سیدنا امام حسینؓ
میدانِ کربلا کے عظیم شہسوار
نام و نسب
آپ کا نام نامی اسم گرامی حسین، کنیت ابوعبداللّہ، لقب ''سیدا شباب اہل الجنہ'' (جنت کے نوجوانوں کے سردار) والد کا نام علی ؓدادا کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہؓ ہے۔ والد کی طرف سے سلسلۂ نسب یہ ہے: ''حسین ؓبن علیؓ بن ابی طالب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان...الخ'' (البدایہ والنہایہ)
ولادت باسعادت
امام حسین رضی اللہ عنہ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف روایات مروی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ آپؓ مؤرخہ ۵/شعبان المعظم ۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۲۹) اور دوسری روایت حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ آپؓ ۶ھ کے پانچ (۵) ماہ اور پندرہ (۱۵) یوم بعد پیدا ہوئے، لیکن ان دونوں روایات میں پہلی روایت زیادہ صحیح ہے اور اسی پر اکثر مؤرخین کا اتفاق ہے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہؓ) اور اسی کو حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے شرح بخاری میں اختیار فرمایا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری) ولادت کے بعد آپؓ کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ ﷺ نے انہیں شہد چٹایا، اُن کے دہن مبارک کو اپنی زبان مبارک سے تر فرمایا، اُن کو دعائیں دیں اور ''حسین'' نام رکھا۔ (المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ: ص۳۵۸)
ایک نیک خواب
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی مشہور صحابیہ حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا نے امام حسینؓ کے حمل کے زمانہ میں ایک عجیب و غریب خواب دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ کے بدن مبارک سے ایک ٹکڑا کاٹ کر حضرت اُم الفضلؓؓ کی گود میں ڈالا گیا ہے، یہ خواب دیکھ کر حضرت اُم الفضلؓؓ چونک کر رہ گئیں، لیکن صبح کو جب آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اپنا خواب بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ''تم نے بہت مبارک خواب دیکھا ہے، اور اس کی تعبیر یہ ارشاد فرمائی کہ: ان شاء اللہ! (حضرت) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے یہاں لڑکا پیدا ہوگا اور وہ تمہاری گود میں پرورش پائے گا۔'' چناںچہ اِس خواب کے بعد حضرت فاطمہؓ کے بطن سے سیدنا امام حسینؓ کا تولد ہوا اور آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی کے عین مطابق آپؓ کو حضرت اُم الفضلؓؓ کی گود میں پرورش کے لیے دیا گیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
حلیہ مبارک
امام ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ: ''سیدنا امام حسینؓ کا جسم مبارک نبی اکرم ﷺ کے جسم مبارک کے ساتھ مشابہت رکھتا تھا۔'' (البدایہ والنہایہ: ۶/۱۵۰) چناںچہ حضرت علیؓ سے بھی روایت ہے کہ: ''امام حسنؓ کا جسم مبارک نصف اعلیٰ میں سر سے لے کر سینے تک آنحضرتﷺ کے بہت زیادہ مشابہ تھا ، اور امام حسینؓ کا جسم مبارک نصف اسفل میں سینہ سے لے کر پاؤں تک آنحضرت ﷺ کے بہت زیادہ مشابہ تھا۔ (جامع ترمذی)
فضائل و مناقب
