وہ قیدی جو بھوک ہڑتال کر سکتے ہیں

پاکستانی صحافت میں مزاحمت کے پہلے اور آخری تاج دار آغا شورش کاشمیری اس کتاب کے مصنف ہیں۔

farooq.adilbhuta@gmail.com

چند روز ہوتے ہیں، اڈیالہ جیل سے بھوک ہڑتال کی دھمکی آئی پھر دم توڑ گئی

وہ آئے بزم میں اتنا تو فکر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

ایسا کیوں ہوا؟ یہ راز کوئی اور نہیں کھول سکتا، صرف آغا شورش کاشمیری جیسی بہادر شخصیت ہی اس باب میں بات کرنے کا حق رکھتی ہے۔ چند روز ہوتے ہیں، ایک کتاب 'موت سے واپسی'موصول ہوئی۔ پاکستانی صحافت میں مزاحمت کے پہلے اور آخری تاج دار آغا شورش کاشمیری اس کتاب کے مصنف ہیں۔ ہر لکھنے پڑھنے والے کے پاس کتابوں کا تانتا بندھا رہتا ہے لیکن کوئی کوئی کتاب ایسی ہوتی ہے جسے وصول کرنا اعزاز ہوتا ہے۔ آغا صاحب کی کتاب ان میں سے ایک ہے۔ میرے لیے باعث عزت ہے کہ آغا صاحب کے صاحب زادے جناب مسعود شورش نے میرا نام لکھ کر اس پر دستخط کیے۔ عزیز دوست علامہ عبد الستار عاصم نے اسے بھیجنے کا اہتمام کیا۔ میں دونوں دوستوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں اور علامہ صاحب کا اس لیے بھی کہ انھوں نے اس بھولی بسری کتاب کو دوبارہ شائع کر کے ہمیں اپنی تاریخ کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں اپنے حال کو سمجھنے کا موقع فراہم کیاہے۔

یہ ایوب عہد کی بات ہے جب آغا صاحب کو ختم نبوت کے موضوع پر ایک خطاب کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور ان کے مقبول عام ہفت روزہ 'چٹان ' کا ڈیکلریشن منسوخ کر کے پریس کو ضبط کر لیا گیا۔ یہ کتاب اسیری کے ان ہی دنوں کی روداد ہے اور پاکستان کی تاریخ، آمریت کے مزاج اور ظلم و ستم کے طور طریقوں کو سمجھنے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا مطالعہ اُن نابغوں کے لیے بھی ناگزیر ہے جو انگلی کٹا کر شہدائے صحافت میں نام لکھوانے کے درپے ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ بتائے گا کہ آزادیٔ صحافت کیا ہوتی ہے اور اس کے لیے قربانی کیسے دی جاتی ہے۔ان سطور میں آغا شورش کاشمیری کی اِن قربانیوں کا ذکر بھی ہو گا لیکن اس وقت یہ ذکر ضروری ہے کہ بھوک ہڑتال کے لیے آغا صاحب کن اوصاف کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ اس اعتبار سے 'موت سے واپسی 'سیاسی قیدیوں کے لیے بھی نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ آغا صاحب لکھتے ہیں:

١۔ جن (قیدیوں) کا عزم پختہ ہو اور قوت ارادی مضبوط ہو۔
٢۔(جن کا) پیٹ کھانے پینے کا عادی نہ ہو۔
٣۔( انسان)حتی الامکان عیبوں سے پاک ہو۔
٤۔کوئی سچا نصب العین سامنے ہو ۔
٥۔ کوئی سا نشہ نہ (کرتا)ہو۔
٦۔جب ہڑتال کر لیں تو موت و حیات سے بے نیاز ہو جائیں۔

٧۔ حکام کی سختیوں کو جھیلنے کا حوصلہ ہو۔'

