کیارشی سنک بدترین برطانوی وزیراعظم ثابت ہوئے

کنزرویٹو پارٹی دراصل برطانیہ کے ایلیٹ طبقے یا اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے۔

اِس بھارتی نژاد لیڈر کی زیرقیادت برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی کو اپنی صد سالہ تاریخ میں سب سے بڑی ہزیمت اٹھانا پڑ گئی ۔ فوٹو : فائل

ہر انسان کی زندگی خوشی وغم کا امتزاج ہے ۔وہ انسان کو کبھی خوشیاں دیتی ہے اور کبھی دکھ۔ اب برطانیہ کے حالیہ الیکشن کو ہی دیکھیے۔ دو سال قبل جب بھارتی والدین کی اولاد ، رشی سنک برطانوی وزیراعظم بنے تو بھارت کے تعلق رکھنے ولے لوگوں نے خوشیاں منائی تھیں۔

برطانیہ میں مقیم متعصب ہندوؤں نے پاکستانیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ تم لوگ صادق خان کے مئیر لندن بننے پر اظہار ِ مسرت کر رہے تھے، لو دیکھو ، ہماری برادری کا رکن تو وزیراعظم بن گیا ۔

رشی کی بڑی غلطی

بطور وزیراعظم رشی سنک نے ملی جلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔اسے کامیابیاں ملیں تو ناکامیاں بھی۔اس نے بعض اچھے کام کیے تو کچھ برے بھی۔ موصوف سے شاید سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اس نے قبل از وقت الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا۔ قانون کے مطابق جنوری 2025 ء میں برطانوی الیکشن ہونے تھے۔ مگر رشی سنک نے الیکشن 4جولائی 2024ء کو کرانے کا اعلان کر دیا۔ ظاہر ہے، یہ فیصلہ کرنے میں کنزرویٹو پارٹی کے دیگر لیڈر بھی شامل ہوں گے۔ مگر پارٹی کا سربراہ ہونے کے ناتے سمجھا گیا کہ یہ فیصلہ کرنے میں رشی سنک نے بنیادی کردار ادا کیا۔

بدقسمتی سے یہی فیصلہ رشی سنک کو لے ڈوبا کیونکہ اب تک مجموعی طور پہ اس کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں تھی کہ عوام رشی کے شیدا ہو جاتے۔ بلکہ بطور وزیراعظم رشی سے اتنی فاش اور بچکانہ غلطیاں ہوئیں کہ برطانوی عوام اسے وزیراعظم جیسے اہم ترین عہدے کے لیے نااہل سمجھنے لگے۔ یوں الیکشن ایسے ماحول میں ہوئے جب رشی حکومت نامقبول ہو چکی تھی۔ اور اسے نامقبول کرانے میں رشی سنک کا کردار بھی اہم رہا۔

بدترین لیڈر ہونے کا ''اعزاز''

4 جولائی کے الیکشن میں رشی سنک کی زیرقیادت کنزرویٹو پارٹی پارلیمنٹ کی 650 نشستوں میں سے صرف ''121 '' نشستیں جیت سکی۔ یہ کنزرویٹو پارٹی کی ایک سو بارہ سالہ تاریخ میں بدترین شکست بن گئی۔ یہ رشی سنک کی انتہائی بدقسمتی ہے کہ جب کنزرویٹو پارٹی کے دامن پہ یہ شاید کبھی نہ مٹنے والا داغ لگا تو وہ اس کی قیادت کر رہے تھے۔ یوں انھوںنے پارٹی کی تاریخ میں بدترین لیڈر ہونے کا ''اعزاز''اپنے نام کرا لیا۔ مگر یہ ایسا اعزاز ہے جس پر بھارتی باشندے کبھی فخر نہیں کریں گے۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ اب برطانوی سیاسی پارٹیاں چھان پھٹک کے بعد ہی بھارتی نژاد مرد وزن کو اپنی صفوں میں جگہ دیں۔