حضورِ اقدس ﷺ نے امام حسینؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: ''حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔'' (کنز العمال: ۶/ ۲۲۳) حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ: ''ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت حسن اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں آپ ﷺ کے صدر (سینہ) مبارک پر چڑھ کر کھیل رہے تھے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! (ﷺ) کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت کرتے ہیں؟''،''(آپؐ نے ) فرمایا: کیوں نہیں، یہ دونوں دُنیا میں میرے پھول ہیں۔'' اور حارث (حضرت) علیؓ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ''حسن و حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔'' ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ امام حسینؓ کے رونے کی آواز سنی تو اُن کی والدہ (حضرت فاطمہؓ) سے فرمایا کہ: ''کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اِن کا رونا مجھے اندوہ گیں کرتا ہے؟۔'' (معجم طبرانی)
محاسن و کمالات
امام حسینؓ کو اللہ تعالیٰ نے حسن ظاہری کے ساتھ ساتھ حسن باطنی سے بھی وافر حصہ عطاء فرما رکھا تھا۔ چناںچہ ارباب تاریخ و سیر نے لکھا ہے کہ آپؓ بڑے عبادت گزار تھے، نماز، روزہ اور حج کا بہت اہتمام فرماتے تھے، آپؓ نے بیس (۲۰) حج پیادہ پا (پیدل سفر کرکے) کیے تھے۔ (الجوہرۃ: ۲/۲۱۳) عاجزی، انکساری اور فروتنی آپؓ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوکر کہیں سے گزر رہے تھے، غرباء کی ایک جماعت نظر آئی جو زمین پر بیٹھی روٹی کے ٹکڑے کھا رہی تھی، آپؓ نے اُن کو سلام کیا، اُن لوگوں نے کہا: ''رسول اللہﷺ کے شہزادے! تشریف لائیے اور ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے! '' آپؓ گھوڑے سے اُتر کر اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے اور اُن کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگئے۔ اِس موقع پر آپؓ نے یہ آیت مبارک تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہے: ''اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔'' (سورۃ النحل: ۲۳) امام حسینؓ جب ان لوگوں کی روٹی کے ٹکڑوں پر شرکت فرماچکے اور فارغ ہوئے تو آپؓ نے فرمایا: ''بھائیو! آپ نے مجھے دعوت دی، میں نے قبول کیا، اب آپ سب میری دعوت قبول کیجیے! اُن لوگوں نے بھی دعوت قبول کی، اور آپ ؓکے مکان پر آئے، جب سب آکر بیٹھے تو آپؓ نے فرمایا: ''رباب! لانا جو بھی بچا ہوا محفوظ رکھا ہے۔'' (الجوہرۃ: ۲/۲۱۳، ۲۱۴)
شرف صحابیت
امام حسینؓ پیدائش کے وقت سے لے کر آنحضرت ﷺ کے آخری لمحۂ حیات تک خاص محبوب اولاد اور شرفِ صحبت سے مشرف رہے، جس کی مدت حافظ ابن کثیر ؒ کی تصریح کے مطابق کم و بیش پانچ سال بنتی ہے۔ (البدایہ والنہایہ: ۸/۱۵۰) لیکن اِس کے باوجود اُن کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انہوں نے باوجود اپنی اس کم سنی کے کئی احادیث نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے براہِ راست سن کر بیان فرمائی ہیں۔ (البدایہ والنہایہ: ۸/۲۵۷) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمایئے!: (سنن ابن ماجہ: ۱/۱۱۶، مسند امام احمد، تہذیب التہذیب: ۲/۳۴۵،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب: ۱/۱۴۵)
شعر و شاعری
