نہیں۔ جو امید لگائے بیٹھے تھے کہ حکومتی اتحاد کو دوتہائی اکثریت ملے گی، وہ نہیں مل سکی۔ ان کے لیے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پیپلزپارٹی اب واضح انداز میں مسلم لیگ (ن) سے اپنی خفگی کا اظہارکر رہی ہے اور جو لوگ یہ سمجھے کہ پی ٹی آئی یا پھر سنی اتحاد کونسل کو اکثریت ملے گی، ایسا بھی نہیں ہوا۔
اس وقت اہم کام ہے ملک کی معیشت، سیاست اور حکمرانی میں استحکام لانا اور ہمارے لیے افغان سرحد اور دہشت گردی کے واقعات جن میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے، بڑی اہمیت کے حامل ہیں، لٰہذا اس سیاسی تناؤ کو کم کیا جائے۔ ماضی قریب میں ہم نے بڑے بڑے آپریشن کیے مگر حاصل کیا ہوا ؟ اچھے طالبان اور برے طالبان کا نعرہ بلند ہوتا رہا ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کو سابقہ فاٹا کے علاقوں میں آباد کرایا گیا تھا۔
عمران خان،عارف علوی، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید، سب ایک صفحے پر تھے۔ اس وقت دنیا دو بلاکوں بٹی ہوئی تو نہیں مگر حالات اسی سمت جا رہے ہیں اور یہ حالات ماضی کی سرد جنگ کی شکل اختیارکریں گے۔ روس کے اندر آمریت مستقل نہیں رہ سکتی مگر یہ بحران کبھی روس اور یوکرین کے مابین کشیدگی کو صورت اختیارکرلیتا ہے توکبھی اسرائیل، غزہ میں داخل ہوکر مسلمانوں پر ظلم و بر بریت ڈھا دیتا ہے اور نسل کشی کے اس عمل میں امریکا، اسرائیل کی حمایت کرنے پر مجبور ہے۔ اس پس منظر میں دو بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں وہ ہیں آرٹیفشل انٹیلی جنس اور ماحولیاتی تبدیلی۔
سرد جنگ کے فوراً بعد یہ دنیا گامزن ہوئی عالمگیریت یعنی گلوبلائزیشن کی طرف۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس عالمگیریت کو اس طرح سے مضبوط کیا کہ دنیا کی تمام ریاستیں اب بین الاقوامی قوانین پر پہلے سے زیادہ انحصار کرنے لگیں۔ اسمارٹ فون، یوٹیوب، سوشل میڈیا اور تمام ماڈرن ٹیکنالوجی نے اس دنیا کو براہِ راست کردیا ہے۔ یہ کسی ریاست کے محتاج نہیں اور اگرکوئی ریاست ان سائٹس کو بند کردے گی تو وہ ریاست تنہا رہ جائے گی۔
ہمیں ان تمام فرسودات اور فسادوں سے نکلنا ہے جو اس ملک کو ماضی میں جنرل ضیا الحق نے تحفے میں دیے۔ جنرل ضیاء نے اپنے اقتدارکی بقاء کے لیے اور جمہوریت کوکمزور بنانے کے لیے مذہب کارڈ کو خوب استعمال کیا، دہشت گردی کو پروان چڑھایا، انتہا پسندی کے نظریے کو مضبوط کیا اور وہی سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ لاقانونیت نے اس ملک میں اسمگلنگ اور منشیات فروشی کے کاروبارکو پروان چڑھایا۔ معیشت اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور ہم نے اس کو صحیح ستونوں پرکبھی کھڑا کرنے کا سوچا ہی نہیں۔ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان اور بنگلہ دیش، ایڈوانس ٹیکنالوجی اور ہنر میں ہم سے کہیں آگے ہیں اور ان کے برعکس آج تک ہم اپنے انسانی وسائل کو بہتر نہ بنا سکے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ کوئی بھی پلاننگ، زمینی وسائل کو مدِنظر ر کھے بغیر نہیں کی جاسکتی۔
نو مئی کا واقعہ یقینی طور پر دو سوچوں کا ٹکراؤ تھا۔ ایک سوچ یہ تھی کہ اس ریاست کو اسی سمت میں چلانا چاہیے جس طرح جنرل ضیاء الحق نے چلائی۔ اسی افغان پالیسی کو ایڈاپٹ کیا جائے، ویسے ہی منشیات کے کاروبار اور اسمگلنگ کو فروغ ملے اور ساتھ ہی کوئی افغان جہاد، سوویت یونین، اسامہ بن لادن یا پھر ملا عمر جیسا موقعہ ملے کہ ہم امریکا کی مجبوری بن جائیں اور ڈالرکی امداد اس ملک کو جاری رہے۔ اس ملک کی بقاء کے لیے استحکام چاہیے وہ ہم پائیں گے لیکن اگر ہم نے پاکستان کی بنیادی سوچ کو نہ بدلا اور نئے سرے سے اس کا تعین نہ کیا تو یہ استحکام دیرپا ثابت نہیں ہوگا۔
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ استحکام دے پایا اور نہ ہی عدم استحکام لایا، ہم اب بھی بٹے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ ماضی میں ہی رہنا چاہتے ہیں، مگر اکثریت اس بات کی حامی ہے کہ پاکستان اس تیزی سے بدلتی دنیا میں ایک قابلِ تائید انداز میں ماڈریٹ ریاست کے طور پر متعارف ہو اور وہ ہے جناح کا جمہوری پاکستان۔ پاکستان کا استحکام تبھی ممکن ہے جب ہم واپس لوٹ چلیں، جناح اور جمہوریت کی طرف۔