پاکستان میں رمضان
پاکستان کا قیام ماہ رمضان میں عمل میں آیا۔ اگر ہم ایک پاک ملک اور ایک پاک مہینے کی بات کر رہے ہیں
SYDNEY:
پاکستان کا قیام ماہ رمضان میں عمل میں آیا۔ اگر ہم ایک پاک ملک اور ایک پاک مہینے کی بات کر رہے ہیں تو اس میں تاریخ کے کون کون سے دلچسپ مرحلے آئیں گے۔ کس طرح سحری جگانے والے آتے تھے اور کس طرح توپیں چلا کر افطار کے وقت کا اعلان کیا جاتا تھا۔ کس طرح رمضان کی پہلی تاریخ سے ہوٹلوں پر پردے لٹکائے جاتے تھے۔ لنچ کے وقت روزہ خوروں کا ہجوم کس طرح کھانے کی جانب لپکتا تھا۔
ان تمام مراحل سے پاکستانی عوام اس ماہ میں گزرے ہیں۔ تراویح کے لیے حافظ قرآن کی تلاش کی کوششیں ہوتی تھیں۔ ختم قرآن پر مسجدوں میں مٹھائی کی تقسیم کے کیا کیا مناظر ہوتے تھے۔ رمضان میں آج بھی درزیوں کے نخرے ہوبہو ہیں۔ رویت ہلال یعنی چاند دیکھنے کے مسئلے سے عمرے کے لیے جوق درجوق جانے پر آج گفتگو ہوگی۔ ہم دیکھیں گے کہ کس طرح پاکستان میں رمضان سماجی طور پر کیا کیا رخ اختیار کرتا رہا ہے۔
آج کا کالم بزرگوں کے لیے سہانی یادوں اور نوجوانوں کے لیے دنیا کے بدلتے انداز کا پیغام ہوگا۔ ابتدا ہم اس سوال سے کریں گے کہ رمضان میں پاکستان کا قیام محض اتفاق تھا یا قدرت کا کوئی اشارہ؟ 1946 کے انتخابات نے طے کردیا تھا کہ اب پاکستان تو بننا ہی بننا ہے۔ ''لے کے رہیں گے پاکستان '' کا نعرہ سچ ثابت ہوگا۔ انصاف نہ ہو تو دلوں میں بھی دیوار بن جاتی ہے اور سرحدوں پر بھی باڑھ کھنچ جاتی ہے۔ برصغیر کو چھوڑنے میں انگریزوں نے جلدی دکھائی۔ جناح، نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کی ریڈیو تقاریر نے چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب غلامی کی طویل شب کے خاتمے کا اعلان کیا۔
انگریز کو کیا خبر تھی کہ یہ مسلمانوں کا متبرک ترین مہینہ یعنی رمضان المبارک ہے۔ وہ کیا جانتے تھے کہ اس ماہ میں مقدس ترین کتاب نازل ہوئی ہے۔ گوروں کو کیا پتا کہ رحمت و مغفرت کے بعد تیسرا عشرہ شروع ہوچکا ہوگا۔ برطانوی حکومت نہیں جانتی ہوگی کہ نجات والا عشرہ مسلمانوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ یونین جیک والے بے خبر تھے کہ ان ہی 9، 10 دنوں میں پانچ اہم راتیں آتی ہیں۔ وہ نہیں واقف تھے کہ ان ہی پانچ راتوں میں ستائیسویں کی شب ہوتی ہے۔ انھیں کیا علم کہ 14 اگست کی اس اہم شب کا اگلا دن جمعہ کا ہوگا۔ لیبر پارٹی کیا جانتی تھی کہ یہ سال بھر کے تمام فرائی ڈیز کا چیف ہے۔
دارالعوام کو کیا خبر کہ یہ جمعہ مسلمانوں کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟ وزیراعظم اٹلی کے فرشتوں کو کیا پتا کہ یہ فرشتوں کے نزول کی رات ہوگی۔ ہاؤس آف لارڈز کیا جانے کہ جمعۃ الوداع کسے کہتے ہیں۔ انھیں تو 14 اور 15 کی درمیانی شب صرف جرمنی کی شکست یاد تھی۔ برطانوی پریس کو خبر نہیں تھی کہ مقدس مہینے کے علاوہ مقدس شب اور مقدس دن کا سنگم ان دنوں میں ہو رہا ہے۔ سوال یہی ہے کہ یہ اتفاق تھا یا کہ قدرت کا کوئی پیغام؟ اس کا جواب آپ کی دانش پر چھوڑتے ہوئے ہم ان سماجی تبدیلیوں کی جانب آتے ہیں جو ماہ رمضان میں پاکستان میں وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں۔