حضرت حسینؓ عرب کے فصیح و بلیغ اور ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ آپؓ کے اشعار آج کل کے عام شعراء کے اشعار کی طرح عشق و محبت، موج ومستی اور دُنیوی لذت و سرور وغیرہ جیسی فانی لذتوں سے نہیںبلکہ نیک و صالح اور متقی و پرہیزگار فنا فی اللہ شعراء کی طرح خشیت و للہیت، تقویٰ و طہارت، زہد و عبادت، علو ہمت، ترک دُنیا اور فکرآخرت جیسے گراں قدر مواعظ و نصائح سے مملو ہیں۔ چناںچہ بطورِ نمونہ کے آپؓ کے بعض اشعار کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے، اگرچہ اِس کا حقیقی مزہ عربی زبان ہی میں پڑھنے سے نصیب ہوتا ہے: (۱) اگر یہ بات صحیح ہے کہ دُنیا کی نعمتیں ایک نفیس چیز شمار کی جاتی ہیں تو دارِآخرت میں جو ثواب ملے گا وہ بہت اعلیٰ اور بہت بہتر ہے۔ (۲) اور چوں کہ یہ تمام بدن انسانوں کی فنا ہی کے لیے بنائے گئے ہیں اس لیے انسان کا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے فنا ہوجانا سب سے افضل ہے۔ (۳) اور چوں کہ تمام روز یاں اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمادی ہیں اس لیے روزی کمانے کے سلسلے میں ہلکی پھلکی کوشش کرنا انسان کے لیے بہت ہی زیادہ مناسب ہے۔
بیعت یزید
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید نے اپنے لیے لوگوں سے بیعت لینے کا انتظام شروع کیا اور اپنے قرب و جوار کے تمام علاقوں میں لوگوں کو اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کی دعوت پر آمادہ کیا۔ چناںچہ تمام علاقوں کے تقریبا ًسبھی لوگوں نے یزید کی بیعت قبول کرلی اور اُس کے ہاتھ پر بیعت کرلی، سوائے چند حضرات (حضرت عبد اللہ بن عمر، ؓ حضرت حسین بن علی،ؓ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ) کے کہ اُنہوں نے یزید کی بیعت کو قبول نہیں کیا ، اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے صاف انکار کردیا۔
چناںچہ جب یزید اور اُس کے عمال کی طرف سے بیعت طلب کرنے میں سختی ہوئی تو امام حسینؓ مکہ مکرمہ میں آکر پناہ گزین ہوگئے۔ اُدھر اہل کوفہ نے آپؓ کی طرف ڈیڑھ سو کے قریب خطوط لکھ کر، قسمیں کھاکر اور طرح طرح کی ہم دردی و خیرخواہی کے دعوے کرکے آپؓ کو کوفہ بلالیا، اور آپؓ مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف چل دیے۔
کوفہ کی طرف روانگی
کوفہ میں جب ابن زیاد کو امام حسینؓ کی کوفہ کی طرف روانگی کی اطلاع ملی تو اس نے مقابلے کے لیے پیشگی ہی اپنا ایک سپاہی قادسیہ کی طرف روانہ کردیا۔ امام حسینؓ جب مقام زیالہ پر پہنچے تو آپ کو یہ خبر ملی کہ آپ کے رضاعی اور چچا زاد دونوں بھائیوں کو اہل کوفہ نے قتل کردیا ہے۔ اب امام حسینؓ نے اپنے تمام ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکا دیا ہے اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے ہیں۔
امام حسینؓ اور ان کے ساتھی ابھی راستے میں ہی تھے کہ دوپہر کے وقت دور سے کچھ سائے حرکت کرتے نظر آئے۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ گھڑسوار ہیں۔ اس لیے امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑی کے قریب پہنچ کر محاذِجنگ بنالیا۔
ابھی یہ حضرات محاذ کی تیاری میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھڑسواروں کی فوج حُر بن یزید کی قیادت میں مقابلہ پر آگئی اور ان کے مقابلہ کے لیے آکر پڑاؤ ڈال دیا۔ حر بن یزید کو حصین بن نمیر نے ایک ہزار گھڑسواروں کی فوج دے کر قادسیہ بھیجا تھا، یہ اور اس کا لشکر آکر امام حسینؓ کے مقابل ٹھہر گئے ۔ امام حسینؓ نے حر بن یزید سے فرمایا: ''تمہارا کیا ارادہ ہے؟۔'' حر بن یزید نے کہا: ''ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آپ کو ابن زیاد کے پاس پہنچادیں۔'' امام حسینؓ نے فرمایا: ''میں تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جاسکتا ۔'' حر بن یزید نے کہا: ''اللہ کی قسم ! پھر ہم بھی آپ کو یہاں تنہا نہ چھوڑیں گے۔''
