طیب کے پاس کیا آپشن تھا؟

جاوید چوہدری  اتوار 14 جولائی 2024
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

طیب کا تعلق لانگ راج گاؤں سے تھا‘ اسے کنڈیارو تھانہ لگتا ہے اور یہ سارا علاقہ پڈعیون کا حصہ ہے اور پڈعیون سندھ کا غیر معروف علاقہ ہے‘ اس کا قریب ترین شہر نوشہرو فیروز ہے‘ طیب اس گاؤں کا غریب ہاری تھا‘ روزی روٹی کا کوئی مستقل بندوبست نہیں تھا‘ کوئی حال اور کوئی مستقبل نہیں تھا‘ ماضی میں بھی غربت تھی‘ حال بھی غربت میں لتھڑا ہوا تھا اور مستقبل میں بھی حالات کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں تھا‘۔

طیب کے ہاں ان حالات میں ایک بیٹی پیدا ہو گئی‘ بچی پیدائشی بیمار تھی‘ اسے کوئی مشکل سی ناقابل علاج بیماری تھی‘ وہ اسے اٹھا کر ڈاکٹروں کے پاس دھکے کھاتا رہا مگر علاج مشکل اور مہنگا تھا جب کہ طیب کے پاس غربت کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا اور غربت دنیا کا واحد اثاثہ ہے جسے انسان بیچ سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو تحفے میں دے سکتا ہے‘ غربت بعض لوگوں کی زندگی میں سر کی طرح ہوتی ہے‘ یہ مرنے تک انسان کے وجود سے جڑی رہتی ہے‘ طیب اس بیمار بچی کا کیا کرتا؟ اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا‘ وہ اسے شروع میں لے لے کر اسپتالوں میں پھرتا رہا لیکن جب بچی کی بیماری اور بے چارگی بڑھتی رہی تو اس کے پاس بچی کو بیچنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘۔

پنجاب اور سندھ کے دور دراز علاقوں میں یہ دھندا عام ہے لوگ غربت سے نجات کے لیے اپنے بچے بیچ دیتے ہیں‘ ان بچوں کا بعدازاں کیا بنتا ہے یہ ایک طویل داستان ہے‘ خوب صورت اور صحت مند بچے بے اولاد جوڑے خرید لیتے ہیں‘ لاغر اور کم زور بچوں کو بھکاری دکان بنا لیتے ہیں اور باقی بچوں کے اعضاء جسم سے نکال کر بیچ دیے جاتے ہیں‘ طیب نے بچی سے جان چھڑانے کے لیے بچوں کے بیوپاریوں سے رابطہ کیا لیکن بچی زیادہ بیمار تھی لہٰذا اسے خریدنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوا اوریوںطیب کے پاس صرف ایک آپشن بچ گیا‘ یہ بچی کو مار دیتا‘ انسان کے لیے اپنی اولاد کو قتل کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہوتا ہے‘ طیب بچی کو مار نہ سکا چناں چہ اس نے اسے زندہ دفن کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پھر ایک رات اس نے زمین میں گڑھا کھودا‘ بچی کو پرانی چادر میں لپیٹا‘ گڑھے میں رکھا اور دیوانہ وار روتی چیختی بچی پر مٹی ڈالتا چلا گیا‘ بچی کی آواز چند سیکنڈ بعد بجھ گئی‘ طیب نے گڑھا برابر کیا اور گھر واپس آ گیا‘ اس کی بیوی بچی کے بارے میں پوچھتی رہی لیکن طیب نے اسے کوئی جواب نہیں دیا‘ وہ ساری رات جاگتا اور روتا رہا۔

اگلا دن پہلے سے زیادہ مشکل تھا‘ طیب کے کانوں میں ہر وقت بچی کی آواز گونجتی رہتی تھی‘ وہ کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا تھا لیکن آواز اس کے باوجود آتی رہتی تھی‘ وہ ڈپریشن کا شکار ہو گیا اور اس نے اپنے دوستوں‘ ساتھیوں اور خاندان کے لوگوں کو بچی کے بارے میں بتانا شروع کر دیا‘ آج کی دنیا ’’ڈیجیٹل ‘‘ ہے لہٰذا یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی‘ بچی کو زندہ درگور کرنے کا واقعہ پہلے لانگ راج‘ پھر کنڈیارو‘ پھر پڈعیون‘ پھر نوشہرو فیروز اور اس کے بعد پورے ملک میں پھیل گیا‘ ایشو میڈیا تک پہنچا اور اس نے اسے اٹھا لیا‘۔

وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی سندھ ایکٹو ہوئے‘ نوشہرو فیروز کے ایس ایس پی کو حکم ہوا‘ پولیس فورس لانگ راج پہنچی اور طیب کوگرفتار کر لیا گیا‘ آخری اطلاعات کے مطابق طیب نے اپنا جرم بھی تسلیم کر لیا‘ پولیس نے بچی کی لاش بھی برآمد کر لی‘ طیب پر 302 کا مقدمہ بھی بن گیا اور اسے جیل بھی بھجوا دیا گیا‘ مجرم اب اپنے کیے کی سزا بھگتنے کی تیاری کر رہا ہے‘ یہ اللہ سے معافی مانگتا ہے‘ جیل میں روتا رہتا ہے اور پھانسی سے پہلے موت کی دعا کرتا ہے لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کیا اس واقعے کا مجرم طیب ہے؟ کیا طیب کے پاس بچی کو زندہ درگور کرنے کے علاوہ بھی کوئی آپشن تھا؟ میرا خیال ہے طیب مکمل بے گناہ ہے۔

آپ یقینا میری طرح صاحب اولاد ہیں لہٰذا میں آپ سے سوال کرتا ہوں‘ کیا کسی انسان کے لیے اپنے بچے کو زندہ درگور کرنا آسان کام ہو تا ہے؟ کیا یہ کام طیب نے آسانی سے کر لیا ہو گا؟ جی نہیں‘ انسان کا بچہ اس کے وجود‘ اس کے جذبات اور اس کے احساسات کا حصہ ہوتا ہے اور اسے یوں روتا چیختا ہوا زندہ درگور کرنا آسان نہیں ہوتا‘ طیب بھی انسان ہے‘ اس کے لیے بھی یہ آسان نہیں ہو گا‘ دوسرا آپ ذرا انتہائی غربت میں جا کر دیکھیں‘ آپ اپنے پاؤں طیب کے جوتوں میں رکھ کر دیکھیں‘ آپ کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں‘ روزگار اور ضرورت کے درمیان بھی گیپ ہے‘ آپ اور آپ کا خاندان بھی بیمار ہے اور اوپر سے آپ کے ہاں ایک ایسی بچی پیدا ہو گئی جو پیدائشی بیمار ہے اور قرب و جوار کے کسی ڈاکٹر کو اس کی بیماری کا اندازہ نہیں ہو رہا‘ طیب ڈاکٹروں اور ادویات کی قیمت بھی برداشت نہیں کر پارہا‘ اس کے پاس بچی کو حیدرآباد یا کراچی لے جانے کا خرچ بھی نہیں اور اگر یہ کسی نہ کسی طریقے سے بچی کو کراچی بھی لے جائے تو یہ خود کہاں رہے گا‘ اس کی بیوی اور بچے کہاں رہیں گے اور یہ کھائیں اور پئیں گے کہاں سے؟ اور اگر علاج مہنگا اور طویل ہوا تو طیب اسے کیسے برداشت کرے گا؟ کیا آپ کے پاس ان سوالوں کا جواب ہے؟

مجھے یقین ہے آپ کہیں گے انسان کواللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے‘ اسے دعا کا سہارا لینا چاہیے تھا اور اسے چیف منسٹر اور وزیرصحت سے رابطہ کرنا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ‘ آپ کا کیا خیال ہے طیب نے یہ نہیں کیا ہوگا؟ یہ یقینا اپنے سیاسی نمائندوں کے پاس بھی گیا ہو گا‘ اس نے رو رو کر‘ گڑ گڑا کر دعائیں بھی کی ہوں گی اور اس نے اللہ کی رحمت کی رسی بھی مضبوطی سے پکڑی ہو گی مگر نہ آسمان سے مدد آئی اور نہ صوبائی اسمبلی اور وزیراعلیٰ کے دفتر سے لہٰذا پھر طیب کیا کرتا؟ کیا یہ بچی کو کندھے سے لگا کر گلی گلی‘ بازار بازار پھرتا رہتا؟ اور اس سے بھی اگر مسئلہ حل ہو سکتا تو شاید یہ ایسا بھی کر لیتا جب کہ حقیقت یہ ہے اس سنگ دل اور بے رحم نظام میں کسی بیمار بچی کی کوئی گنجائش موجود نہیں‘ اس نے بہرحال مرنا ہی ہوتا ہے‘ یہ کسی اسپتال میں فوت ہو یا ماں کی گود میں یا پھر طیب کی طرح اس کا باپ اسے زندہ درگور کر دے اس کا مقدر موت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