پاکستان میں رمضان کا ابتدائی دور بڑا سادہ ہوا کرتا تھا۔ کچھ تاریخ کی کتابوں اور کچھ ذاتی تجربات سے ملاجلا یہ کالم اپنے اندر کتنی دلچسپی لیے ہوئے ہے؟ اس کا فیصلہ اگلے چار پانچ منٹوں میں آپ کو کرنا ہے۔ نہ سحری میں وہ اہتمام ہوتا تھا اور نہ افطاری میں اتنے لوازمات۔ نہ میڈیا کی فراوانی تھی اور نہ بازاروں میں وہ کھجلے اور پھینی کی بہتات، جو آج کل نظر آتی ہیں۔ نہ ٹائم پیس ہوا کرتے تھے کہ سحری کے لیے وقت پر بیدار ہوا جاسکے۔ اس کا حل جگانے والے ہوا کرتے تھے جو آدھی رات کو ڈھول باجے لے کر روزہ داروں کو جگانے آتے تھے۔ خواتین کو تیاری کے لیے جلد اٹھنا ہوتا تھا۔ اگر وہ بیدار ہوگئیں تو پورا خاندان جاگ گیا۔ یہ خواتین کی تعریف ہے۔
اگر خاتون خانہ سے اٹھنے میں دیر ہوگئی تو اکثر بغیر سحری کے روزے رکھے جاتے۔ یہ وہ بات ہے جو آج کی نسل کی سمجھ میں مشکل سے آسکے۔ اکثر خواتین خود اٹھنے کے بعد پڑوسنوں کے گھروں کے جلتے بلب کی روشنی دیکھتیں کہ وہ اٹھی ہے یا نہیں۔ اگر ایک اٹھ گئی اور دوسری سوئی ہے تو پھر پہلی دوسری کو جگاتی۔ آج کل ٹائم پیس کے علاوہ موبائل فونز میں الارم کلاک آگئے ہیں۔ یہ بات انوکھی لگتی ہے کہ 60 اور 70 کے عشرے میں سحری کے لیے اٹھنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔
ہوٹلوں پر پردے بھی رمضان کے مہینے میں دیکھے جاتے تھے۔ باہر پان والا بھی یہی اہتمام کرتا۔ کہتے ہیں کہ ہوٹلوں والے اس ماہ میں اتنا کما لیتے تھے کہ گیارہ ماہ میں نہ کما پاتے۔ ثواب نہیں پیسہ۔ سن 77 پاکستان میں رمضان کے رجحان میں اچھی تبدیلی کا سال ثابت ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اتوار سے جمعہ کی چھٹی کے علاوہ شراب اور جوئے پر پابندی عائد کردی۔ ریاست کو اچھائی پھیلانے کے معاملے میں غیر جانبدار نہیں ہونا چاہیے۔ اس برس کے دوسرے حصے میں جنرل ضیا نے رمضان میں روزوں کے اوقات میں ہوٹلوں کو بند کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ غیر مسلموں پر پابندی نہ تھی۔ اس کے علاوہ ریلوے اسٹیشنوں، بسوں کے اڈوں اور ایئرپورٹس پر بھی لنچ کی رعایت دی گئی۔
افطاری کی تیاریاں، کھانے پینے کی دکانوں پر رش اور گھروں کے دستر خوانوں کے علاوہ مساجد میں بھی اب بڑے پیمانے پر اہتمام ہونے لگا ہے۔ افطار کے وقت سفر کرنے والوں کو کبھی کھجور اور شربت پیش کیا جاتا ہے۔ گرمیوں میں رمضان آنے پر کھجلے اور پراٹھے کھانے کا کلچر بڑھا۔ پانی کی جگہ شربت نے لی ۔ زکوٰۃ بھی اس ماہ مبارک میں ادا کی جاتی ہے کہ زیادہ ثواب ملے۔ برکت کے آثار اس مہینے میں دکھائی دیتے ہیں۔ غریب سے غریب کو بھی اس مہینے میں اچھا اور زیادہ کھانے کو مل جاتا ہے۔