معاشی مسائل کی لعنت

ایم بی اے ہونے کے باوجود رشی سنک برطانیہ کی معیشت بہتر نہیں بنا سکا اور یہی ناکامی بنیادی طور پہ اس کی ناکامی کا سبب بن گئی۔ رشی نے بھی 2016 ء میں اس امر کی حمایت کی تھی کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ ہو جانا چاہیے۔ یہ واقعہ ''بریگزٹ''کہلاتا ہے۔ مگر یہ تنہا پرواز برطانیہ کو راس نہ آئی اور وہ جلد معاشی مسائل کا شکار ہو گیا۔ کوویڈ وبا، روس یوکرین جنگ، گیس کی نایابی اور بڑھتی مہنگائی نے مسائل گھمبیر بنا دئیے۔ پارلیمنٹ میں کنزرویٹو پارٹی کی اکثریت تھی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ برطانیہ معاشی مسائل سے نکل جائے مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہی ناکامی حالیہ الیکشن میں اس کی شکست فاش کی وجہ بن گئی۔

اشرافیہ کی نمائندگی

کنزرویٹو پارٹی دراصل برطانیہ کے ایلیٹ طبقے یا اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ لہذا وہ ایسے اقدامات نہیں کرتی جو اشرافیہ کے مفادات کو نقصان پہنچا دیں۔ مثلاً ٹیکسوں کا ایسا نظام تشکیل دیتی ہے جس میں متوسط اور نچلا طبقہ زیادہ ٹیکس دے۔ امرا کو الٹا کسی نہ کسی طرح رعایتیں دی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس باخبر دور میں مگر عوام سے اشرافیہ دوست اقدامات پوشیدہ رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اسی لیے برطانوی عوام مسلسل آگاہ رہے کہ کنزرویٹو لیڈر ان کی زندگیاں آسان بنانے والے اقدام کم ہی کر رہے ہیں۔ اس بنا پہ عوام میں پارٹی کے خلاف ناراضی پھیل گئی۔ اور ووٹ کی طاقت سے عوام نے حالیہ الیکشن کے ذریعے کنزرویٹو پارٹی کو اقتدار سے محروم کر دیا۔ بلکہ ایسا نقصان پہنچایا کہ وہ محض 121 سیٹوں تک محدود ہو گئی۔ ورنہ پچھلے الیکشن میں اس کی 372 سیٹیں تھیں۔

لوہار کا بیٹا کیا کرے گا؟

اب ایک لوہار یعنی مشینی آلات بنانے والے (ٹول میکر) کا بیٹا، کئیر اسٹارمر نیا برطانوی وزیراعظم بنا ہے۔ یہ بہ لحاظ پیشہ وکیل ہے۔ دیکھتے ہیں کہ کیا یہ اپنی ٹیم کی مدد سے برطانیہ کو معاشی مسائل سے نکال پائے گا یا نہیں۔ مسلمانوں کو یہ بات کھٹکتی ہے کہ اس کی بیوی یہودی ہے۔ اور اسرائیلی یہودی حکمران طبقہ جس وحشیانہ و حیوانی انداز میں فلسطینیوں پہ ظلم وستم کر رہا ہے ، اس پہ پوری دنیا کے مسلمان دل گرفتہ و چراغ پا ہیں۔

یہودی بیوی

چونکہ کئیر اسٹارمر کی بیوی اس پہ خاصا اثر رکھتی ہے، اس لیے برطانوی و بیرون ممالک کے مسلمان نئے برطانوی وزیراعظم کے اقدامات و چال چلن پہ نظر رکھیں گے ، کہ ایسا نہ ہو وہ چپ چاپ کوئی مسلم دشمن اقدام کر ڈالے۔ کئیر اسٹارمر نے اسرائیل اور حماس کی حالیہ لڑائی کے دوران دونوں پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا مگر وہ کھل کر جابر وقاہر اسرائیلی حکمران طبقے کے سامنے نہیں آیا۔ وہ بہرحال آزاد ریاست فلسطین کے قیام کا حامی ہے، شاید اس لیے کہ یہ لیبر پارٹی کی بنیادی پالیسی ہے۔

جیرمی کوربائن کا تنازع

لیبر پارٹی کے سابق سربراہ اور مشہور سوشلسٹ لیڈر، جیرمی کوربائن کا معاملہ عیاں کرتا ہے کہ کیئر اسٹارمر کی بیوی اس پہ خاصا اثر رکھتی ہے۔ اسٹارمر نے کوربائن پہ الزام لگایا کہ وہ یہود دشمن ہے۔ کوربائن نے کہا کہ وہ فلسطینیوں پہ ظلم وستم کرتے اسرائیلی حکمرانوں پر تنقید کرتے ہیں۔اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ یہود دشمن ہیں۔ مگر اسٹارمر نے کوربائن کا استدلال قبول نہیں کیا۔ اور کہا جاتا ہے کہ بیوی کے دباؤ میں آ کر فیصلہ کیا کہ اس الکیشن میں جیرمی کوربائن حصہ نہیں لیں گے۔

