استقبالِ رمضان المبارک

معاشرے کی اصلاح کاایک عمدہ ترین آئین و دستور

روزے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں موجود مادی وسفلی تقاضوں اور بہیمی وحیوانی قوت کو قابو رکھنے کا نسخہ بتایا۔ فوٹو: فائل

رمضان المبارک کی آمد ہے ،جس کے استقبال کے لئے آپ اورہم سب تیارہیں ،دلی اضطرابی کیفیت کے ساتھ اُمنگوں اور خواہشات کے درمیان رب العالمین کی رحمت کے منتظر بھی ہیں۔

آج ہم رسول اللہ ﷺ کا وہ عظیم الشان خطبہ جو آپ ﷺ نے استقبالِ رمضان کے لئے صحابہ کرام کو ارشادفرمایااور قیامت تک تمام مومنین کے لئے دستور کی صورت میں پیش فرمادیا،روزہ پورا ایک نصاب ہے لیکن اِس سے پیشتر اللہ رب العالمین کایہ حکم ملاحظہ فرمایئے :''اے ایمان والو!ہم نے تم پر رمضان کے روزے فرض کئے جیسے تم سے پچھلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ،تاکہ تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری حاصل ہو (البقرہ:183)''۔اللہ جل شانہ ٗ روزے کی حقیقت ،تقوے اور پرہیزگاری کی صورت میں ظاہر فرما رہا ہے۔

سابقہ تمام اَدیان میں روزہ معروف رہا ہے ، قدیم مصری تہذیب،یونانی ،رومن اور ہندومت میں روزہ رکھا جاتا تھا اور اب بھی رکھا جاتا ہے۔ یہودی یروشلم کی تباہی کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے ہفتہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔علامہ علاؤالدین حصکفی رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھاہے کہ:'' ہجرت کے ڈیڑھ سال اورتحویلِ قبلہ کے بعد دس شعبان کوروزہ فرض کیا گیا، (حاشیہ ابن عابدین شامی،جلد 6،ص:178، دمشق)''۔ ترتیب کے اعتبار سے پہلے نماز ،پھر زکوٰۃ اور پھر روزہ فرض کیاگیا ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت میں ایک طرف مادی وسفلی تقاضے پیدا فرمائے جو کائنات میں پائے جانے والے دوسرے حیوانات میں بھی ہیں، دوسری طرف انسان کی فطرت کو روحانیت اور ملکوتیت کا اعلیٰ جوہر بھی عطافرمایا،جو ملاء اعلیٰ کی بہترین مخلوق فرشتوں کی صفت ہے ،یہی وجہ ہے کہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے پر فرشتوں نے اعتراض کیا اور اپنی عرض بارگاہِ رب العالمین میں پیش فرمائی۔

روزے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں موجود مادی وسفلی تقاضوں اور بہیمی وحیوانی قوت کو قابو رکھنے کا نسخہ بتایا۔ جو انسان کو توازن و اعتدال میں رکھ کر اللہ کا مُقرب بناتاہے۔ اِ س خطبہ میں رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کی عظمت ورَفعت کو بیان فرمانے کے بعد اَعمالِ صالحہ کی ترغیب فرمائی ،اُن اَعمال پر اَجر کی ترتیب مُقرر فرما کر اُسے دَوَام بخشا ۔معمولی اور نفلی نیکیوں کا اجرعام مہینوں کے فرضوں کے برابر رکھااور فرضوں کے اجر کو ستر گُنا بڑھادیا،ایک اور حدیث پاک میں ہے :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے (روزے کی فضیلت اور قدر ومنزلت بیان کرتے ہوئے ) ارشاد فرمایا: ''مومن کے ہر عمل کا ثواب (اس کی کیفیت ، حقیقت اور معیار کے مطابق ) دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اضافہ کر کے دیا جاتا ہے ، (یعنی باقی سب عبادات کے لئے سنتِ الٰہی یہی ہے ) مگر ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ روزہ عطاء اجر کے اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ روزہ صرف اور صرف میرے لئے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا، کیونکہ وہ اپنی خواہشِ نفس اور طعام کو صرف میری رضا کے لئے چھوڑتا ہے، روزہ دار کے لئے دو مسرتیں ہیں، مسرت کا ایک لمحہ تو اسے افطار کے وقت نصیب ہوتا ہے اور روحانی مسرت کا نقطۂ عروج اس وقت ہوگا جب آخرت میں اسے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کے حضور شرفِ باریابی نصیب ہوگا ، اورروزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کو مشک سے بھی زیادہ پیاری ہے،(صحیح مسلم:2705)''۔