تراویح کا اہتمام زبردست طریقے سے ہونے لگا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں حفاظ کی کمی کے سبب آخری پارے کی سورتیں پڑھ لی جاتی تھیں۔ آہستہ آہستہ یہ کمی دور ہوتی گئی۔ اب ایک مسجد میں کئی کئی حفاظ سنانے لگے ہیں۔ پانچ، چھ، دس اور پندرہ دنوں میں قران پاک مکمل کرنے کا اہتمام کیا جانے لگا ہے۔ عید پر پہلے ایک ہی جوڑا سلوایا جاتا تھا۔ اب متوسط طبقہ سال بھر کے جوڑے اس ماہ میں سلوانے لگا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ رمضان میں بدستور جاری ہے۔ تاجر حضرات دوسرے ممالک کی طرح اپنے ہم وطنوں کو تہواروں پر رعایت دینے کے موڈ میں کبھی رہے ہی نہیں ہیں۔
اعتکاف میں پہلے اکا دکا لوگ بیٹھا کرتے تھے۔ فرض کفایہ ہونے کے سبب اہل محلہ بڑی مشکل سے کسی ایک شخص کو تیار کرتے تھے۔ اب اعتکاف میں بیٹھنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ مساجد کی انتظامیہ کے لیے انتخاب کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ آخری عشرے میں عمرے کی ادائیگی رواج پاگئی ہے۔ ہزاروں پاکستانی اپنا رمضان مکے مدینے میں گزارتے ہیں۔ رویت ہلال کا مسئلہ ایوب دور میں تنازعے کا سبب بنا۔ بھٹو نے کمیٹی بناکر حکومت سے یہ معاملہ علما کو سونپ دیا۔ اب بھی اکثر دو تین عیدیں منائی جاتی ہیں۔
پاکستان کا رمضان دن بدن بدلتا جا رہا ہے۔ کچھ اچھی باتیں یقیناً رواج پاگئی ہیں تو بعض خرابیوں نے بھی جنم لیا ہے۔ روح بلالیؓ کی جگہ رسمیں؟ تلقین غزالی کے بجائے کہیں صرف فلسفہ تو نہیں رہ گیا ہے؟ سادگی کے بجائے اب سہولتیں زیادہ ہوگئی ہیں۔ مسجدوں میں پہلے پنکھے بھی نہ ہوا کرتے تھے اور اب کہیں کہیں ایئر کنڈیشنز موجود ہیں۔ ہمیں اچھائیوں کو بڑھانا اور خامیوں کو کم کرنا چاہیے۔ کس طرح؟ یہ ہم سب کو سوچنا چاہیے، جو منا رہے ہیں یہ بابرکت مہینہ وطن عزیز سے دور یا منا رہے ہیں پاکستان میں رمضان۔
پاکستان کا قیام ماہ رمضان میں عمل میں آیا۔ اگر ہم ایک پاک ملک اور ایک پاک مہینے کی بات کر رہے ہیں تو اس میں تاریخ کے کون کون سے دلچسپ مرحلے آئیں گے۔ کس طرح سحری جگانے والے آتے تھے اور کس طرح توپیں چلا کر افطار کے وقت کا اعلان کیا جاتا تھا۔ کس طرح رمضان کی پہلی تاریخ سے ہوٹلوں پر پردے لٹکائے جاتے تھے۔ لنچ کے وقت روزہ خوروں کا ہجوم کس طرح کھانے کی جانب لپکتا تھا۔
ان تمام مراحل سے پاکستانی عوام اس ماہ میں گزرے ہیں۔ تراویح کے لیے حافظ قرآن کی تلاش کی کوششیں ہوتی تھیں۔ ختم قرآن پر مسجدوں میں مٹھائی کی تقسیم کے کیا کیا مناظر ہوتے تھے۔ رمضان میں آج بھی درزیوں کے نخرے ہوبہو ہیں۔ رویت ہلال یعنی چاند دیکھنے کے مسئلے سے عمرے کے لیے جوق درجوق جانے پر آج گفتگو ہوگی۔ ہم دیکھیں گے کہ کس طرح پاکستان میں رمضان سماجی طور پر کیا کیا رخ اختیار کرتا رہا ہے۔
آج کا کالم بزرگوں کے لیے سہانی یادوں اور نوجوانوں کے لیے دنیا کے بدلتے انداز کا پیغام ہوگا۔ ابتدا ہم اس سوال سے کریں گے کہ رمضان میں پاکستان کا قیام محض اتفاق تھا یا قدرت کا کوئی اشارہ؟ 1946 کے انتخابات نے طے کردیا تھا کہ اب پاکستان تو بننا ہی بننا ہے۔ ''لے کے رہیں گے پاکستان '' کا نعرہ سچ ثابت ہوگا۔ انصاف نہ ہو تو دلوں میں بھی دیوار بن جاتی ہے اور سرحدوں پر بھی باڑھ کھنچ جاتی ہے۔ برصغیر کو چھوڑنے میں انگریزوں نے جلدی دکھائی۔ جناح، نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کی ریڈیو تقاریر نے چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب غلامی کی طویل شب کے خاتمے کا اعلان کیا۔