کوربائن صاحب نے بجا طور پہ یہ غیر منصفانہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ لندن کے حلقے، اسلنگٹن نارتھ سے 1983ء سے جیتتے چلے آ رہے ہیں۔ حلقے کے لوگ اس سادہ مزاج سیاسی لیڈر سے بہت محبت کرتے ہیں جو واجبی گھر میں رہتا اور ٹوٹی پھوٹی کار چلاتا ہے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ کوربائن نے کبھی اپنی سیاسی طاقت کو مادی فوائد پانے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ حلقے کے لوگوں کے مجبور کرنے پر انھوں نے آزادانہ حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔اس پر اسٹارمر نے انھیں لیبر پارٹی سے نکال دیا۔ یہ ایک اور ناروا اقدام ہے جو اس نے بیوی کی باتوں میں آ کر انجام دیا۔

لیبر پارٹی نے اسلنگٹن نارتھ کے ایک ہندو کونسلر، پرافل نگند کو جیرمی کوربائن کے خلاف کھڑا کر دیا۔ مگر انھوں نے اسے سات ہزار ووٹوں سے ہرا دیا۔ یوں اسٹارمر اپنے سابقہ لیڈرکو پارلیمنٹ سے باہر رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ جیرمی کوربائن کے تنازع نے بہرحال برطانوی مسلمانوں میں اسٹارمر کو مشکوک ہستی بنا دیا ۔ لگتا ہے کہ لیبر پارٹی کو یہود دشمنی (antisemitism) سے پاک کرنے کے چکر میں کئیر اسٹارمر اسرائیل اور اس کے مسلم دشمن طبقے کے کافی نزدیک چلا گیا ہے ۔اور اس قربت کی اہم وجہ اسٹارمر کی یہودی بیوی ہو سکتی ہے۔بہرحال آنے والے وقت میں نئے برطانوی وزیراعظم کے عملی اقدامات اس کی سمت کا تعین کریں گے۔



جاگیردار بامقابلہ مزدور ومحنت کش

لیبر پارٹی برطانیہ کی ایک سو چوبیس سالہ پارٹی ہے۔ کنزرویٹو پارٹی تو قدامت پسندی کے نظریات کی حامی ہے۔ لیبر پارٹی کا جھکاؤ اعتدال پسندی اور لیفٹسٹ نظریات کی طرف ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کی بنیاد نوابوں اور جاگیرداروں نے رکھی تھی۔ لیبر پارٹی کی بنیاد محنت کش اور مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے ٹریڈ یونین لیڈروں نے رکھی۔ یہ امر دونوں بڑی برطانوی سیاسی جماعتوں کے مابین بنیادی فرق ہے۔ یہی وجہ ہے، لیبر پارٹی اقتدار میں آ کر عموماً ایسے اقدامات کرتی ہے جن سے عوام کو فائدہ ہو۔ البتہ امور خارجہ میں وہ اسٹیبلشمنٹ کی بات ماننے پر مجبور ہوتی ہے۔ اس لیے امور خارجہ میں وہ لکیر کی فقیر بنی رہتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی طاقت

برطانوی اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج ، بیوروکریسی ، عدلیہ اور معاشرے کے مخلتف شعبوں سے منسلک بااثر شخصیات اسرائیل کی حامی ہیں۔ اسی باعث مسئلہ فلسطین بدستور چلا آ رہا ہے۔ درحقیت مسئلہ فلسطین ہی نہیں مسئلہ کشمیر بھی برطانوی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے۔ ان دو حل طلب مسائل کی وجہ سے کئی مسلمان ممالک امن وچین سے محروم ہیں اور وہاں کوئی نہ کوئی دنگا فساد رہتا ہے۔