چناں چہ میں طیب کو بے گناہ سمجھتا ہوں‘ میری نظر میں اس کا کوئی قصور‘ اس کی کوئی غلطی نہیں‘ حکومت کو چاہیے اسے ایوارڈ دے‘ اس نے کم از کم ریاست کے کندھے سے ایک بچی کا بوجھ تو اتار دیا ورنہ یہ کام ریاست کو کرنا پڑتا لیکن اگر اس کے باوجود حکومت کسی نہ کسی پر الزام عائد کرنا چاہتی ہے تو میرا خیال ہے یہ پرچہ صوبائی وزیر صحت اور وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف درج ہونا چاہیے یا پھر مقامی ایم پی اے‘ ایس ایس پی یا ڈپٹی کمشنر پر! بچی کے اصل قاتل یہ لوگ ہیں‘ سید مراد علی شاہ ساڑھے سات سال سندھ کے وزیراعلیٰ رہنے کے باوجود صوبے میں کوئی ایسا نظام نہیں بنا سکے جس کے ذریعے خصوصی بیماریوں کے شکار بچوں کا علاج ہو سکے۔

وزیر صحت کو بھی گرفتار کر کے پوچھنا چاہیے اگر آپ کی وزارت میں اس قسم کی بچیوں کا مفت علاج نہیں ہو سکتا تو پھر آپ کی وزارت کی کیا ضرورت ہے اور ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی سے بھی پوچھنا چاہیے اگر آپ چند دن کی بچی کی حفاظت نہیں کر سکتے تو پھر آپ کس مرض کی دوا ہیں‘ پھر آپ کو مراعات‘ تنخواہیں اور پروٹوکول کیوں دیا جائے؟ کاش سندھ میں آج شیر شاہ سوری کی حکومت ہوتی تو یہ تمام لوگ اب تک پھانسی لگ چکے ہوتے‘ شیرشاہ سوری چوری کے بعد کوتوال کو پھانسی لگا دیتا تھا کہ اس کی مرضی‘ ا جازت یا سستی کے بغیر چوری ممکن نہیں تھی یا پھر علاؤالدین خلجی کا زمانہ ہوتا تو اس نے بھی ان سب کو ایک قطار میں کھڑے کر کے ان کے سر اتار دینے تھے‘ کیوں؟ کیوں کہ وہ بھی یہ سمجھتا تھا اگر سلطنت میں کسی شخص کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے تو اس میں مقامی ذمے داران بھی شامل ہیں۔

یہ کیسے ممکن ہے گاؤں میں ایسی بچی پیدا ہو جائے اور اس کی بیماری اور خاندان کی اطلاع پولیس اور اے سی کے دفتر نہ پہنچے اور وہ سرکاری فنڈ سے خاندان کی کفالت اور بچی کا علاج نہ کرائیں لہٰذا خلجی بھی فوری طور پر مقامی عمائدین کے سر اتار دیا کرتا تھا مگر آج ملک میں کیوں کہ جمہوریت ہے اور لوگ جمہوریت میں عیش کرنے کے لیے آتے ہیں‘ طیب جیسے لوگوں کی اولاد کا علاج کرنے کے لیے نہیں لہٰذا وزیراعلیٰ کے کان پر اگرجوں بھی رینگی تو طیب کے خلاف رینگی اور اس کے حکم سے اسے گرفتار کر لیا گیا۔

کاش آج مراد علی شاہ کے ضمیر کی عدالت زندہ ہوتی یا صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا ضمیر اور احساس زندہ ہوتا تو یہ خود کو بچی کے قتل کا مجرم قرار دے چکے ہوتے اور یہ اعلان کر رہے ہوتے یہ سندھ کی آخری بچی تھی اور طیب آخری باپ‘ آج کے بعد سندھ میں کوئی بچی زندہ درگور نہیں ہو گی‘ کوئی بچہ علاج کے بغیر نہیں رہے گا‘ طیب جیسے کسی باپ کو اب اپنی بچی زندہ درگور نہیں کرنی پڑے گی لیکن یہ ردعمل زندہ معاشروں اور زندہ لوگوں کا ہوتا ہے‘ قبرستان ایسے واقعات کے بعد خاموش رہتے ہیں یا طیب جیسے لوگوں کو گرفتار کر لیتے ہیں یا پھر یہ جرم کے بعد مدعیوں کی گردنیں کاٹ دیا کرتے ہیں اور طیب کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ اسے گرفتار کر لیا گیا‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ قبرستان کا شہری تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