بیاضِ وقت کا اگلا ورق خالی ہے

زاہدہ حنا  اتوار 14 جولائی 2024
zahedahina@gmail.com

[email protected]

دنیا بھرکے ادیبوں اور شاعروں نے حسب توفیق جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں لکھنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی تحریریں یا ان کی کھنچی ہوئی تصویریں سب گلیوں یا ندی نالوںمیں ڈوبتی ابھرتی نظر آتی ہیں۔ ابھی ایک تصویر پر نظر پڑی وہ جو اب ایک کتاب کا حصہ ہے لیکن کاغذ زرد پڑچکا ہے۔ اتنا زرد جیسے سو برس پرانا لیکن جو آصف فرخی کے کتابی سلسلہ ’’ دنیا زاد‘‘ کا حصہ ہے۔ زمانہ آصف فرخی پر سے اور عربی کے بے مثل ادیب نجیب محفوظ اور ان کے مترجم انور احسن صدیقی پر سے زن زن کرتا ہوا گزر گیا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں اور ہماری طرح ہزاروں لاکھوں یہودی ہیں جو قتل عام کے یہ مناظر دیکھتے ہیں اور جنہوں نے ہزاروں برس خود اپنے اوپر گزرنے والے یہ ظلم و ستم دیکھے ہیں اور جن کا یہ نوحہ کہ

ہم صیون کی ندیوں کے کنارے بیٹھے
اور ہم سے کہاگیا کہ
ہم اپنے گیت انھیں سنائیں
لیکن ہم انھیں گیت کیسے سناتے

یہ گیت کتاب مقدس میں درج ہے اور اسے بیسویں صدی میں بونی ایم نے گایا اور ان کاگیت پورے عالم میں مشہور ہوا By the River of Bayblonاور بیسویں صدی کے آخری دنوں میں عربی کے واحد نوبل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ نے لکھا کہ’’ فلسطین کا موجودہ بحران ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ یہ زیادہ سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا جارہا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ اس خون خرابے کا خاتمہ کس طرح ہوسکتا ہے ۔شاید یہ ہماری شکستہ و ریختہ حیثیت ہی ہے جس کی بنا پر یہ بحران ایسی اذیت کو جنم دیتا ہے۔ یہاں ہم فلسطینیوں سے مطالبہ نہیں کرسکتے کہ وہ مزاحمت کرنا چھوڑدیں، اگر ہم ایسا کریں تو ہم ان ظالموں سے کس طرح مختلف ہوسکیں گے جو بلا کسی سزا کے ایک پوری قوم کے وحشیانہ قتل عام کو قبول کرتے ہیں یا اس کی توثیق کرتے ہیں؟

جب کسی قوم کو محکومی یا جبرکا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس قوم سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کر لے، لیکن اس کے ساتھ ہی ہم جتنا زیادہ اس بات سے آگاہ ہوتے جاتے ہیں کہ فلسطینیوں کو کیا قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے، اتنا ہی زیادہ مشکل ہوجاتا ہے کہ انتفاضہ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ یہ ناممکن ہے کہ فلسطینیوں کے آلام و مصائب میں ٹھوس طریقے سے شریک ہوئے بغیر اس امر میں تہہ دل سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ جنگ جاری رکھیں۔

اگر فلسطینیوں کو اپنی زندگیوں اور خون کا نذرانہ پیش کرنا ہے تو ہم یہ نہیں کرسکتے کہ ذرا سی دیر کے لیے بیٹھ کر اس پر اظہار افسوس کرلیں۔ ہم فلسطینیوں کی تباہی کے اس المیے کو صرف اس صورت میں محض تماش بینوں کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جب کہ ہم واضح طور پر ظالموں کے ساتھی بن جائیں۔ میں ہر روز اس امید کے ساتھ بیدار ہوتا ہوں کہ شاید اس بحران کا کوئی حل دریافت کرلیاگیا ہو، اور ہر رات جب میں بستر پر جاتا ہوں تو میرے دل میں امید کی کوئی کرن موجود نہیں ہوتی۔ میں سچ مچ یہ نہیں جانتا کہ اس کا خاتمہ کس طرح ہوگا۔

نجیب محفوظ، ایڈورڈ سعید اور ایسے ہی کتنے فلسطینیوں کے خلاف ہونیوالے ظلم اور بربریت کے خلاف ہونیوالے بے دریغ قتل عام کا محض تماشہ دیکھتے رہے۔ پیرس، لندن اور حد تو یہ ہے کہ اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں ہزاروں یہودی اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔’’ امریکا نے 500 پائونڈ بموں کی کھیپ اسرائیل بھجوادی ہے ۔ مزید تیس فلسطینی شہیدکردیے گئے۔