یوم عاشورہ (دس محرم)
چناںچہ دسویں محرم جمعہ یا ہفتے کے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی عمرو بن سعد یزیدی لشکر لے کر امام حسینؓ کے سامنے آگیا۔ اس وقت امامؓ حسینؓ کے ساتھ کل بہتر (۷۲) اصحاب تھے، جن میں سے بتیس (۳۲) گھڑ سوار اور چالیس (۴۰) پیادہ پا تھے۔ چناںچہ آپ ؓنے بھی اس کے مقابلے کے لیے اپنے اصحاب کی صف بندی فرمالیلڑائی شروع ہوگئی اور گھمسان کا رن پڑنے لگا۔
شہادت با سعادت
اس کے بعد شمر ذی الجوشن لشکر کے ساتھ امام حسینؓ کی طرف آگے بڑھا، اس وقت آپؓ پیاس کی شدت اور زخموں سے چور ہوچکے تھے، اس کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اور جس طرف سے آپ آگے بڑھتے یہ سب کے سب وہاں سے بھاگتے نظر آتے تھے ۔ شمر نے جب یہ دیکھا امام حسینؓ کو قتل کرنے میں ہر شخص لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو اُس نے آواز لگائی کہ :''سب یک بارگی ان پر حملہ کردو۔'' اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور نیزوں اور تلواروں سے یک بارگی امام حسینؓ پر حملہ کردیا اور اس طرح ان ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے کرتے آخر کار آپ نے جا م شہادت نوش فرمالیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
شمر ذی الجوشن نے خولی بن یزید سے کہا کہ ان کا سر بدن سے جدا کردو ! مگر آگے بڑھتے ہی اس کے ہاتھ کانپ کر رہ گئے، پھر ایک اور بدبخت سنان بن انس آگے بڑھا اور اس نے آپؓ کا سر بدن سے جدا کردیا۔
بعد میں جب آپ کی لاش کو دیکھا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر تینتیس ( ۳۳) زخم نیزوں کے، چونتیس (۳۴) زخم تلواروں کے اور متعدد زخم تیروں کے بھی تھے۔
آپ کا نام نامی اسم گرامی حسین، کنیت ابوعبداللّہ، لقب ''سیدا شباب اہل الجنہ'' (جنت کے نوجوانوں کے سردار) والد کا نام علی ؓدادا کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہؓ ہے۔ والد کی طرف سے سلسلۂ نسب یہ ہے: ''حسین ؓبن علیؓ بن ابی طالب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان...الخ'' (البدایہ والنہایہ)
ولادت باسعادت
امام حسین رضی اللہ عنہ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف روایات مروی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ آپؓ مؤرخہ ۵/شعبان المعظم ۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۲۹) اور دوسری روایت حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ آپؓ ۶ھ کے پانچ (۵) ماہ اور پندرہ (۱۵) یوم بعد پیدا ہوئے، لیکن ان دونوں روایات میں پہلی روایت زیادہ صحیح ہے اور اسی پر اکثر مؤرخین کا اتفاق ہے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہؓ) اور اسی کو حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے شرح بخاری میں اختیار فرمایا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری) ولادت کے بعد آپؓ کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ ﷺ نے انہیں شہد چٹایا، اُن کے دہن مبارک کو اپنی زبان مبارک سے تر فرمایا، اُن کو دعائیں دیں اور ''حسین'' نام رکھا۔ (المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ: ص۳۵۸)
ایک نیک خواب