انگریز کو کیا خبر تھی کہ یہ مسلمانوں کا متبرک ترین مہینہ یعنی رمضان المبارک ہے۔ وہ کیا جانتے تھے کہ اس ماہ میں مقدس ترین کتاب نازل ہوئی ہے۔ گوروں کو کیا پتا کہ رحمت و مغفرت کے بعد تیسرا عشرہ شروع ہوچکا ہوگا۔ برطانوی حکومت نہیں جانتی ہوگی کہ نجات والا عشرہ مسلمانوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ یونین جیک والے بے خبر تھے کہ ان ہی 9، 10 دنوں میں پانچ اہم راتیں آتی ہیں۔ وہ نہیں واقف تھے کہ ان ہی پانچ راتوں میں ستائیسویں کی شب ہوتی ہے۔ انھیں کیا علم کہ 14 اگست کی اس اہم شب کا اگلا دن جمعہ کا ہوگا۔ لیبر پارٹی کیا جانتی تھی کہ یہ سال بھر کے تمام فرائی ڈیز کا چیف ہے۔
دارالعوام کو کیا خبر کہ یہ جمعہ مسلمانوں کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟ وزیراعظم اٹلی کے فرشتوں کو کیا پتا کہ یہ فرشتوں کے نزول کی رات ہوگی۔ ہاؤس آف لارڈز کیا جانے کہ جمعۃ الوداع کسے کہتے ہیں۔ انھیں تو 14 اور 15 کی درمیانی شب صرف جرمنی کی شکست یاد تھی۔ برطانوی پریس کو خبر نہیں تھی کہ مقدس مہینے کے علاوہ مقدس شب اور مقدس دن کا سنگم ان دنوں میں ہو رہا ہے۔ سوال یہی ہے کہ یہ اتفاق تھا یا کہ قدرت کا کوئی پیغام؟ اس کا جواب آپ کی دانش پر چھوڑتے ہوئے ہم ان سماجی تبدیلیوں کی جانب آتے ہیں جو ماہ رمضان میں پاکستان میں وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں۔
پاکستان میں رمضان کا ابتدائی دور بڑا سادہ ہوا کرتا تھا۔ کچھ تاریخ کی کتابوں اور کچھ ذاتی تجربات سے ملاجلا یہ کالم اپنے اندر کتنی دلچسپی لیے ہوئے ہے؟ اس کا فیصلہ اگلے چار پانچ منٹوں میں آپ کو کرنا ہے۔ نہ سحری میں وہ اہتمام ہوتا تھا اور نہ افطاری میں اتنے لوازمات۔ نہ میڈیا کی فراوانی تھی اور نہ بازاروں میں وہ کھجلے اور پھینی کی بہتات، جو آج کل نظر آتی ہیں۔ نہ ٹائم پیس ہوا کرتے تھے کہ سحری کے لیے وقت پر بیدار ہوا جاسکے۔ اس کا حل جگانے والے ہوا کرتے تھے جو آدھی رات کو ڈھول باجے لے کر روزہ داروں کو جگانے آتے تھے۔ خواتین کو تیاری کے لیے جلد اٹھنا ہوتا تھا۔ اگر وہ بیدار ہوگئیں تو پورا خاندان جاگ گیا۔ یہ خواتین کی تعریف ہے۔
اگر خاتون خانہ سے اٹھنے میں دیر ہوگئی تو اکثر بغیر سحری کے روزے رکھے جاتے۔ یہ وہ بات ہے جو آج کی نسل کی سمجھ میں مشکل سے آسکے۔ اکثر خواتین خود اٹھنے کے بعد پڑوسنوں کے گھروں کے جلتے بلب کی روشنی دیکھتیں کہ وہ اٹھی ہے یا نہیں۔ اگر ایک اٹھ گئی اور دوسری سوئی ہے تو پھر پہلی دوسری کو جگاتی۔ آج کل ٹائم پیس کے علاوہ موبائل فونز میں الارم کلاک آگئے ہیں۔ یہ بات انوکھی لگتی ہے کہ 60 اور 70 کے عشرے میں سحری کے لیے اٹھنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔
ہوٹلوں پر پردے بھی رمضان کے مہینے میں دیکھے جاتے تھے۔ باہر پان والا بھی یہی اہتمام کرتا۔ کہتے ہیں کہ ہوٹلوں والے اس ماہ میں اتنا کما لیتے تھے کہ گیارہ ماہ میں نہ کما پاتے۔ ثواب نہیں پیسہ۔ سن 77 پاکستان میں رمضان کے رجحان میں اچھی تبدیلی کا سال ثابت ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اتوار سے جمعہ کی چھٹی کے علاوہ شراب اور جوئے پر پابندی عائد کردی۔ ریاست کو اچھائی پھیلانے کے معاملے میں غیر جانبدار نہیں ہونا چاہیے۔ اس برس کے دوسرے حصے میں جنرل ضیا نے رمضان میں روزوں کے اوقات میں ہوٹلوں کو بند کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ غیر مسلموں پر پابندی نہ تھی۔ اس کے علاوہ ریلوے اسٹیشنوں، بسوں کے اڈوں اور ایئرپورٹس پر بھی لنچ کی رعایت دی گئی۔
افطاری کی تیاریاں، کھانے پینے کی دکانوں پر رش اور گھروں کے دستر خوانوں کے علاوہ مساجد میں بھی اب بڑے پیمانے پر اہتمام ہونے لگا ہے۔ افطار کے وقت سفر کرنے والوں کو کبھی کھجور اور شربت پیش کیا جاتا ہے۔ گرمیوں میں رمضان آنے پر کھجلے اور پراٹھے کھانے کا کلچر بڑھا۔ پانی کی جگہ شربت نے لی ۔ زکوٰۃ بھی اس ماہ مبارک میں ادا کی جاتی ہے کہ زیادہ ثواب ملے۔ برکت کے آثار اس مہینے میں دکھائی دیتے ہیں۔ غریب سے غریب کو بھی اس مہینے میں اچھا اور زیادہ کھانے کو مل جاتا ہے۔
تراویح کا اہتمام زبردست طریقے سے ہونے لگا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں حفاظ کی کمی کے سبب آخری پارے کی سورتیں پڑھ لی جاتی تھیں۔ آہستہ آہستہ یہ کمی دور ہوتی گئی۔ اب ایک مسجد میں کئی کئی حفاظ سنانے لگے ہیں۔ پانچ، چھ، دس اور پندرہ دنوں میں قران پاک مکمل کرنے کا اہتمام کیا جانے لگا ہے۔ عید پر پہلے ایک ہی جوڑا سلوایا جاتا تھا۔ اب متوسط طبقہ سال بھر کے جوڑے اس ماہ میں سلوانے لگا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ رمضان میں بدستور جاری ہے۔ تاجر حضرات دوسرے ممالک کی طرح اپنے ہم وطنوں کو تہواروں پر رعایت دینے کے موڈ میں کبھی رہے ہی نہیں ہیں۔
اعتکاف میں پہلے اکا دکا لوگ بیٹھا کرتے تھے۔ فرض کفایہ ہونے کے سبب اہل محلہ بڑی مشکل سے کسی ایک شخص کو تیار کرتے تھے۔ اب اعتکاف میں بیٹھنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ مساجد کی انتظامیہ کے لیے انتخاب کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ آخری عشرے میں عمرے کی ادائیگی رواج پاگئی ہے۔ ہزاروں پاکستانی اپنا رمضان مکے مدینے میں گزارتے ہیں۔ رویت ہلال کا مسئلہ ایوب دور میں تنازعے کا سبب بنا۔ بھٹو نے کمیٹی بناکر حکومت سے یہ معاملہ علما کو سونپ دیا۔ اب بھی اکثر دو تین عیدیں منائی جاتی ہیں۔
پاکستان کا رمضان دن بدن بدلتا جا رہا ہے۔ کچھ اچھی باتیں یقیناً رواج پاگئی ہیں تو بعض خرابیوں نے بھی جنم لیا ہے۔ روح بلالیؓ کی جگہ رسمیں؟ تلقین غزالی کے بجائے کہیں صرف فلسفہ تو نہیں رہ گیا ہے؟ سادگی کے بجائے اب سہولتیں زیادہ ہوگئی ہیں۔ مسجدوں میں پہلے پنکھے بھی نہ ہوا کرتے تھے اور اب کہیں کہیں ایئر کنڈیشنز موجود ہیں۔ ہمیں اچھائیوں کو بڑھانا اور خامیوں کو کم کرنا چاہیے۔ کس طرح؟ یہ ہم سب کو سوچنا چاہیے، جو منا رہے ہیں یہ بابرکت مہینہ وطن عزیز سے دور یا منا رہے ہیں پاکستان میں رمضان۔