جیرمی کوربائن کا جہاد

کئیر اسٹارمر سے قبل لیبر پارٹی کے سربراہ، جیرمی کوربائن اپنی اسٹیبلشمنٹ کے سخت خلاف تھے۔ وہ کھلم کھلا کہتے تھے کہ اگر اقتدار میں آ گئے تو فلسطین وکشمیر کے مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔عوام پر سے ٹیکسوں کا بوجھ ہٹا کر اشرافیہ پر لاد دیں گے۔ 2019ء کے پچھلے الیکشن میں وہی لیبر پارٹی کی قیادت کر رہے تھے۔ اس وقت بھی سبھی کو یقین تھا کہ لیبر پارٹی الیکشن جیت جائے گی۔ مگر برطانوی اسٹیبلشمنٹ اپنے مخالف کو وزیراعظم بنتا نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔اس لیے نامحسوس طریقے سے الیکشن میں دھاندلی کر کے جیرمی کوربائن کو ہرا دیا گیا۔ گویا آمرانہ سیاسی نظام کے حامل ممالک ہی نہیں برطانیہ جیسے بظاہر جمہوری ملک میں بھی اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کا خیال رکھتی ہے۔حتی کہ اس کو نقصان پہنچانے والے عوام دوست اقدمات بھی رد کر دئیے جاتے ہیں۔


اصل امتحان تو اب ہے

الیکشن میں لیبر پارٹی نے 411 گیارہ سیٹیں جیت لیں۔ یہ پارٹی کی تاریخ میں دوسری بڑی کامیابی ہے۔ مگر اب کئیر اسٹارمر کی قیادت میں لیبر حکومت کا اصل امتحان شروع ہو گا۔ اس کا پہلا کٹھن چیلنج یہ ہے کہ برطانیہ کو معاشی مسائل اور خاص طور پہ بڑھتی مہنگائی کے عذاب سے نکالا جائے۔ برطانیہ میں عموماً ضروریات زندگی کی قیمتیں بہت آہستہ بڑھتی ہیں۔ مگر وہاں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ کہ پچھلے ایک سال کے دوران خصوصاً کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں تیس تا چالیس فیصد اضافہ ہو چکا۔ گویا لیبر حکومت نے فوری طور پہ اپنے اقدامات سے بڑھتی مہنگائی کے سامنے بند باندھنا ہے تاکہ عوام سکون کا سانس لے سکیں۔

بیرون ممالک کے باشندے

برطانیہ میں کئی سفید فام اور دیگر شہری بھی سمجھتے ہیں کہ بیرون ممالک سے کم سے کم لوگ آنے چاہیں کیونکہ مملکت میں ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس اضافے کے سبب صحت وتعلیم اور ٹرانسپورٹ کے سرکاری شعبوں پر بہت دباؤ پڑ گیا ہے۔ مثلاً کہا جا رہا ہے کہ سرکاری ڈاکٹر اتنے زیادہ مصروف ہو چکے کہ وہ مریضوں کو کئی دن بعد کا وقت دیتے ہیں۔ اسی طرح اسکولوں میں بچوں کو داخلہ نہیں ملتا۔ ان عوامل نے برطانیہ کی آبادی زیادہ بڑھ جانے سے جنم لیا۔آبادی میں بڑھتا اضافہ اور کئی مسائل بھی پیدا کر رہا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ کے سفید فاموں اور دیگر شہریوں میں شرح پیدائش مسلسل کم ہو رہی ہے۔ گویا وہ اتنے زیادہ بچے پیدا نہیں کر رہے جو ملکی آبادی کو مطلوبہ سطح پر قائم رکھ سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ برطانیہ میں بیرون ممالک سے لوگ نہ آئیں تو ملک کی آبادی میں کمی ہونے لگے گی۔ خاص طور پہ شعبہ ملازمت میں بحران آ جائے گا کیونکہ ملازمتوں کے لیے افرادی قوت دستیاب نہیں ہو گی۔ اس لیے لیبر حکومت بھی مجبور ہو گی کہ وہ خصوصاً ان شعبوں کے لیے افرادی قوت بیرون ممالک سے بلائے جن کے لیے برطانیہ سے موزوں مردوزن نہیں مل رہے۔



حرف ِآخر

لیبر پارٹی کی جیت پر وزیراعظم پاکستان، میاں شہباز شریف نے نئے برطانوی وزیراعظم کو مبارک باد کا پیغام بھیجا۔ پاکستان اور برطانیہ کے قریبی تعلقات ہیں، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ بھارت کو ترجیع دی ہے۔ اور یہ امر سمجھ بھی آتا ہے کہ بھارت آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ مگر جب اہم معاملات جیسے مسئلہ کشمیر میں برطانوی اسٹیبشلمنٹ عدل و انصاف سے پہلوتہی کرتے ہوئے بھارت کی حمایتی بن جائے تو تکلیف ہوتی ہے۔