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی مشہور صحابیہ حضرت اُم الفضل رضی اللہ عنہا نے امام حسینؓ کے حمل کے زمانہ میں ایک عجیب و غریب خواب دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ کے بدن مبارک سے ایک ٹکڑا کاٹ کر حضرت اُم الفضلؓؓ کی گود میں ڈالا گیا ہے، یہ خواب دیکھ کر حضرت اُم الفضلؓؓ چونک کر رہ گئیں، لیکن صبح کو جب آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اپنا خواب بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ''تم نے بہت مبارک خواب دیکھا ہے، اور اس کی تعبیر یہ ارشاد فرمائی کہ: ان شاء اللہ! (حضرت) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے یہاں لڑکا پیدا ہوگا اور وہ تمہاری گود میں پرورش پائے گا۔'' چناںچہ اِس خواب کے بعد حضرت فاطمہؓ کے بطن سے سیدنا امام حسینؓ کا تولد ہوا اور آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی کے عین مطابق آپؓ کو حضرت اُم الفضلؓؓ کی گود میں پرورش کے لیے دیا گیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
حلیہ مبارک
امام ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ: ''سیدنا امام حسینؓ کا جسم مبارک نبی اکرم ﷺ کے جسم مبارک کے ساتھ مشابہت رکھتا تھا۔'' (البدایہ والنہایہ: ۶/۱۵۰) چناںچہ حضرت علیؓ سے بھی روایت ہے کہ: ''امام حسنؓ کا جسم مبارک نصف اعلیٰ میں سر سے لے کر سینے تک آنحضرتﷺ کے بہت زیادہ مشابہ تھا ، اور امام حسینؓ کا جسم مبارک نصف اسفل میں سینہ سے لے کر پاؤں تک آنحضرت ﷺ کے بہت زیادہ مشابہ تھا۔ (جامع ترمذی)
فضائل و مناقب
حضورِ اقدس ﷺ نے امام حسینؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: ''حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔'' (کنز العمال: ۶/ ۲۲۳) حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ: ''ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت حسن اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں آپ ﷺ کے صدر (سینہ) مبارک پر چڑھ کر کھیل رہے تھے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! (ﷺ) کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت کرتے ہیں؟''،''(آپؐ نے ) فرمایا: کیوں نہیں، یہ دونوں دُنیا میں میرے پھول ہیں۔'' اور حارث (حضرت) علیؓ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ''حسن و حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔'' ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ امام حسینؓ کے رونے کی آواز سنی تو اُن کی والدہ (حضرت فاطمہؓ) سے فرمایا کہ: ''کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اِن کا رونا مجھے اندوہ گیں کرتا ہے؟۔'' (معجم طبرانی)
محاسن و کمالات
امام حسینؓ کو اللہ تعالیٰ نے حسن ظاہری کے ساتھ ساتھ حسن باطنی سے بھی وافر حصہ عطاء فرما رکھا تھا۔ چناںچہ ارباب تاریخ و سیر نے لکھا ہے کہ آپؓ بڑے عبادت گزار تھے، نماز، روزہ اور حج کا بہت اہتمام فرماتے تھے، آپؓ نے بیس (۲۰) حج پیادہ پا (پیدل سفر کرکے) کیے تھے۔ (الجوہرۃ: ۲/۲۱۳) عاجزی، انکساری اور فروتنی آپؓ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوکر کہیں سے گزر رہے تھے، غرباء کی ایک جماعت نظر آئی جو زمین پر بیٹھی روٹی کے ٹکڑے کھا رہی تھی، آپؓ نے اُن کو سلام کیا، اُن لوگوں نے کہا: ''رسول اللہﷺ کے شہزادے! تشریف لائیے اور ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے! '' آپؓ گھوڑے سے اُتر کر اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے اور اُن کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگئے۔ اِس موقع پر آپؓ نے یہ آیت مبارک تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہے: ''اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔'' (سورۃ النحل: ۲۳) امام حسینؓ جب ان لوگوں کی روٹی کے ٹکڑوں پر شرکت فرماچکے اور فارغ ہوئے تو آپؓ نے فرمایا: ''بھائیو! آپ نے مجھے دعوت دی، میں نے قبول کیا، اب آپ سب میری دعوت قبول کیجیے! اُن لوگوں نے بھی دعوت قبول کی، اور آپ ؓکے مکان پر آئے، جب سب آکر بیٹھے تو آپؓ نے فرمایا: ''رباب! لانا جو بھی بچا ہوا محفوظ رکھا ہے۔'' (الجوہرۃ: ۲/۲۱۳، ۲۱۴)
شرف صحابیت
امام حسینؓ پیدائش کے وقت سے لے کر آنحضرت ﷺ کے آخری لمحۂ حیات تک خاص محبوب اولاد اور شرفِ صحبت سے مشرف رہے، جس کی مدت حافظ ابن کثیر ؒ کی تصریح کے مطابق کم و بیش پانچ سال بنتی ہے۔ (البدایہ والنہایہ: ۸/۱۵۰) لیکن اِس کے باوجود اُن کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انہوں نے باوجود اپنی اس کم سنی کے کئی احادیث نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے براہِ راست سن کر بیان فرمائی ہیں۔ (البدایہ والنہایہ: ۸/۲۵۷) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمایئے!: (سنن ابن ماجہ: ۱/۱۱۶، مسند امام احمد، تہذیب التہذیب: ۲/۳۴۵،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب: ۱/۱۴۵)
شعر و شاعری
حضرت حسینؓ عرب کے فصیح و بلیغ اور ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ آپؓ کے اشعار آج کل کے عام شعراء کے اشعار کی طرح عشق و محبت، موج ومستی اور دُنیوی لذت و سرور وغیرہ جیسی فانی لذتوں سے نہیںبلکہ نیک و صالح اور متقی و پرہیزگار فنا فی اللہ شعراء کی طرح خشیت و للہیت، تقویٰ و طہارت، زہد و عبادت، علو ہمت، ترک دُنیا اور فکرآخرت جیسے گراں قدر مواعظ و نصائح سے مملو ہیں۔ چناںچہ بطورِ نمونہ کے آپؓ کے بعض اشعار کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے، اگرچہ اِس کا حقیقی مزہ عربی زبان ہی میں پڑھنے سے نصیب ہوتا ہے: (۱) اگر یہ بات صحیح ہے کہ دُنیا کی نعمتیں ایک نفیس چیز شمار کی جاتی ہیں تو دارِآخرت میں جو ثواب ملے گا وہ بہت اعلیٰ اور بہت بہتر ہے۔ (۲) اور چوں کہ یہ تمام بدن انسانوں کی فنا ہی کے لیے بنائے گئے ہیں اس لیے انسان کا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے فنا ہوجانا سب سے افضل ہے۔ (۳) اور چوں کہ تمام روز یاں اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمادی ہیں اس لیے روزی کمانے کے سلسلے میں ہلکی پھلکی کوشش کرنا انسان کے لیے بہت ہی زیادہ مناسب ہے۔
بیعت یزید
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید نے اپنے لیے لوگوں سے بیعت لینے کا انتظام شروع کیا اور اپنے قرب و جوار کے تمام علاقوں میں لوگوں کو اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کی دعوت پر آمادہ کیا۔ چناںچہ تمام علاقوں کے تقریبا ًسبھی لوگوں نے یزید کی بیعت قبول کرلی اور اُس کے ہاتھ پر بیعت کرلی، سوائے چند حضرات (حضرت عبد اللہ بن عمر، ؓ حضرت حسین بن علی،ؓ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ) کے کہ اُنہوں نے یزید کی بیعت کو قبول نہیں کیا ، اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے صاف انکار کردیا۔
چناںچہ جب یزید اور اُس کے عمال کی طرف سے بیعت طلب کرنے میں سختی ہوئی تو امام حسینؓ مکہ مکرمہ میں آکر پناہ گزین ہوگئے۔ اُدھر اہل کوفہ نے آپؓ کی طرف ڈیڑھ سو کے قریب خطوط لکھ کر، قسمیں کھاکر اور طرح طرح کی ہم دردی و خیرخواہی کے دعوے کرکے آپؓ کو کوفہ بلالیا، اور آپؓ مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف چل دیے۔
