شہید کربلانواسہ ء رسولریحاننۃ الرسول
نوجوانان جنت کے سردارحضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت
رجب 60 ہجری میں یزید مسند خلافت پر براجمان ہوا، تو فسق و فجور، ظلم و جبر، ناانصافی و عہدشکنی کے دور کا آغاز ہوگیا۔
نیز،یزید نے خود اور اپنے کارندوں کے ذریعے عالم اسلام سے بزورجبر اپنے حق میں بیعت لینا شروع کردی۔ اْس وقت مدینہ منورہ میں یزید کا چچازاد بھائی، ولید بن عقبہ گورنر تھا۔ یزید نے اْسے ایک مختصر سا حکم نامہ ارسال کیا، جس میں تحریر تھا کہ''حسین ابن علیؓ، عبداللہ ابن عْمرؓ اور عبداللہ ابن زبیرؓ کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے اور اگر وہ نہ مانیں، تو انکے ساتھ پوری سختی کی جائے، یہاں تک کہ تینوں بیعت کر لیں۔'' حضرت امام حسینؓ کو یہ اطلاع ملی، تو آپؓ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔
ادھر اہل کوفہ تواتر کے ساتھ خطوط اور وفود کے ذریعے یہ اصرار کرتے رہے کہ آپؓ کوفہ آجائیں تاکہ اہل کوفہ آپ ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرسکیں۔ کوفے والوں کے بے انتہا اصرار اور لاتعداد خطوط کے جواب میں آپؓ نے پہلے اپنے چچازاد بھائی، حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو کوفہ بھیجا تاکہ وہاں کے حالات کا صحیح اندازہ کر کے اطلاع دیں۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے کوفہ پہنچ کر''عوسجہ'' نامی ایک شخص کے گھر قیام کیا اور لوگوں سے حضرت امام حسینؓ کے لیے بیعت لینی شروع کردی۔ جلد ہی بارہ ہزار لوگوں نے خفیہ طور پر بیعت کر لی، جس پر انہوں نے حضرت امام حسینؓ کو خط لکھ کر جلد کوفہ پہنچنے کی گزارش کی۔
حضرت امام حسینؓ نے خط ملتے ہی کوفہ جانے کی تیاری شروع کر دی۔ اْدھر کوفہ کے نئے گورنر عبیداللہ ابن زیاد کو حضرت مسلم بن عقیلؓ اور حضرت امام حسین ؓ کی بیعت کے بارے میں مخبری ہو گئی، چنانچہ چند سازشی عناصر کے ذریعے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو ہانی بن عروہ کے مکان سے گرفتار کرکے شہید کردیا گیا اور اہل کوفہ بزدلی، خوف اور بے بسی کی تصویر بنے رہے، شہادت کا یہ رْوح فرسا منظر دیکھتے رہے۔ 13ذی الحجہ 60 ہجری بروز دوشنبہ، حضرت امام حسینؓ اپنے اہل و عیال اور خاندان کے ہمراہ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور یہ وہی دن تھا کہ جب حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو ابن زیاد نے بے دردی سے شہید کر دیا تھا۔
اہل مدینہ اور صحابہ کرامؓ نے آپ ؓ کو روکنے کی کوشش کی ۔ اہل کوفہ کی بے وفائیاں اور شہادت علی مرتضیٰؓ یاد دلائی، مگر آپؓ نے فرمایا''میں نے اپنے نانا کو خواب میں دیکھا ہے۔ حضورؓ نے مجھے تاکید کے ساتھ اس کام کو کرنے کا حکم دیا ہے، اب یہ کام ضرور کروں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔'' لوگوں نے آپؓ سے خواب کی تفصیل جاننی چاہی، تو آپ ؓ نے فرمایا''میں نے یہ خواب کسی کو نہیں بتایا اور نہ بتاؤں گا۔ یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزوجل سے جا ملوں گا'' (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ) ابھی آپؓ کوفہ کے راستے میں قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حر بن یزید تمیمی سے سامنا ہوا، جو ایک ہزار افواج کے ساتھ آپؓ ہی کی تلاش میں تھا۔ یہ بھی ان لوگوں میں شامل تھا کہ جنہوں نے کوفہ آنے پر اصرار کیا تھا، لیکن اب یزید کے ساتھ تھا۔
