انسانیت سوزجارحیت پر دنیا خاموش تماشائی
اقوام متحدہ کی منظورکردہ قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں کو حق آزادی ملنا چاہیے
فلسطین میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیلی افواج نے غزہ میں پناہ گزین کیمپ پر بمباری کردی جس کے نتیجے میں 71 فلسطینی شہید اور289 زخمی ہوگئے۔ الجزیرہ کے مطابق خوفناک بمباری سے بچوں کے جسم کے ٹکڑے ہوگئے، المواسی پناہ گزین کیمپ میں ہزاروں فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہے، اسرائیلی فوج نے پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ محمد ضیف اور دوسرے کمانڈر رافا سلما کو نشانہ بنایا، تاہم حماس نے اسرائیلی دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ بے قصور اور نہتے شہریوں کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے اجتماعی قتل عام اور ننگی جارحیت کے جرائم کی وجہ سے غزہ میں انسانی المیہ رونما ہوچکا ہے، یہ غزہ کے عوام کی مصیبتوں کی ایک زندہ مثال ہے۔ اسرائیل ان پر ڈھٹائی سے بمباری کرتا ہے، ان کی خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کو روکتا ہے، ان کی ناکہ بندی ہوتی ہے، لیکن دنیا محض تماشا دیکھتی ہے۔ امریکا سمیت انسانی حقوق کے سب مغربی ٹھیکے دار برسوں سے اسرائیل کی پشت پرکھڑے ہیں۔ یہ سب اسرائیل کے ناجائز قبضے کے حامی ہے۔ امریکا نے تو 2018 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کردیا تھا۔
اقوام متحدہ کی منظورکردہ قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں کو حق آزادی ملنا چاہیے، لیکن آج تک ان قراردادوں پر عمل نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب مسلم امہ بھی بے چاری کیا کرے، اس میں اتحاد نہیں ہے۔ بہت سے مسلمان ممالک باہمی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں یا پھر غربت اور بیروزگاری کا شکار ہیں۔ مسلمان ممالک کا اتحاد او۔ آئی۔ سی بھی عضو معطل ہوکر رہ گیا ہے، اگرچہ یہ اقوام متحدہ کے بعد سب سے زیادہ رکن ممالک کی حامل تنظیم ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں جان نہیں ہے۔
کسی زمانے میں او آئی سی کے پلیٹ فارم سے مشترکہ فوج، مشترکہ کرنسی وغیرہ کی باتیں ہوا کرتی تھیں لیکن ان تجاویزکو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ کچھ تجزیہ کارکہتے ہیں کہ یہ نہایت خوش آیند امر ہے کہ حماس نے اسرائیل کے طاقتور ترین انٹیلی جنس نظام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے ناکوں چنے چبانے پر مجبورکردیا۔ دوسری طرف بین الاقوامی امورکے ماہر اور تجزیہ کار اس ساری صورتحال کوکسی گریٹر گیم کا حصہ بھی خیال کر رہے ہیں، تاکہ اس حملے کو جواز بناتے ہوئے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔
فلسطین پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں اگر عالمی صورتحال پر غورکیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ نام نہاد عالمی طاقتیں اپنا رسوخ کھوتی جا رہی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے عوام کو جن سنگین مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے اسے حماس کے خلاف اس کی انتقامی کارروائی کہنا قطعی مناسب نہیں ہوگا۔ اسرائیل، حماس کے حملے کو بہانہ بنا کر فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی انسانیت سوز جارحیت کا جو شرمناک اور افسوس ناک کھیل، کھیل رہا ہے۔
اس سے یہ واضح ہے کہ اس کا مقصد صرف حماس کو زیرکرنا نہیں ہے بلکہ وہ اس خطے کو مکمل طور پر اُن لوگوں سے خالی کروانا چاہتا ہے جن کے اجداد نے اسرائیلی مہاجرین کو پناہ دی تھی اور اس خطے پر پناہ ملنے کے بعد ہی سے یہودیوں نے نہ صرف خطے کی جغرافیائی شکل اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے سازشی اقدامات کیے بلکہ اپنی ریشہ دوانیوں سے خطے کی تہذیب و ثقافت اور طرز معاشرت کو اپنے افکار کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ اس کوشش کو اپنی حسب منشا کامیابی کی منزلوں سے ہمکنارکرنے کے عمل میں ان یہودی پناہ گزینوں نے اپنے محافظوں اور محسنوں کی جان ومال کا نقصان پہنچانے سے کبھی گریز نہیں کیا۔