کوفہ کی طرف روانگی
کوفہ میں جب ابن زیاد کو امام حسینؓ کی کوفہ کی طرف روانگی کی اطلاع ملی تو اس نے مقابلے کے لیے پیشگی ہی اپنا ایک سپاہی قادسیہ کی طرف روانہ کردیا۔ امام حسینؓ جب مقام زیالہ پر پہنچے تو آپ کو یہ خبر ملی کہ آپ کے رضاعی اور چچا زاد دونوں بھائیوں کو اہل کوفہ نے قتل کردیا ہے۔ اب امام حسینؓ نے اپنے تمام ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکا دیا ہے اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے ہیں۔
امام حسینؓ اور ان کے ساتھی ابھی راستے میں ہی تھے کہ دوپہر کے وقت دور سے کچھ سائے حرکت کرتے نظر آئے۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ گھڑسوار ہیں۔ اس لیے امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑی کے قریب پہنچ کر محاذِجنگ بنالیا۔
ابھی یہ حضرات محاذ کی تیاری میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھڑسواروں کی فوج حُر بن یزید کی قیادت میں مقابلہ پر آگئی اور ان کے مقابلہ کے لیے آکر پڑاؤ ڈال دیا۔ حر بن یزید کو حصین بن نمیر نے ایک ہزار گھڑسواروں کی فوج دے کر قادسیہ بھیجا تھا، یہ اور اس کا لشکر آکر امام حسینؓ کے مقابل ٹھہر گئے ۔ امام حسینؓ نے حر بن یزید سے فرمایا: ''تمہارا کیا ارادہ ہے؟۔'' حر بن یزید نے کہا: ''ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آپ کو ابن زیاد کے پاس پہنچادیں۔'' امام حسینؓ نے فرمایا: ''میں تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جاسکتا ۔'' حر بن یزید نے کہا: ''اللہ کی قسم ! پھر ہم بھی آپ کو یہاں تنہا نہ چھوڑیں گے۔''
یوم عاشورہ (دس محرم)
چناںچہ دسویں محرم جمعہ یا ہفتے کے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی عمرو بن سعد یزیدی لشکر لے کر امام حسینؓ کے سامنے آگیا۔ اس وقت امامؓ حسینؓ کے ساتھ کل بہتر (۷۲) اصحاب تھے، جن میں سے بتیس (۳۲) گھڑ سوار اور چالیس (۴۰) پیادہ پا تھے۔ چناںچہ آپ ؓنے بھی اس کے مقابلے کے لیے اپنے اصحاب کی صف بندی فرمالیلڑائی شروع ہوگئی اور گھمسان کا رن پڑنے لگا۔
شہادت با سعادت
اس کے بعد شمر ذی الجوشن لشکر کے ساتھ امام حسینؓ کی طرف آگے بڑھا، اس وقت آپؓ پیاس کی شدت اور زخموں سے چور ہوچکے تھے، اس کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کرتے رہے اور جس طرف سے آپ آگے بڑھتے یہ سب کے سب وہاں سے بھاگتے نظر آتے تھے ۔ شمر نے جب یہ دیکھا امام حسینؓ کو قتل کرنے میں ہر شخص لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو اُس نے آواز لگائی کہ :''سب یک بارگی ان پر حملہ کردو۔'' اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور نیزوں اور تلواروں سے یک بارگی امام حسینؓ پر حملہ کردیا اور اس طرح ان ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے کرتے آخر کار آپ نے جا م شہادت نوش فرمالیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
شمر ذی الجوشن نے خولی بن یزید سے کہا کہ ان کا سر بدن سے جدا کردو ! مگر آگے بڑھتے ہی اس کے ہاتھ کانپ کر رہ گئے، پھر ایک اور بدبخت سنان بن انس آگے بڑھا اور اس نے آپؓ کا سر بدن سے جدا کردیا۔
بعد میں جب آپ کی لاش کو دیکھا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر تینتیس ( ۳۳) زخم نیزوں کے، چونتیس (۳۴) زخم تلواروں کے اور متعدد زخم تیروں کے بھی تھے۔