غزہ جنگ کے آغاز سے جون کے آخر تک امریکا اسرائیل کو 2 ہزار پونڈ وزنی 14ہزار بم اور دیگر گولہ بارود دے چکا ہے، رپورٹ کے مطابق غزہ میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 30 یا 40 ہزار نہیں 2 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔

غزہ، واشنگٹن اور لندن سے موصولہ خبروں کے مطابق اسرائیلی فوج کے حملوں میں مزید30 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، امریکانے 500 پونڈ وزنی بموں کی کھیپ اسرائیل کو بھجوادی ہے۔ تفصیلات کے مطابق صیہونی افواج نے جبراً نقل مکانی پر مجبور فلسطینیوں پربھی حملے شروع کردیے۔ تل الحوا کے علاقے پر اسرائیلی فوج کے حملوں میں مزید30 فلسطینی شہید جب کہ متعدد زخمی ہوگئے ۔ دوسری جانب امریکا نے اسرائیل کو 500پائونڈ وزنی بموں کی ترسیل دوبارہ شروع کردی اور کھیپ اسرائیل کو بھجوا دی۔

انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے مئی میں اسرائیل کے لیے 2,000 پائونڈ اور 500پائونڈ کے بموں کی کھیپ کی ترسیل کو روک دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے جون کے آخر تک امریکا نے اسرائیل کو دو ہزار پائونڈ وزنی کم ازکم14.000 ایم کے 500 پائونڈ وزنی 6500بم ‘ 3.000 ہیل فائر میزائل اور دیگرگولہ بارود فراہم کیا دوسری جانب برطانوی وزیر خاجہ ڈیوڈ لیمی نے غزہ کے اسکول پر اسرائیلی فوج کے حملے کو قابل تشویش قرار دیتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، برطانوی تحقیقاتی جریدے کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے حملوں میں اموات 2 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہیں۔‘‘
امریکی اور صیہونی نہیں جانتے کہ برصغیر میں ایک زبان اردو ہے اور اس کے ایک شاعر نصیر احمد ناصرؔ نے ایک نظم لکھی ہے۔

بیاضِ وقت کا اگلا ورق خالی ہے/ تم کن موسموں کے انتظار میں ہو/ ہونٹوں پر خشک سالی/ اور آنکھوں میں بارشیں سنبھالے ہوئے ہو؟/ تمہارے حصے کے آسمان کو/ بدبودار سانسیں دھندلا کررہی ہیں/ بادل، ہوا اور آبی بخارات ذخیرہ کرنے کی/ اجازت ان کو ہے/ جن کے تصرف میں دوسروں کے حصے کی زمینیں ہیں/ تمہارے پاس تو چلنے کے لیے پائوں بھر راستہ بھی نہیں! / فیکٹریوں میں دھوپ/ اتنی وافر مقدار میں تیار ہوتی ہے/ کہ تمہاری رات/ نوکِ قلم سے ٹپکی ہوئی سیاہی کے/ ایک نقطے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی/ زائر اور روانڈا میں/ ہزاروں لاکھوں کالے انسان مرنے سے/ کیا زمین پر دھبوں اور پرچھائیوں کا/قحط پڑ گیا ہے؟/ جہاں پیدا ہونے پر طبلک/ اور مرنے پر ماتمی دھنیں بجائی جاتی ہیں/ وہاں زندگی اور موت کے درمیان/ تم کون سی نئی سمفنی ترتیب دینا چاہتے ہو؟/ ہزاروں سال پہلے کا/ بے شعور انسان/ ہڈیوں سے بانسری بنانے/ اور سُر کی لے پر انگلیاں بجانے کا فن جانتا تھا/ لیکن تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم/ کہ سورج، چاند اور سیارے/نادیدہ کہکشائیں، بلیک ہولز، دُم دار ستارے/ خلائی رصد گاہیں/ ارضی بستیاں/ تمہارے وقت کی دسترس سے دور/ایک ایسی صدی میں داخل ہونے والی ہیں/ جہاں لیزرکی شعاعیں/تمام روشنیوں پر غالب آجائیں گی/ اور تمہارے انتظارکا دورانیہ ختم ہونے سے پہلے ہی/ کائنات کی بیاض سے/ گیت اور الفاظ تحلیل ہوجائیں گے۔

اس تازہ ترین خبر کے بعد امن پسند انسان اور ادیب اور شاعرگھٹنوں میں سر دے کر نہ روئے تو اورکیا کرے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