اگر ہم نے اپنے روزوں کو محض بھوک اور پیاس کی مَشقَّت تک محدود رکھا، ان کی روح کو نہ سمجھا، روحِ صوم پر عمل نہ کیا اور نہ اسے اپنے اوپر طاری کیا، حقیقت صوم کو بھول کر محض صورت کو اپنا لیا تو ایسے روزے داروں کے لئے فرمانِ رسول ﷺ ہے''بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنہیں ان کے روزے سے بھوک (وپیاس ) کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے قائم اللّیل ایسے ہیں ، جنہیں رات کے قیام سے شب سے بیداری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ،(سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث:1690)''۔

صحابۂ کرام کا یہ معمول تھا کہ شعبان المعظم میں اپنے تمام دنیوی اُمور نمٹالیا کرتے اور رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی خود کو رضائے الٰہی کے لئے نیکیوں میں مصروف کرلیتے ۔اگرچہ آج بھی لوگ کثرت سے نیک اَعمال انجام دیتے ہیں ،لیکن اُن اَعمال میں اصلاح کی ضرورت اور گنجائش ابھی باقی ہے ۔ اللہ کی راہ میں خرچ کئے جانے والے مال کو دیتے وقت یہ احتیاط رکھنا ضروری ہے ،کہ وہ صحیح ہاتھوں تک پہنچ رہاہے ۔حدیثِ پاک میں روزہ دار کو افطار کرانے کے اجروثواب کو بیان فرمایاگیا ہے ،آج کل فیشن بن گیا ہے کہ سڑکوں، چوراہوں پر افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے، جہاں اکثر بے روزہ دار مستفید ہوتے ہیں۔

مساجد میں بھی جہاں افطار کا اہتمام ہوتاہے وہاں یہ دیکھنے میں آیا کہ اکثر اوباش قسم کے لوگ، بے روزہ دار، بے نمازی افطار کرتے ہیں اور جب نماز کاوقت ہوتاہے، تو منہ صاف کرتے ہوئے یہ مسجدوں سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں ۔اکثر فٹ پاتھوں اور چوراہوں پر لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے، یہ رَوِش یوں بھی اَخلاقی طور پر درست نہیں کہ آپ لوگوں کے اندر سے خودداری ختم کرکے اُنہیں بھکاری بنارہے ہیں۔


یہی رقم آپ اُن ضرورت مندوں تک ،جو سفید پوش بھی ہیںاور اپنی ضرورتوںکے لئے کسی کے سامنے دستِ سوال دراز بھی نہیں کرتے ،اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کی یہی نشانی بتائی ہے کہ وہ لوگوں سے گڑگڑاکر سوال نہیں کرتے :''(خیرات) اُن فقراء کاحق ہے جو اللہ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیئے گئے ہیں وہ(امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث زمین میں چل پھر نہیں سکتے ،اُس کے (زہداً )طمع سے باز رہنے کے باعث نادان انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے ،تم اُنہیں اُن کی صورت سے پہچان لوگے ، وہ لوگوں سے بالکل سوال نہیں کرتے کہ کہیں(مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے ،تم جو مال بھی خرچ کرو،توبے شک اللہ اُسے خوب جانتاہے ، (البقرہ:273)''۔