وہ آپؓ سے ملا اور حضرت مسلمؓ کی شہادت سمیت پوری رْوداد سْناتے ہوئے واپس جانے کا مشورہ دیا، لیکن حضرت مسلمؓ کی شہادت کی خبر سن کر ان کے بھائیوں نے کوفہ جانے پر اصرار کیا، چنانچہ آپؓ نے سفر جاری رکھا۔ راستے میں کوفہ سے آنے والے لوگوں نے آگے نہ جانے کا مشورہ دیتے ہوئے بتایا کہ''اہل کوفہ کے دل تو آپ ؓ کے ساتھ ہیں، لیکن تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔'' 2 محرم 61 ہجری کو ایک مقام پر آپؓ نے قافلے کو روک کر اس جگہ کا نام دریافت کیا ۔
بتایا گیا کہ اس جگہ کو ''کربلا'' کہتے ہیں۔ آپؓ نے آب دیدہ ہوکر فرمایا کہ''یہی جگہ ہماری مقتل گاہ ہے۔'' چنانچہ وہاں خیمے نصب کر دیے گئے، لیکن ابن زیاد کے حکم پر وہاں سے خیمے ہٹا دیے گئے اور دریائے فرات سے تین میل کی دْوری پر صحرا میں لگا دیے گئے کہ جہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ کربلا میں عمرو بن سعد 4 ہزار فوجیوں کے ساتھ آپؓ کے محاصرے پر مامور تھا۔ اْس وقت آپ ؓ کے خیموں میں معصوم شیرخوار بچوں، بیمار زین العابدین اور خواتین سمیت72افراد اللہ کے ذکر میں مصروف تھے۔
حضرت امام حسینؓ نے عمرو بن سعد کے سامنے تین شرائط رکھیں (1) مجھے واپس مکہ یا مدینہ جانے دیا جائے (2)کسی سرحدی مقام کی جانب نکل جانے دیا جائے (3) یزید کے پاس دمشق جانے دیا جائے تاکہ اپنے معاملات طے کر لوں ۔ عمرو بن سعد نے شرائط ابن زیاد کو لکھ بھیجیں، لیکن اْس نے یہ تینوں شرائط قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ''حسین ابن علیؓ کو فوراً گرفتار کر لیں یا پھر جنگ کیلئے تیار ہو جاؤ۔'' اس کے ساتھ ہی اْس نے ایک سفاک شخص، شمرذی الجوشن کو نیا سالار بنا کر بھیج دیا۔ وہ ساتویں محرم کی ایک اداس اور غمگین صبح تھی، جب شقی القلب، عبیداللہ ابن زیاد کے حکم سے ساقی کوثرﷺ کے چہیتے نواسے اور اْن کے خاندان کا پانی بند کر دیا گیا۔
عمرو بن الحجاج کی قیادت میں 500 یزیدی فوجی دریائے فرات کا محاصرہ کر لیتے ہیں۔ کربلا کے تپتے صحرا، غصّے سے آگ برساتا سورج اور خیموں میں معصوم بچوں کی بھوک و پیاس سے بلبلاتی آوازیں زمین کا سینہ شق کر دینے کے درپے ہیں۔ ایسے میں حضرت عباسؓ علمدار سے بچوں کی تشنہ لبی دیکھی نہیں جاتی۔ فرط جذبات میں مشکیزہ اٹھا کر پانی لینے نکل پڑتے ہیں۔ دریائے فرات پر متعین فوجی جب ایک شہ سوار کو دھوپ کی تیز روشنی میں چمکتی برہنہ تلوار لیے سرپٹ اپنی طرف آتا دیکھتے ہیں، تو خوف کے مارے بھاگ اْٹھتے ہیں۔ دریائے فرات کا بہتا ٹھنڈا پانی سامنے ہے۔ حضرت عباسؓ خود بھی پیاسے ہیں ، لیکن صرف مشکیزہ بھرتے ہیں کہ پہلے معصوم پیاسے پانی پی لیں۔
ابھی مشکیزہ لے کر خیمے پر پہنچتے ہیں کہ تیروں کی بوچھاڑ سینے اور مشکیزے دونوں کو گھائل کر دیتی ہے۔ پانی معصوموں کے حلق کو تر کیے بغیر ہی بہہ جاتا ہے اورسیدنا عباسؓ علمدار شہادت کا مرتبہ پا کر جنت کو سدھارتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ کو یقین تھا کہ اب شہادت کا وقت بہت قریب ہے، چنانچہ آپؓ نے اپنے رفقاء سے فرمایا''اے میرے جاں نثار رفقاء! یزید کی فوج صرف میرے خون کی پیاسی ہے۔ تم لوگ یہاں سے جس طرف مناسب سمجھو، نکل جاؤ۔'' مگر آفرین ہے حْسین ؓ کے ان پیاروں پر۔ اْس وقت ہر شخص نے آپؓ کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرنے کا عزم کیا۔ حضرت سیدنا حضرت حْسینؓ خیمے کے دروازے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔
ہلکی سی اونگھ آجاتی ہے۔ بیدار ہوتے ہیں، تو آپ کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح منور ہوتا ہے۔ ہلکی سی مسکراہٹ نے فضا میں پھول بکھیر دیئے۔ رفقاء سے فرماتے ہیں کہ''ناناﷺ خواب میں آئے تھے۔ فرمایا کہ ''حسینؓ! اب ہم سے ملنے کی تیاری کر لو۔'' راہِ حق کے متوالوں کی پوری رات عبادت میں گزری۔ صبح آپؓ نے یزیدی فوج کے سامنے ایک پرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی''اے لوگو! تم جانتے ہو کہ میں رسول اللہﷺ کا نواسہ، حیدرِ کرارؓ کا نورِ نظر اور خاتونِ جنت ؓ کا لخت جگر ہوں ۔ تم واقف ہو کہ رسول اللہﷺ نے ہم دونوں بھائیوں کو جنت کے نوجوانوں کا سردار بتایا ہے۔
تم سب نے مجھے خط لکھ کر بلایا، اب تم اپنے وعدوں سے پھر چکے ہو، میں ابھی بھی چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے جنگ نہ کرو اور مجھے اپنے رفقاء سمیت مکہ یا مدینہ واپس جانے دو'' اس تقریر سے متاثر ہو کر حربن یزید تمیمی نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور حضرت امام حْسینؓ کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ شمرذی الجوشن نے جب یہ منظر دیکھا، تو اْسے فکر ہوئی کہ فوج میں بغاوت نہ ہو جائے، اْس نے عمرو بن سعد سے کہا کہ''اب دیر نہ کرو۔'' عمرو نے حضرت امام حْسینؓ کی جانب پہلا تیر پھینک کر سانحہ کرب و بلا کا آغاز کیا۔ لشکرِ حسینیؓ سے سب سے پہلے آپ کے ساتھیوں، بریر ہمدانی، عابس شاکری، نافع بن ہلال، حبیب بن مظاہر اور دیگر نے میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی۔ اب اقربا کی باری تھی۔ جعفر و قاسم، علی و عبداللہ غرض ایک ایک کرکے سب آتے رہے اور جام شہادت نوش کرتے رہے۔ آخر میں لخت جگر، علی اکبرؓ ہاتھ میں تلوار پکڑے آگے بڑھے۔ والد محترم کومسکراتی نگاہوں سے الوداعی سلام کیا اور دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔
خیموں سے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، تو حضرت امام حْسینؓ نے جاکر فرمایا''تمہارے رونے کی آوازوں سے یزید کے فوجی خوش ہوتے ہیں۔'' سامنے ہی چھ ماہ کے علی اصغرؓ لیٹے تھے، گود میں اٹھایا اور باہر آکر کہا''دیکھو! یہ معصوم تین دن سے پیاسا ہے'' ابھی الفاظ بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ ایک تیر آیا اور شیرخوار شہزادے نے باپ کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ اب حضرت حسینؓ تنہا رہ گئے تھے۔ لشکر یزیدی نے چاروں جانب سے گھیر لیا تھا۔ امام عالی مقامؓ نے آسمان کی جانب دیکھا، شمشیر حیدری کو داہنے ہاتھ میں پکڑا اور نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے دشمنوں پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت امام حسینؓ نے ہاتھ روک لیا اور بآوازِ بلند نماز پڑھنے کی مہلت مانگی اور یہی وہ لمحہ تھا کہ جب شمر کے جوش دلانے پر مالک کندی نے دوشِ نبویﷺ کے شہہ سوار پر ایسا کاری وار کیا کہ تلوار کلاہِ مبارک کو کاٹتی ہوئی کاسہ سَر تک پہنچ گئی۔