آغا صاحب کو ایوب خان کی جابرانہ حکومت کے دوران اپریل 1968 کو گرفتار کیا گیا اور 232 دن انھیں پس دیوار زنداں رکھا گیا۔ انھیں گرفتار کر کے فوری طور پر ڈیرہ اسماعیل خان جیل منتقل کر دیا گیا۔ قید و بند اور جیل کے ذکر پر عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پنجاب کی میانوالی جیل اور بلوچستان کی مچھ جیل ملک کی بدنام ترین جیلیں ہیں لیکن آغا صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے تجربے کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل سے بدتر کوئی جیل نہیں جس کا ماحول اور عملہ دونوں غیر انسانی مزاج رکھتے تھے۔

آغا صاحب نہایت پڑھے لکھے آدمی تھے جو نوجوان نہیں جانتے، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ان کا پرچہ ہفت روزہ ہونے کے باوجود ابلاغ کا ایک ایسا ذریعہ تھا جو ملک میں بڑی بڑی تحریکوں اور پاکستان کی پہلی اور بدترین آمریت کے خاتمے کی بنیاد بنا۔ اس اعتبار سے وہ جیل میں اچھی کلاس کے حق دار تھے۔ حالیہ دنوں میں کہیں ذکر ہوا ہے کہ جیل میں بی کلاس سے کوئی بڑی کلاس نہیں ہوتی لیکن آغا صاحب نے لکھا ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اے کلاس کے حق دار تھے اور کم از کم ان دنوں تو جیل میں اے کلاس ہوتی بھی تھی۔ انھیں ڈیرہ جیل میں سزائے موت کی کوٹھڑی میں بند کیا گیا اور ان کے ارد گرد منصوبہ بندی کے تحت ایسے غنڈے رکھے گئے جو کسی بھی وقت انھیں نقصان پہنچا سکتے تھے۔ آغا صاحب نے لکھا کہ ہے کہ اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر جنرل موسیٰ تھے جو ان کے مطابق سخت ظالم اور نہایت منتقم مزاج تھے۔ ایک بار ان تک جیل میں آغا صاحب کی صحت کے بارے میں رپورٹ پہنچی جس میں بتایا گیا تھا ذیابطیس اور تکلیفوں کی وجہ سے ان کی حالت نازک ہے۔ اگر انھیں فوری پر سہولتیں فراہم نہ کی گئیں تو کوئی حادثہ یقینی ہے۔ یہ فائل دیکھ انھوں نے اپنے نوٹ میں لکھا:

' Let this batered die'

آغا شورش کاشمیری ذیابطیس کے مریض تو تھے لیکن کیا وجہ تھی کہ وہ جیل میں بار بار بیمار پڑ جاتے تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب 'موت سے واپسی' میں لکھا ہے کہ اس کا سبب حکمرانوں کی اذیت پسندی اور سنگ دلی تھی۔ انھیں ایسا کھانا دیا جاتا جسے جانور بھی کھانا پسند نہ کرتے اور انھیں غیر انسانی ماحول میں رکھا جاتا۔ آغا صاحب اور ان کے احباب نے بار بار اس جانب حکومت کی توجہ مبذول کرائی لیکن ہر بار نتیجہ جنرل موسیٰ کے نوٹ جیسا نکلا اور انھوں نے آغا صاحب کو واقعتا مرنے کے لیے چھوڑ دیا تو ان کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ دنیا کی توجہ اس ظلم کی طرف مبذول کرانے کے لیے کوئی قدم اٹھائیں۔ انھوں نے بھوک ہڑتال کر دی۔ نظر بندی کے اس عرصے میں انھیں چار مرتبہ بھوک ہڑتال کرنا پڑی جو مجموعی طور پر 51 روز تک جاری رہی۔ بھوک ہڑتال کے عرصے میں انھوں نے سوائے پانی کے کچھ اور کچھ استعمال نہیں کیا۔ ایک بار جب انھیں بھوک ہڑتال کے دوران کراچی کے ایک اسپتال میں منتقل کیا گیا تو کمزوری سے ان کی حالت بہت بگڑ گئی، ان کی اہلیہ نے کہا کہ یہاں آپ کے اور میرے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ میں آپ کو انار کا جوس بنا دیتی ہوں۔ آغا صاحب نے یہ کہہ کر اپنی اہلیہ کی یہ تجویز مسترد کر دی کہ کوئی اور نہیں دیکھ رہا لیکن اللہ تو دیکھ رہا ہے نا۔