اس مقصد کے حصول کے لیے ان احسان فراموشوں نے دنیا کے سامنے اپنی بے چارگی اور پریشان حالی کا ایسا سوانگ رچایا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں نے ان کے ہر اقدام کی تائیدکی یا دانستہ طور پر صہیونی سازشوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ عالمی سطح پر اپنی مکاری اور دیدہ دلیری کے سبب اسرائیل نے وہ مرتبہ حاصل کر لیا کہ اہل فلسطین کا اس کے رحم و کرم پر منحصر ہو جانا نام نہاد انسانیت نواز طاقتوں کے لیے ایک عام بات ہو کر رہ گئی ہے۔
عالمی ہمدردی اور تائید کے رجحان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی حکومتوں اور خطے کو فکر و عمل کی سطح پر اپنے رنگ میں ڈھالنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں صہیونی عناصرکا حوصلہ روز بروز بڑھتا رہا اور فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ دراز ہوتا رہا۔ اب یہ سلسلہ وہ شکل اختیار کرچکا ہے جس نے صہیونی سازش کو پوری طرح عیاں کر دیا ہے۔ اب وہ نام نہاد عالمی طاقتیں بھی خود کو اس سازش کے آگے بے بس محسوس کر رہی ہیں جن طاقتوں نے ماضی میں ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر وہ اقدام کیا جو اس خطے پر ان کے اثر و رسوخ کو دوام عطا کر سکے۔
حماس کے خلاف اسرائیل کے جنگی اقدامات نے ان تمام دائروں کو توڑ دیا ہے جن کی پابندی بین الاقوامی قوانین کی رو سے لازمی ہوتی ہے۔ صہیونی جارحیت نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی کی ہے بلکہ اپنی اس ہٹ دھرمی کو جائز ٹھہرانے کے لیے اس نے جو بیانیہ تعمیرکیا ہے، وہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کی جنگی کارروائی کا مقصد صرف حماس کی شکست نہیں ہے بلکہ وہ غزہ پر پوری طرح اپنا کنٹرول چاہتا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ذریعے ہونیوالے متواتر فضائی حملوں میں غزہ پر جس تعداد میں بم برسائے جا رہے ہیں، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت اس خطے کو پوری طرح تاراج کر دینا چاہتی ہے۔
اس کے ان انسانیت سوز اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی باتیں سننا بھی گوارہ نہیں اور اگرکسی بات پر اس کا ردعمل ظاہر بھی ہوتا ہے تو اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کی جنگی کارروائی کو ہدف بنانے والوں کو بھی ''دہشت گرد'' ثابت کر دیا جائے۔ اب سے ربع صدی قبل مغربی میڈیا کے ذریعے تواتر سے استعمال ہونے والی ''دہشت گرد'' کی اصطلاح نے عالم انسانیت کو عدم تحفظ اور تعصب و نفرت کے اتنے خانوں میں منقسم کر دیا ہے کہ کسی انسانی مسئلے پر اس کا متحد ہونا بہت مشکل ہوگیا ہے۔
اس وقت اسرائیلی جارحیت نے ظلم وستم کا جو سلسلہ جاری کر رکھا ہے اسے درست ثابت کرنے کے لیے بھی متواتر اس اصطلاح کا استعمال کیا جا رہا ہے، حالانکہ فلسطینیوں کے اقدام کو صرف اس اصطلاح کے تناظر میں دیکھنا ان تاریخی حقائق کو صریح طور پر نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا جن حقائق کا تعلق یہودیوں کے اس غاصبانہ اور ظالمانہ رویے سے ہے جس کے نتیجے میں اہل فلسطین اپنے ہی ملک میں ان کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا ایک بے لاگ اور صداقت پر مبنی تبصرہ صہیونیوں کو برداشت نہیں ہوا اور ان کی جانب سے جو رد عمل ظاہر ہوا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے زعم میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ انھیں بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے اصولوں کی مطلق پروا نہیں ہے۔ انتونیو کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہین نے پہلے تو ان سے معافی کا مطالبہ کیا اور پھر اس سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔
فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت دراصل تسلط کی سیاہ ترین جارحیت ہے، ان کے سروں پر بم گرائے جا رہے ہیں، عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے، جو اسرائیلی بمباری سے بچ گیا ہے وہ بھوک سے مر رہا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں، وہ ملبے کے ڈھیروں پر ہیں، ریت اور پتھروں پر کیسے سوسکتے ہیں؟ بے گھر ہونے والوں کی صورتحال کسی کے لیے خوش کن نہیں ہے، لوگ مر رہے ہیں۔ یہ پہلے سے محصور علاقوں پر اسرائیلی بمباری کے حوالے سے سب سے بدترین جنگ سمجھی جارہی ہے۔
غزہ کے جنوب میں بے گھر لوگ اب سڑکوں پر ہیں، اور ان کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے اور قابض فوج ایک ایک گھر میں گھس کر وہاں موجود لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 56 لاکھ فلسطینی پناہ گزین شام، لبنان، اردن، اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں اور غزہ میں رہتے ہیں، یہ نہایت مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہ فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
فلسطینیوں کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کی آوازیں اسرائیلی بمباری کی گھن گرج میں دب رہی ہیں، اگرچہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے مہذب ممالک انسانی حقوق کے بارے میں نہایت حساس ہیں۔
یہ ممالک اور ان کی نامور عالمی تنظیمیں کتے، بلیوں اور دیگر جانوروں کے حقوق کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں، لیکن فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم انھیں دکھائی نہیں دیتے۔ اصولی طور پر ایسے مسئلے جو خطے کو عدم استحکام سے دوچارکرنے کا باعث ہوں، انھیں حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے، لیکن فلسطین کے معاملے میں ایسی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی حالانکہ مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر موجود ہے۔ اب مظلوم فلسطینیوں کی نظریں فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف کے 19 جولائی کو سنائے جانے والے فیصلے پر لگی ہوئی ہے۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے اجتماعی قتل عام اور ننگی جارحیت کے جرائم کی وجہ سے غزہ میں انسانی المیہ رونما ہوچکا ہے، یہ غزہ کے عوام کی مصیبتوں کی ایک زندہ مثال ہے۔ اسرائیل ان پر ڈھٹائی سے بمباری کرتا ہے، ان کی خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کو روکتا ہے، ان کی ناکہ بندی ہوتی ہے، لیکن دنیا محض تماشا دیکھتی ہے۔ امریکا سمیت انسانی حقوق کے سب مغربی ٹھیکے دار برسوں سے اسرائیل کی پشت پرکھڑے ہیں۔ یہ سب اسرائیل کے ناجائز قبضے کے حامی ہے۔ امریکا نے تو 2018 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کردیا تھا۔
اقوام متحدہ کی منظورکردہ قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں کو حق آزادی ملنا چاہیے، لیکن آج تک ان قراردادوں پر عمل نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب مسلم امہ بھی بے چاری کیا کرے، اس میں اتحاد نہیں ہے۔ بہت سے مسلمان ممالک باہمی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں یا پھر غربت اور بیروزگاری کا شکار ہیں۔ مسلمان ممالک کا اتحاد او۔ آئی۔ سی بھی عضو معطل ہوکر رہ گیا ہے، اگرچہ یہ اقوام متحدہ کے بعد سب سے زیادہ رکن ممالک کی حامل تنظیم ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں جان نہیں ہے۔