خون کا فوارہ پھوٹ پڑا اور سارا بدن خون کے چھینٹوں سے سرخ ہوگیا۔ آپؓ نے زخمی سَر مبارک پر دوسرا عمامہ باندھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا، ہزاروں کے حصار میں اکیلے حسینؓ کے جسمِ اطہر پر زخموں کے نشانات بڑھتے جا رہے تھے۔ زخموں کی شدت نے آپؓ کو نڈھال کر دیا تھا، لیکن اس کے باوجود کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ شجاعت و بہادری کے اس کوہ گراں کو شہید کر سکے۔ آخر شمر ملعون نے دھاڑ کر کہا''آگے بڑھو اور شہید کر دو۔'' یہ سنتے ہی آپؓ پر تیروں کی بوچھاڑ ہو گئی۔
ایک تیر گردن پر پیوست ہوگیا، جسے آپؓ نے اپنے ہاتھوں سے کھینچ کر نکالا۔ زرعہ بن شریک تمیمی نے زخموں سے چور فاطمہؓ کے لال ؓ پر وار کیا۔ بایاں بازو کٹ کر دْور جاگرا، عین اسی حالت میں سنان بن انس نے نیزا مارا۔ امام عالی مقامؓ زمین پر گر گئے۔
خولی بن یزید سر قلم کرنے آگے بڑھا، لیکن ہاتھ کانپ گئے، پیچھے ہٹ گیا۔ سنگ دل اور شقی القلب، سنان بن انس نے سر مبارک کو جسم اطہر سے جدا کر دیا۔ ابن زیاد کے حکم پر ان وحشی فوجیوں نے جسم اطہر کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا ۔ علامہ ابن جوزی نے''تذکرہ الخواص'' میں لکھا ہے کہ''آپ ؓ کے جسمِ اطہر پر 33 زخم نیزوں کے 43 تلواروں کے تھے اور آپ ؓ کے پیرہن شریف پر 121سوراخ تیروں کے تھے۔ یہ تمام زخم،جسم مبارک کے اگلے حصے میں تھے، پشت مبارک کی جانب کوئی زخم نہ تھا'' (جامع التواریخ) اور یوں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے خاندان سمیت اللہ کے حضور پیش ہو گئے،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم ہم سب کو حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ جیسی سیرت کردار اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
نیز،یزید نے خود اور اپنے کارندوں کے ذریعے عالم اسلام سے بزورجبر اپنے حق میں بیعت لینا شروع کردی۔ اْس وقت مدینہ منورہ میں یزید کا چچازاد بھائی، ولید بن عقبہ گورنر تھا۔ یزید نے اْسے ایک مختصر سا حکم نامہ ارسال کیا، جس میں تحریر تھا کہ''حسین ابن علیؓ، عبداللہ ابن عْمرؓ اور عبداللہ ابن زبیرؓ کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے اور اگر وہ نہ مانیں، تو انکے ساتھ پوری سختی کی جائے، یہاں تک کہ تینوں بیعت کر لیں۔'' حضرت امام حسینؓ کو یہ اطلاع ملی، تو آپؓ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔
ادھر اہل کوفہ تواتر کے ساتھ خطوط اور وفود کے ذریعے یہ اصرار کرتے رہے کہ آپؓ کوفہ آجائیں تاکہ اہل کوفہ آپ ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرسکیں۔ کوفے والوں کے بے انتہا اصرار اور لاتعداد خطوط کے جواب میں آپؓ نے پہلے اپنے چچازاد بھائی، حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو کوفہ بھیجا تاکہ وہاں کے حالات کا صحیح اندازہ کر کے اطلاع دیں۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے کوفہ پہنچ کر''عوسجہ'' نامی ایک شخص کے گھر قیام کیا اور لوگوں سے حضرت امام حسینؓ کے لیے بیعت لینی شروع کردی۔ جلد ہی بارہ ہزار لوگوں نے خفیہ طور پر بیعت کر لی، جس پر انہوں نے حضرت امام حسینؓ کو خط لکھ کر جلد کوفہ پہنچنے کی گزارش کی۔