اس کے باوجود امید ہے کہ نئی لیبر حکومت آنے سے پاکستان اور برطانیہ کے مابین بعض معاملات میں بہتری آئے گی۔ مثلاً رشی سنک کی معتصب حکومت نے پاکستان سے نئے آنے والے مہاجرین اور لوگوں کے لیے دیدہ و نادیدہ رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں۔ اب امید ہے کہ وہ رکاوٹیں خاصی حد تک دور ہو جائیں گی۔ اور جائز و برحق معاملوں میں اہل پاکستان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہو گی جس کا رشی سنک حکومت میں دور دورہ ہو گیا تھا۔

برطانیہ میں مسلمانوں کا بڑھتا اثرورسوخ

برطانیہ میں ہونے والی حالیہ مردم شماری کی رو سے عیسائیت کے بعد اسلام مملکت کا دوسرا بڑا مذہب بن گیا ہے۔ چالیس لاکھ سے زائد برطانوی خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ یہ کل آبادی میں چھ فیصد سے زیادہ شرح بنی ہے۔ یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ قدامت پسند سفید فاموں کے علاقوں میں رہنے والے کچھ مسلمان اپنا مذہب پوشیدہ رکھتے ہیں۔ انھیں خوف ہوتا ہے کہ انتہا پسند سفید فام انھیں نقصان پہنچا دیں گے۔

بہرحال برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس عمل کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ برطانوی مسلمانوں میں شرح پیدائش دیگر قومیتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ دوسرے پاکستان سمیت مختلف اسلامی ملکوں سے مہاجرین برطانیہ آ کر بس رہے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھنے سے برطانوی معاشرے میں ان کے اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک اچھی خبر ہے کیونکہ طاقت پا کر وہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے مسلم دشمن اقدامات کو چیلنج کرنے کی حیثیت میں آ جائیں گے۔ تب اسٹیبلشمنٹ کے لیے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ عالم اسلام کے معاملے میں من مانی کرے اور ناانصافی سے کام لے۔



مسلمانوں کے بڑھتے اثر کا ایک عملی نمونہ حالیہ الیکشن نے نمایاں کیا۔ اس الیکشن میں تین سو سے زیادہ مسلمان امیداواروں نے بھی حصہ لیا۔ ان میں '' 23''الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے ۔ کئی نشستوں پر وہ چند سو یا ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گئے۔ ان فاتح امیدواروں میں نو دس پاکستانی نژاد بھی ہیں۔ یہ تبدیلی آشکارا کرتی ہے کہ پاکستان سے آئے

لوگ برطانوی معاشرے میں بہت فعال ہیں اور اس کی تعمیر وترقی میں اپنی صلاحیتیں بہترین انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔

برطانیہ میں ہندو اور بھارت سے آئے ہوئے دیگر لوگ بھی بکثرت آباد ہیں۔ تاہم موجودہ برطانوی پارلیمنٹ میں ہندو ارکان کی تعداد مسلم ارکان سے خاصی کم رہے گی۔اس باعث برطانیہ اور عالم اسلام کے مابین تعلقات میں بہتری آنے کا امکان ہے۔ بھارت سے تعلقات میں زیادہ گرم جوشی آنے کی امید نہیں کیونکہ لیبر پارٹی کے بہت سے اہم رہنما بھارتی وزیراعظم مودی کو بھارت کی اشرافیہ کی کٹھ پتلی اور مسلم مخالف انتہا پسند لیڈر سمجھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل کی طرح بھارت بھی برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا ہے۔ لہذا اپنی اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں امریکا کی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر بھی لیبر گورنمنٹ مجبور ہو گی کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ جاری رکھے۔