مختلف شعبوں سے وابستہ مالکان کے لئے بہترتو یہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہوئے اُنہیں مراعات دیں ،اُن کے لئے افطار وسحری کا اہتمام کریں ،راشن وغیرہ کی تقسیم سڑکوں ،فٹ پاتھوں پر کرنے کے بجائے اپنے مستحق ملازمین کو دیں ،تاکہ اُن کی ضروریات پوری ہوں اور وہ مالک کے ساتھ اَخلاص اور وفاداری نبھائیں۔ یہی حال زکوٰۃ کی تقسیم کا ہے ،اسلام نے تو پہلا حق اُن رشتے داروں کا بیان کیا،جو محتاج اور مسکین ہیں ،اُنہیں دینے کا دوہرا ثواب ہے ،جبکہ ہمارے یہاں سیٹھ صاحبان نمودونمائش کی خاطر زکوٰۃکی مَد میں راشن تقسیم کرتے ہیں ،یہ نظام شفاف نظر نہیں آتا ،آپ دیکھیں گے کہ اُن لائنوں میں پیشہ وَر بھکاری ہی نظر آتے ہیں، کوئی مُعزز یا سفید پوش آدمی نظر نہیں آتا ،اِس نظام میں اِصلاح کی ضرورت ہے۔ گذشتہ سالوں میں راشن تقسیم کرتے ہوئے بھگڈر کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتیں قابلِ توجہ اور لمحۂ فکریہ ہیں۔

یاد رکھئے! بعض مقام،بعض ساعات حرمت والی ہوتی ہیں ،گناہ توگناہ ہے ،گھر میں ہو تب بھی ،مسجد میں ہو تب بھی ،لیکن ایک فرق ہے ،کہ اگر آپ مسجد میں کھڑے ہوکر جھوٹ بولیں ،تو آپ نے دوگناہ کئے ،ایک جھوٹ بولنے کا، دوسرا مسجد کی حرمت اوراُس کے تقدُّس کو ماپال کرنے کا ۔مارکیٹ میں جھوٹ بولا تو کسی مُقدّس مقام کی بے حرمتی نہیں کی ،لیکن جھوٹ کا گناہ ملے گا ۔حدیث پاک میں آتاہے کہ اللہ اُس شخص سے ناراض ہوتاہے ،جو قبرستان میں قہقہہ لگائے ۔ قہقہہ لگانا ویسے بھی اچھی بات نہیں ،دوستوں کی محفل میں ،کسی بیٹھک میں قہقہہ لگایا ،الگ بات ہے ۔مسجد کی باجماعت نماز اور گھر کی نماز کے ثواب میں بڑا فرق ہے۔

اِسی طرح خطبہ کی حدیث میں بیان فرمایا:''جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضااوراُس کا قُرب حاصل کرنے کے لئے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنّت یا نفل) اداکرے گا ،تو اس کو دوسرے مہینے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اوراس مہینے میں فرض اداکرنے کا ثواب دوسرے مہینوں کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا ''۔یعنی رمضان المبارک میں نفلی عبادت کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70 فرضوں کے برابر ملے گا۔ اِس مہینے کا استقبال یہی ہے کہ ہم غور کریں کہ وہ گناہ جن میں ہم سارا سال مبتلا رہے، رمضان المبارک میں ہم اُن گناہوں کا اعادہ نہ کریں ۔

رمضان ''رَمْضٌ'' سے مُشتق ہے ،معنی ہیں :''جلادینا '' ۔مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:'' رمضان ایک بھٹی ہے ،جیسے کہ بھٹی گندے لوہے کو صاف اور صاف لوہے کو مشین کا پرزہ بناکر قیمتی کردیتی ہے ،سونے کو زیوربناکر استعمال کے لائق کردیتی ہے ،ایسے ہی ماہِ رمضان گنہگاروں کوپاک کرتاہے اور نیک لوگوں کے درجے بڑھاتاہے ،(تفسیرِ نعیمی ،جلد2،ص:208)''۔کیا وجہ ہے کہ ہم پورے ماہ کے روزے رکھنے کے باوجود بھی اَخلاقی اَقدار کی پاکیزگی اور بلندی کے حامل نہیں ہوتے بلکہ صفاتِ رذیلہ ،حرص وطمع اوردولت کی ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے۔

گھر ،بازار ،دفاتر ،سڑکوں اور عوامی اجتماعات کے مقامات پر صبر ،برداشت ،حوصلہ وہمت سے عاری ،بات بات پر جھگڑنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ایسے روزے اور ایسے روزے دار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ نہیں پاتے۔ حدیث پاک میں ہے : '' حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے جھوٹی بات کو نہیں چھوڑااور اس کے تقاضے پر عمل کرنے کو نہیں چھوڑا اور جہل (کے تقاضے پرعمل کرنے) کو نہیں چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے،(صحیح بخاری :6057)''۔