کسی زمانے میں او آئی سی کے پلیٹ فارم سے مشترکہ فوج، مشترکہ کرنسی وغیرہ کی باتیں ہوا کرتی تھیں لیکن ان تجاویزکو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ کچھ تجزیہ کارکہتے ہیں کہ یہ نہایت خوش آیند امر ہے کہ حماس نے اسرائیل کے طاقتور ترین انٹیلی جنس نظام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے ناکوں چنے چبانے پر مجبورکردیا۔ دوسری طرف بین الاقوامی امورکے ماہر اور تجزیہ کار اس ساری صورتحال کوکسی گریٹر گیم کا حصہ بھی خیال کر رہے ہیں، تاکہ اس حملے کو جواز بناتے ہوئے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔
فلسطین پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں اگر عالمی صورتحال پر غورکیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ نام نہاد عالمی طاقتیں اپنا رسوخ کھوتی جا رہی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے عوام کو جن سنگین مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے اسے حماس کے خلاف اس کی انتقامی کارروائی کہنا قطعی مناسب نہیں ہوگا۔ اسرائیل، حماس کے حملے کو بہانہ بنا کر فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی انسانیت سوز جارحیت کا جو شرمناک اور افسوس ناک کھیل، کھیل رہا ہے۔
اس سے یہ واضح ہے کہ اس کا مقصد صرف حماس کو زیرکرنا نہیں ہے بلکہ وہ اس خطے کو مکمل طور پر اُن لوگوں سے خالی کروانا چاہتا ہے جن کے اجداد نے اسرائیلی مہاجرین کو پناہ دی تھی اور اس خطے پر پناہ ملنے کے بعد ہی سے یہودیوں نے نہ صرف خطے کی جغرافیائی شکل اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے سازشی اقدامات کیے بلکہ اپنی ریشہ دوانیوں سے خطے کی تہذیب و ثقافت اور طرز معاشرت کو اپنے افکار کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ اس کوشش کو اپنی حسب منشا کامیابی کی منزلوں سے ہمکنارکرنے کے عمل میں ان یہودی پناہ گزینوں نے اپنے محافظوں اور محسنوں کی جان ومال کا نقصان پہنچانے سے کبھی گریز نہیں کیا۔
اس مقصد کے حصول کے لیے ان احسان فراموشوں نے دنیا کے سامنے اپنی بے چارگی اور پریشان حالی کا ایسا سوانگ رچایا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں نے ان کے ہر اقدام کی تائیدکی یا دانستہ طور پر صہیونی سازشوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ عالمی سطح پر اپنی مکاری اور دیدہ دلیری کے سبب اسرائیل نے وہ مرتبہ حاصل کر لیا کہ اہل فلسطین کا اس کے رحم و کرم پر منحصر ہو جانا نام نہاد انسانیت نواز طاقتوں کے لیے ایک عام بات ہو کر رہ گئی ہے۔
عالمی ہمدردی اور تائید کے رجحان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی حکومتوں اور خطے کو فکر و عمل کی سطح پر اپنے رنگ میں ڈھالنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں صہیونی عناصرکا حوصلہ روز بروز بڑھتا رہا اور فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ دراز ہوتا رہا۔ اب یہ سلسلہ وہ شکل اختیار کرچکا ہے جس نے صہیونی سازش کو پوری طرح عیاں کر دیا ہے۔ اب وہ نام نہاد عالمی طاقتیں بھی خود کو اس سازش کے آگے بے بس محسوس کر رہی ہیں جن طاقتوں نے ماضی میں ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر وہ اقدام کیا جو اس خطے پر ان کے اثر و رسوخ کو دوام عطا کر سکے۔
حماس کے خلاف اسرائیل کے جنگی اقدامات نے ان تمام دائروں کو توڑ دیا ہے جن کی پابندی بین الاقوامی قوانین کی رو سے لازمی ہوتی ہے۔ صہیونی جارحیت نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی کی ہے بلکہ اپنی اس ہٹ دھرمی کو جائز ٹھہرانے کے لیے اس نے جو بیانیہ تعمیرکیا ہے، وہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کی جنگی کارروائی کا مقصد صرف حماس کی شکست نہیں ہے بلکہ وہ غزہ پر پوری طرح اپنا کنٹرول چاہتا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ذریعے ہونیوالے متواتر فضائی حملوں میں غزہ پر جس تعداد میں بم برسائے جا رہے ہیں، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت اس خطے کو پوری طرح تاراج کر دینا چاہتی ہے۔