شبانہ محمود وزیر انصاف بن گئیں



برطانیہ کی نئی حکومت میں پاکستانی نژاد خاتون، شبانہ محمود کو وزیر انصاف مقرر کیا گیا ہے۔ یہ برطانوی حکومت میں بہ لحاظ سنیارٹی ساتواں بڑا عہدہ ہے۔ یہ اہل پاکستان کے لیے خوشی و فخر کی بات ہے کہ ہماری مٹی کی ایک سپوت کو برطانیہ جیسی بڑی سپرپاور کی گورنمنٹ میں ایک اہم عہدہ تفویض ہوا۔ شبانہ محمود وکیل ہیں، اس لیے انھیں انصاف کے اہم محکمے کی ذمے داری دی گئی۔امید ہے ، وہ عمدگی سے اپنی ذمے داریاں انجام دیں گی۔

شبانہ محمود میرپور، آزاد کشمیر ے تعلق رکھنے والے والدین کی اولاد ہیں۔ ستمبر 1980ء میں برمنگھم میں پیدا ہوئیں۔لنکن کالج، آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ رشی سنک ان سے ایک سال سینئر اور اچھے دوست تھے۔آپ کو وکالت کی تعلیم پانے کے لیے وکلا کی تنظیم ، گرے انز سے سکالر شپ ملی جس کے قائداعظم ؒ بھی رکن رہے ۔ 2010ء کے پارلیمانی الیکشن میں پہلی بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئیں۔حالیہ الیکشن میں آزاد امیدوار، احمد یعقوب کو ساڑھے تین ہزار ووٹوں سے شکست دی۔n

اہل فلسطین اور لیبر پارٹی کی بے حسی



تاریخی طور پہ لیبر پارٹی اہل فلسطین کی حامی رہی ہے ۔ وہ اب بھی آزاد ریاست فلسطین کا قیام چاہتی ہے۔ تاہم حالیہ غزہ جنگ کے دوران لیبر پارٹی نے اسرائیل پہ ویسی تنقید نہیں جیسی اسرائیلی حکمران طبقے کا وحشیانہ پن دیکھ کر کرنی چاہیے تھی۔ اسی لیے برطانیہ میں مقیم لیبر پارٹی کے کئی حامی مسلمان اپنی پارٹی سے متنفر ہو گئے۔ انھوں نے پھر حالیہ الیکشن میں ان امیدواروں کو ووٹ دیا جنھوں نے غزہ جنگ کے دوران اسرائیل پہ کھل کر تنقید کی اور اسے اہل فلسطین کا قاتل قرار دیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ لیبر پارٹی اپنے خلاف مسلم ووٹ آنے کی وجہ سے کم ازکم چار پکی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اس امر سے الیکشن کے مجموعی نتیجے پر تو فرق نہیں پڑا مگر مسلمانان برطانیہ نے دکھا دیا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو وہ اپوزیشن میں جا سکتے ہیں۔ جب مقابلہ سخت ہو تو چار سیٹیں بھی بہت اہم بن جاتی ہیں۔ جبکہ جمہوری ممالک میں تو صرف ایک سیٹ کی اکثریت حکومت بنا دیتی ہے۔

لیبر پارٹی اور مسلم امیدوار کے درمیان سب سے سخت مقابلہ جنوبی لیکائسٹر کے حلقے میں رونما ہوا۔ وہاں لیبر پارٹی کا سینئر رہنما ، جوناتھن ایش ورتھ الیکشن لڑ رہا تھا۔ لیبر پارٹی نے اسے شیڈو پے ماسٹر جنرل بنا رکھا تھا۔ یہ طے تھا کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ حکومت میں یہی عہدہ سنبھالے گا۔ جنوبی لیکائسٹر کی سیٹ پچھلے الیکشن میں بھاری اکثریت سے جیتی تھی۔ اسی لیے اس کی جیت کا امکان سو فیصد تھا۔

غزہ کی جنگ نے مگر ایش ورتھ کو ناکامی کے سمندر میں غرق کر دیا۔ وجہ یہی بنی کہ وہ کھل کر اسرائیل کے خلاف تنقید کرنے سے گریز کرتا رہا۔ یہ بات حلقے کے مسلمانوں کو نہیں بھائی۔ چناں چہ انھوں نے ایک آزاد امیدوار، شوکت حسین آدم پٹیل کو موصوف کے خلاف کھڑا کر دیا۔ حلقے میں 31 فیصد ووٹر مسلمان ہیں۔ انھوں نے جوق در جوق ووٹ دیا اور اپنے امیدوار کو کامیاب کروا دیا۔ ایش ورتھ کی کامیاب ہونے کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔
Load Next Story