ہماری معاشرتی پستی کا یہ عالم ہے کہ اِس مہینے میں ہم اشیاء خورونوش کی قیمتیں آسمان تک پہنچادیتے ہیں ،ہر طرف لوٹ مار ،ذخیرہ اندوزی اور گرانی کا سماں نظر آتا ہے اور معاشرے کے ہر فرد کی یہی سوچ نظر آتی ہے کہ اِس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روپے کمانا ہے، نیکیاں کمانے کی فکر کسی کو نہیں ہوتی، یہ سوچ اتنی عام ہوچکی ہے کہ دینی مزاج کے حامل افراد بھی اِسی رَوِش پر چلتے نظر آتے ہیں جبکہ عام مشاہدہ یہ ہے کہ جب کسی غیر مسلم کمیونٹی کا مذہبی تہوار آتا ہے توغیر مسلم کمیونٹی کے لوگ اپنے ہم مذہبوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں اور سستی اشیاء فراہم کرتے ہیں ۔کرسمس کے موقع پر عیسائی کمیونٹی کے خصوصی سیل اسٹال لگتے ہیں ،جہاں کم قیمتوں پر خصوصی ڈسکاؤنٹ دیئے جاتے ہیں۔کیا مسلم کمیونٹی ہی دنیا کی دولت کے پیچھے اندھی ہے ،یادرکھئے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:(دنیا مردار کی مانند ہے اور اس کا طالب کتاہے )،(کشف الخفا للعجلونی:1313)''۔

اِس مہینے کو غمخواری کا مہینہ بناکر معاشرے کے پسماندہ طبقات سے وابستہ لوگوں کو ڈھارس وہمت بندھائی کہ غم نہ کرو ۔روزے کی فرضیت کا دوسرا بنیادی مقصد معاشرے کے متمول اور کثیرالمال طبقے کو یہ احساس دلانا ہے کہ تمہارے اطراف تمہارے وہ بھائی بھی ہیں جو تمہاری توجہ کے منتظر ہیں ، اُن کی آزمائش کے ساتھ تمہاری آزمائش کا مرحلہ بھی ہے کہ تم ہمارے ہی دیئے ہوئے مال سے کس قدر ہماری راہ میں خرچ کرتے ہو ۔بھوک واَفلاس دنیاوی عارضی کیفیات ہیں ،لیکن حدیث پاک میں مُفلس کی تعریف یوں فرمائی''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ کرام سے) دریافت فرمایا: جانتے ہو !مفلس کسے کہتے ہیں؟،صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! جس کے پاس درہم یا مال ودولت نہ ہو ،آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے ،جسے روزِ قیامت (اِس حال میں ) لایاجائے گا کہ اُس کے (نامۂ اعمال میں) ،نماز،روزے بھی ہوں گے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا ثواب بھی درج ہوگا ،لیکن اُس نے مخلوق پر ظلم وزیادتی کی ہوگی ،کسی کوگالی دی ہوگی ،کسی پر بہتان لگایاہوگا ،کسی کا مال ہڑپ لیاہوگا ،کسی کا (ناحق)خون بہایا ہوگا،پس اُس کی یہ نیکیاں اُس سے لے کر متاثرہ شخص کو دے دی جائیں گی ،جب نیکیاں ختم ہوجائیں گی ،تو اُس شخص کے گناہ اِس کے کھاتے میں ڈال دیئے جائیں گے اور پھر اِس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا ،(سنن ترمذی،رقم الحدیث: 2418) ''۔

نماز ،زکوٰۃ ،روزے ،حج اور دیگر تمام عبادات اللہ وحدہٗ لاشریک کے لئے ہیں ،لیکن اِن کی صحت ودرستگی کی بنیاد پر اُخروی معاملات کا مَدَار ہے، ہمیں اپنے ہرعمل کا محاسبہ کرنا ہوگا ،یوں نہ ہوکہ ہم اپنی غفلت وکوتاہی کے سبب اُخروی مُفلسین کی صف میں شامل ہوچکے ہوں ،جس کا ہمیں احساس بھی نہیں اور بعد کو اِس کے تدارک کی کوئی سبیل بھی باقی نہ رہے ۔
Load Next Story