کیا آپ بھی اپنے پین اور پینسل کو پاﺅں لگاتے ہیں
پین اور پینسل وغیرہ سے لے کر ساری کتابیں اور کاپیوں تک، یہ سب ہمیں علم سکھاتی ہیں
اسکول کی بینچ یا ڈیسک پر بیٹھے ہوئے اکثر آپ کا پین، پینسل، شاپنر یا ربڑ (ریزر) وغیرہ نیچے گر جاتا ہوگا اور ایسا بھی ہوتا ہوگا کہ جب آپ اسے اٹھانے کے لیے نیچے دیکھتے ہوں گے تو وہ آپ کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہوگا، تو ایسی صورت حال میں آپ اُسے کیسے اٹھاتے ہیں؟
کیا آپ اسے اپنے قریب کرنے کے لیے اپنا پیر آگے بڑھاتے ہیں؟ اور پھر اپنے پاﺅں کی مدد سے اُسے اپنے پاس کر کے، پھر اٹھاتے ہیں؟
اگر ایسا ہے تو آج کے بعد ہر گز ایسا نہیں کیجیے گا!
یہ نہایت بری اور غلط بات ہے، کیوں کہ پین اور پینسل وغیرہ سے لے کر ساری کتابیں اور کاپیوں تک، یہ سب ہمیں علم سکھاتی ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے ان کا احترام اور عزت کرنا لازمی ہے۔ ہمیں کسی صورت میں بھی انھیں اپنا پاﺅں یا جوتا وغیرہ نہیں لگنے دینا چاہیے، اگر کبھی یہ نیچے گر جائیں تو ہمیشہ عزت اور احترام سے ہاتھ سے جھک کر اٹھانا چاہیے۔ چاہے یہ ہماری پہنچ سے کتنے ہی دور جا کر کیوں نہ گرے ہوں۔
اکثر بچے صرف انھی کتابوں اور کاپیوں کا احترام کرنا ضروری سمجھتے ہیں، کہ جن پر مقدس تحریریں وغیرہ لکھی ہوئی ہوتی ہیں، جب کہ دیگر کتابیں اور کاپیوں کا خیال نہیں کرتے۔ آج کل بہت سے بچے اپنے بستے تک کو اپنے پیروں کے پاس اس طرح رکھ لیتے ہیں کہ ان کے پیر یا جوتے بستے کو لگ رہے ہوتے ہیں۔ یہ تو نہایت بے ادبی کی بات ہے۔ ہمارے لیے ہر کتاب، کاپی یہاں تک کہ کوئی کاغذ تک کا احترام کرنا ضروری ہے، چاہے اس پر کچھ بھی نہ لکھا ہوا ہو، کیوں کہ یہ سب کسی بھی استاد کی طرح ہمیں تعلیم پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔
ہمارے بچپن میں یہ سب باتیں شروع ہی سے سکھا دی جاتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہمارا پاﺅں کسی بھی قسم کی کتاب کو لگ جائے یا ہمارا قلم (پین، پینسل وغیرہ) یا اور بھی کوئی اسکول کی چیز نیچے گرے اور ہم اسے پیر سے کھسکا کر اپنے پاس کریں۔
ہم تو اپنی ڈیسک کے نیچے بیٹھ کر اسے ڈھونڈتے تھے اور چاہے وہ ہم سے کتنی ہی دور کیوں نہ ہو، ہم اسے ہمیشہ اپنے ہاتھ سے جھک کر اٹھاتے۔ اس کوشش میں کبھی ہمارے یونیفارم پر بھی مٹی لگ جاتی تھی، لیکن ہمارے لیے یہ کرنا ضروری تھا۔
اس لیے ہماری اس کوشش میں چاہے ہمارا یونیفارم تھوڑا سا خراب ہو جائے، کوئی بات نہیں، ہم اسے جھاڑ کر صاف کرلیں، لیکن کسی بھی صورت میں اپنے قلم کے ادب اور عزت میں کمی نہ آنے دیں اور ایسے ہی کسی بھی کتاب، کاپی، کاغذ یا بستے کو بہت احترام سے رکھیں، تاکہ ہمارے رویوں سے بھی پتا چلے کہ ہم واقعی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
کیا آپ اسے اپنے قریب کرنے کے لیے اپنا پیر آگے بڑھاتے ہیں؟ اور پھر اپنے پاﺅں کی مدد سے اُسے اپنے پاس کر کے، پھر اٹھاتے ہیں؟
اگر ایسا ہے تو آج کے بعد ہر گز ایسا نہیں کیجیے گا!
یہ نہایت بری اور غلط بات ہے، کیوں کہ پین اور پینسل وغیرہ سے لے کر ساری کتابیں اور کاپیوں تک، یہ سب ہمیں علم سکھاتی ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے ان کا احترام اور عزت کرنا لازمی ہے۔ ہمیں کسی صورت میں بھی انھیں اپنا پاﺅں یا جوتا وغیرہ نہیں لگنے دینا چاہیے، اگر کبھی یہ نیچے گر جائیں تو ہمیشہ عزت اور احترام سے ہاتھ سے جھک کر اٹھانا چاہیے۔ چاہے یہ ہماری پہنچ سے کتنے ہی دور جا کر کیوں نہ گرے ہوں۔
اکثر بچے صرف انھی کتابوں اور کاپیوں کا احترام کرنا ضروری سمجھتے ہیں، کہ جن پر مقدس تحریریں وغیرہ لکھی ہوئی ہوتی ہیں، جب کہ دیگر کتابیں اور کاپیوں کا خیال نہیں کرتے۔ آج کل بہت سے بچے اپنے بستے تک کو اپنے پیروں کے پاس اس طرح رکھ لیتے ہیں کہ ان کے پیر یا جوتے بستے کو لگ رہے ہوتے ہیں۔ یہ تو نہایت بے ادبی کی بات ہے۔ ہمارے لیے ہر کتاب، کاپی یہاں تک کہ کوئی کاغذ تک کا احترام کرنا ضروری ہے، چاہے اس پر کچھ بھی نہ لکھا ہوا ہو، کیوں کہ یہ سب کسی بھی استاد کی طرح ہمیں تعلیم پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔
ہمارے بچپن میں یہ سب باتیں شروع ہی سے سکھا دی جاتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہمارا پاﺅں کسی بھی قسم کی کتاب کو لگ جائے یا ہمارا قلم (پین، پینسل وغیرہ) یا اور بھی کوئی اسکول کی چیز نیچے گرے اور ہم اسے پیر سے کھسکا کر اپنے پاس کریں۔
ہم تو اپنی ڈیسک کے نیچے بیٹھ کر اسے ڈھونڈتے تھے اور چاہے وہ ہم سے کتنی ہی دور کیوں نہ ہو، ہم اسے ہمیشہ اپنے ہاتھ سے جھک کر اٹھاتے۔ اس کوشش میں کبھی ہمارے یونیفارم پر بھی مٹی لگ جاتی تھی، لیکن ہمارے لیے یہ کرنا ضروری تھا۔
اس لیے ہماری اس کوشش میں چاہے ہمارا یونیفارم تھوڑا سا خراب ہو جائے، کوئی بات نہیں، ہم اسے جھاڑ کر صاف کرلیں، لیکن کسی بھی صورت میں اپنے قلم کے ادب اور عزت میں کمی نہ آنے دیں اور ایسے ہی کسی بھی کتاب، کاپی، کاغذ یا بستے کو بہت احترام سے رکھیں، تاکہ ہمارے رویوں سے بھی پتا چلے کہ ہم واقعی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