حضرت امام حسینؓ نے خط ملتے ہی کوفہ جانے کی تیاری شروع کر دی۔ اْدھر کوفہ کے نئے گورنر عبیداللہ ابن زیاد کو حضرت مسلم بن عقیلؓ اور حضرت امام حسین ؓ کی بیعت کے بارے میں مخبری ہو گئی، چنانچہ چند سازشی عناصر کے ذریعے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو ہانی بن عروہ کے مکان سے گرفتار کرکے شہید کردیا گیا اور اہل کوفہ بزدلی، خوف اور بے بسی کی تصویر بنے رہے، شہادت کا یہ رْوح فرسا منظر دیکھتے رہے۔ 13ذی الحجہ 60 ہجری بروز دوشنبہ، حضرت امام حسینؓ اپنے اہل و عیال اور خاندان کے ہمراہ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور یہ وہی دن تھا کہ جب حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو ابن زیاد نے بے دردی سے شہید کر دیا تھا۔
اہل مدینہ اور صحابہ کرامؓ نے آپ ؓ کو روکنے کی کوشش کی ۔ اہل کوفہ کی بے وفائیاں اور شہادت علی مرتضیٰؓ یاد دلائی، مگر آپؓ نے فرمایا''میں نے اپنے نانا کو خواب میں دیکھا ہے۔ حضورؓ نے مجھے تاکید کے ساتھ اس کام کو کرنے کا حکم دیا ہے، اب یہ کام ضرور کروں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔'' لوگوں نے آپؓ سے خواب کی تفصیل جاننی چاہی، تو آپ ؓ نے فرمایا''میں نے یہ خواب کسی کو نہیں بتایا اور نہ بتاؤں گا۔ یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزوجل سے جا ملوں گا'' (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ) ابھی آپؓ کوفہ کے راستے میں قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حر بن یزید تمیمی سے سامنا ہوا، جو ایک ہزار افواج کے ساتھ آپؓ ہی کی تلاش میں تھا۔ یہ بھی ان لوگوں میں شامل تھا کہ جنہوں نے کوفہ آنے پر اصرار کیا تھا، لیکن اب یزید کے ساتھ تھا۔
وہ آپؓ سے ملا اور حضرت مسلمؓ کی شہادت سمیت پوری رْوداد سْناتے ہوئے واپس جانے کا مشورہ دیا، لیکن حضرت مسلمؓ کی شہادت کی خبر سن کر ان کے بھائیوں نے کوفہ جانے پر اصرار کیا، چنانچہ آپؓ نے سفر جاری رکھا۔ راستے میں کوفہ سے آنے والے لوگوں نے آگے نہ جانے کا مشورہ دیتے ہوئے بتایا کہ''اہل کوفہ کے دل تو آپ ؓ کے ساتھ ہیں، لیکن تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔'' 2 محرم 61 ہجری کو ایک مقام پر آپؓ نے قافلے کو روک کر اس جگہ کا نام دریافت کیا ۔
بتایا گیا کہ اس جگہ کو ''کربلا'' کہتے ہیں۔ آپؓ نے آب دیدہ ہوکر فرمایا کہ''یہی جگہ ہماری مقتل گاہ ہے۔'' چنانچہ وہاں خیمے نصب کر دیے گئے، لیکن ابن زیاد کے حکم پر وہاں سے خیمے ہٹا دیے گئے اور دریائے فرات سے تین میل کی دْوری پر صحرا میں لگا دیے گئے کہ جہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ کربلا میں عمرو بن سعد 4 ہزار فوجیوں کے ساتھ آپؓ کے محاصرے پر مامور تھا۔ اْس وقت آپ ؓ کے خیموں میں معصوم شیرخوار بچوں، بیمار زین العابدین اور خواتین سمیت72افراد اللہ کے ذکر میں مصروف تھے۔
حضرت امام حسینؓ نے عمرو بن سعد کے سامنے تین شرائط رکھیں (1) مجھے واپس مکہ یا مدینہ جانے دیا جائے (2)کسی سرحدی مقام کی جانب نکل جانے دیا جائے (3) یزید کے پاس دمشق جانے دیا جائے تاکہ اپنے معاملات طے کر لوں ۔ عمرو بن سعد نے شرائط ابن زیاد کو لکھ بھیجیں، لیکن اْس نے یہ تینوں شرائط قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ''حسین ابن علیؓ کو فوراً گرفتار کر لیں یا پھر جنگ کیلئے تیار ہو جاؤ۔'' اس کے ساتھ ہی اْس نے ایک سفاک شخص، شمرذی الجوشن کو نیا سالار بنا کر بھیج دیا۔ وہ ساتویں محرم کی ایک اداس اور غمگین صبح تھی، جب شقی القلب، عبیداللہ ابن زیاد کے حکم سے ساقی کوثرﷺ کے چہیتے نواسے اور اْن کے خاندان کا پانی بند کر دیا گیا۔