آغا شورش کاشمیری نے سیاسی قیدیوں کے ساتھ جس قسم کے انسانیت سوز کا سلوک ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے، اس کی مثال آگے پیچھے کسی دور میں نہیں ملتی سوائے ماضی قریب کے جس میں خواتین قیدیوں کو جہاں بند کیا جاتا، وہاں خفیہ کیمرے لگا دیے جاتے۔ جو سیاسی قیدی زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے قابل نہ ہوتا، اسے کرسی سے محروم کر دیا جاتا۔ اگر کوئی قیدی ذیابطیس کا مریض ہوتا تو اسے بند کر کے زمین پر چینی بکھیر دی جاتی۔ اس قسم کی اذیتیں دینے کے لیے ایوب خان کا طرز حکمرانی اور جنرل موسیٰ جیسی سنگ دلی درکار ہے۔

ایوب خان کے زمانے میں صرف آغا شورش کاشمیری نے ہی تو قید نہیں کاٹی، باچا خان، مولانا مودودی، ذوالفقار علی بھٹو اور بلوچ قوم پرستوں سمیت بہت سے دوسرے سیاسی قیدی بھی تھے۔ ان قیدیوں میں شورش کاشمیری اس لیے نمایاں تھے کہ وہ جیل میں سخت اذیتوں اور تکالیف کے باوجود اپنی الگ دنیا بسا لیتے، صحافی کی حیثیت سے اطلاعات کے حصول اور ان کی ترسیل کا خفیہ نظام وضع کرتے، اس طرح کہ حکمران ان سے عاجز آ کر ان کی جان کے دشمن بن جاتے پھرانھیں بھوک ہڑتال کرنی پڑتی۔

اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھوک ہڑتال محض دبا ؤکا ایک ہتھ کنڈہ نہیں بلکہ یہ انسان کی قوت کردار کا مظاہرہ ہے، کوئی کمزور اور مختلف علتوں کا شکار شخص اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایسے لوگوں کے لیے تو بالکل ہی ممکن نہیں جن کی روزانہ کی خوراک دیسی گھی میں پکا ہوا دیسی مرغ ہو، قید و بند کے دوران بھی ان کے لیے میوہ جات اور دیگر نعمتوں کی فراوانی ہو جن کی رہائش کے لیے آٹھ دس کمرے گرا کر نیاکمرہ تعمیر کیا جائے اور ان کی چہل قدمی کے لیے خصوصی طور پر طویل کاریڈور بنوائے جائیں۔ بات یہیں تک رک نہ جائے بلکہ ان تمام نعمتوں کی فراوانی کے باوجود ان سے مل کر نکلنے والا دہائی دے کہ ہائے، میرے میاں یا بھائی کے اعصاب کمزور ہو چکے ہیں، اس کے عضلات(مسلز )ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاست میں ایسی نازک اندامی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ایسے لوگ بھوک ہڑتال جیسے مشکل احتجاج کا عزم بھی کر سکتے ہیں۔

بات دور جا نکلی،' موت سے واپسی'گو پچپن ساٹھ برس پرانی کتاب ہے۔ عبد الستار عاصم نے اسے ایک بار پھر شائع کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے سیاسی جد وجہد کے آداب معلوم ہوتے ہیں، سنگ دل حکمرانوں کی کج ادائیوں کے بارے میں معلوم ہوتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ غیرت مند سیاسی قیدی آزمائش کی کٹھالی سے کس شان سے گزراکرتے ہیں۔
Load Next Story