اس کے ان انسانیت سوز اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی باتیں سننا بھی گوارہ نہیں اور اگرکسی بات پر اس کا ردعمل ظاہر بھی ہوتا ہے تو اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کی جنگی کارروائی کو ہدف بنانے والوں کو بھی ''دہشت گرد'' ثابت کر دیا جائے۔ اب سے ربع صدی قبل مغربی میڈیا کے ذریعے تواتر سے استعمال ہونے والی ''دہشت گرد'' کی اصطلاح نے عالم انسانیت کو عدم تحفظ اور تعصب و نفرت کے اتنے خانوں میں منقسم کر دیا ہے کہ کسی انسانی مسئلے پر اس کا متحد ہونا بہت مشکل ہوگیا ہے۔
اس وقت اسرائیلی جارحیت نے ظلم وستم کا جو سلسلہ جاری کر رکھا ہے اسے درست ثابت کرنے کے لیے بھی متواتر اس اصطلاح کا استعمال کیا جا رہا ہے، حالانکہ فلسطینیوں کے اقدام کو صرف اس اصطلاح کے تناظر میں دیکھنا ان تاریخی حقائق کو صریح طور پر نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا جن حقائق کا تعلق یہودیوں کے اس غاصبانہ اور ظالمانہ رویے سے ہے جس کے نتیجے میں اہل فلسطین اپنے ہی ملک میں ان کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا ایک بے لاگ اور صداقت پر مبنی تبصرہ صہیونیوں کو برداشت نہیں ہوا اور ان کی جانب سے جو رد عمل ظاہر ہوا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے زعم میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ انھیں بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے اصولوں کی مطلق پروا نہیں ہے۔ انتونیو کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہین نے پہلے تو ان سے معافی کا مطالبہ کیا اور پھر اس سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔
فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت دراصل تسلط کی سیاہ ترین جارحیت ہے، ان کے سروں پر بم گرائے جا رہے ہیں، عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے، جو اسرائیلی بمباری سے بچ گیا ہے وہ بھوک سے مر رہا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں، وہ ملبے کے ڈھیروں پر ہیں، ریت اور پتھروں پر کیسے سوسکتے ہیں؟ بے گھر ہونے والوں کی صورتحال کسی کے لیے خوش کن نہیں ہے، لوگ مر رہے ہیں۔ یہ پہلے سے محصور علاقوں پر اسرائیلی بمباری کے حوالے سے سب سے بدترین جنگ سمجھی جارہی ہے۔
غزہ کے جنوب میں بے گھر لوگ اب سڑکوں پر ہیں، اور ان کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے اور قابض فوج ایک ایک گھر میں گھس کر وہاں موجود لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 56 لاکھ فلسطینی پناہ گزین شام، لبنان، اردن، اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں اور غزہ میں رہتے ہیں، یہ نہایت مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہ فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
فلسطینیوں کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کی آوازیں اسرائیلی بمباری کی گھن گرج میں دب رہی ہیں، اگرچہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے مہذب ممالک انسانی حقوق کے بارے میں نہایت حساس ہیں۔
یہ ممالک اور ان کی نامور عالمی تنظیمیں کتے، بلیوں اور دیگر جانوروں کے حقوق کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں، لیکن فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم انھیں دکھائی نہیں دیتے۔ اصولی طور پر ایسے مسئلے جو خطے کو عدم استحکام سے دوچارکرنے کا باعث ہوں، انھیں حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے، لیکن فلسطین کے معاملے میں ایسی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی حالانکہ مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر موجود ہے۔ اب مظلوم فلسطینیوں کی نظریں فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف کے 19 جولائی کو سنائے جانے والے فیصلے پر لگی ہوئی ہے۔