عمرو بن الحجاج کی قیادت میں 500 یزیدی فوجی دریائے فرات کا محاصرہ کر لیتے ہیں۔ کربلا کے تپتے صحرا، غصّے سے آگ برساتا سورج اور خیموں میں معصوم بچوں کی بھوک و پیاس سے بلبلاتی آوازیں زمین کا سینہ شق کر دینے کے درپے ہیں۔ ایسے میں حضرت عباسؓ علمدار سے بچوں کی تشنہ لبی دیکھی نہیں جاتی۔ فرط جذبات میں مشکیزہ اٹھا کر پانی لینے نکل پڑتے ہیں۔ دریائے فرات پر متعین فوجی جب ایک شہ سوار کو دھوپ کی تیز روشنی میں چمکتی برہنہ تلوار لیے سرپٹ اپنی طرف آتا دیکھتے ہیں، تو خوف کے مارے بھاگ اْٹھتے ہیں۔ دریائے فرات کا بہتا ٹھنڈا پانی سامنے ہے۔ حضرت عباسؓ خود بھی پیاسے ہیں ، لیکن صرف مشکیزہ بھرتے ہیں کہ پہلے معصوم پیاسے پانی پی لیں۔
ابھی مشکیزہ لے کر خیمے پر پہنچتے ہیں کہ تیروں کی بوچھاڑ سینے اور مشکیزے دونوں کو گھائل کر دیتی ہے۔ پانی معصوموں کے حلق کو تر کیے بغیر ہی بہہ جاتا ہے اورسیدنا عباسؓ علمدار شہادت کا مرتبہ پا کر جنت کو سدھارتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ کو یقین تھا کہ اب شہادت کا وقت بہت قریب ہے، چنانچہ آپؓ نے اپنے رفقاء سے فرمایا''اے میرے جاں نثار رفقاء! یزید کی فوج صرف میرے خون کی پیاسی ہے۔ تم لوگ یہاں سے جس طرف مناسب سمجھو، نکل جاؤ۔'' مگر آفرین ہے حْسین ؓ کے ان پیاروں پر۔ اْس وقت ہر شخص نے آپؓ کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرنے کا عزم کیا۔ حضرت سیدنا حضرت حْسینؓ خیمے کے دروازے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔
ہلکی سی اونگھ آجاتی ہے۔ بیدار ہوتے ہیں، تو آپ کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح منور ہوتا ہے۔ ہلکی سی مسکراہٹ نے فضا میں پھول بکھیر دیئے۔ رفقاء سے فرماتے ہیں کہ''ناناﷺ خواب میں آئے تھے۔ فرمایا کہ ''حسینؓ! اب ہم سے ملنے کی تیاری کر لو۔'' راہِ حق کے متوالوں کی پوری رات عبادت میں گزری۔ صبح آپؓ نے یزیدی فوج کے سامنے ایک پرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی''اے لوگو! تم جانتے ہو کہ میں رسول اللہﷺ کا نواسہ، حیدرِ کرارؓ کا نورِ نظر اور خاتونِ جنت ؓ کا لخت جگر ہوں ۔ تم واقف ہو کہ رسول اللہﷺ نے ہم دونوں بھائیوں کو جنت کے نوجوانوں کا سردار بتایا ہے۔
تم سب نے مجھے خط لکھ کر بلایا، اب تم اپنے وعدوں سے پھر چکے ہو، میں ابھی بھی چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے جنگ نہ کرو اور مجھے اپنے رفقاء سمیت مکہ یا مدینہ واپس جانے دو'' اس تقریر سے متاثر ہو کر حربن یزید تمیمی نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور حضرت امام حْسینؓ کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ شمرذی الجوشن نے جب یہ منظر دیکھا، تو اْسے فکر ہوئی کہ فوج میں بغاوت نہ ہو جائے، اْس نے عمرو بن سعد سے کہا کہ''اب دیر نہ کرو۔'' عمرو نے حضرت امام حْسینؓ کی جانب پہلا تیر پھینک کر سانحہ کرب و بلا کا آغاز کیا۔ لشکرِ حسینیؓ سے سب سے پہلے آپ کے ساتھیوں، بریر ہمدانی، عابس شاکری، نافع بن ہلال، حبیب بن مظاہر اور دیگر نے میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی۔ اب اقربا کی باری تھی۔ جعفر و قاسم، علی و عبداللہ غرض ایک ایک کرکے سب آتے رہے اور جام شہادت نوش کرتے رہے۔ آخر میں لخت جگر، علی اکبرؓ ہاتھ میں تلوار پکڑے آگے بڑھے۔ والد محترم کومسکراتی نگاہوں سے الوداعی سلام کیا اور دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔
خیموں سے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، تو حضرت امام حْسینؓ نے جاکر فرمایا''تمہارے رونے کی آوازوں سے یزید کے فوجی خوش ہوتے ہیں۔'' سامنے ہی چھ ماہ کے علی اصغرؓ لیٹے تھے، گود میں اٹھایا اور باہر آکر کہا''دیکھو! یہ معصوم تین دن سے پیاسا ہے'' ابھی الفاظ بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ ایک تیر آیا اور شیرخوار شہزادے نے باپ کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ اب حضرت حسینؓ تنہا رہ گئے تھے۔ لشکر یزیدی نے چاروں جانب سے گھیر لیا تھا۔ امام عالی مقامؓ نے آسمان کی جانب دیکھا، شمشیر حیدری کو داہنے ہاتھ میں پکڑا اور نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے دشمنوں پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت امام حسینؓ نے ہاتھ روک لیا اور بآوازِ بلند نماز پڑھنے کی مہلت مانگی اور یہی وہ لمحہ تھا کہ جب شمر کے جوش دلانے پر مالک کندی نے دوشِ نبویﷺ کے شہہ سوار پر ایسا کاری وار کیا کہ تلوار کلاہِ مبارک کو کاٹتی ہوئی کاسہ سَر تک پہنچ گئی۔
خون کا فوارہ پھوٹ پڑا اور سارا بدن خون کے چھینٹوں سے سرخ ہوگیا۔ آپؓ نے زخمی سَر مبارک پر دوسرا عمامہ باندھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا، ہزاروں کے حصار میں اکیلے حسینؓ کے جسمِ اطہر پر زخموں کے نشانات بڑھتے جا رہے تھے۔ زخموں کی شدت نے آپؓ کو نڈھال کر دیا تھا، لیکن اس کے باوجود کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ شجاعت و بہادری کے اس کوہ گراں کو شہید کر سکے۔ آخر شمر ملعون نے دھاڑ کر کہا''آگے بڑھو اور شہید کر دو۔'' یہ سنتے ہی آپؓ پر تیروں کی بوچھاڑ ہو گئی۔
ایک تیر گردن پر پیوست ہوگیا، جسے آپؓ نے اپنے ہاتھوں سے کھینچ کر نکالا۔ زرعہ بن شریک تمیمی نے زخموں سے چور فاطمہؓ کے لال ؓ پر وار کیا۔ بایاں بازو کٹ کر دْور جاگرا، عین اسی حالت میں سنان بن انس نے نیزا مارا۔ امام عالی مقامؓ زمین پر گر گئے۔
خولی بن یزید سر قلم کرنے آگے بڑھا، لیکن ہاتھ کانپ گئے، پیچھے ہٹ گیا۔ سنگ دل اور شقی القلب، سنان بن انس نے سر مبارک کو جسم اطہر سے جدا کر دیا۔ ابن زیاد کے حکم پر ان وحشی فوجیوں نے جسم اطہر کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا ۔ علامہ ابن جوزی نے''تذکرہ الخواص'' میں لکھا ہے کہ''آپ ؓ کے جسمِ اطہر پر 33 زخم نیزوں کے 43 تلواروں کے تھے اور آپ ؓ کے پیرہن شریف پر 121سوراخ تیروں کے تھے۔ یہ تمام زخم،جسم مبارک کے اگلے حصے میں تھے، پشت مبارک کی جانب کوئی زخم نہ تھا'' (جامع التواریخ) اور یوں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے خاندان سمیت اللہ کے حضور پیش ہو گئے،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم ہم سب کو حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ جیسی سیرت کردار اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے ۔